روزہ دین اسلام کا تیسرا اور اہم رکن ہے۔ روزہ کو عربی زبان میں ’’صوم‘‘ کہتے ہیں۔ لفظ صوم کے لغوی معنی ’’روک لینے‘‘ کے ہیں۔جبکہ شرعی اصطلاح میں عبادت کی نیت سے بوقت طلوع فجر تا غروب آفتاب اپنے آپ کو کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے باز رکھنے کا نام روزہ ہے۔
روزے کی اہمیت قرآن حکیم کی روشنی میں
قرآن حکیم کی بہت سی آیات میں روزے کی اہمیت اور فرضیت کا حکم ملتا ہے۔ سورۃ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ياَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ. (البقره،2:183)
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘۔
روزہ بظاہر ایک مشقت والی عبادت ہے لیکن حقیقت میں اپنے مقصد اور نتیجے کے لحاظ سے یہ دنیا میں موجب راحت اور آخرت میں باعث رحمت ہے۔ روزہ دار دن بھر اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں نہ کچھ کھاتا ہے نہ پیتا ہے لیکن افطار کے وقت اس پابندی کے اختتام کو بھی اپنے لئے باعث مسرت سمجھتا ہے۔
روزہ ہر بالغ مسلمان مرد اور عورت دونوں پر یکساں طور پر فرض ہے اور بغیر کسی سخت مجبوری کے، اس کو چھوڑنے کی اجازت نہیں۔ قرآن پاک میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
اَيَامًا مَّعْدُوْدٰتٍط فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَامٍ اُخَرَط وَعَلَی الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَه فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْکِيْنٍط فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّه ط وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ. (البقره،2:184)
’’(یہ) گنتی کے چند دن (ہیں) پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو‘‘۔
دراصل رمضان کے مہینے میں انسان کے اندر دینی مزاج اور صبرو تقویٰ پیدا کرنے کے لئے مخصوص دینی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ اس ماہ کو نیکیوں کی فصل بہار قرار دیا گیا ہے۔ اس مہینے کو اللہ پاک نے اپنا مہینہ کہا ہے۔ اس مہینے میں ہر مسلمان اپنے اپنے ایمان اور تقویٰ کے مطابق حصہ پاتا ہے۔ جس سے وہ قلبی سکون حاصل کرتا ہے۔ اس ماہ کی ایک اور فضیلت یہ بھی ہے کہ قرآن مجید، فرقان حمید کا نزول بھی اسی بابرکت مہینے میں ہوا۔ یہ مہینہ نزول قرآن کی یاد بھی دلاتا ہے۔ اس مہینے میں جو روزوں کے ذریعے تقویٰ حاصل نہ کرے وہ اس کتاب پاک سے جو متقیوں کے لئے باعث ہدایت و مغفرت ہے، کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔
روزے کی اہمیت۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں
جس طرح متعدد قرآنی آیات سے روزے کی فضیلت کا علم ہوتا ہے، اسی طرح روزے کی اہمیت کے بارے میں بے شمار احادیث بھی ملتی ہیں جن سے روزے اور رمضان کی قدرو منزلت کا پتہ چلتا ہے۔ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من صام رمضان وقامه ايمانا واحتسابا غفرله ما تقدم من ذنبه.
