شبِ قدر کے اجتماع سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب
ترتیب و تدوین: محمد حسین آزاد
معاونت: زیب النساء اقبال
24 دسمبر2000ء کو شہر اعتکاف لاہور میں لیلۃ القدر کے اجتماع میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے واقعہ اصحاب کہف کی عارفانہ تفسیر فرمائی جس کی اہمیت کے پیش نظر بالاقساط شائع کیا جارہا ہے جو قارئین مکمل خطاب سننا چاہیں وہ خطاب کی CD نمبر F5-22 سماعت فرمائیں۔ منجانب: ادارہ دختران اسلام
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْکَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ ط اِنَّهُمْ فِتْيَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنٰهُمْ هُدًیo وَّ رَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِهِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِهِ اِلٰـهًا لَّقَدْ قُلْنَا اِذًا شَطَطًاo
’’(اب) ہم آپ کو ان کا حال صحیح صحیح سناتے ہیں، بے شک وہ (چند) نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کے لیے (نورِ) ہدایت میں اور اضافہ فرما دیا۔ اور ہم نے ان کے دلوں کو (اپنے ربط و نسبت سے) مضبوط و مستحکم فرما دیا، جب وہ (اپنے بادشاہ کے سامنے) کھڑے ہوئے تو کہنے لگے: ہمارا رب تو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم اس کے سوا ہرگز کسی (جھوٹے) معبود کی پرستش نہیں کریں گے (اگر ایسا کریں تو) اس وقت ہم ضرور حق سے ہٹی ہوئی بات کریں گے۔‘‘
(الکهف، 18: 13 تا 14)
صدر مجلس نور نظر قدوۃ الاولیاء اور حضرت صاحبزادہ سید محمود محی الدین گیلانی معزز مشائخ عظام و علماء کرام و قائدین کرام مہمان گرامی قدر خواتین و حضرات اور عزیزان محترم!
اللہ رب العزت کا شکر ہے جس کی توفیق سے ہم 27 ویں شب رمضان میں جوبالعموم لیلۃ القدر کے عنوان سے معروف ہے اس میں جمع ہیں اور خوش نصیب اور مبارکباد کے مستحق ہیں وہ لوگ اور وہ خواتین اور وہ حضرات اور معتکفین اور معتکفات جو اطراف و اکناف عالم سے اس ٹھنڈی رات میں مسافتیں طے کر کے اور اللہ کے حضور روحانی خیرات کے حصول کیلئے حاضر ہوئے ہیں۔ میں نے سورۃ الکہف کی دو آیات کریمہ تلاوت کی ہیں اور ان آیات سے قبل اور بعد ایک پورا مضمون ہے اصحاب کہف کا آج اس کی روحانی اور عرفانی تعبیر کے حوالے سے میں چاہوں گا کہ ہم اپنے قلب و باطن میں جھانکیں اور اپنے احوال کی اصلاح کی فکر کریں۔
باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
’’اب ہم تم پر ٹھیک ٹھیک تفصیلات کے ساتھ حقیقت حال کے ساتھ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں وہ کچھ جوان تھے جن کے باطن ایمان کے نور سے روشن ہوگئے اور جنہیں اللہ نے اس کی روحانی منزل تک پہنچانے کے لیے ہدایت کی دولت سے مزید بہرہ یاب کیا‘‘۔
یہ وہ معنی و مفہوم ہے جس کا علم آپ کو قرآن مجید کے ترجموں کے ذریعے ،حواشی کے ذریعے، تفسیرات کے ذریعے سے ہے اور آپ اس کا ذکر اکثر و بیشتر سنتے رہتے ہیں۔ آج ان جوانوں کا جو حال قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ اس کی عارفانہ اور روحانی تفسیر کی جائے گی کہ اس سے روحانی اور باطنی احوال کو سنوارنے کے لیے کیا سبق ملتا ہے؟ کیا اشارات اور کیا قیمتی اسرار و رموز کا سرمایہ، اس مقام اور قصہ کے اندر کار فرما ہے؟ قرآن مجید نے اس سے قبل بیان کیا ہے کہ یہ جو جوانوں کی ایک جماعت تھی انہوں نے عرض کیا باری تعالیٰ ہماری قوم کا بادشاہ جس کا اس وقت نام ’’دقیہ نوس‘‘ تھا یہ کافر ہے اس کی قوم بھی کافر ہے۔ بادشاہ اور اس کی قوم ہمیں تیری راہ سے روکتے ہیں سو ہم اپنے شہر اور اپنے وطن سے ہجرت کرتے ہیں اور ہجرت کر کے ایک غار میں پناہ لیتے ہیں۔
