ایک دن ابو سفیان گھر لوٹا تو راستے میں ایک دوست مل گیا، کہنے لگا: ’’تمہارے ہاں بیٹی نے جنم لیا ہے‘‘۔ ’’بیٹی۔۔۔‘‘ ابو سفیان نے دوست کی بات کو دوہرایا۔ اس کا نام کیا رکھا جائے؟ صفیہ نے پوچھا۔ ’’نام۔۔۔؟‘‘ ابو سفیان سوچنے لگا۔ یہ رملہ ہے۔ ’’رملہ‘‘۔ رملہ بنت ابو سفیان جب اس جہان رنگ و بو میں پیدا ہوئی تو اس وقت ابو سفیان کی عمر تینتیس برس تھی۔
رملہ سب کی نظروں کا تارا بنی ہوئی تھی، ماں باپ اس کی تمام خواہشات پوری کرتے تھے، وہ خوشیوں کے گہوارے میں پروان چڑھنے لگی اس کی ذرا سی تکلیف پر ابوسفیان اور صفیہ دونوں پریشان ہوجاتے تھے۔ وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ رملہ بنت ابو سفیان صخر بن حرب بھی بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کی منازل کی طرف بڑھنے لگیں اور پھر وہ بالغ ہوگئیں، بہت خوب صورت تھیں۔
رملہ کی شادی عبیداللہ سے ہوگئی۔ رملہ بنت ابوسفیان اور عبیداللہ بن جحش دنیا جہان کی خوشیاں دامن میں سمیٹے زندگی کے دن گزار رہے تھے۔دونوں میاں بیوی کی نور اسلام سے دنیا یکسر بدل چکی تھی۔
اب دونوں میاں بیوی کے شب و روز کا رنگ بدل گیا تھا، کفر کے اندھیرے غائب ہوگئے تھے۔ اسلام کی روشنی دلوں اور گھر کے اندر پھیل گئی تھی۔ ابوسفیان جس کو اپنی بیٹی کی شائستہ عادات و خصائل پر بڑا ناز تھا، اس نے قدیم جاہلی روایات سے بغاوت کرکے حق و صداقت کے نور سے اپنے سینے کو منور کرلیا تھا اور ابوسفیان بے خبر تھا کہ اس کے اپنے گھرکے اندر کتنا بڑا انقلاب آگیا ہے۔
عبیداللہ بن جحش اور رملہ ہنسی خوشی زندگی کے دن گزار رہے تھے کہ انہی دنوں ان کے ہاں ایک بیٹی نے جنم لیا، باپ نے اس کا نام حبیبہ رکھا اور پھر سب لوگ رملہ کو ام حببیبہ کے نام سے منسوب کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں فکروں اور سوچوں نے گھر بنانا شروع کردیا۔ عبیداللہ کا رویہ بہت بدل چکا تھا، زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزارتا تھا، ادھر ادھر سے پتہ چلتا رہتا تھا کہ وہ عیش و عشرت میں پڑگیا ہے۔ یہی بات ان کے لئے پریشان کن تھی۔ عبیداللہ نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرکے کہا:
’’اے حبیبہ کی ماں! میں نے دین کے بارے میں بہت سوچا اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ تمام مذاہب میں نصرانیت بہترین ہے۔ چنانچہ میں اس کی طرف مائل ہوگیا تھا لیکن اس کے باوجود میں نے اسلام کو اختیار کرلیا تھا کیونکہ اس کی وجہ میں خود بھی نہیں جانتا لیکن اب میں نے نصرانیت کی طرف رجوع کرلیا ہے‘‘۔
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے سنا تو بولیں:
’’اس میں تمہاری کوئی بھلائی نہیں ہے بلکہ سراسر نقصان ہے‘‘۔
سمجھانے کے باوجود عبیداللہ اپنے خیال سے باز نہ آیا، دین اسلام سے مرتد ہوگیا تھا لہذا میاں بیوی میں علیحدگی ہوگئی۔ ایک دن افسردہ و مغموم تھیں، حبیبہ کھیل رہی تھی کہ طائر خیال پرواز کرتا ہوا مکہ پہنچ گیا۔ سب سے پہلے جو چہرہ آنکھوں کے سامنے ابھر اوہ ان کے باپ ابوسفیان صخر بن حرب کا تھا۔
رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی، ہر سو خاموشی محیط تھی۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا آرام فرمارہی تھیں کیا دیکھتی ہیں کوئی شخص آتا ہے اور ام المومنین کہہ کر خطاب کرتا ہے فوراً آنکھ کھل گئی۔ یہ زندگی کا بہترین خواب تھا جو انہوں نے دیکھا تھا۔ غور فرمانے کے بعد یہ تعبیر نکالی کہ تاجدار عرب و عجم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں حبالہ عقد میں لے آئیں گے اس کے بعد نیند آنکھوں سے غائب تھی، بار بار اس خواب جانفزا کا خیال آتا تھا اور ام المومنین کا لفظ آہستگی سے لبوں پر مچل جاتا تھا۔ صبح اٹھیں، اللہ کے حضور شکر بجا لائیں، چہرے مبارک پر عجیب طرح کی رونق و تازگی تھی، تمام پچھلے دکھ درد جو پردیس میں سہے تھے، ہوا ہوگئے تھے اب اس وقت اور لمحے کا انتظار تھا کہ کب کوئی پیغام لے کر آتا ہے۔
