ظلم و ستم کی داستان بڑی طویل ہے اور اتنی الم ناک جس کو سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ دنیا دو دھاری تلوار کی مانند ہے جو اتنی تیزی سے کاٹتی ہے کہ کٹنے کا احساس بھی نہیں ہوتا اور اتنا گہرا گھائو لگاتی ہے جو جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ ایسی ہی ظلم و ستم کی داستان ہماری آنکھوں نے دیکھی جس کو بیان کرتے ہوئے روح کانپتی ہے۔ ہر طرف گولیوں کی بوچھاڑ، شیلنگ، دھواں اور چیخ و پکار سے کلیجے پھٹ رہے تھے۔ حکومت کے غنڈے پنجاب پولیس کے روپ میں حکمرانوں کے اشاروں پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر اور ان کے نہتے کارکنان پر سیدھی گولیاں برسارہے تھے۔ رفقاء و جانثار اپنے قائد کی محبت میں سرشار ہوکر یہ جملے کہہ رہے تھے اگر پولیس والوں نے ہمارے قائد کے گھر کے گیٹ کو پھلانگنے کی کوشش کی تو انہیں ہماری لاشوں پر سے گزرنا ہوگا۔ یہ جملے پولیس والوں کو اور بھی مشتعل کردیتے تھے۔ انتقاماً وہ اور بھی زہر آلود ہوکر اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کررہے تھے اور ان کے دل اتنے سخت ہوگئے تھے کہ اس بات کا لحاظ کئے بغیر کے اسلام نے خواتین کی عزت و تقدس کو پامال کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ ا ن پر سیدھی گولیاں برسارہے تھے جس کے نتیجے میں چند بہنیں حکومتی غنڈوں کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنیں۔ جن میں محترمہ آمنہ بتول ہیں جو ملک حسین سب انسپکٹر کی گولی کا نشانہ بنی، محترمہ رمشا ہیں جو انسپکٹر آصف معراج کی گولی کا اور محترمہ عائشہ کیانی ہیں جو SPعبدالرحیم شیرازی کی گولیوں کا نشانہ بنی جبکہ دو بہنیں تنزیلہ اور شازیہ موقع پر ہی دم توڑ گئیں۔ ان پولیس والوں کی ان نہتے رفقاء سے کوئی دشمنی نہیں تھی لیکن حکام بالا کے آرڈر پر اور اپنی نوکری بچانے کے حرص و لالچ میں بے گناہ اور نہتے لوگوں پر سیدھی گولیاں مارنے سے بھی دریغ نہیں کررہے تھے۔
اس سانحہ میں 14 لوگ شہید ہوئے۔ بہت سے زخمی جو ابھی تک زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں جبکہ بعض ابھی تک جیل میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کو دو برس گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک اس کے مجرم نہیں پکڑے جاسکے ان کے خلاف FIR بھی نہیں کٹی۔ اس سارے واقعہ سے پتہ چلا کہ اس ملک میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ کیونکہ جب منصف ہی قاتل بن جائیں اور جان کے رکھوالے ہی جب جان کے دشمن بن جائیں تو پھر انصاف کہاں سے ملے۔ جس ملک میں ایس ایچ او حکام بالا کے خوف سے ایف آئی آر تک درج نہ کرے اس ملک سے کسی خیر کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے۔ اس لئے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سیاست نہیں ریاست بچائو کا نعرہ لگایا تھا۔ آج حقیقی معنوں میں ریاست کی کشتی ہچکولے کھارہی ہے اور ڈوبنے کے قریب ہے کیونکہ نام نہاد جمہوری سیاست پر کرپٹ مافیا کا قبضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ کیونکہ اصل مجرم وہ خود ہیں۔ اگر حکمران طبقہ ہی کرپٹ اور دہشت گرد ہو تو عوام کو حقوق کیسے میسر آئیں گے اور عوام میں خوشحالی کیسے آئے گی؟
آج عوام کی بے شعوری اور جہالت وناخواندگی کی وجہ سے جو جتنا کرپٹ اور جاہل ہوتا ہے ملک کا حکمران بن جاتا ہے۔ اور لوگ اس کی برائی کی وجہ سے اس کی عزت کرتے ہیں۔ جبکہ اوائل دور کے حکمران حکومت کو بہت بڑی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ اس ذمہ داری کو لیتے ہوئے ڈرتے تھے کہ اگر وہ ذمہ داری کو احسن انداز سے نبھا نہ سکے تو کل کو اللہ کے حضور ان کی پکڑ ہوگی۔ اس کے برعکس آج کے لوگ صرف دنیا کمانے کے لئے حکمرانی کرتے ہیں کہ سہولیات مل جائیں گی اور اقتدار ہوگا تو ہر چیز ہماری دسترس میں ہوگی۔ وہ سیاہ و سفید کریں گے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا اور عوامی فلاح کی بجائے پیسے کو ایسے عوامل پر صرف کریں گے جس سے زیادہ سے زیادہ دنیاوی منفعت مل جائے گا۔ ایسے لوگ اپنے نتائج سے بے خبر ہیں اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ جب وہ پکڑتا ہے تو جتنے بڑے عہدے پر کوئی فائز ہے اس کی گرفت بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے۔ لہذا نافرمان حکمران یہ نہ سمجھیں گے کہ ہم تو عیش میں ہیں بلکہ دراصل اللہ نے انہیں ڈھیل دے رکھی ہے تاکہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔ وہ ذات جو سب سے بلند و بالا ہے جب وہ کسی کی گرفت کرتی ہے تو اس کی موت کو عبرت بنادیتی ہے تاکہ لوگ اس سے سبق حاصل کرسکیں۔ جیسے فرعون کو اس کی قوم سمیت غرق کرکے قیامت تک کے لئے اسے ہمارے لئے عبرت کا نشان بنادیا گیا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ریاستی جبر کی وجہ سے بہت سے گھروں کے چراغ گل ہوگئے۔ ان کے گھروں میں ویرانی چھاگئی۔ ان کا کوئی کفیل نہ رہا مگر ان کی کفالت کا ذمہ تحریک منہاج القرآن نے لیا۔ شہداء کے ورثاء کو گھر دیئے۔ ان کے کاروبار کا بندوبست کیا۔ بچوں کی کفالت کا ذمہ اٹھایا اور تعلیمی اخراجات کو پورا کیا۔ اس کے برعکس شہداء کے ورثاء کو حکومت نے رشوت دینے کی کوشش کی کہ وہ اپنے منہ بند کرلیں لیکن ان جانثار رفقاء نے ان کی دی ہوئی رشوت کو لات مار دی کہ وہ اپنے شہیدوں کے خون کا سودا نہیں کریں گے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے گواہان کی صورتحال یہ ہے ان کو ایک پیشی کے بعد دوسری پر بلالیا جاتا ہے لیکن فیصلہ نہیں کیا جاتا صرف ٹال مٹول کیا جارہا ہے۔ گویا کہ ظلم کی مدد کی جارہی ہے مظلوم کی اس ملک میں کوئی شنوائی نہیں۔ حدیث مبارکہ ہے جس کسی نے ظالم کی مدد کی گویا اس نے غضب الہٰی خود اپنے سر پر لے لیا۔ دوسرا یہ کہ کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں۔ لہذا ظالم حکومتِ وقت غضب الہٰی کو آواز دے رہی ہے۔ لیکن وہ دن دور نہیں جب یہ مجرمین تختہ دار پر پہنچیں گے اور بے گناہ شہیدوں کے لہو کا قصاص لیا جائے گا۔ اللہ دشمنوں کو ضرور بے نقاب کرے گا اور مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچائے گا۔