سیدنا صدیق اکبرؓ عبقری شخصیت تھے وہ نہایت مستحکم ایمان کے حامل اور انتہائی بلند اخلاق کے مالک تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے بچپن کے دوست اور ساتھی تھے۔ سب سے پہلے ایمان لانے والے خوش نصیب تھے۔
نام و نسب:
سیدنا صدیق اکبرؓ کا نام عبداللہ اور کنیت ابوبکر تھی والد کا نام عثمان بن ابو عامر تھا اور کنیت ابوقحافہ تھی۔ قریش کے دس معزز ترین گھرانوں میں سے بنو تیم بن مرہ سے تعلق رکھتے تھے۔
سیدنا صدیق اکبرؓ کا نسب ساتویں پشت میں رسول اللہ ﷺ سے جاملتا ہے۔ آپ بہت خوبیوں والے انسان تھے۔ آپ کے متعدد القاب ہیں اور ہر لقب آپ کی کسی خوبی کی عکاسی کرتا ہے۔ ’’عتیق‘‘، ’’صدیق‘‘، ’’اتقی‘‘ اور ’’اواہ‘‘ آپ کے مشہور القاب ہیں۔
مکہ مکرمہ میں بنو تمیم بن مرہ جو سیدنا صدیق اکبرؓ کا قبیلہ تھا، خون بہا اور دیتیں جمع کرنے پر مامور تھا جب صدیق اکبرؓ عالم شباب کو پہنچے تو خون بہا اور دیتیں جمع کرنے کی خدمت ان کے سپرد کردی گئی۔ خون بہا کے اموال انہی کے پاس جمع ہوتے تھے قریش کو ان پر اعتماد تھا۔
نسل در نسل صحابہ:
سیدنا صدیق اکبرؓ کے گھرانے کو ایسا شرف حاصل ہوا جو اس گھرانے کے علاوہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ وہ خود بھی صحابی رسول تھے ان کے والد محترم ابو قحافہ بھی صحابی تھے۔ ان کے بیٹے حضرت عبدالرحمن بھی صحابی رسول تھے ان کے والد محترم اور عبدالرحمن کے بیٹے محمد بھی صحابیت کے شرف سے ہمکنار ہوئے۔ بیٹی سیدہ عائشہ اور سیدہ اسماء کے حوالے سے بھی انھیں یہ شرف حاصل ہے۔ اسی طرح سیدنا صدیق اکبرؓ کے علاوہ کسی کو یہ شرف حاصل نہیں ہے کہ اس کے والد، والدہ، اولاد سب مسلمان ہوں اور انہیں رسول اکرم ﷺ کے صحابی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہو۔
سیدنا صدیق اکبرؓ کی صفات حمیدہ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبرؓ سے نہ صرف ان کی قوم کے لوگ بہت محبت کرتے تھے بلکہ دوسری قوموں کے لوگ بھی آپ کے شرف و فضل اور عمدہ اخلاق کے معترف تھے۔ آپ کے علم، فن تجارت اور حسن سلوک کی وجہ سے لوگ بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ آپ کی خدمت میں آتے تھے۔ جب آپ قریش کے ناروا سلوک کی وجہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کرکے جارہے تھے تو ایک عرب سردار حارث بن یزید ابن الدغنہ نے آپؓ کے مکہ چھوڑنے پر انتہائی افسردگی اور غم کا اظہار کیا اور آپ کی صفات کو ان الفاظ میں بیان کیا۔
’’آپ محتاج لوگوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں، درماندہ اور غریب لوگوں کے قرض کا اور دوسرے لوگوں کا بوجھ اپنے سر لے لیتے ہیں، مہمان کی عزت اور خدمت کرتے ہیں اور حق کی راہ میں پیش آنے والے مصائب میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
ابن الدغنہ نے کہا: آپ جیسے اعلیٰ اخلاق کے لوگوں کو بستیوں سے نکلنا چاہیے نہ نکالا جانا چاہیے۔ میں آپ کو پناہ دیتا ہوں، آپ واپس تشریف لایئے۔ آپ نے ایسے معاشرے میں آنکھ کھولی تھی جہاں شراب، جواء اور بت پرستی عام تھی لیکن آپ نے اسلام سے پہلے ہی شراب کو اپنے اوپر حرام دے دیا تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ میں اپنی عزت اور اخلاق کو پراگندہ ہونے سے بچاتا تھا جو انسان شراب پیتا ہے اس کی عزت اور اخلاق ضائع ہوجاتے ہیں۔ جب یہ بات رسول خدا تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ابوبکر نے سچ کہا ہے، ابوبکر نے سچ کہا ہے۔‘‘
آپؓ بتوں کی پوجا سے بھی بیزار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی روشن عقل، سلیم فطرت اور عمدہ اخلاق کے باعث جہلاء والے ان تمام افعال سے بچائے رکھا جو عزت و کرامت اور اخلاق و کردار کو پراگندہ کرتے ہیں اور عقل سلیم و انسانی فطرت کے منافی ہیں۔
اسلام کے پہلے بے باک خطیب:
سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب 38 لوگ اسلام قبول کرچکے تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے رسول اکرم ﷺ سے اصرار کیا کہ علی الاعلان دعوت اسلام دیجئے۔ رسول خدا ابھی ایسا نہیں چاہتے تھے لیکن سیدنا صدیق اکبرؓ اصرار کرتے رہے اور خود اعلانیہ تبلیغ کے لیے باہر نکل آئے۔ مسجد حرام کے باہر تمام قبیلوں کے لوگ جمع تھے وہاں سیدنا صدیق اکبرؓ تقریر کے لیے اٹھے اور لوگوں کو علی الاعلان اسلام کی دعوت دی۔ اس طرح انھوں نے اسلام کے پہلے بے باک خطیب ہونے کا شرف حاصل کیا۔ مشرکین ان پر ٹوٹ پڑے اور انھیں بری طرح زدو کوب کیا۔