محبوب کبریاء، رحمت مجسم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں علم ہوا کہ وہ کن حالات میں زندگی بسرکررہی ہیں تو حضرت عمر بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا اور کہا:
’’تم ابھی حبشہ روانہ ہوجاؤ اور اس کے بادشاہ کو میر اخط پہنچاؤ‘‘۔
حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ نے خط کو بصد ادب ہاتھوں میں لیا اور پھر سوئے حبشہ چل پڑے۔ شاہ حبشہ دربار میں بیٹھا تھا کہ اطلاع ملی کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قاصد حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں، سنا تو تخت سے اٹھ بیٹھے۔ حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ کا بڑی محبت سے استقبال کیا اور قریب لاکر بٹھایا۔ قاصد نے خط پیش کیا تو اسے سر آنکھوں پر رکھا اور پھر کھول کر پڑھا، لکھا تھا:
’’میری طرف سے ام حبیبہ کو پیام شادی دو‘‘۔
خط پڑھنے کے بعد شاہ حبشہ نے اپنی باندی ابرہہ کو طلب کیا جو ملبوسات و عطریات کی منتظمہ تھی، اسے کچھ ہدایات دیں اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا۔ ابرہہ تیز تیز قدم اٹھاتی جارہی تھی، جلد ہی وہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر جاکر رکی اور دروازے پر دستک دی۔
’’کون ہے؟‘‘ اندر سے آواز آئی۔ ’’ابرہہ! شاہ حبشہ کی باندی‘‘۔ ’’اندر آجاؤ‘‘۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا تو ابرہہ اندر چلی گئی اس کا چہرہ ہی بتا رہا تھا کہ بہت بڑی خوشخبری لے کر آئی ہے۔
’’عدت ختم ہوگئی آپ کی؟‘‘ ’’ہاں! آج ہی ختم ہوئی ہے مگر تم کیوں دریافت کررہی ہو؟‘‘ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’بادشاہ سلامت نے بھیجا ہے کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذریعہ خط پوچھا ہے کہ کیا آپ ان کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن میں شامل ہونے پر آمادہ ہیں؟‘‘
’’شاہ حبشہ سے کہو کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رحمت سے نوازے، مجھے کوئی عذر نہیں‘‘
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا تو باندی پھر گویا ہوئی: ’’آپ کی جانب سے وکیل کون ہوگا؟‘‘ ’’حضرت خالد بن سعید بن العاص‘‘۔
یہ جواب سن کر ابرہہ واپس جانے لگی تو حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اسے روک لیا اور چاندی کے دو کنگن، دو جھانجھن جو آپ کے پیروں میں تھیں اور انگلیوں میں جتنی چاندی کی انگھوٹھیاں تھیں، اتار کر سب دے دیں کیونکہ وہ بہت بڑا مژدہ لے کر آئی تھی، یہ اس کا انعام تھا جب وہ واپس چلی گئی تو حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا خیالات کی جولا نگاہ میں کھوگئیں۔
انہیں وہ خواب یاد آگیا جو چند دن قبل دیکھا تھا اس کی تعبیر کس قدر جلد نکلی تھی اس وقت ان کے چہرے مبارک پر خاص قسم کا نور اور طمانیت رقصاں تھی۔ شام کو تقریب نکاح کا انتظام کیا گیا، نجاشی نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ اور وہاں جو مسلمان تھے، سب کو بلا بھیجا جب سب جمع ہوگئے تو شاہ حبشہ نجاشی نے حاضری سے خطاب کرکے کہا:
’’مجھے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیغام بھجوایا تھا کہ میں ان کا نکاح حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے پڑھادوں اسی سلسلہ میں آپ کو یہاں بلایا ہے‘‘۔
اور پھر اصحمہ رضی اللہ عنہ شاہ حبشہ نے جن کا لقب نجاشی تھا، خطبہ نکاح پڑھا۔
