دین اسلام دین کامل و اکمل ہے۔ ہمارا دین ہمیں ماں کی گود سے لے کر گور تک زندگی کے ہر مرحلہ کے لئے کافی و شافی ہدایات سے نوازتا ہے۔ اسی طرح دین اسلام نے اسلامی، روحانی اور معاشرتی تہوار کے منانے کے انداز اور طور طریقے کے علاوہ اس کے حدود و قیود (Limitations) بیان فرمادی ہیں۔ ذیل میں ملت اسلامیہ کے عظیم الشان روحانی و معاشرتی تہوار ’’عیدالفطر‘‘ کی بابت عظمت و فضیلت اور فلسفہ کے علاوہ دیگر احکام پر تفصیل سے بات کی جائے گی۔
لفظ ’’عید‘‘ کا معنی و مفہوم
’’عید‘‘ کا لفظ ’’عود‘‘ سے مشتق ہے، جس کا معنی ’’لوٹنا‘‘ اور ’’خوشی‘‘ کے ہیں کیونکہ یہ دن مسلمانوں پر بار بار لوٹ کر آتا ہے اور ہر مرتبہ خوشیاں ہی خوشیاں دے جاتا ہے، اس لئے اس دن کو ’’عید‘‘ کہتے ہیں۔
عید کا معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے حضرت امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 502ھ) رقمطراز ہیں: ’’عید‘‘ لغت کے اعتبار سے اس دن کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے اور اصطلاح شریعت میں ’’عیدالفطر‘‘ اور ’’عیدالاضحی‘‘ کو عید کہتے ہیں اور یہ دن شریعت میں خوشی منانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔
(المفردات، ص352)
عید اور خوشی کا یہ دن مسلمانوں کا عظیم اور مقدس مذہبی اورمعاشرتی تہوار ہے جو ہر سال یکم شوال المکرم کو انتہائی عقیدت و احترام، جوش و جذبے اور ذوق و شوق سے منایا جاتا ہے۔
’’عیدالفطر‘‘ کی وجہ تسمیہ
یکم شوال المکرم کو عیدالفطر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ افطار اور فطر ہم معنی ہیں۔ جس طرح ہر روزہ کا افطار غروب آفتاب کے بعد کیا جاتا ہے اسی طرح رمضان المبارک کے پورے مہینے کا افطار اسی عید سعید کے روز ہوتا ہے۔ اس لئے اس یوم مبارک کو عید الفطر کہتے ہیں۔
’’عید‘‘ انبیاء ماسبق (علیہم السلام) کی مستقل روایت
اگر تاریخ امم سابقہ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ اسلام سے قبل ہر قوم اور ہر مذہب میں عید منانے کا تصور موجود تھا۔ ان میں سے بعض کا ذکریوں ملتا ہے:
- ابوالبشر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ کو جس دن اللہ رب العزت نے قبول فرمایا۔ بعد میں آنے والے اس دن عید منایا کرتے تھے۔
- جدالانبیاء حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی امت اس دن عید مناتی تھی جس دن حضرت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود کی آگ سے نجات ملی تھی۔
- اسی طرح حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی امت اس دن عید مناتی تھی جس دن انہیں فرعون کے ظلم و ستم سے نجات ملی تھی۔
- حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی امت اس روز عید مناتی تھی جس روز آسمان سے اُن کے لئے مائدہ نازل ہوا تھا۔
الغرض عید کا تصور ہر قوم، ملت اور مذہب میں ہر دور میں موجود رہا ہے لیکن عید سعید کا جتنا عمدہ اور پاکیزہ تصور ہمارے دین اسلام میں موجود ہے ایسا کسی اور دین میں نہیں۔
شبِ عید کی فضیلت
ہمارے ہاں تو شب عید یعنی چاند رات گھر سے باہر گلیوں اور بازاروں سے گزاری جاتی ہے تاہم احادیث نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یکم شوال کی شب (شبِ عید) جسے عرفِ عام میں چاند رات کہا جاتا ہے، اس کی بہت زیادہ فضیلت اور عظمت بیان ہوئی ہے۔
عیدالفطر درحقیقت یوم الجائزہ اور یوم الانعام ہے کیونکہ اس دن اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو انعام و اکرام، اجرو ثواب اور مغفرت و بخشش کا مژدہ سناتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب عیدالفطر کی رات آتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلۃ الجائزہ (یعنی انعام و اکرام کی رات) لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، وہ زمین پر آکر تمام گلیوں اور راستوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے (جسے جنات اور انسانوں کے علاوہ ہر مخلوق سنتی ہے) پکارتے ہیں: اے امت محمد( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اُس ر ب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معارف فرمانے والا ہے‘‘۔
