عورت کی اپنی انفرادی حیثیت ہے۔ اس نے زندگی کے مختلف مراحل میں منفرد و یگانہ کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ وہ پہلے بیٹی پھر بیوی اور بعد ازاں ماں کا روپ دھار لیتی ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عورت کا دوسرا نام حیا ہے۔ اس کے اپنے مسائل اور خانگی زندگی کے تقاضے ہیں جس کی وضاحت وہ کسی عورت کے سامنے ہی کرسکتی ہے۔ عورت ہونے کے ناطے وہ جن مراحل سے گزرتی ہے اس موڑ پر بھرپور رہنمائی کی ضرورت ہے۔ جس کی روشنی میں وہ بہترین زندگی بسر کرسکے۔ یہ نمونہ صرف ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کی مقدس زندگیوں میں ہی ملتا ہے اس سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی آج کی عورت کے لیے مینارہ نور ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کی محافظ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہر معاملہ پر توجہ دیتی تھیں جیسا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی تجویز تھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی۔ سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب شادی کے بعد کاشانہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تشریف لائیں تو انہوں نے اپنے نئے گھر کا جائزہ لیا۔ انہوں نے دیکھا کہ گھر میں دو جوان لڑکیاں موجود ہیں جن کی شادی ہونا چاہئے لیکن گھریلو حالات مالی طور پر سازگار نہیں تھے، دوسرے قریش کے بیشتر گھرانے مکہ میں رہ گئے تھے جو ابھی تک داخل اسلام نہیں ہوئے تھے اور مدنی ماحول ابھی نیا تھا۔ ان حالات نے بیٹیوں کی شادی میں رکاوٹ ڈالی ہوئی تھی۔
ایک دن آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بچیوں کی شادی کا ذکر چھیڑ دیا اور عرض کیا:
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! بچیاں اس قابل ہیں کہ ان کی شادی کردی جائے ایک تجویز ہے۔
کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کیوں نہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کردی جائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سماعت فرمایا تو بہت خوش ہوئے۔
شادی کے تمام انتظامات ماں کی حیثیت سے سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خود کئے جس مکان میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بیاہ کر جانا تھا، اس کی صفائی و لیپائی کی، بستر تیار کیا، تکیے بنائے، چھوہارے دعوت میں پیش کئے، مشک اور کپڑے لٹکانے کے لیے لکڑی کی الگنی بنائی اور فرماتی تھیں:
میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیاہ سے اچھا کوئی بیاہ نہیں دیکھا۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی کئی احادیث ہیں جن سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان دونوں مقدس ہستیوں کے مابین کتنا پیار اور محبت تھا اور کس قدر خوشگوار تعلقات تھے۔
چوتھی بیٹی سیدہ ام کلثوم تھیں، ان کی اس وقت عمر 20 سال تھی۔ ان کی بڑی ہمشیرہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا جو سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حبالہ عقد میں تھیں، 2 ہجری میں وصال پاچکی تھیں، ایک روز ام المومنین رضی اللہ عنہا نے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
کس بارے میں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ ام کلثوم کی اگر ان سے شادی کردی جائے۔ تجویز نہایت مناسب تھی چنانچہ رشتہ طے پاگیا اور پھر وہ 3 ہجری میں رخصت ہوکر اپنے خاوند کے پاس تشریف لے گئیں۔
یہ وصف آج کی عورت کے لیے نمونہ ہے شوہر کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھ کر سلجھانے کی کوشش کرے شوہر سے وابستہ ہر رشتے کا احترام کرے اور ہر ممکن حد تک کوشش کرے کہ گھر کا ماحول پرسکون رہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کمال محبت وعقیدت:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کمال محبت رکھتی تھیں کبھی بھی وسائل کی کمی کا شکوہ نہ کریتں۔ ایک دن وہ بیٹھی اپنا نقاب سی رہی تھیں جو پھٹ گیا تھا کہ اسی اثناء میں کسی نے دریافت کیا:
ام المومنین رضی اللہ عنہا ! کیا اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کی فراوانی نہیں فرمادی؟
سنا تو ارشاد فرمایا: چھوڑو ان باتوں کو، وہ نئے کپڑے کا حق دار نہیں جو پرانے کپڑے استعمال نہ کرے۔
پرانے کپڑوں کی عادی ہونے کی وجہ سے سیدہ رضی اللہ عنہا پرانے کپڑے چھوڑنا پسند نہیں کرتی تھیں۔
آج کی اکثر عورتیں شوہر کے مال کو مال مفت دل بے رحم کی طرح استعمال کرتی ہیں۔ لباس کی کثرت و فراوانی دراصل شوہر کے مال کا بے جا استعمال کا بین ثبوت ہے۔ اس روش کا سد باب کرتے ہوئے اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہئے کہ اللہ کی نعمتوں کا اظہار تو ہو لیکن ضیا ع نہیں۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عشق و محبت تھی اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی نسبت ان سے زیادہ انس و محبت تھی۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: اسلام میں سب سے پہلی محبت جو پیدا ہوئی وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم نے پوچھا: آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا: عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) عرض کیا: مردوں میں سے؟
ارشاد فرمایا: ان کے والد۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی محبت تھی جو چاہتی تھیں، بلا جھجک عرض کردیتی تھیں۔ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں تھے اور باہم باتیں کررہے تھے رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اے عائشہ! (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) میں جانتا ہوں کبھی مجھ سے خوش ہوتی ہو اور کبھی خفا ہوجاتی ہو۔