ہجرت حبشہ سے لے کر آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آکر مدینے واپس آنے تک تیرہ سال حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حبشہ میں رہیں، جب وہ مدینہ منورہ پہنچیں تو ان دنوں محبوب رب العالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خیبر کی مہم پر تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ اور کچھ دوسرے لوگ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضری کے لئے سوئے خیبر روانہ ہوگئے۔ ام المومنین سیدہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا مدینے میں ہی رک گئیں اور اپنے شوہر نامدار صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار فرمانے لگیں۔
اہل قریش کے سرکردہ افراد بیٹھے سوچ رہے تھے، بہت سوچ بچار کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا اور ابوسفیان صخر بن حرب کو مخاطب کرکے کہاـ: ’’تم مدینہ جاؤ اور قرار داد کو مستحکم کرو اور توسیع کرواؤ تاکہ مزید دس سال تک یہ نافذ العمل رہے اگر ضرورت پڑے تو اپنی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مدد لینا جو اس وقت امہات المومنین میں شامل ہیں‘‘۔
ابوسفیان نے بیٹی کے حجرے اقدس کے دروازے پر دستک دی۔ ’’کون؟‘‘ ’’ابوسفیان!‘‘ ’’اندر آجائیں‘‘۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تو ابوسفیان حجرہ مبارک کے اندر چلے گئے، چودہ سال کے عرصہ دراز کے بعد باپ بیٹی کی ملاقات ہوئی تھی اور پھر انہوں نے بستر پاک پر بیٹھنے کا ارادہ کیا تو ام المومنین رضی اللہ عنہا نے اسے فوراً لپیٹ دیا۔ ’’کیا تم نے اپنے باپ کو اس لائق بھی نہیں سمجھا کہ وہ بستر پر ہی بیٹھ سکے؟‘‘
ابوسفیان نے حیرانگی و حیرت سے پوچھا۔ ’’یہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بستر مبارک ہے اور آپ ابھی شرک کی نجاست سے آلودہ ہیں، میں نہیں چاہتی کہ آپ کے بیٹھنے سے اس بستر کے تقدس میں فرق آئے‘‘۔
بیٹی کے گھر سے نکل کر ابوسفیان سیدھے بارگاہ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور قرار داد حدیبیہ اور اس کی مدت میں توسیع سے متعلق گفتگو کی مگر حبیب اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا تو پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا:
’’آپ میری طرف سے اس ضمن میں اپنے آقا و مولا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات کریں‘‘۔
ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بڑی راسخ العقیدہ، پاک باز، سمجھ دار، عالی ہمت، سلیقہ شعار، جواد، اوصاف حمیدہ کی مالک تھیں اور رضائے الہٰی ورسولہ کے سامنے کسی کو ترجیح نہ دینے والی خاتون تھیں، عمل بالحدیث کی بہت پابند تھیں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتی تھیں۔ ان کے بھانجے ابوسفیان بن سعید بن المغیرہ آئے اور انہوں نے ستو کھاکر کلی کی تو بولیں تم کو وضو کرنا چاہئے کیونکہ جس چیز کو آگ پکائے اس کے استعمال سے وضو لازم آتا ہے۔ یہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے اس قسم کی حدیث حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حالات میں بھی ہے لیکن بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا تھا یعنی پہلے تھا پھر حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو باقی نہیں رکھا۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنھم آگ پر پکی ہوئی چیزیں کھاتے تھے اور اگر پہلے سے وضو ہوتا تو دوبارہ وضو نہیں کرتے تھے بلکہ پہلے ہی وضو سے نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک مرتبہ سنا کہ جو شخص بارہ رکعت نفل روزانہ پڑھے گا اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ فرماتی ہیں۔ ’’میں ان کو ہمیشہ پڑھتی ہوں‘‘ اس کا اثر یہ ہوا کہ ان کے شاگرد اور بھائی عتبہ اور عتبہ کے شاگرد عمرو بن اویس اور عمرو کے شاگرد نعمان بن سالم سب اپنے اپنے زمانہ میں برابر یہ نمازیں پڑھتے تھے۔
ہجرت کے آٹھویں سال مکہ فتح ہوا جس پر سورہ ’’انا فتحنا لک فتحا مبینا‘‘ ناطق ہے۔ لشکر اسلام مدینہ منورہ سے روانہ ہوا اس لشکر کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اس سے قبل اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ عظیم الشان لشکر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح بڑھا چلا جارہا تھا جس جگہ پڑاؤ ڈالتا تھا تمام سطح زمین روپوش ہوجاتی تھی۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ دل سے چاہتے تھے کہ ابو سفیان دائرہ اسلام میں داخل ہوجائے لہذا انہوں نے بارگاہ رسالت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کی: ’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! ابوسفیان ایسا شخص ہے جو سرداری اور سربلندی پسند کرتا ہے اس لئے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی کمزوری کا لحاظ فرمائیں‘‘۔
چچا کی بات سن کر رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوگیا، اسے امان دے دی جائے گی اور جو شخص اپنے گھر میں داخل ہوکر دروازہ بند کرلے گا اس کے لئے بھی امان ہے جو کعبہ میں داخل ہوگا، وہ بھی مامون ہے‘‘۔
ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو جب باپ کے قبول اسلام کا علم ہوا تو بڑی مسرت ہوئی کیونکہ وہ جانتی تھیں ابوسفیان مخالفت اسلام میں کس قدر شدید تھے۔ حضرت ابو سفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہ جب ایمان لائے اور عفو نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مناظر کا مشاہدہ کیا تو حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کے دل سے قائل ہوگئے اور اپنے قلبی تاثرات کا ان الفاظ میں اظہار فرمایا:
’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! آج سے پہلے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین میری نگاہ میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھا لیکن آج آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور آپ کی تعلیمات میرے نزدیک سب سے زیادہ محترم اور محبوب ہیں‘‘۔
حضرت ابو سفیان بن حرب جو مولفۃ القلوب میں سے تھے آگئے اور عرض کی: ’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! آج آپ تمام قریش سے زیادہ تونگر ہیں۔ حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنا تو تبسم فرمایا تو حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ بولے: ’’اس میں سے کچھ مجھے عطا فرمایئے‘‘۔
حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ ان کو انعام میں دو اس پر حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ’’میرے بیٹے یزید کو بھی حصہ عنایت فرمایئے‘‘۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ اور دے دو‘‘۔
حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ پھر عرض گزار ہوئے: ’’حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے دوسرے بیٹے معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھی حصہ دیجئے‘‘۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ دے دو‘‘۔
اس پر حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’میرے ماں باپ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں، اللہ کی قسم! آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم زمانہ جنگ میں بھی کریم ہیں اور زمانہ امن میں بھی بہت کریم ہیں‘‘۔