حاضرین محترم! وہ بادشاہ کون ہے کافر بادشاہ وہ شیطان ہے اور اس کی قوم نفس امارہ اور اس کی خواہشات مرغوبات ہیں۔ شیطان کفر کا سرچشمہ انسان کے اندر موجود نفس امارہ کو بہکا کر اور نفس امارہ کی خواہشات، مرغوبات مطلوبات نفس امارہ کی تمنائیں اس کی چاہتیں اس کی شہوتیں ان کے ذریعے انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ نفس امارہ اور اس کی خواہشات انسان کو اللہ کی راہ سے بہکا کر اللہ کا نافرمان بنانا چاہتی ہیں۔ ہم سب اسی شہر میں آباد ہیں۔ ہم سب اسی معاشرے میں، اسی وطن میں، اسی ماحول میں رہ رہے ہیں جس پر نفس امارہ اور خواہشات کا تسلط ہے۔ کبھی نفس امارہ ہوس کی خواہش کرتا ہے، کبھی جاہ و جلال کی خواہش کرتا ہے،کبھی منصب و امارات کی خواہش کرتا ہے، کبھی انسان کے اندر تکبر کی خواہش تیز ہوا بن کے اُٹھتی ہے۔
کبھی بغض اور عناد کی طرف نفس امارہ انسان کو لے جاتا ہے ،کبھی کدورتوں اور نفرتوں کی آندھیاں چلتی ہیں ،کبھی دنیا مال و دولت کی حرص و ہوس ایک آندھی بن کے انسان کو اس کی منزل اور اس کی نگاہ سے اوجھل کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج انسان طالب مولا ہونے کی بجائے طالب دنیا بن چکا ہے۔ وہ اپنے وطن اصلی کو بھول گیا ہے۔ وہ اپنے خالق سے کٹ گیا ہے۔ اسے یاد نہیں رہا کہ مجھے کس نے پیدا کیا ہے اور کس لیے پیدا کیا؟ اس کارگاہ امتحان میں مجھے کیوں بھیجا اور اس جگہ کامیابی کا راستہ کیا ہے؟ اور پلٹ کر میں نے وطن اصلی کو جانا ہے۔ میں نے رب کائنات کو منہ دکھانا ہے۔ میرے ہر ہر عمل کا حساب ہونا ہے۔ انسان یہ ساری داستان حیات بھول گیا ہے۔ نفس امارہ نے اسے احسن تقویم کے مقام سے گرا کر ’’اسفل سافلین‘‘ کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیا ہے۔ نفس امارہ نے انسان کو انسانیت سے گرا کر حیوانیت میں بند کردیا ہے۔ لذت جسمانی کا بندہ بنا دیا ہے۔ طالباتِ نفسانی کا بندہ بنا دیا ہے اور وہ بندہ اب اس دنیا کا پجاری بن کر رب کی عبادت، رب کی بندگی، رب کا تعلق اور اس کی عبدیت کا قلادہ اپنے گلے سے اُتار کر ذلت و رسوائی کے گڑھوں میں گر کر در بدر ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ اس حالت میں جن جوانوں کا ذکر ہے کہ ان جوانوں کو رب نے ہدایت دے دی اور انہوں نے چاہا کہ اس مادی وطن کو چھوڑ دیں۔ یہ مادی وطن جس میں نفس امارہ کی حکومت ہے۔ جس میں خواہشوں کی، لذتوں کی ،رغبتوں کی ،حرص و ہوس کی حکومت ہے اور سلطنت ہے۔ اس شہر جسم سے نکل کر ایک غار میں پناہ لیں اور اس غار سے مراد باطن بدن ہے۔ نفس امارہ کی سلطنت چھوڑ کر ہم باطن میں پناہ لیں تاکہ باطن کی پناہ میں آکر ہمیں مولا ملے۔ باطن کی پناہ میں آکر ہم نفس کے حملوں سے بچ سکیں۔ جسمانی شہوتوں کے حملوں سے بچ سکیں۔ وہ کچھ جوان جنہیں اللہ ہدایت دیتا ہے وہ غار میں چلے جاتے ہیں اور قرآن کہتا ہے بعض لوگوں نے کہا! وہ جوان اصحاب کہف نفس امارہ سے پناہ لے کر باطن کی غار میں آجانے والے تین تھے۔ قرآن کہتا ہے بعض لوگ کہتے ہیں ’’ثلاثۃ‘‘ تین تھے۔ اگر مراد اس باطن کی پناہ میں آنے والے تین ہوں تو ان سے مراد روح ہے۔ عقل ہے اور قلب، قلب روح اور عقل باطن کی پناہ میں آگئے۔ قرآن مجید نے کہا بعض لوگ کہتے ہیں فرمایا! اگر تین تھے تو چوتھا کتا اُن کے ساتھ تھا اور وہ کتا نفس ہے۔ بعض کہتے ہیں ’’خمسۃ‘‘ پانچ تھے۔ اگر پانچ تھے تو وہ ایک روح ہے، ایک قلب ہے ایک عقل ہے۔ ایک ستر و سر ہے۔ پانچ باطن کی غار میں آگئے اور قرآن کہتا ہے چھٹا کتا تھا۔ اس غار کو غار نفس کے دہانے پر بٹھا دیا۔ بعض کہتے ہیں ’’سبعۃ‘‘ وہ سات تھے۔ اگر سات تھے۔ تو پھر ان پانچ کے ساتھ یعنی روح و قلب و عقل و ستر و سر کے ساتھ خفی اور اخفاء مل گئے یہ سات اصحاب کہف بن گئے غار میں پناہ لینے والے ،یہ سات روحانی ملکات جمع ہوگئے یہ روحانی وجود باطن کی غار میں آگئے اور آٹھواں ان کا کتا تھا وہ نفس اس باطن کی غار کے دروازے پر آکر بیٹھ گیا مگر نفس جب تک نفس امارہ تھا وہ باطن کی دیوار کی طرف آنے والا نہ تھا۔ اس نفس کو اللہ نے ملازمت دی تو وہ نفس صحبت قلب میں آگیا، وہ نفس صحبت روح میں آگیا، فیض یاب ہوگیا۔ وہ نفس صحبت عقل میں آگیا۔ فیض یاب ہوگیا جب نفس اماریت سے نکل گیا تو عقل اور روح کے تابع ہوکر روحانیت کے پیچھے چل پڑا۔ روح بولی اے نفس کے کتے پیچھے ہٹ جا ہمارے ساتھ نہ آ تو بھونکے گا ہمیں مروا دے گا۔ نفس بولا اب میں وہ نفس امارہ نہیں اب تمہارا غلام بن کے آرہا ہوں۔ قلب بولا ،نفس ہمیں چھوڑ دے ہم مولا کی طرف جانا چاہتے ہیں اور تیرے بہکاوے میں آکر وہ ہمیں گرفت میں نہ لے لیں۔ نفس بولا اب میں وہ نفس نہیں جو مادی لذتوں کی طرف جاتا تھا۔ میں نے بھی روحانی لذت کا ایک گھونٹ بھر لیا ہے۔ تمہاری صحبت میں آکر میں نے بھی باطن کی کیفیت کا مزہ چکھ لیا ہے۔ تمہاری محبت میں آکر اے دل مجھے ساتھ لے کر چل ،اے روح مجھے ساتھ لے کر چل، سترو خفی مجھے ساتھ لے کر چل، یقین کرو تم نماز میں چلے جانا میں باہر دروازے پر بیٹھا رہوں گا، بھونکوں گا نہیں، کیونکہ روحانی لوگوں کی صحبت میں آگیا ہوں۔ نفس جب اہل اللہ کی محبت میں آجاتا ہے۔ اس پر روحانیت کا فیض ہوتا ہے۔ تو پھر اس کے اوپر روح کے اثرات کا رنگ چڑھنے لگتا ہے۔ جب روح نفس کے تابع ہوگیا۔ ہم نے آج تک یہ نہ سوچا ہم نے اپنا دل نفس کے تابع کردیا۔ اپنی روح نفس کے تابع کرلی۔ ہم نے نفس کا پنجرہ نفس امارہ کا پنجرہ اتنا مضبوط کرلیا کہ روح کا پرندہ تڑپ تڑپ کے اس نفس کے پنجرے کے اندر زخمی ہوگیا۔ نفس کے پنجرے میں روح کا پرندہ زخمی ہے۔ روح چیخ رہی ہے اور پوچھتی ہے۔ مولا! کب وہ گھڑی آئے گی؟ میں تو مالائے اعلیٰ کی رہنے والی تھی مجھے تو تیری قربت نصیب تھی۔ میں تیرے انوار کے سمندر میں رہنے والی تھی۔ تیری تجلیات کی نہروں میں رہتی تھی۔ میں قربت کے چشموں سے پانی پیتی تھی۔ تیری عنایتوں سے فیض یاب تھی۔ میرے ارد گرد ملائکہ رہتے تھے۔ وہاں انبیاء رہتے تھے۔ میرا بسیرا عرش پر تھا اور مالائے اعلیٰ پر تھا۔ تو نے اس نفس کے جسم کے پنجرے میں مجھے بند کردیا۔ نفس تو کافر تھا ہی مولا میں بھی تیری راہ بھول گئی کہ جس کے پنجرے میں بند ہوں یہ تو ہر وقت دنیا کی بات کرتا ہے۔ ہر وقت مال کی بات کرتا ہے۔ دنیا کی منصب کی بات کرتا ہے،ہوس اور ہوا کی بات کرتا ہے، لالچ کی بات کرتا ہے، اس کو دنیا طلبی کے سواء یہ شہوتوں کے سوا ، مال و زر کے سوا ، تکبر کے سوا ،عداوت کے سوا ، بغض کے سوا ،عناد کے سوا، نفرتوں کے سوا اور کدورتوں کے سوا اس پنجرے والوں کو تو کچھ سوجھتا ہی نہیں یہ کس اندھیرے کے کوٹھرے میں بند کردیا ہے۔ اس کو مولانا روم کہتے ہیں۔
و شنوازئے چوں حکایت می کند
بس جدائی یا شکایت می کند
ارے لوگو! اس روح کی بانسری کی آواز بھی تو سنو اس کا رونا کیا ہے۔ یہ روح کیوں روتی ہے؟ یہ کیوں شکوہ کرتی ہے ،کیا حکایت بیان کرتی ہے۔ مولانا رومؒ کہتے ہیں۔ کان سے سن کے سمجھو کہ روح چیختی ہے کہ مولا جب سے تجھ سے جدا ہوئی ہوں، میں بھی نفس کی طرح نفس بن گئی ہوں۔ اِس نفس کی مادی محبت میں تباہ ہوگئی ہوں۔ روح کہتی ہے کہ میں ہجر و فراق کا رونا رو رہی ہوں۔
سینہ خاہم ثریا ثریااز فراق تاب
گو ہم مزح درد عشق پا
روح کہتی ہے کوئی ایسا سینہ چاہیے جو تیرے ہجر و فراق کے زخموں سے پھٹ چکا ہوں۔ وہ سینہ چاہے کوئی ایسا سینہ جو تیرے ہجر و فراق میں پھٹا ہوا ملے تو میں بھی اسے اپنے غم کی داستان سناؤں۔ ہم نے اپنا نفس اتنا مضبوط کرلیا ہے۔ رات دن ہماری روح بھی کمزور پڑ گئی ہے۔ ہمارا دل بھی کمزور پڑ گیا ہے، ہمارا باطن کمزور ہوگیا، تاریک ہوگیا، ہماری روحانیت ختم ہوگئی ،ہماری زندگی ساری مادیت ہے ا ور نفسانیت ہے، شہوت ہے، لذت ہے، حرص و ہوا اور لالچ ہے۔ ہم انسان ہوکر بھی انسان نہ رہے ،یہ باطنی قوتیں ہیں۔ جب اس باطن کے غار میں پناہ لے لیتی ہیں تو اس کی ہجرت کیا ہے۔فانی سے ہجرت کر کے آجاتے ہیں۔ جسم جن جن چیزوں سے محبت کرتا ہے۔ باطن کی قوتیں اس سے ہجرت کر کے کنارہ کش ہو کے آجاتی ہیں۔ لذات جسمانی سے ہجرت کرلیتی ہیں۔ جسم جن جن لذتوں کو چاہتا ہے باطن کی روحانی قوتیں روح اور دل اُنہیں چھو کر باطن میں آجاتی ہیں۔ رغباتِ جسمانی یعنی جسم جن جن چیزوں کی رغبت کرتا ہے یہ اُنہیں چھوڑ کر باطن کی غار میں آجاتی ہیں۔ جسم کے بت کی پوجا چھوڑ دیتی ہیں۔ خواہشات کے بت کی پوجا چھوڑ دیتی ہیں۔ اس کو چھوڑ کر جب باطن میں آجاتی ہیں اور باطن میں آکر پھر یہ بدن کو کمزور کرتی ہیں روح کو طاقت دیتی ہیں۔ بدنی اور نفسیانی زندگی کو ویران کرنے لگتی ہیں اور روحانی زندگی کو آباد کرنے لگتی ہیں۔ ابتداء ایسے ہوتی ہے۔ دوستو! جب تک یہ لذتیں چھوڑی نہ جائیں، جب تک یہاں کی رغبتوں سے منہ موڑا نہ جائے ،وہاں کی رغبتیں آپ کی طرف منہ نہیں کرتیں۔ جب تک یہاں کی کنارہ کشی نہ ہو جائے۔ اس وقت تک وہاں کی قربتوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ ایک بار نفس کے پنجرے کو توڑنا ہوگا، ایک بار اس بدن کے بت کو پاش پاش کرنا ہوگا، ایک بار بدن کو ویران کرنا ہوگا اور ویران کرنے کی آرزو کرو۔ بتانا چاہتا ہوں یہ ویرانی ایسی ویرانی ہے کہ اس کے بعد اس سے بہتر آبادی آنے والی ہے۔ اس لیے اہل ریاضتیں کرتے ہیں۔ ماہ رمضان میں کھانا پینا چھوڑ دیا، راتوں کو جاگنا کم کردیا، اعتکاف میں دن رات دہلیز پر بٹھا دیا اور اللہ والے کی ریاضت اور مشقت کرتے ہیں ،جسم کی لذتوں کو کم کرتے چلے جاتے ہیں، جسمانی رغبتوں کو کم کرتے چلے جاتے ہیں، ان کے ذائقے کو کم کرتے ہیں، آرام کم لیتے ہیں ،کھاتے کم ہیں، لذت و شہوت سے کنارہ کشی کرتے ہیں۔جوں جوں بدن کمزور ہوتا ہے، توں توں روح طاقتور ہوتی ہے،جوں جوں ظاہر ویران ہوتا ہے توں توں باطن ویران ہوتا ہے،جوں جوں نفس کی گرفت کمزور پڑتی ہے توں توں نفس کا پرندہ اپنی جان کے ساتھ طاقتور ہوتا ہے۔ پھر وقت آتا ہے کہ نفس تنہا رہ جاتا ہے۔ بدن فرش پر ہوتا ہے۔ روح انسان کو لے کر عرش پر لے جاتی ہے۔ جس طرح نہروں میں مٹی بھر جاتی ہے تو پانی کم ہوجاتا ہے۔ یہ جو مٹی بھر جاتی ہے تو پانی کا بہاؤ کم ہوجاتا ہے۔ آپ کیا کرتے ہیں؟ آپ بھل سے صفائی کرتے ہیں۔ اور وہ بھل سے صفائی کیا ہے؟ نہروں کی زمین کو توڑتے اور ہل چلاتے ہیں۔ اکھاڑ دیتے ہیں،ویران کردیتے ہیں۔ اس کے لیے پانی کو پہلے روک دیتے ہیں، ایک بار پانی کو روکنا پڑتا ہے، نہر کو پیاسا کرتے ہیں، اس کو خشک کرتے ہیں۔ پھر اس کی مٹی کو اُکھاڑ پھینکتے ہیں، لوگ مٹی اکھاڑنے کیلئے لگ جاتے ہیں، نہر کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں۔ مگر جب اس کا سارا حلیہ بگاڑ چکتے ہیں تو پھر کیا ہوتا ہے۔ نہر کا پیٹ کھل جاتا ہے اور جب نہر بھل صفائی کے بعد تیار ہوتی ہے تو پھر دوبارہ پانی چلایا جاتا ہے اور وہ پانی فصلوں کو پہلے دیا جاتا تھا۔ وہ پانی فصلوں کو سیراب کرتا ہے۔
باطن کی نہر کو آباد کرنے کے لیئے بھی اسی طرح پہلے اسے غیر آباد کرنا پڑتا ہے۔ جس طرح زمین میں پہلے ہل چلاتے ہیں اور ہل چلا کر زمین کی مٹی کو نکال دیتے ہیں۔ اس زمین کے سینے کو تکلیف دیتے ہیں اس کو ضرب دیتے ہیں۔ زمین کے سینے کی سرجری کرتے ہیں اس کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ اور شاید اس زمین کا حلیہ بگاڑتے ہیں ہل چلا کر۔ اس کے بعد وہ اس قابل ہوتی ہے کہ پھر کوئی اعلیٰ میوے کا پھل بویا جاتا ہے جب تک فصل کا سینہ چیرا نہ جائے بیج نہیں ڈالا جاتا۔ چیرے بغیر بیج ڈال دیا جائے تو بیج کے ڈھیروں کے ڈھیر پڑے رہ جائیں گے۔ اس میں پھل نہیں اُگے گا، پودا نہیں اُگے گا، فصل نہیں ہوگی تو فصل اُگانے کیلئے بیج کا ڈالنا ضروری ہے اور بیج کو ڈالنے کیلئے زمین کو ایک بار ویران کرنا ضروری ہے۔
دوستو! نفس کے غلبے نے، شہوتوں نے ،حرص و ہوس نے ، دنیا کی خواہشوں نے ،مادہ پرستی نے، ہمارے باطن کی نہر کو اتنا آلودہ کردیا ہے کہ اس میں مولا کے فیض کا پانی اب نہیں آ رہا کم ہوگیا ہے۔ ضرورت ہے کہ سب سے پہلے نہر باطن کی زمین کو اکھیڑا جائے۔ ریاضتوں سے ،مشقتوں سے،اخلاق کی پابندی سے، عبادت و ریاضت سے اور اخلاص سے راتوں کو جاگنے سے، مصلے پر آنسو بہانے سے ، سجدہ ریزیوں سے ، حقوق کی ادائیگیوں سے،میں کو مارنے سے، جب تمہاری میں مر جائے گی تو تیرے ظرف میں مولا کا نور آجائے گا، تمہارے باطن کی نہر کی کھدائی ہوگی، تب اس کے نور کے فیض کا پانی رواں ہوگا۔ تو اس فنائے جسم سے بقائے روح کا راستہ نکلتا ہے۔ روح کی بقا اور ترقی کا راستہ نکلتا ہے۔ جب باطن کی غار میں انسان پناہ لے لیتا ہے۔ تو پھر دل ایک عجیب کیفیت میں ہوتا ہے۔ پھر ریاضت باطن کی پناہ میں آکر انسان جو ریاضت اور مشقت کرتا ہے اس سے روح کو طاقت ملنے لگتی ہے۔ وہ روح کا پرندہ تھا جو کمزور ہوگیا تھا۔ روح کو طاقت ملتی ہے۔ روح روشن ہوتی ہے مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے۔ منور ہوتی چلی جاتی ہے پھر ایک دن وہ آتا ہے کہ ریاضتوں کے بعد قلب کے اُفق پر دل کے آسماں پر روح کا سورج طلوع ہوجاتا ہے۔ تو شروع شروع میں دونوں کیفیتیں ہوتی ہیں۔ کبھی نور کی ،کبھی ظلمت کی، کبھی روشنی کی، کبھی تاریکی تو قرآن نے اس اصحاب کہف کے حوالے سے کہا!
وَ تَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ کَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ.
’’آپ دیکھتے ہیں کہ اس غار میں پناہ لینے والوں پر جب سورج طلوع ہوتا ہے۔ تو دائیں جانب جھک جاتا ہے۔‘‘
(الکهف، 18: 17)
یہ جو غار میں طلوع ہوتا ہے یہ دل کے مطلع پر، دل کے آسماں پر، ریاضتوں کے بعد اخلاق حسنہ کے بعد، محنت کے بعد، من ا ور میں کے مارنے کے بعد، اپنے بدن کی ویرانی کے بعد، جب باطن آباد ہوتا ہے قربت ملتی ہے۔ اس کے نور کا پانی ملتا ہے۔ روح طاقتور ہوتی ہے تو پھر سورج بن کرروح آسماں کے دل پر طلوع ہوجاتی ہے جب روح طلوع ہوتی ہے تو وہ جو فرمایا کہ ’’وہ دائیں جانب جھک جاتا ہے‘‘۔
دائیں جانب جانے والے لوگوں کو اولیاء اور مقربین کہتے ہیں۔ جب روح دل کے آسماں پر طلوع ہوجائے تو پھر بندہ اولیاء اور مقربین کی طرف اتقیاء اور صوفیاء کی طرف اہل اللہ اور اہل بیت کی طرف اللہ اور اس کے رسول a کی طرف اہل یمین کی طرف جھک جاتا ہے۔ پھر اس کا شمار اُدھر کو ہوجاتا ہے پھر اس کا رجحان یمین کی طرف، رب العالمین کی طرف ہوجاتا ہے۔ روح دل کے آسماں پر طلوع ہوتی ہے بندہ فرش پر ہوتا ہے۔ مگر اس کا باطن مالائے اعلیٰ پہ جاتا ہے۔ اس کا ملائکہ سے ربط ہوجاتا ہے۔ اس کے آسمان قلب پر انوار و تجلیات کا عروج شروع ہوجاتا ہے۔ فرشی اور عرشی ہوجاتا ہے۔ بندہ ناسوتی ہوکر ملکوتی ہوجاتا ہے۔ فرشی ہوکر عرشی ہوجاتا ہے اور جوں جوں روح طلوع ہوکر اوپر اٹھتی چلی جاتی ہے اس کی روشنی اس کی چمک ، اس کی دمک ، اس کی تجارت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جس طرح آفتاب روح ،روح کا سورج اور اصل ہوتا ہے۔ انسان ملکوت سے اُٹھ کر عالم لاحوت میں چلا جاتا ہے اور روح جب نصف النہار پر آتی ہے۔ اس کی تمازت جوانی پر آتی ہے۔ ناسوتی بندے کو اٹھا کر لاہوت میں لے جاتی ہے۔ اس وقت وہ بندہ، بندہ ہوکر رشک ملائکہ ہوجاتا ہے۔ اس کی بشریت رشک نورانیت ہو جاتی ہے۔ بندہ مسجود آدم ہوتا ہے اور وہ طالب، مطلوب بنا دیا جاتا ہے۔ محب، محبوب بنا دیا جاتا ہے۔ مرید کو مراد بنا دیا جاتا ہے۔ خاکی کو نوری بنا دیا جاتا ہے اور حکم ہوتا میرے محبوب زبان چلا تاکہ تیری تقدیر بن جائے۔ ہاتھ اٹھا تاکہ میری عطا آجائے۔ تو کچھ مانگ تاکہ تیری رضا آجائے۔ پھر بندہ بولتا ہے ادھر تقدیر چلتی ہے۔ پھر روح بدن کے چہروں اور پردوں سے نجات پاتی ہے۔ آپ پوچھیں گے بدن کے پردے کیا ہیں؟ یہ خواہشوں کے پردے ہیں، شہوتوں کے پردے ہیں، مادی تمناؤں کے پردے ہیں، حرص و ہوس کے پردے ہیں، لالچ اور طمع کے پردے ہوتے ہیں جن کو پھاڑ کر روح سورج بن کر چمکتی ہے۔ تو پھر وہ خاکی و عرشی اور نوری ہوتا ہے اور فرمایا!
