محمد احمد طاہر
رمضان المبارک، دینی و روحانی حیثیت سے سال کے بارہ مہینوں میں سب سے مبارک اور افضل مہینہ ہے۔ رمضان المبارک انفرادی و اجتماعی تربیت کا ایسا عملی نظام ہے جس میں رضائے الہٰی کے لئے ایثار و قربانی، برداشت، صبر، حوصلہ، استقامت اور بھوک، پیاس میں غرباء و مساکین کے ساتھ شرکت کا احساس جاگزیں ہوتا ہے۔ یہی وہ اوصاف ہیں جب ایک مومن کی شخصیت کا خاصہ بنتی ہے اور بندے کا خالق و مخلوق سے رشتہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔
رمضان کا مہینہ نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ اس مبارک مہینے میں عام معمول سے زیادہ نیک اعمال کرنے چاہئیں۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مہینے کے اندر کئے گئے اعمال کا اجر ستر گنا دیئے جانے کی خوشخبری دی ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت یہ تمنا کرے کہ سارا سال رمضان ہی ہوجائے۔
محققین، مورخین اور بزرگان دین نے لفظ رمضان کی بہت سی توجیہات بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک دلنشیں وضاحت یہ بھی ہے کہ رمض موسم برسات کی تیز بارش کو بھی کہا جاتا ہے۔ گویا رمضان المبارک انوار و تجلیات سے معمور روحانی بارشوں کا مہینہ ہے۔ جہاں یہ ماہ مقدس روحانی اعتبار سے اس قدر ومنزلت کا حامل ہے وہاں تاریخی اعتبار سے بھی اس میں تاریخ اسلام کے بے مثال لمحات چھپے ہوئے ہیں۔
ذیل میں اس ماہ مقدس سے جڑے ہوئے چند اہم تاریخی واقعات کا ذکر کیا جائے گا:
- 3 رمضان المبارک حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کا یوم وفات
- 10 رمضان المبارک ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا یوم وفات
- 15 رمضان المبارک حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا یوم ولادت
- 17 رمضان المبارک حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یوم وصال
- اس کے علاوہ غزوہ بدر بھی 17 رمضان المبارک کو ہوا تھا۔
- 21 رمضان المبارک حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت
- 27 رمضان المبارک (شب قدر) کو قرآن مجید نازل ہوا اور ہمارا پیارا پاکستان معرض وجود میں آیا۔
3 رمضان المبارک۔۔۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا یوم وفات
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فاطمه بضعة منی، فمن اغضبها اغضبنی
’’فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا‘‘۔
(بخاری، الصحيح، 3: 1361، رقم: 3510)
آپ رضی اللہ عنہا حضور نبی رحمت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے چھوٹی بیٹی، حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ اور مولائے کائنات حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ حضرت سیدہ کائنات فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا اسم گرامی فاطمہ ہے۔ کنیت بنت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور القاب بتول، زہرا اور سیدہ ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری بیٹی کا نام فاطمہ اسلئے رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس سے محبت رکھنے والوں کو دوزخ سے الگ تھلگ کردیا ہے۔
(ديلمی، الفردوس بما ثور الخطاب، رقم: 1385)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ رضی اللہ عنہا کے بارے میں خود بیان کیا ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کائنات میں کسی کو افضل نہیں دیکھا‘‘۔
(مجمع الزوائد، 9: 201)
اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک اور روایت ہے کہ جب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کو خوش آمدید کہتے اور کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بوسہ دیتے اور انہیں اپنی نشست پر بٹھالیتے۔
(حاکم، المستدرک، 3: 167، رقم: 4732)
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو فرماکر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہوتیں۔
(ابوداؤد، السنن، 4: 87، رقم: 4213)
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عورتوںمیں سب سے زیادہ محبت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے تھی اور مردوں میں سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ محبوب تھے۔
(ترمذی، الجامع الصحيح، 5: 698، رقم: 3868)
سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری بیٹی کی سیرت پر ہماری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کو بھی عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد آپ اکثر بیمار رہنے لگ گئیں اور بالآخر 3 رمضان المبارک کو اپنے خالق حقیقی سے ملیں۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور رات کو جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔
(رياض النضره فی مناقب العشره مبشره، ج1، ص152)
10 رمضان المبارک۔۔۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا یوم وفات
ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں۔ انہیں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی زوجہ محترمہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان کے والد کا نام خویلد بن اسد تھا جوکہ قریش کے بہت مالدار سردار تھے۔ ان کی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی۔ انہوں نے اپنا کاروبار تجارت اور مال اپنی وفات سے پہلے اپنی اس ذہین اور معاملہ فہم بیٹی کے سپرد کردیا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے گھر بیٹھے اپنی ذہانت و قابلیت اور معاملہ فہمی کی بدولت اپنی تجارت کو چار چاند لگادیئے۔ کبھی کبھار وہ قسمت و مقدر کے بارے میں سوچا کرتیں کہ پتا نہیں خدا کو کیا منظور ہے۔ ایک طرف اللہ نے انہیں بھائیوں سے محروم کردیا تو دوسری طرف انہیں ازدواجی زندگی میں پے درپے صدمات برداشت کرنا پڑے۔ ان کے پہلے خاوند ابو ہالہ بن زرارہ تھے جو شادی کے کچھ ہی عرصے بعد فوت ہوگئے۔ ان سے ان کے دو بیٹے تھے۔ ان کی دوسری شادی بنو مخزوم کے بہت خوش خلق نوجوان عتیق بن عابد سے ہوئی لیکن وہ بھی نہایت مختصر عرصے بعد داغ مفارقت دے گئے۔ ان سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو صحابیہ بھی ہیں اور ان کانام ہند رضی اللہ عنہا بیان کیا گیا ہے۔
(روشن قنديلين، حافظ محمد ادريس، ص22)
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کل سات بچے عطا فرمائے تھے۔ ان میں حضرت سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ جو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے۔ باقی سب بچے حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے۔ یہ بھی کمال ہے کہ اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو بیٹے اور چار بیٹیاں اس عظیم خاتون سے مرحمت ہوئیں لیکن دونوں بیٹے قاسم اور عبداللہ بچپن ہی میں اللہ نے واپس لے لئے جبکہ بیٹیاں حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا، سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہن جوانی کی عمر کو پہنچیں۔
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
خير نسائها خديجة بنت خويلد و خير نسائها مريم بنت عمران.
’’(اپنے زمانہ کی عورتوں میں) سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد ہیں، اور (اپنے زمانہ کی عورتوں میں) سب سے افضل مریم بنت عمران ہیں‘‘۔
(ترمذی، الجامع الصحيح ، 5: 702،رقم: 3877)
اسی طرح حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھے جتنا رشک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر ہوا اتنا نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی دوسری زوجہ پر نہیں ہوا۔ حالانکہ میں نے ان کا زمانہ نہیں پایا۔ اس رشک کی وجہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انہیں کثرت سے یاد کرنا ہے۔ اگر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بکری ذبح کرتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر گوشت کا ہدیہ بھیجتے۔ (ترمذی، الجامع الصحیح، رقم الحدیث:3876)
نکاح کے بعد پچیس برس حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں رہیں اور نبوت کے دسویں سال پینسٹھ برس کی عمر میں انتقال فرمایا۔ ان کے انتقال پر حضور اقدس صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود قبر مبارک میں اتر کر ان کو دفن فرمایا تھا۔
حضرت عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر کہتے ہیں جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابوطالب کا انتقال ہوگیا تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باہر جانا بہت کم کردیا اور گھر میں ہی قیام فرمارہے تھے۔ ادھر قریش کو ایذا رسانی کا وہ موقعہ ہاتھ آگیا جو انہیں کبھی میسر نہیں ہوا تھا اور نہ ہی وہ اس کی امید کرسکتے تھے۔
(الوفاء، امام عبدالرحمن ابن جوزی، ص258)
15 رمضان المبارک۔۔۔ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کا یوم ولادت
3 ہجری میں 15 رمضان المبارک کو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت ہوئی، آپ رضی اللہ عنہ حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی پہلی اولاد تھے۔ قُرب ولادت کے وقت حضور رحمت عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام ایمن اور حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو سیدہ عالم کی دیکھ بھال کے لئے مامور کیا۔ انہوں نے آیت الکرسی اور تینوں معوذ پڑھ کر ان کو دم کیا، بچے کی ولادت ہوئی تو حضور سرور دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساتویں دن نومولود کے عقیقے کے موقع پردو دُنبے ذبح کئے اور اپنی پیاری بیٹی سے فرمایا کہ بچے کے سر کے بال اتروائیں اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات کریں۔ جب آپ کا سر منڈا کر بالوں کا وزن کیا گیا تو یہ وزن ایک درہم کے برابر تھا۔ اتنی چاندی خیرات کی گئی۔ دایہ کو دنبے کی ران اور ایک دینار دیا گیا۔ سرمنڈانے کے بعد حضور رحمت عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے نومولود کے سر پر خوشبو ملی اور اسی دن آپ کا نام رکھا گیا اور ختنہ کیا گیا۔ علاوہ ازیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی آپ کے کان میں اذان کہی تھی۔ (سیرۃ الرسول، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، ص:174)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن علیہ السلام سینہ سے سرتک رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہہ ہیں اور حضرت حسین علیہ السلام سینہ سے نیچے تک حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہہ ہیں۔
(جامع الترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3779)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک میں تھے اور وہ اپنی انگلیاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک میں ڈال رہے تھے اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں ڈالتے اور فرماتے:
اللهم انی احبه فاحبه.