’’جس نے ایمان اور اجر کی نیت سے روزے رکھے اور اس کی (راتوں) میں قیام کیا۔ اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے گئے‘‘۔
روزے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے بلاعذر یا بلا مرض ایک روزہ بھی ترک کیا تو ساری عمر کے روزے بھی اس کا کفارہ نہیں بن سکتے‘‘۔ (رواہ البخاری)
روزہ دار چونکہ اپنے خالق و مالک کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے دن بھر کھانے پینے اورممنوعہ احکامات سے ممکن حد تک بچنے کی کوشش کرتا ہے، اس لئے افطار کے وقت اس کے لئے بہت زیادہ خوشی کا مقام ہوتا ہے۔ ایک تو افطار کرتے ہوئے بھوک پیاس کی حالت میں اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتا ہے تو اسے ایک عجیب سی مسرت اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے اور دوسرے وہ اس امید پر خوش ہوتا ہے کہ آخرت میں وہ اپنے رب کا دیدار کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، ایک خوشی اس کے افطار کے وقت اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت‘‘۔ (متفق علیہ)
بخاری اور مسلم میں ایک اور حدیث پاک میں روزہ اور روزہ دار کی فضیلت یوں بیان فرمائی گئی ہے: حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جنت کے آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک کا نام ریان ہے اور اس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے۔ (متفق علیہ)
ریان کا معنی ہے سیرابی چونکہ روزہ دار دنیا میں اللہ کے لئے بھوک اور پیاس برداشت کرتے ہیں، اس لئے انہیں بڑے اعزاز و احترام کے ساتھ اس سیرابی کے دروازے سے گزارا جائے گا اور وہاں سے گزرتے ہوئے انہیں ایسا مشروب پلایا جائے گا کہ پھر کبھی پیاس محسوس نہیںہوگی۔ (عون الباری: 766/2)
روزہ دار کے لئے اللہ پاک نے سحری و افطاری کے اوقات مقرر کئے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہوتی ہے۔ (رواہ البخاری: 1923) دوسری روایت میں ہے کہ سحری ضرور کی جائے خواہ پانی کا گھونٹ پی کر یا کھجور کے چند دانے کھا کر ہی کیوں نہ ہو اس سے روزہ رکھنے میں قوت پیدا ہوتی ہے۔ (عون الباری:792/2)
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے ہر عمل کا ثواب اللہ تعالیٰ کے یہاں دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہوجاتا ہے لیکن روزے کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
الا الصوم فانه لی وانا اجزی به.
مگر روزہ تو خاص میرے لئے ہے اس لئے اس کا ثواب اپنی مرضی سے جتنا چاہوں گا دوں گا۔
ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
الصيام جنه من النار. (ابن خزيمه)
’’روزہ آگ سے بچنے کیلئے ڈھال ہے‘‘۔
رمضان المبارک کی فضیلت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ خلوص نیت اور تقویٰ کے حصول کے لئے رکھے گئے روزے انسان کو آخرت میںجہنم کی آگ سے بچاتے ہیں اور عذاب قبر سے بچانے میں بھی انسان کے کام آئیں گے۔ رمضان المبارک میں جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔
متفق علیہ حدیث ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں۔
روزے کی رخصت کے مسائل
حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا کیا میں سفر میں روزہ رکھوں؟ اور وہ کثرت سے روزہ رکھنے والے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہے تو رکھ، چاہے نہ رکھ۔ (بخاری و مسلم)
سفر کی طرح جہاد میں بھی دشواری کے پیش نظر روزہ ترک کیا جاسکتا ہے اور اگر رکھا ہو تو توڑا جاسکتا ہے مگر اس کی صرف قضا ہوگی، کفارہ نہیں ہوگا۔
بڑھاپا بذات خود ایک بیماری ہے۔ اس میں بھی روزہ رکھنے کی بجائے فدیہ دیا جاسکتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بوڑھے آدمی کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت دی گئی ہے لیکن وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو (دو وقت کا) کھانا کھلائے اور اس پر کوئی قضا نہیں۔
حیض و نفاس والی عورت بھی اس حالت میں روزہ نہیں رکھ سکتی نہ نماز پڑھ سکتی ہے۔ البتہ بعد میں روزے کی قضا کرنا ہوگی نماز کی نہیں۔
دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے۔ بعد میں صرف قضا ہوگی۔
زکوٰۃ کی اہمیت و مسائل
زکوٰۃ دین اسلام کا چوتھا اور بنیادی رکن ہے۔ اس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا بیان بیاسی مقامات پر آیا ہے۔
زکوٰۃ کے لغوی معنی ہیں پاک ہونا، بڑھنا، نشوونما پانا۔جبکہ شرعی اصطلاح میں صاحب نصاب کا اپنے مخصوص مال کو خاص شرائط کے ساتھ، خاص شرح کے مطابق ادا کرنا، زکوۃ کہلاتا ہے۔
زکوٰۃ کی اہمیت قرآن حکیم کی روشنی میں
قرآن پاک میں متعدد آیات میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم آیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِيْنَ. (البقره،2 :43)
’’اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو‘‘۔
اس آیہ کریمہ میں جن احکامات الہٰی کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہیں۔ 1۔ نماز قائم کرنا، 2۔ زکوٰۃ دینا، 3۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنا یعنی اللہ کے حضور جھکنے والوں کے ساتھ جھکنا۔ اس کے احکامات کے آگے سر تسلیم خم کرنے والوں کے ساتھ سر تسلیم خم کرنا اور خداوند تعالیٰ کے تمام ارشادات اور فرمودات کی مکمل طور پر اطاعت کرنے والوں کے ساتھ اطاعت کرنا۔
سورہ المزمل کا مطالعہ اور مفہوم کو پیش نظر رکھیں تو اس سورہ میں بھی زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔ زکوٰۃ کی اہمیت اس واقعہ سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جب ایک گروہ نے بارگاہ نبوت پر حاضر ہوکر اسلام کی تعلیمات دریافت کیں تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اعمال میں سب سے پہلے نماز اور پھر زکوٰۃ کا ذکر فرمایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رحلت کے بعد جب بعض لوگوں نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ اول نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے خلاف قرآن نے سخت وعید سنائی ہے جس کا اندازہ قرآن مجید کی ان آیات سے لگایا جاسکتا ہے:
’’جو لوگ سونا چاندی سینت سینت کر (جمع کرکے، خزانہ بناکر) رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ انہیں درد ناک عذاب کی خبر سنادیجئے۔ اس (قیامت کے) دن اس (سونے چاندی) کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا۔ پھر اس کے ساتھ ان کے چہرے، ان کے پہلو اور ان کی پشتیں داغی جائیں گی اور کہا جائے گا یہ ہے وہ خزانہ جو تم اپنے لئے جمع کرکے لائے ہو۔ اب اس کا مزہ چکھو۔ جو تم جمع کرتے رہے تھے‘‘۔
(سوره التوبه، 35 :34)
چونکہ زکوٰۃ کے لغوی معنی ہی پاک کرنے کے ہیں اس لئے جو انسان زکوٰۃ ادا کرتا ہے وہ خدا کے حکم کے مطابق نہ صرف اپنے مال کو پاک کرلیتا ہے بلکہ اپنے دل کو بھی دولت کی ہوس سے پاک کرتا ہے۔ ادائیگی زکوٰۃ سے اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ جو دولت وہ کماتا ہے، وہ درحقیقت اس کی اپنی ملکیت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی امانت ہے۔
جب انسان دولت جیسی نعمت اللہ تعالیٰ کے حکم پر خرچ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے ایثار کی قدر کرتے ہوئے اس خرچ شدہ مال کو اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے اور وعدہ فرماتا ہے کہ بندے کا یہ قرض وہ کئی گنا بڑھا کر واپس کرے گا۔ سورۃ التغابن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنْ تُقْرِضُوا اﷲَ قَرْضًا حَسَنًا يُضٰعِفْهُ لَکُمْ وَيَغْفِرْلَکُمْط وَاﷲُ شَکُوْرٌ حَلِيْمٌ.