عرض کیا: یا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کیسے جانتے ہیں؟
ارشاد فرمایا: جب تم خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو: لاورب محمد یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب کی قسم اور جب خفا ہوتی ہو تو کہتی ہو لاورب ابراہیم یعنی ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم۔
یہ سن کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ـ! آپ نے بالکل صحیح فرمایا۔
یا حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اگر تم اس مرتبہ کو چاہتی ہو تو کل کے لیے کھانا بچا کے نہ رکھو اور کسی کپڑے کو جب تک کہ اس میں پیوند نہ لگ سکتا ہے، بے کار نہ کرو۔
چنانچہ ان کی ساری زندگی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت و نصیحت کی آئینہ دار رہی، کل کے لیے کبھی کھانا بچا کر نہ رکھا اور کپڑا پھٹ جاتا تو سی لیتی تھیں اور اگر ضرورت ہوتی تو پیوند لگا لیتی تھیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم سے شغف
جس عمر میں ان کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیاہ ہوا تھا، وہ سیکھنے کی صلاحیتوں سے بھرپور ہوتی ہے اور ذوق و شوق بھی۔ علوم دینیہ کی تعلیم کا مخصوص وقت نہ تھا۔ علم شریعت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود گھر میں تھے، شب و روز ان کی محبت میسر تھی۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم و ارشاد کی محفلیں روزانہ مسجد نبوی میں سجتی تھیں جو حجرہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بالکل ملحق تھی اس بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر جو لوگوں کو درس دیتے تھے، وہ اس میں شریک ہوتی تھیں اگر کبھی زیادہ فاصلے کی وجہ سے کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں تشریف لاتے تو سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دوبارہ پوچھ کر تسلی کرلیتی تھیں۔ کبھی اٹھ کر مسجد کے قریب تشریف لے جاتی تھیں اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کی درخواست پر ہفتہ میں ایک خاص دن ان کی تعلیم و تلقین کے لیے متعین فرمادیا تھا۔
ایک مرتبہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو شخص اللہ کی ملاقات پسند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اس کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا، اللہ بھی اس سے ملنا پسند نہیں کرتا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم میں سے تو کوئی بھی موت کو پسند نہیں کرتا۔ فرمایا:
اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن جب اللہ تعالیٰ کی رحمت و خوشنودی کے انعامات و جنت کا حال سنتا ہے تو اس کا دل اللہ کا مشتاق ہوجاتا ہے لہذا وہ بھی اس کے آنے کا مشتاق رہتا ہے۔
ایک مرتبہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:
یا حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! نکاح میں عورت کی رضا مندی لازمی ہے لیکن کنواری لڑکیاں شرم سے اظہار نہیں کرتیں۔
ارشاد فرمایا:
اس کی خاموشی ہے اس کی اجازت ہے۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا:
فداک ابی و امی یا محبوب اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اس مسئلہ میں حکمت عطا ہو کہ دوسرے دینی فرائض کی طرح کیا جہاد بھی عورتوں پر واجب ہے؟
ارشاد فرمایا: اے عائشہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! عورتوں کے لیے حج ہی جہاد ہے۔
اسی طرح ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا:
کیا کفار و مشرکین کے نیک اعمال کا انہیں آخرت میں کوئی اجر ملے گا؟
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سوال کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب مرحمت فرمایا:
ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے بغیر کوئی نیک عمل قابل قبول اور لائق جزا نہیں۔
الغرض اس طرح جب بھی موقع ملتا، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہر آن اور ہر لحظہ سیکھنے کی سعی جمیلہ فرماتی رہتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ سمجھاتے تاکہ کسی نوع کا کوئی ابہام و شک نہ رہ جائے۔
علم کا حاصل کرنا ہر مرد و زن پر فرض ہے اس کو حاصل کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ لہذا علم کو مہد سے لے کر لہد تک حاصل کرنا چاہئے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بے شمار اوصاف حمیدہ سے متصف تھیں۔ آپ کی حیات مبارکہ ایک عورت کے لیے روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتی ہے اگر آج کی عورت اپنے آپ کو شرم و حیا کے لبادے میں اوڑھتی ہے اور اس کے گھر سے سلیقہ مندی اور کفایت شعاری سے شوہر کے لیے سہولت اور آسانیاں پیدا کرتی ہے تو اس کی عزت پر حرف نہیں آنے دیتی۔ پاک دامن رہتی ہیں۔ ذہانت و معاملہ فہمی کو اپنی عادت بناتی ہے گھر اور گھر کے باہر کے معاملات کو خوش اسلوبی سے نبھاتی ہے تو وہ شوہر کے یہاں جلد ہی اعلیٰ مقام حاصل کرلیتی ہے۔
عورت کو اپنا گھر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ حالات کا زیر و بم اس کے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے دے۔ اگر کوئی اونچ نیچ آجائے تو شوہر کے ساتھ گزر بسر کرے۔ اگر بیماری یا مالی مشکلات آبھی جائے تو اس کا جانفشانی سے مقابلہ کرے نہ کہ شوہر کو طعنہ زنی کرنا شروع کردے۔ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے کیونکہ اللہ کی ذات اپنے بندہ پر انتہائی مہربان ہے۔ مشکل میں ڈال کر بندے کو آزماتی ہے جب بندہ صبر کرتا ہے تو اس کو مزید نوازتا ہے۔ اس کو احسن القیوم کے درجہ تک پہنچا دیتی ہے۔ (ماخوذ از ازواج الرسول امہات المومنین)