’’اے اللہ! میں اسے محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے محبوب رکھ‘‘۔
(صواعق، ص: 467)
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا۔ راوی فرماتے ہیں کہ بیٹے سے مراد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ہیں۔
(جامع الترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3773)
17 رمضان المبارک۔۔۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یوم وصال
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ آپ کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور حمیرا، خطاب ام المومنین اور کنیت ام عبداللہ ہے چونکہ آپ رضی اللہ عنہا صاحب اولاد نہ تھیں اس لئے آپ رضی اللہ عنہا نے اپنی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے اور اپنے بھانجے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے نام پر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اپنی کنیت ام عبداللہ اختیار فرمائی۔
(ابو داؤد، السنن، کتاب الادب)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بچپن ہی سے نہایت ہی ذہین و فطین، عمدہ ذکاوت اور بہترین قوت حافظہ کی مالک تھیں۔ حضرت امام زہری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں۔ بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ان سے مسائل وغیرہ پوچھا کرتے ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آئی جس کو ہم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی معلومات ہمیں نہ ملی ہوں۔
(جامع الترمذی، کتاب المناقب)
آپ رضی اللہ عنہا اکثر دن کو روزے سے ہوتیں اور ان کی رات نوافل ادا کرتے مصلے پر گزرتی، زہدو ورع، تقویٰ و پرہیزگاری میں وہ اپنی مثال آپ تھیں۔ اطاعت، عبادت اور ریاضت کا جوہر اُن کی سرشت میں شامل تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں ان کی گزر اوقات کے لئے ان کا گزارہ الائونس مقرر کررکھا تھا لیکن آپ کو جو ملتا وہ مستحقین میں تقسیم فرمادیتیں۔
(سيرة الرسول، داکتر محمد طاهرالقادری، ج6، ص114)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا: عائشہ (رضی اللہ عنہا)۔
(جامع ترمذی، ابواب المناقب)
58ھ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر 67 سال ہوچکی تھی۔ اسی سال ہی رمضان المبارک میں آپ بیمار ہوئیں۔ علالت کا سلسلہ چند روز جاری رہا۔ علالت کے دوران کوئی مزاج پرسی کرتا تو فرماتیں اچھی ہوں۔
(طبقات ابن سعد)
آپ رضی اللہ عنہا 17 رمضان المبارک 58 ہجری کو رات کے وقت فوت ہوئیں۔ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ رضی اللہ عنہا کو آپ کی وصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
17 رمضان المبارک۔۔۔ غزوہ بدر
اسلام اور کفر کی پہلی جنگ بدر کے مقام پر لڑی گئی اور اس بناء پر تاریخ اسلام میں اسے جنگ بدر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بدر کی لڑائی سب سے زیادہ مہتم بالشان لڑائی ہے۔ اس معرکہ میں مقابلہ بہت سخت تھا۔ ایک طرف غرور اور تکبر میں مبتلا اسلحہ اور طاقت سے لیس لشکر کفار تھا جو تعداد میں بھی زیادہ تھا اور ظاہری اسباب اور وسائل بھی بہت زیادہ تھے جبکہ دوسری جانب مسلمانوں کی تعداد انتہائی قلیل یعنی صرف 313مجاہدین جن میںنوجوان صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ بزرگ اور بچے بھی شامل تھے۔ مسلمانوں کے پاس صرف تین گھوڑے، چھ نیزے اور آٹھ تلواریں تھیں جبکہ سواری کے لئے 70 اونٹ تھے جبکہ لشکر کفار میں ایک ہزار کے لگ بھگ فوج، سو گھوڑے، سات سو اونٹ اور لڑائی کا کثیر سامان موجود تھا۔
مورخین اس معرکہ کو غزوہ بدرالکبریٰ اور غزوہ بدرالعظمیٰ کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن رب قدوس نے اپنی کتاب مقدس میں اسے یوم الفرقان سے ملقب فرمایا ہے۔
غزوہ بدر کے موقع پر سرکار دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار و مہاجرین کو جمع فرمایا اور دریافت فرمایا کہ کون ہے جو اللہ پاک کی راہ میں اپنی جان کو قربان کرنے کا جذبہ رکھتا ہے تو سب سے پہلے مہاجرین کی طرف حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے اپنی خدمات پیش کیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ہادی برحق! ہمارے جان و مال اور اولاد سب کچھ آپ پر قربان۔