(التغابن،64 :17)
’’اگر تم اللہ کو (اخلاص اور نیک نیتی سے) اچھا قرض دوگے تو وہ اسے تمہارے لیے کئی گنا بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا، اور اللہ بڑا قدر شناس ہے بُردبار ہے‘‘۔
ان آیات مبارکہ کی رو سے زکوٰۃ کی ادائیگی انسان کے لئے آخرت کی نعمتوں کے حصول اور عذاب جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے جس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہوسکتی۔
زکوٰۃ کی اہمیت احادیث کی روشنی میں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
جب تو نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی تو تو نے اپنا فرض ادا کردیا۔ (ترمذی، ابواب الزکاۃ، رقم618، بیہقی، شعب الایمان رقم 3557)
حضرت حسن بصری سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنے مال و دولت کو زکوٰۃ کے ذریعے محفوظ بنالو اور اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو اور مصیبت کی لہروں کا سامنا دعا اور گریہ و زاری کے ذریعے کرو‘‘۔
زکوٰۃ ادا کرنے کے بارے میں طبرانی اور ابودائود میں احادیث درج ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے اردگرد بیٹھے لوگوں سے فرمایا: تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں‘‘۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! وہ (چھ چیزیں ) کون سی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
الصلاة، والزکاة، والامانة، والفرج، والبطن واللسان.
نماز، زکوٰۃ (کی ادائیگی)، امانت داری، شرم گاہ (کی حفاظت)، پیٹ (کو حرام سے بچانا) اور زبان (سے بری بات نہ کہنا)
مسائل زکوٰۃ
زکوٰۃ ان لوگوں پر فرض ہے جن کے پاس ایک خاص مقدار میں سونا، چاندی، روپیہ پیسہ یا سامان تجارت ہو۔ اس خاص مقدار کو نصاب کہتے ہیں۔ مختلف اشیاء کا نصاب یہ ہے:
1۔ سونا ساڑھے سات تولے (87.48 گرام) 2۔ چاندی ساڑھے باون تولے (612.36 گرام)
زکوٰۃ کسی مال پر اس وقت واجب ہوتی ہے جب اسے جمع کئے ہوئے پورا ایک سال گزر چکا ہو۔
ادائیگی زکوٰۃ کے مصارف (مصارف مصرف کی جمع ہے جس کا معنٰی خرچ کرنے کی جگہ کے ہیں)
تقسیم زکوٰۃ کی مدات بھی اللہ تعالیٰ نے خود متعین فرمادی ہیں جو کہ سورہ التوبہ کی آیت نمبر60 سے واضح ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَابْنِ السَّبِيْلِط فَرِيْضَةً مِّنَ اﷲِط وَاﷲُ عَلِيْمٌ حَکِيْمٌ.
(التوبه،9 :60)
’’بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے‘‘۔
ان آیات اور مصارف سے واضح ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قرآن حکیم کی رو سے بنائے گئے آٹھ مصارف میں سب سے پہلے اپنے غریب و مستحق رشتہ داروں، پڑوسیوں، ملنے والوں، اپنے ہم پیشہ، اپنے شہر والوں اور بعد میں دوسرے لوگوں کو زکوٰۃ دی جائے۔ اس کے علاوہ خود دار، سفید پوش اور غیرت مند لوگ جو ناداری کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے، ان کو ترجیح دینی چاہئے۔
ادائیگی زکوٰۃ کے چند اصول
1۔ زکوٰۃ صرف مسلمانوں ہی سے لی جاتی ہے۔
2۔ وہ عزیز و اقارب جن کی کفالت شرعاً فرض ہے (مثلا ماں، باپ، بیٹا، بیٹی، شوہر، بیوی وغیرہ) انہیں زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی البتہ دور کے عزیز غیروں کے مقابلے میں قابل ترجیح ہیں۔