(الترغيب والترهيب)
ایک اور روایت میں ہے:
’’جس نے عید کی رات طلب ثواب کے لئے قیام کیا، اس کا دل اس دن نہیں مرے گا جس دن باقی لوگوں کے دل مرجائیں گے‘‘۔
(سنن ابن ماجه)
عید کس طرح منائیں؟
احادیث مبارکہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سب کچھ بیان فرمادیا ہے۔ ذیل میں اس سلسلہ میں چند روایات حوالہ قرطاس کی جاتی ہیں:
عید کی نماز کے لئے پیدل چلنا
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا نماز عید کے لئے پیدل چلنا اور نماز سے پہلے کچھ کھالینا سنت ہے۔
(جامع ترمذی)
عید کی نماز خطبہ سے پہلے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ عیدالفطر کی نماز پڑھی ہے۔ یہ سب حضرات خطبہ سے پہلے نماز پڑھتے اور بعد میں خطبہ دیتے تھے۔
(صحيح مسلم/ صحيح بخاری)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عیدالفطر کی نماز پڑھی۔ پہلے آپ نے نماز پڑھی بعد میں خطبہ دیا۔جب آپ خطبہ سے فارغ ہوگئے تو نیچے اترے اور عورتوں کی طرف آئے پھر انہیں نصیحت فرمائی۔ آپ اس وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا سہارا لئے ہوئے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا رکھا تھا جس میں عورتیں صدقہ ڈال رہی تھیں۔
(صحيح البخاری/ صحيح مسلم)
نماز عید کے لئے عورتوں کا جانا
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے کنواری، بالغہ، دوشیزہ اور حیض والی عورتیں عید کے دن (عید گاہ کی طرف) نکلتی تھیں چنانچہ حائضہ عورتیں عید گاہ سے علیحدہ رہتیں اور صرف دعا میں شریک ہوتیں۔ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! اگر کسی کے پاس چادر نہ ہو تو؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کی دوسری بہن اسے ایک چادر اور ہار دیدے۔
(جامع ترمذی)
نماز عید سے پہلے غسل کرنا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عیدالفطر کے روز عید گاہ میں جانے سے پہلے غسل کیا کرتے۔
(موطا امام مالک)
عیدالفطر میں نماز عید سے پہلے کچھ کھا پی لینا
حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عیدالفطر کے دن کھائے پئے بغیر عیدگاہ کی طرف تشریف نہ لے جاتے اور عیدالاضحی میں نماز سے پہلے کچھ تناول نہ فرماتے۔
(جامع ترمذی)
عید گاہ کی طرف آتے جاتے راستہ بدلنا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عیدگاہ کی طرف ایک راستہ سے تشریف لے جاتے اور دوسرے راستے سے واپس تشریف لاتے تھے۔
(جامع ترمذی)
عید کے دن مُباح کھیل کھیلنا جائز ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بُعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں شیطانی باجے؟ اور یہ عید کا دن تھا۔ آخر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ کچھ لوگ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حراب (چھوٹے نیزے) کا کھیل دکھلا رہے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگئے اور کنکریاں اٹھا کر انہیں ان سے مارا۔ لیکن آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمر! انہیں کھیل دکھانے دو۔
(صحيح بخاری/ صحيح مسلم)
نماز عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا
اس سلسلہ میں حضور نبی رحمت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
روزوں کی عبادت اُس وقت تک زمین و آسمان کے درمیان معلق (بارگاہ خداوندی میں غیر مقبول) رہتی ہے جب تک کہ صاحب نصاب مسلمان صدقہ فطر ادا نہیں کرلیتا۔
(صحيح مسلم/ جامع ترمذی)
صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا کردینا چاہئے کہ یہی سنت ہے لیکن اگر نماز عید سے پہلے ادا نہیں کرسکا تو عمر بھر اس کی ادائیگی کا وقت ہے، جب بھی ادا کرے گا، واجب ساقط ہوجائے گا لیکن بہتر یہ ہے کہ صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ہی ادا کردے۔
صدقہ فطر کے فقہی مسائل
- عید کے دن صبح صادق ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہوجاتا ہے۔ لہذا جو شخص صبح صادق ہونے سے پہلے مرگیا تو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں۔
- صدقہ فطر ہر مسلمان آزاد، مالکِ نصاب پر، جس کا نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہو، واجب ہے۔ حاجت اصلیہ سے مراد ہے کہ جس کی انسان کو زندگی گزارنے کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔
- صدقہ فطر واجب ہونے کے لئے عاقل، بالغ اور ملکیت کا ہونا شرط نہیں۔
- جس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اس کو صدقہ فطر دینا بھی جائز ہے۔
- مرد مالک نصاب پر اپنی اور اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صدقہ فطر واجب ہے۔ اگر بچہ بالغ اور صاحب نصاب ہو تو اس کا صدقہ فطر اسی کے مال سے ادا کیا جائے گا۔
- مجنوں بچہ اگرچہ بالغ ہو مگر غنی نہ ہو تو اس کا صدقہ بھی اس کے باپ پر واجب ہے۔
- باپ نہ ہو تو دادا باپ کی جگہ ہے یعنی وہ اپنے یتیم پوتے، پوتی کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے گا۔
- ماں پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صدقہ دینا واجب نہیں۔
صدقہ فطر کی مقدار
صدقہ فطر کی مقدار یہ ہے گندم یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع، منقٰی یا جو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع۔ موجودہ دور کے مطابق ایک صاع سوا دو سیر گندم یعنی دو کلو پینتالیس گرام گندم کا ہے۔
(قانون شريعت، ص234)
نماز عید ادا کرنے کا طریقہ
عید کی نماز دو رکعت واجب ہے۔ تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء (سبحانک اللہم۔۔۔۔) پڑھیں پھر ہاتھ اٹھا کر تین تکبیریں کہیں، تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لیں پھر امام قرات کرے گا۔ قرات کے بعد حسب معمول رکوع و سجود کریں پھر دوسری رکعت میں امام قرات کرے گا۔ قرات کے بعد تین مرتبہ ہاتھ اٹھا کر تکبیریں کہیں، چوتھی تکبیر پر ہاتھ اٹھائے بغیر رکوع میں چلے جائیں، باقی نماز حسب معمول مکمل کریں۔ نماز عید کے بعد خطبہ سننا واجب ہے۔
مسائل عیدالفطر
- عید کی نماز انہیں پر واجب ہے جن پر جمعہ واجب ہے۔ جمعۃ المبارک میں خطبہ شرط ہے، عید کا خطبہ سنت ہے، جمعہ کا خطبہ قبل نماز جبکہ عید کا خطبہ بعد نماز ہے۔ علاوہ ازیں عید کی نماز میں نہ اذان ہے نہ اقامت۔
- عید کی نماز کا وقت آفتاب کے ایک نیزہ اونچا ہونے سے شروع ہوکر زوال سے پہلے ختم ہوجاتا ہے۔
- نماز عید سے قبل نفل نماز بشمول اشراق، چاشت مطلقاً مکروہ ہے اور نماز عید کے بعد عید گاہ میں پڑھنا بھی مکروہ ہے۔
- پہلی رکعت میں مقتدی اس وقت شامل ہوا جب امام تکبیریں کہہ چکا تو اسی وقت تکبیریں کہہ لے اور اگر امام رکوع میں چلا گیا تو تکبیر تحریمہ کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور رکوع میں تین تکبیریں کہہ لے اور اگر امام کے رکوع سے اٹھنے کے بعد شامل ہو تو اب تکبیریں نہ کہے بلکہ جب امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی فوت شدہ رکعت پڑھنے لگے تو تین تکبیریں کہے۔
- اگر امام صاحب رکوع سے پہلے تکبیر کہنا بھول جائیں اور رکوع میں یاد آئیں تو وہ حالت رکوع میں ہی تکبیریں کہہ لیں۔ قیام کی طرف نہ لوٹیں نماز فاسد نہ ہوگی۔
(واللہ اعلم بالصواب)