امت کے سب سے زیادہ رحیم و شفیق انسان:
سیدنا صدیق اکبرؓ اسلام کی دعوت کے لیے ایک عظیم سرمایہ تھے۔ آپ اخلاق فاضلہ، اوصاف حمیدہ اور نرم خوئی سے متصف قریش کے ہاں ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ اپنے حسن اخلاق کی بدولت ہی لوگ آپؓ کے گرویدہ تھے۔ رسول اکرم ﷺ نے آپ کے بارے میں فرمایا:
’’میری امت میں سے امت کے ساتھ سب سے زیادہ رحیم و شفیق شخصیت ابوبکر ہیں۔‘‘ (الجامع الصغیر)
سیدنا صدیق اکبرؓ دیگر صفات کے علاوہ بہادری میں بھی سب سے آگے تھے۔ حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ مجھے تو جب کسی نے لڑائی کی دعوت دی تبھی میں نے اس سے مقابلہ کیا لیکن سیدنا صدیق اکبرؓ بہادری میں ہم سب سے آگے تھے۔ ہم نے ایک غزوے میں نبی اکرم ﷺ کے لیے خیمہ نصب کیا۔ ہم نے کہا کہ رسول اکرم ﷺ کی حفاظت کون کرے گا تاکہ مشرکین میں سے کوئی آپؐ پر حملے کی جرات نہ کرسکے اللہ کی قسم صرف ابوبکر صدیقؓ ہی تھے جو اپنی تلوار لہراتے ہوئے آگے بڑھے جو بھی رسول اللہ کی طرف لپکتا ابوبکر اس پر بل پڑتے۔ یقینا آپ سب سے زیادہ شجاع تھے۔
حضرت علیؓ ے فرمایا کہ
’’اللہ کی قسم! ابوبکرؓ کی زندگی کی ایک گھڑی آل فرعون کے مومن کی پوری زندگی سے بہتر ہے۔ اس نے اپنے ایمان کو چھپایا اور ابوبکر سدیقؓ نے ڈنکے کی چوٹ پر اپنے ایمان کا اظہار و اعلان کیا۔‘‘
ابوبکر صدیقؓ تمام صحابہ میں صائب الرائے:
سیدنا صدیق اکبرؓ کو یہ مقام حاصل تھا کہ وہ ہر بات علی الاعلان ڈنکے کی چوٹ پر کرتے تھے۔ آپ تمام صحابہ کرامؓ سے بڑھ کر صائب الرائے اور عقل و دانش میں سب سے کامل تھے۔
حسب و نسب کے عالم:
سیدنا صدیق اکبرؓ حسب نسب اور تاریخ عرب کے بہت بڑے عالم تھے۔ آپ میں ایک خوبی یہ تھی کہ کسی کا نسب بیان کرتے وقت اس کا عیب ظاہر نہیں کرتے تھے بلکہ پردہ پوشی سے کام لیتے تھے۔ سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’ابوبکر قریش کے انساب کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں۔‘‘
مغفرت الہٰی کیلئے سیدنا صدیق اکبرؓ کا اشتیاق:
سیدنا صدیق اکبرؓ مسطح بن اثاثہؓ کی کفالت کیا کرتے تھے جب مسطحؓ نے سیدہ عائشہؓ پر تہمت لگانے والوں کا ساتھ دیا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے قسم اٹھائی کہ وہ مسطحؓ کو کبھی کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر وحی نازل فرمائی کہ
’’اور تم میں سے فضل اور وسعت والے، قرابت داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کومالی مدد مدد دینے کی قسم نہ کھائیں اور چاہیے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری مغفرت فرمائے اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
(النور: 31)
جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ آیت مبارکہ سنی تو فرمایا: اللہ کی قسم! میں تو یقینا اللہ تعالیٰ کی مغفرت کو پسند کرتا ہوں۔
چنانچہ آپ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی خاطر ہمیشہ مسطح کو خرچہ دوں گا۔ رسول اکرم ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب سیدہ عائشہؓ اور صدیق اکبرؓ تھے۔
سیدنا عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا عائشہؓ۔ میں نے کہا مردوں میں سے کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا عائشہ کا باپ یعنی ابوبکر صدیقؓ۔ آپؓ اللہ تعالیٰ کی معرفت میں سب سے بڑھ کر تھے۔
سیدنا صدیق اکبرؓ صحابہ کرامؓ میں سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کا علم رکھنے والے تھے اور سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھنے والے تھے۔ تمام امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ آپ تمام امت میں سب سے بڑے عالم تھے۔ علم و فضل میں اس برتری کی وجہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ آپ کی دائمی وابستگی ہے۔ آپ سفرو حضر میں ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتے۔ عشاء کی نماز کے بعد آپؐ کے ساتھ باتیں کرتے۔ مسلمانوں کے معاملات کے بارے میں رسول خدا سے گفتگو فرماتے۔ جب رسول خدا ﷺ صحابہ کرامؓ سے کوئی مشورہ طلب کرتے تو مجلس میں سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا جاتا اور اگر کوئی آپ کے مشورہ کے مخالف رائے کا اظہار کرتا تو آپ کی رائے کو ترجیح دی جاتی اور اس کی پیروی کی جاتی تھی۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ایمان کی عظمت:
حضرت ابوبکرہ ثقفیؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا: تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے؟ ایک آدمی نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک میزان نازل ہوئی اور اس میں آپ کا اور سیدنا ابوبکرؓ کا وزن کیا گیا تو آپ سیدنا ابوبکرؓ سے وزن میں بھاری رہے، پھر سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کا وزن کیا گیا تو سیدنا ابوبکرؓ کا پلڑا وزنی ہوا پھر سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کا وزن کیا گیا تو سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ سے بھاری ثابت ہوئے۔ پھر وہ میزان اوپر اٹھائی گئی۔ رسول اللہ ﷺ اس خواب سے کبیدہ خاطر ہوئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
’’یہ نبوت کی خلافت ہے پھر اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا بادشاہی عطا کرے گا۔‘‘
سیدنا حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر صدیقؓ کو جنت کے سب دروازوں سے بلایا جائے گا۔
کاتب وحی:
سیدنا صدیق اکبرؓ کا نام بھی کاتبین وحی صحابہ کرامؓ کی فہرست میں شامل ہے۔ آپ کے علاوہ اس فہرست میں سیدنا عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، زید بن ثابتؓ، عامر بن فہیرہؓ، عبداللہ بن ارقمؓ، ابی ابن کعبؓ، ثابت بن تمیسؓ، خالد بن سعیدؓ بن عاصؓ، حنظلہ بن ربیع الاسدیؓ، معلویہؓ اور شرجیل بن حسنہؓ کے نام شامل ہیں۔
قرآنی آیات کے مصداق:
تفسیری روایات کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیقؓ قرآن مجید کی کئی آیات کا مصداق میں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وہ ذات جو سچ لائی اور جس نے ان کی تصدیق کی یہ لوگ متقی ہیں۔‘‘
(الزمر: 33)
مشہور تفسیر کے مطابق سچ کے ساتھ مبعوث ہونے والے محمد ﷺ اور ان کی تصدیق کرنے والے ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ اسی طرح ایک اور ارشادی باری تعالیٰ ہے کہ
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔‘‘
(التوبه: 119)
یہ آیت غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے کعب بن مالک اور دیگر دو افراد کے بارے میں نازل ہوئی۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اپنی سستی کا اعتراف کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سچ کی برکت سے ان کی توبہ قبول کرلی۔ اس آیت میں الصادقین صحابہ کرامؓ کو کہا گیا اور مفسرین نے کہا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سچوں کے امام ہیں۔ اس لیے بالاولی وہ اس آیت کا مصداق ہیں۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے فضائل و مناقب کا خلاصہ/ حاصل کلام:
سیدنا صدیق اکبرؓ رسول خدا ﷺ کے محبوب ترین صحابی تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم تھا کہ سیدنا صدیق اکبرؓ کی شخصیت میں اعلیٰ قائدانہ صفات جمع ہوگئی تھیں مثلاً عقیدے کی سلامتی، علم شریعت سے کامل روشناسی، اللہ پر توکل، صدق، قناعت، شجاعت، مروت، زہد، ایثار و قربانی، مردم شناسی، معاونین کا حسن انتخاب، انکسار، دوسروں کی قربانی اور خدمات کو سراہان اور ان کا اعتراف کرنا، حلم، بردباری، صبر، عالی ہمتی، پختہ عزمی، قوی ارادہ، عدل و انصاف، مشکلات حل کرنے کا ملکہ، دوسروں کی تعلیم و تربیت اور قائدین کی تیاری کا فن آپ کی بہت اہم اور نمایاں خوبیاں ہیں۔
آپ کی بہت سی خوبیاں اس وقت ظاہر ہوئیں جب آپ خلیفہ بنے آپ نے اللہ کی توفیق سے حکومت اسلامیہ کی حفاظت کی اور فتنہ ارتداد کا قلع قمع کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہی امت اسلامیہ کو اس کے طے شدہ اہداف کی طرف گامزن کردیا۔