’’واذا غربت‘‘ اور جب آپ دیکھتے ہیں کہ سورج پھر غروب ہوتا ہے۔ تو غروب بھی نیچے کی طرف آتا ہے اس کی روشنی کم پڑتی چلی جاتی ہے۔ غروب ہوتے ہوتے اس کی لو اتنی مدہم ہوجاتی ہے۔ پھر وہ ڈوب جاتا ہے۔ یہ ڈوبنا کیا ہے؟ اگر ریاضت چھوڑ دی جائے،محنت چھوڑ دی جائے، تگ و دو چھوڑ دی جائے،مجاہدہ چھوڑ دیا جائے تو پھر خواہشوں کے مادی ،نفسانی پردے دوبارہ روح کے سورج پر چھانے لگ جاتے ہیں۔بادل بن کر چھاتے چلے جاتے ہیں،روح کی روشنی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ان حجابات میں خواہشوں کے حجابات میں اور مادی طالبات اور رغبات کے پردوں میں وہ روح پھر غریب ہوجاتی ہے اور جب روح غروب ہوجاتی ہے تو پھر فرمایا!
غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ.
’’وہ سورج بائیں طرف جھکتا ہے‘‘
(الکهف، 18: 7 1)
بائیں طرف سے مراد فاسق، فاجر اور نافرمان لوگ ہیں یعنی پھربندہ عالم علوی سے عالم صغریٰ کی طرف گرا دیا جاتا ہے۔ تو ابتدائے احوال میں کبھی نور کی کیفیت ،کبھی ظلمت کی کیفیت ہوتی ہے۔
لہذا کبھی وہ دن بھی آئے گا جب ہمارے دل کے آسمان پر بھی روح کا سورج طلوع ہوگا۔ کبھی وہ دن بھی آئے گا جب ہمارے بدن کے حجابات اور ہماری خواہشوں کے پردوں کو پھاڑ کر روح کا سورج طلوع ہوگا جو ہمارے باطن کی غار کو روشن کردے گا۔ کبھی وہ ون بھی آئے گا جب یہ فاصلہ مٹ جائے گا اور ہمارا فرش عرش بن جائے گا۔ اور ہمارا دل جلوہ گاہ ایزدی بن جائے گا۔ اور اس کے انوار و تجلیات کا محور بن جائے گا۔ بندے تو نے کبھی سوچا کہ تیری حقیقت کیا ہے؟ تو اگر ان پردوں سے نکل جا تیرا دل خدا کی جلوہ گاہ ہے، تیرا دل خدا کی گزرگاہ ہے،تیرا دل خدا کی رہائش گاہ ہے، قلب روزانہ دو قسم کی حالتوں سے گزرتا رہتا ہے۔ جیسے روزانہ سورج طلوع بھی ہوتا ہے غروب بھی ہوتا ہے۔ کئی قسموں کی حالت سے دل گزرتا رہتا ہے۔ طلوع کے وقت دل میں نور آجاتا ہے۔ روح کے غروب کے وقت دل میں ظلمت آجاتی ہے۔ کبھی روح کا اثر غالب ہوتا ہے کبھی نفس کا اثر غالب ہوتا ہے۔ یہ مقام تنوین ہے۔ روحانیت میں رنگ بدلتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جب رفتہ رفتہ وہ انسان کی روح مکمل طور پر اس مادی فضا سے نکل جائے اور بالائی فضا میں چلی جائے تو پھر سورج ہمیشہ طلوع رہتا ہے۔ کبھی غروب نہیں ہوتا۔ جیسے ہوائی جہاز جو تیز رفتار ہو اور بہت اُونچا چلا جائے۔ تو وہ سورج جو ہر روز یہاں طلوع بھی ہوتا ہے۔ غروب بھی ہوتا ہے اسی مادی کائنات کی فضا میں وہ بلندی آتی ہے کہ جب آپ اس مادی فضا کی بلندی پر جاتے ہیں تو سورج کا غروب ختم ہوجاتا ہے۔ سورج صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک چوبیس گھنٹے طلوع ہی طلوع رہتا ہے۔ تو پتہ چلا کہ آپ بلندی پر چلے جائیں تو غروب ختم ہوجاتا ہے۔ پستی پر رہیں تو غروب رہتا ہے۔ اسی طرح اے بندے کوشش کر کے تو بھی اس روحانی پستی سے نکل جا اور اپنی رغبتوں کا رخ دنیا کی طرف کرنے کی بجائے مولا کی طرف کر، چاہتوں کا رخ دنیا کی طرف کرنے کی بجائے پہلے آخرت کی طرف کرلے پھر تو بلند ہوگااور پھر بلندی کے اس مقام پر پہنچ کر تجھے کہا جائے گا کہ اب اپنی چاہت کا رُخ آخرت کو بھی چھوڑ کر صرف میری طرف کرلے۔ اللہ پھر ہدایت کرتا ہے فرمایا: ’’کوئی اس طرف اگر آجائے اور چل پڑے، تو ہدایت ملتی ہے‘‘۔