3۔ ایک بستی کی زکوٰۃ عام حالات میں خود اس بستی میں ہی تقسیم ہونی چاہئے۔ البتہ اس بستی میں مستحق زکوٰٰۃ نہ ہونے کی وجہ سے یا کسی دوسری بستی میں ہنگامی صورت حال مثلاً سیلاب، زلزلہ، قحط وغیرہ کے موقع پر زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔
4۔ زکوۃ دینے والوں کو چاہئے کہ زکوٰۃ لینے والوں کے مستحق زکوٰۃ ہونے کا ممکن حد تک اطمینان کرلیں۔
5۔ زکوۃ کی رقم سے ضرورت کی اشیاء بھی خرید کر دی جاسکتی ہیں۔
6۔ مستحق زکوۃ کو بتانا بھی ضروری نہیں کہ یہ پیسہ یا مال زکوٰۃ کا ہے۔
جب اسلامی نظام حکومت قائم ہو تو اجتماعی زکوٰۃ دینا بھی لازم ہے۔ البتہ اگر کسی خطہ زمین میں سے مسلمان غیر اسلامی حکومت کے تابع ہوں تو اس صورت میں مختلف تنظیموں یا باہمی تعاون کے دوسرے اداروں کے ذریعے زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے۔ زکوٰۃ کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ اگر لاشعوری طور پر مالدار کو دے دی جائے جو اس کا حق دار نہ ہو تو معلوم ہونے پر دوبارہ ادا کرنی ہوگی۔
7۔ زکوٰۃ بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ نابالغ شخص پر زکوٰۃ فرض نہیں۔
8۔ زکوٰۃ عاقل مسلمانوں یعنی وہ مسلمان جو اپنے ہوش و حواس میں ہو اس پر زکوٰۃ فرض ہے، پاگل یا دیوانے پر نہیں۔
9۔ آزاد مسلمان پر زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم ہے۔ غلام یا لونڈی پر نہیں۔ صاحب مال ہو اور اس کو اپنے مال پر کامل ملکیت حاصل ہو۔
10۔ زندگی کی بنیادی ضروریات سے زیادہ ہو۔
11۔ ایسا مسلمان زکوٰۃ کی فرضیت کے حکم میں آتا ہے جس پر قرضہ نہ ہو یعنی قرض وغیرہ سے فارغ ہو۔
12۔ اس مال پر زکوٰۃ دی جائے گی جس کی بڑھوتری ہوتی ہو جیسے مال تجارت یا سونا چاندی وغیرہ۔
زکوٰۃ کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں:
1۔ کرنسی شرعی نصاب کو پہنچ چکی ہو۔
2۔ اس پر ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو۔
3۔ وہ قرض سے فارغ ہو۔
4۔ ضروریات زندگی سے زیادہ ہو۔
5۔ رہائشی مکان، پلاٹ اور فلیٹ وغیرہ پر زکوٰۃ واجب نہیں البتہ جو مکان یا فلیٹ ، پلاٹ وغیرہ کاروباری مقاصد کے لئے استعمال ہوں۔ ان کی مالیت پر زکوٰۃ ہے۔ اس میں قیمت خرید پر نہیں بلکہ موجودہ قیمت پر زکوٰۃ ہوگی۔
6۔ ایجنسی ہولڈرز اور تاجر حضرات کی جو رقم بطور زر ضمانت کسی ادارے یا فرم کے پاس جمع ہیں اور قابل واپسی ہے اس رقم کی زکوٰۃ بھی اصل مالک کو ادا کرنا ہوگی۔
7۔ جو اشیاء نفع حاصل کرنے کے لئے خریدو فروخت کے لئے مہیا کی گئی ہوں وہ سامان تجارت کہلاتی ہیں مثلاً غلہ، کپڑا، جانور اور گھریلو سازو سامان وغیرہ۔ ان پر زکوٰۃ فرض ہے جبکہ آلات تجارت پر زکوٰۃ فرض نہیں۔
8۔ مشترک کاروبار میں حصہ دار اپنے اپنے حصے کی نسبت سے زکوٰۃ ادا کرے گا۔
9۔ ٹیکس دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔
رمضان اور زکوٰۃ
زکوٰۃ سال میں ایک ہی دفعہ ادا کرنا فرض ہے۔ اس کے لئے یکمشت بھی ادائیگی کی جاسکتی ہے اور تھوڑی تھوڑی رقم وقتاً فوقتاً بھی زکوٰۃ کی نیت سے ادا کی جاسکتی ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں زیادہ تر لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس مقدس مہینے میں ہر نیک عمل کا اجر ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
ادائیگی زکوٰۃ کے فوائد اور حکمتیں