غزوہ بدر شروع ہونے سے پہلے مشرکین مکہ کے دو سرداروں نے مسلمانوں کے خلاف دعائیں مانگیں جبکہ نصر بن حارث جو یہ سمجھ رہا تھا کہ اس کی جماعت بہتر ہے، کی دعا کی تھی کہ اے اللہ دونوں جماعتوں میں سے بہتر کی مدد فرما۔ ان کے برعکس آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رب کائنات کی بارگاہ میں اپنی زندگی کا طویل ترین سجدہ کیا اور دعا فرمائی۔ اے اللہ کل اگر مسلمانوں کا مختصر سا یہ گروہ یہاں ختم ہوگیا تو پھر قیامت تک دنیا میں تیرا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا۔ اور اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اب اس وعدہ کو پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔
جنگ بدر میں کفار مکہ کے ستر سردار جہنم واصل ہوئے اور 70 کافر قید ہوئے۔ علاوہ ازیں 14 صحابہ کرام رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح سے کفار کی کمر ٹوٹ گئی۔ ان کا غرور خاک میں مل گیا اور اسلام کو تقویت ملی۔
21۔ رمضان المبارک۔۔۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دعوت اسلام دی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جن کی عمر دس سال کے لگ بھگ تھی اور آپ نے فوراً اسلام قبول کرلیا تھا۔ ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔
(جامع الترمذی، رقم: 3735)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حجفہ میں غدیر خم کے مقام پر تھے، جب نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر فوراً فرمایا:
من کنت مولاه فعلی مولاه.
’’جس کامیں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے‘‘۔
(ابن ابی شيبه، المصنف، رقم: 12121)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں شہرِ علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے۔
(المعجم الطبرانی، 11: 55)
اسی طرح ایک اور روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں حکمت کا گھر ہوں اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہیں۔
(جامع الترمذی، کتاب المناقب، 5: 637)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں (اس طرح جڑے رہیں گے اور) جدا نہیں ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر مل کر میرے پاس آئیں گے۔
(المستدرک للحاکم، 3: 121)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حسن و حسین جنت کے جوانوں کے دو سردار ہیں اور ان کے باپ (علی) ان دونوں سے بہتر ہیں۔
(ابن ماجه، 1: 44)
آپ رضی اللہ عنہ سے 11586 احادیث مروی ہیں۔ فقہ اور اجتہاد میں آپ رضی اللہ عنہ کو خاص مقام حاصل تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ چار سال نو ماہ تک منصب خلافت پر فائز رہے۔ 19 رمضان المبارک 40 ھ 660 ء کو جب آپ فجر کی نماز کوفہ کی مسجد میں پڑھارہے تھے تو ایک خارجی عبدالرحمن ابن ملجم آپ پر زہر آلود خنجر سے حملہ آور ہوا۔ آپ کو کئی زخم آئے جس کے نتیجے میں 21 رمضان المبارک کو جام شہادت نوش فرمایا۔
27 رمضان المبارک۔۔۔ نزولِ قرآن کی رات
وہ راتیں جو فضیلت کی حامل ہیں اور جن میں کی گئی عبادت کو افضل قرار دیا گیا ہے وہ پندرہ ہیں۔ ان راتوں میں سے اعلیٰ اور اولین درجہ جس شب کو حاصل ہے وہ شب قدر ہے۔ قرآن میں اس کی عظمت و شرف کا بیان اس طرح ہوا ہے:
انا انزلناه فی ليلة القدر.
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا۔
(القدر، 97: 1)
اسی سورۃ میں اشارہ فرمایا: شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یہی وہ عظیم رات ہے کہ یہ رات صرف امت محمدیہ کو نصیب ہوئی ہے، اس سے قبل کسی بھی امت کے نصیب میں نہیں تھی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کو لیلۃ القدر عطا فرمائی ہے جو کہ پہلی امتوں کو نہیں ملی‘‘۔
(ديلمی، مسند الفردوس، رقم: 647)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہوا تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔
(صحيح البخاری)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور فرماتے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کو تلاش کرو۔ (متفق علیہ)
یہ امر قابل غور ہے کہ بعض کو بعض پر فضیلت دینا سنت الہٰیہ ہے۔ راتوں میں لیلۃ القدر، دنوں میں جمعۃ المبارک، جگہوں میں کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی اور ان سے بڑھ کر گنبد خضریٰ میں مزار اقدس کی جگہ اور کل مخلوق میں سرکار دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو فضیلت حاصل ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ اگر میں لیلۃ القدر کو پالوں تو کیا کہوں؟ (اس کے جواب میں) آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح کہو:
اللهم انک عفو تحب العفو فاعف عنی.
’’اے اللہ! تو معاف فرمانے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے پس تو مجھے معاف فرمادے‘‘۔
(جامع ترمذی، کتاب الدعوات، رقم: 3513)