یعنی وہ اللہ کی ہدایت کے سپرد ہوجاتا ہے اللہ کی ہدایت اس بندے کو چلاتی ہے اور اس کو منزل مقصود تک پہنچا دیتی ہے اور جو گمراہی میں چلا جائے، اس کو کوئی ولی و مرشد نہیں ملتا کہ اسے راہ دکھا سکیں۔ اللہ کی ہدایت اسے راہ دکھاتی ہے۔ اللہ کی ہدایت پھر اس کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کی پرورش کرتی ہے۔ اس کی مرشد بن جاتی ہے۔ اور قدم قدم پر رہنمائی کرتی ہے۔ دنیا سے رخ موڑتی ہے پھر اپنے بیوی بچوں اور اولاد کے رشتوں سے منہ موڑتی ہے۔ حتیٰ کہ اپنے آپ سے موڑتی ہے اور پھر محبت کامل تر ہوتی چلی جاتی ہے، حضرت ابراہیم بن ادھم بلخ کے سلطنت کے بادشاہ تھے، بڑی عظیم سلطنت تھی، خوبصورت تھے،بادشاہ وقت تھے، جنگل میں نکلے ،ہرن کا شکار کرنے کیلئے ،جب ہرن نظر آیا تو اس کے پیچھے شکار کیلئے دوڑے اور جب شکار گرفت میں آگیا تو قریب تھا کہ اس کو تیر مارتے تو شکار ہرن بول پڑا! اس نے کہا: ’’میرا شکار کرنے والے تو خود بھی کبھی شکار ہوگا‘‘۔
ہرن کی یہ بات دل پر اثر کر گئی اور تخت بلخ چھوڑ دیا۔ سلطنت کو خیر آباد کہہ کر جنگلوں، صحراؤں اور وادیوں سے گزرتے ہوئے مکہ میں جا بسے۔ جب گھر سے نکلے تو ایک چھوٹا سا بیٹا تھا۔ مدت گزر گئی۔ اس نے باپ کو دیکھا بھی نہیں، اتنا چھوٹا تھا، سالہا سال کے بعد بیٹا جوان ہوگیا اس نے بلخ کی سلطنت سنبھال لی۔ پوچھا!
امی میرے والد کہاں ہیں؟ یعنی (ابراہیم بن ادھم) اس نے کہا بیٹے وہ تو فقیر بن کر مکہ میں رہتے ہیں، اس نے کہا: میرا جی چاہتا ہے میںباپ کو اس حال میں دیکھوں۔ اس نے کہا بیٹا جا بچے نے منادی کرادی۔ شہر بلخ میں سے جو کوئی حج کے سفر پر میرے ساتھ چلنا چاہے میں اپنے خرچ پر لے جاتا ہوں۔ 4000 مسافر تیار ہوگئے، بلخ کا شہزادہ اپنے خرچ پر چار ہزار کا قافلہ لیکر مکہ پہنچ گیا، کسی سے پوچھا کہ ابراہیم بن ادھم بلخ کی سلطنت چھوڑ کے آئے تھے۔ ان کا کوئی پتہ ہو کہاں رہتے ہیں؟
کسی درویش نے بتایا! کہ بیٹے وہ تو جنگل میں لکڑیاں چن رہے ہونگے ،بیٹا جنگل میں چلا گیا،آگے دیکھا کہ ایک لکڑ ہارا، ضعیف و کمزور بوڑھا لکڑیوں کا گٹھا اُٹھا کر سر پر چلا آرہا ہے، بیٹا ضبط نہ کرسکا رو پڑا باپ کو اس حال میں دیکھ کر کہا کہ
’’مولا کو منانے کیلئے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔‘‘ مگر پردہ چاک نہیں کیا۔ پیچھے پیچھے آگیا،شہر میں آکے ابراہیم بن ادھم نے آواز دی، ہے کوئی حلال مال کے بدلے حلال مال دینے والا؟ ایک شخص آیا اس نے یہ لکڑیاں خرید لیں،روٹیاں دے دیں۔ آپ نے جا کے وہ روٹیاں درویشوں کوکھلا دیں اور اس کے بعد خود طواف کعبہ کیلئے آگئے، طواف کعبہ کے دوران وہ بیٹا جو جوان ہوچکا تھا، نظر آگیا، نقش اور نین سے بیٹے کو ہلکا سا پہچانا اور نگاہیں اس جوان بیٹے کے چہرے پر جم گئیں، چونکہ مدت کے بعد وہ معصوم بیٹا جس کو ماں کی گود میں چھوڑ کے آئے تھے دکھائی دیا تو دل اس طرف لپک گیا اور اسے دیکھتے رہ گئے۔ طواف کے بعد درویشوں نے پوچھا!
حضرت یہ کون جوان تھا کہ جس نے آپ کو اللہ کے گھر میں طواف کعبہ کے دوران اپنی طرف متوجہ کرلیا، کہنے لگے لگتا ہے کہ جو میں چھوٹا معصوم دو سال کا بیٹا چھوڑ کے آیا تھا مجھے یہ خیال گزرتا ہے کہ یہ میرا وہی بیٹا ہے جو جوان ہوگیا، میں نے اس کی شکل سے اندازہ کیا ہے، جاؤ اس کو تلاش کرو اور حقیقت حال کی خبر لو۔ درویش چلے گئے بلخ کے اس کیمپ میں پہنچے تو وہ بچہ تلاوت قرآن میں مصروف تھا۔ پوچھا!آپ کس کے بیٹے ہیں؟ کہا میں ابراہیم بن ادھم کا بیٹا ہوں۔ آئیے آپ کو اپنا والد ملا دیں پھر صحن کعبہ میں لے آئے وہ حرم کعبہ میں تھے، طواف میں مصروف تھے، بیٹا بیوی جب سارے صحن کعبہ میں پہنچے، باپ کی نگاہ بیٹے پر پڑی تو 22-20 سال کے بعد جب بچھڑا ہوا بیٹا ملا، بے ساختہ محبت پدری نے جوش مارا اور لپٹ گئے اور رونے لگ گئے اور بیٹاباپ سے لپٹ گیا جب دونوں آپس میں مل جل کر ایک دوسرے کو چومنے اور رونے لگ گئے تو ہاتف غیبی سے آواز آئی:
’’ابراھیم بن ادھم عشق ہم سے اور بے تابی کسی اور کیلئے ‘‘۔
یہ آواز جو آئی! چیخ نکلی اور بے ہوش ہوکر صحن کعبہ میں گر گئے پھر محبت الٰہی تو اس طرح سمالیتی ہے کہ کہیں قدم ڈگمگانے نہیں پاتے خواہ وہ نسبی محبت ہی کیوں نہ آجائے۔ پھر حضرت رابعہ بصری g سے پوچھو، جب محبت کا رخ مولا کی طرف ہوجاتا ہے تو محبت الٰہی اپنے بندے کی محبت کی حفاظت اور اس کی چاہتوں کی حفاظت کس طرح کرتی ہے۔ حضرت رابعہ بصری بیمار ہوگئیں کسی علاج سے آرام نہیں آرہا۔ کسی نے پوچھا بی بی صاحبہ کیا بات ہے اس کی وجہ کیا ہے؟
فرماتی ہیں: میں تلاوت قرآن کر رہی تھی دوران تلاوت قرآن مجید کی آیتیں آگئیں جن میں جنت کا ذکر تھا۔ آخرت کی نعمتوں کا ذکر تھا۔ تلاوت کرتے کرتے جب جنت کا ذکر پڑھا تو میرا دل جنت کی طرف راغب ہوگیا۔ جنت کی نعمتوں کی طرف جھک گیا۔ اور جنت کی چاہت اور محبت پیدا ہوگئی۔ بس دل میں جنت کی رغبت کا و محبت کا پیدا ہونا تھا کہ میرے محبوب نے آواز دی اور جو میٹھی میٹھی آواز میرے کانوں نے سنی۔ فرمایا:
’’رابعہ عشق ہم سے کرو اور چاہت جنت کی کرو۔‘‘
یعنی محبت کا دعویٰ ہم سے اور چاہت جنت کی کرتی ہو۔ ارے! جو لوگ اس کے عشق میں جل جاتے ہیں اس میں صرف دنیا نہیں جلتی آخرت بھی جل جاتی ہے۔
پھر رابعہ بصری ایک ہاتھ میں پانی لیتیں ،ایک ہاتھ میں آگ اُٹھاتیں، لوگ پوچھتے ہیں! بی بی کدھر جا رہی ہو۔ فرماتی ہیں:
’’جو لوگ دوزخ سے ڈر کر عبادت کرتے ہیں، ان کا طمع، جھجک اور ان کا خوف مٹانے کیلئے پانی سے دوزخ بجھانے کیلئے جا رہی ہوں اور جو جنت کے لالچ میں عبادت کرتے ہیں ان کا طمع مٹانے کے لیے آگ سے جنت جلانے کیلئے جا رہی ہوں ۔ کیونکہ جو بھی سر جھکائے میرے محبوب کی رضا کیلئے جھکائے۔ مولا کی محبت میں جھکائے۔ مولا کی قربت کیلئے جھکائے اور مولا کی رضا کے لیے جھکائے۔
سیدنا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جو آدمی دنیا کا طالب ہوتا ہے۔ وہ مرد نہیں ہوتا مؤنث ہوتا ہے۔ جو آخرت کا طالب ہوتا ہے وہ بھی مرد نہیں ہوتا مؤنث ہوتا ہے۔ مرد اس وقت بنتا ہے جب دنیا کی چاہت بھی نکل جائے اور ساری چاہتیں ایک ساتھ شعلہ بن کر عشق کی شکل میں نمودار ہوں اور مطلب نہ رہے۔ تب بندہ مرد بنتا ہے جس کے لیے لذتیں و راحتیں و آرام و سکون و چاہتیں سب کو ذبح کرنا پڑتا ہے۔ پھر اسماعیل کے گلے پر چھری چلانی پڑتی ہے پھر آتش نمرود میں کودنا پڑتا ہے۔ پھر علی اصغر علیہ السلام اور علی اکبر علیہ السلام کے گلے کٹوانے پڑتے ہیں۔ پھر سروں کو نیزوں پر چڑھانا پڑتا ہے۔
اس لیے یہ محبت کا وہ مقام ہے جس میں نہ دنیا کی محبت رہی نہ عاشقوں کی محبت رہی نہ اپنی جان کی محبت رہی پھر ان کو حیات جاوید ملتی ہے۔ پھر وہ تین سو سال غار ہی میں لیٹے رہیں تو اس غار میں رہ کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ پھر کوئی کتا بن کر ان کی دہلیز پہ بیٹھا ہو تو وہ بھی زندہ رہتا ہے۔ مگر اس کے لیے ریاضت درکار ہے۔
(جاری ہے)