زکوٰۃ چونکہ مالی عبادت ہے اس لئے اس کا تعلق اقتصادیات سے بھی ہے۔ اس لئے اس کے ثمرات دو طرح سے ظاہر ہوتے ہیں معاشرتی بھی اور معاشی بھی۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو احکامات دیئے ہیں ان کی مکمل حکمتیں تو وہی جانتے ہیں مگر انسان کی ناقص عقل میں جو نکات آتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ زکوٰۃ سے مال پاک ہوتا ہے۔
2۔ زکوٰۃ سے مال میں برکت پیدا ہوتی ہے۔
3۔ نادار و مفلس لوگوں کی مدد ہوتی ہے۔
زکوٰۃ ادا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ مال کی محبت اور حرص جیسی روحانی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور انسان بخیلی اور کنجوسی جیسے گناہوں سے بچا رہتا ہے۔ مال کی نعمت کی وجہ سے انسان کے دل میں اللہ کا شکر ادا کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
معاشرتی فوائد
معاشرے میں دولت کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو انسانی جسم میں خون کی۔ اگر یہ سارا خون دل (یعنی مالدار طبقے) میں جمع ہوجائے تو پورے اعضائے جسم (یعنی عوام) کو مفلوج کردینے کے ساتھ ساتھ خود دل کے لئے بھی مضر ثابت ہوگا۔ اگر ایک طرف مفلس طبقہ، ناداری کے مصائب سے دوچار ہوگا تو دوسری طرف صاحب ثروت طبقہ دولت کی فراوانی سے پیدا ہونے والی اخلاقی بیماریاں (مثلاً عیاشی، آرام کوشی اور فکر آخرت سے غفلت) کا شکار ہوجائے گا اور ایسی صورت میں ان دونوں طبقوں میں حسد اور حقارت کے علاوہ کوئی اور رشتہ باقی نہ رہے گا۔ یہ کشیدگی بڑھتے بڑھتے دشمنی میں بدل جائے گی اور معاشرے کا نظام خراب کرنے کا سبب بنے گی۔
اسی چیز کے پیش نظر جب تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مدینے کی اسلامی ریاست کے قیام کی بنیاد رکھی تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فوراً یہ آیات نازل فرمائیں:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّيْهِمْ بِهَا.
(التوبه،9 :103)
’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجیے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں‘‘۔
معاشی فوائد
سودی نظام معیشت میں محنت کے مقابلے میں سرمایہ کی افادیت کہیں زیادہ ہے۔ اس لئے محنت کش طبقہ اور کارکن طبقہ مسلسل غریب سے غریب تر ہوتا جاتا ہے اور سرمایہ دار طبقہ مختلف طریقوں سے یہ دولت ہتھیار کر امیر سے امیر تک ہوتا جاتا ہے اور اس طرح پورا معاشی نظام مفلوج ہوجاتا ہے۔ زکوٰۃ اس مسئلے کا بہترین حل ہے۔ اس نظام کے ذریعے دولت کی تقسیم امیر اور غریب دونوں طبقے میں یکساں ہوجاتی ہے جس سے غریب کی معاشی حالت بہتر ہوجاتی ہے۔ اسی مسئلے کو اللہ پاک نے سورۃ البقرہ میں یوں بیان فرمایا ہے:
يَمْحَقُ اﷲُ الرِّبٰوا وَيُرْبِی الصَّدَقٰتِ.
(البقره، 2 :276)
’’اور اﷲ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)‘‘۔
ادائیگی زکوٰۃ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ کے ذریعے پیدا ہونے والی کمی کو پورا کرنے کے لئے صاحب مال اپنی دولت کسی نہ کسی نفع بخش کاروبار میں لگانے کی کوشش کرتا ہے جس سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے چونکہ زکوٰۃ کی شرح صرف اڑھائی فیصد ہے۔ لہذا لوگ اس رقم کو دوسرے بھاری ٹیکسوں کے مقابلے میں زیادہ خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں۔