انتظامی خرابی، کمیونیکیشن چینل کی عدم دستیابی، نابالغ الذہن قیادت، قوت فیصلہ سے محروم اور بادشاہی کا خواب دیکھنے والی پولیس، نامکمل ڈھانچہ، لاعلم اور غیر تربیت یافتہ پولیس اور ان سے بڑھ کر ان کے افسران یہ ساری انتظامی بربادی کی نشانیاں ہیں جو بلاشبہ اس سسٹم کا حصہ ہیں جو برسوں سے پاکستان میں رائج ہے۔ اسی کمزور اور بانجھ سسٹم کے خلاف ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اصلاحی بیڑہ اٹھایا تو یہ فرعون صفت حکمران راہ کی دیوار بننے کو تیار ہوگئے۔ اس اصلاحی و انقلابی بیڑے میں جب لاکھوں باشعور عوام نے ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو مسندِ اقتدار پر مسلط حکمرانوں کو بے حد تشویش لاحق ہوئی اور یقینا ان فرعون صفت حکمرانوں کو خون ریزی کے علاوہ کوئی اور دوسرا منصوبہ سمجھ نہ آیا اور اسی منصوبے کے تحت قانونی بیریئرز کو غیر قانونی طریقے سے ہٹاتے ہوئے لے پالک پولیس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 90 سے زیادہ لوگوں کو شدید زخمی اور 14 بے قصور لوگوں کو قتل کیا جس میں 2 خواتین بھی شامل تھیں۔ داعیان امن و محبت اور دہشت گردی کے خاتمے کا دم بھرنے والے حکمران اور بنت حوا کی پاسبان پولیس نے اپنے ہی ملک کی غریب مفلوک الحال اورنہتی بہنوں کو سر عام گولیاں ماریں۔ اسلام کا قلعہ کہلانے والی ریاست کے اندر ریاست کے حواریوں نے باپردہ عوتوں کی بے پردگی کی وہ مثال قائم کی کہ یہود و ہنود بھی پیچھے رہ گئے۔
انقلاب سے خائف حکمرانوں کے چمچوں نے قانونی بیریئرز کو غیر قانونی طریقے سے ہٹاتے ہوئے اپنے اعلیٰ افسران کو 14 جانوں کا نذرانہ پیش کیا تو دل ہی دل میں انہوں نے خوشی کے بھنگڑے ڈالے مگر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ایک کمیشن کے قیام کا فیصلہ کردیا۔ جسے پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ان کے کارکنان نے یکسر مسترد کردیا۔ یہ کمیشن حکومتی ایف آئی آر، حکومتی گواہ، حکومتی وکیل اور حکومتی جج پر مشتمل تھا اور پھر اچانک انجانے خوف کے تحت حکومت نے اپنے ہی مقرر کردہ کمیشن کے سربراہ کے اختیارات کو محدود کردیا۔ کمیشن نے رپورٹ بناکر پیش کی تو حکومت کو اس رپورٹ کو چھپاتے ہوئے دوسر اکمیشن ترتیب دینا پڑا۔
مختلف حیلوں اور بہانوں سے یہ کیس آج تک لٹکا ہوا ہے۔ ان کم ظرف اور ظالم حکمرانوں نے شہیدوں کے ورثاء اور لواحقین کو خریدنے کی ہر طرح سے کوشش کی۔ لاکھوں روپے کی پیشکش نوکریاں اور بہت کچھ مگر قربان جائیں ان عظیم کارکنان کے جنہوں نے یہ سب جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے دیت نہیں قصاص کا نعرہ بلند کیا۔ تنزیلہ امجد شہیدہ اور شازیہ مرتضیٰ شہیدہ کے بھائیوں کا کہنا ہے کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہماری پولیس کبھی ہماری عورتوں پر بھی گولیاں چلائے گی کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی قانون کے محافظوں کی طرف اس بے دردی سے مردوزن پر سیدھی گولیاں نہیں چلائی گئی تھیں لیکن موجودہ حکومت نے درندگی میں چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھی مات دے دی۔ ہم ان کے حکمرانوں کی طرف سے پیش کی گئی امدادی رقوم ٹھکراتے ہیں اور قانون کے مطابق قصاص کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تنزیلہ شہیدہ کے بچے آنکھوں میں نمی لئے اقتدار پر مسلط حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں کہ آخر ان کی ماں کا قصور کیا تھا؟ جواب میں حکومت شاید ہی یہ کہہ پائے کہ ان کا قصور یہ تھا کہ ان کی آنکھوں نے حقیقتاً خوشحال پاکستان کے خواب دیکھے تھے انہوں نے اس خواب کی تعبیر کی طرف قدم اٹھائے تھے جس خواب میں پاکستان کرپشن، دہشت گردی، مہنگائی اور ظلم سے پاک تھا ان بہنوں کا قصور یہ تھا کہ یہ قائداعظم کے افکار اور تصور اقبال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس قوم کا شعور بیدار کررہی تھیں۔ ہم ان سب شہداء کے ورثاء کو سلام پیش کرتے ہیں۔ جنہوں نے مصطفوی انقلاب کی خاطر جانوں کا نذرانہ دینے والے شہیدوں کے خون کا سودا کرنے کی بجائے قصاص کا مطالبہ کیا۔ بہت حق اور باطل کے معرکے میں بہت کم لوگ حق کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر ان بہت کم لوگوں میں سے بھی چند لوگ ماتھے کا جھومر بنتے ہیں۔ ان سب گھرانوں کو صدبار مبارکباد جن کو مولا نے اس عظیم قربانی کے لئے چنا اور وہ راہ استقامت پر قائم رہے اور نوید ہو ان سب ورثاء و لواحقین کے لئے کہ انقلاب کا سورج جلد طلوع ہونے کو ہے۔ کیونکہ قدرت کا قاعدہ ہے کہ جہاں فرعون جیسے ظالم حکمران دندناتے پھرتے ہیں وہیں موسیٰ علیہ السلام جیسے رہبر و رہنما بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ہمیں فقط ناامیدی کو ختم کرکے امید اور یقین کے دیپ جلاکر اس روشنی کو عام عوام تک بانٹنا ہے پھر انقلاب کی راہیں متعین کرنا رب کائنات کا کام ہے۔
نہیں ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی