فنون لطیفہ، علم و ادب، تمدن اور کسی قوم کے تصور حیات کو ثقافت کہا جاتا ہے اور ہر قوم یا علاقہ اپنی ثقافت رکھتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اپنے تاریخی ورثہ کی اہمیت سے انکاری نہیں ہوتا کیونکہ کسی بھی قوم کی تاریخ اس کی طرزِ معاشرت، طرزِ تعمیر، تہذیب و تمدن اور بودوباش کی عکاس ہوتی ہے اور اپنی تہذیب و تمدن کی اہمیت سے انحراف اس معاشرہ کی شناخت کو ختم کردیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ثقافت یعنی معاشرتی رہن سہن اقوام کی پہچان بنتا رہا۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے ایسے رویوں پر کڑی تنقید کی جہاں قوم اپنے تہذیب و تمدن کو چھوڑ کر اغیار کی ثقافت کو اپناتی نظر آئی۔ بقول اقبال
تمہاری تہذیب خود آپ اپنے خنجر سے خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
گویا اپنی تہذیب و ثقافت کے مثبت پہلوئوں سے جڑے رہنا کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شجر اپنی جڑوں سے منسلک ہو تو مضبوط ہوتا ہے۔ لیکن یہاں پر یہ امر قابل غور ہے کہ زمانے کے بدلتے تقاضوں پر پورا اترنے کے لیے ضروری ہے کہ افرادِ معاشرہ تاریخی ورثہ میں موجود ثقافتی رنگوں میں سے صرف اُن رنگوں کو دورِ جدید میں زندہ رکھنے کی کوشش کریں جو افرادِ معاشرہ کی ترقی کے باعث ہیں اور ثقافت کے وہ منفی پہلو جن کی اصلاح ہونی چاہیے یا جو افرادِ معاشرہ کے لیے نقصان کا باعث بنتے رہے ہیں ان کو وقت کے ساتھ بدل دیا جائے یا سرے سے اُن سے نجات ہی حاصل کرلی جائے۔ بقول شاعر
اٹھو تہذیب سیکھو صنعتیں سیکھو ہنر سیکھو
وہ باتیں جن سے قومیں ہورہی ہیں نامور سیکھو
قومی ترقی کے ضمن میں دیکھا جائے تو یہ بات تو طے ہے کہ ثقافت کی صرف ان چیزوں کو فروغ دینا ٹھیک ہے جو تمام معاشرے کے لیے فائدہ کا باعث ہوں اور وہ منفی رسم و رواج جو کہیں ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کی راہ میں رکاوٹ بنتے نظر آتے ہیں اور کہیں ونی، قرآن سے شادی کے نام پر خواتین کے معاشی و معاشرتی حقوق سلب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یکسر ختم کردینے چاہئیں۔
علاقائی ثقافت جہاں اپنے اندر موسموں اور علاقائی تہواروں کی خوبصورتی رکھتی ہے وہیں پر بعض اوقات مخصوص علاقوں میں موجود اس ذہنیت کو بھی ظاہر کرتی ہے جو ہمارے دین سے دوری کا باعث ہے۔ نسلِ نو کو محض یہ کہہ کر علم کی روشنی سے محروم رکھنا کہ ہماری ثقافت گھروں سے باہر نکل کر علم کے حصول کی اجازت نہیں دیتی یا کسی بیمار کو یہ کہہ کر علاج سے محروم رکھنا کہ ہمارا طور طریقہ جدید سطور پر زندہ رہنا نہیں سکھاتا یا زندہ رہنے کے ان معیارات کو نہ اپنانا جو جدید سائنسی ترقی کی دین ہیں۔ کسی صورت ٹھیک نہیں۔
یہی وہ رویے ہیں جن کی بنا پر چند بیماریاں جو عالمی سطح پر ختم ہوچکی ہیں لیکن پاکستان میں ان کا وجود اب بھی باقی ہے اگر کوئی قاری اس کی مثال دیکھنا چاہتا ہے تو ’’پولیو‘‘ جیسا موزی مرض ایک واضح مثال ہے۔ چنانچہ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ ’’ثقافت کا فروغ‘‘ ممکن بناتے وقت یہ ضروری ہے کہ دیکھ لیا جائے کہ صرف اور صرف مثبت ثقافتی رویوں کا فروغ یقینی بنایا جائے گا۔
مثال کے طور پر مسلم ثقافت کے فروغ کی کاوشوں سے ہم اپنے معاشروں میں موجود محکوم طبقوں کو بھی بہتری کی جانب لاسکتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے جس منفی انداز میں خواتین کے حقوق کی بات کی جاتی ہے خواتین کے عالمی دن پر اس ساری منفی صورتحال کو بدلنے کا بہترین ذریعہ مسلم ثقافت کا فروغ ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مسلم ثقافت کے فروغ سے جہاں معاشرے میں موجود ہر طبقے کو اس کا حق ملنا شروع ہوجائے گا۔ وہیں ہمارے موجودہ معاشرہ میں موجود اس کوتاہی کا ازالہ بھی ہوگا جس کے تحت دکھاوا اورکھوکھلی روایات کو فروغ ملتا ہے۔ ایک جانب تو ثقافتی میلوں کے نام پر بڑے بڑے ہوٹلوں میں میلے سجائے جاتے ہیں اور دوسری جانب کتنے ہی گھر ایسے ہیں جن میں موجود بھوکے پیاسے بچوں کو غربت سے مجبور مائیں کھانا پکنے کا جھوٹ بول کر سلادیتی ہیں۔
یہ وہ کھوکھلی ثقافت ہے جو مسلمان بیٹیوں کے پردے کو ختم کرتی نظر آتی ہے۔ بقول اکبر الہ آبادی
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
بطور مسلم امت گویا ثقافت کے اندر صرف اور صرف وہ اصول زندہ رکھنے ہوں گے جو ہمیں دینِ اسلام سے جوڑے رکھیں۔ کوئی بھی ایسی رسم یا رواج جو احکاماتِ الہٰی کے منافی ہے اس کو تسلیم کرنے یا جاری رکھنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ ثقافتی ورثہ کے نام پر صرف اُن چیزوں کو اہمیت دی جائے جو ہماری اسلامی اقدار اور تعلیمات سے ہم آہنگ ہوں۔
جیسا کہ سر سید احمد خان نے تہذیب الاخلاق میں تہذیب کے حوالے سے لکھا ’’اس سے مراد انسان کے تمام افعالِ ارادی اور اخلاق اور معاملات اور معاشرت، تمدن اور صرفِ اوقات اور علوم اور ہر قسم کے فنون و ہنر کو اعلیٰ درجے کی عمدگی پر پہنچانا اور ان کو خوبی اور خوش اسلوبی سے برتنا جس سے اصلی خوشی اور جسمانی خوبی حاصل ہوتی اور وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز نظر آتی ہے۔‘‘
کلچر ایک بڑی اصطلاح ہے اس میں سماجی رویے اور اصول آتے ہیں جو انسانی معاشروں میں موجود ہوں۔ کلچر میں انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ برتائو کا سلیقہ شامل ہے اور اس میں وہ تمام اصول بھی شامل ہیں جو معاشرہ کے افراد ایک ساتھ زندہ رہنے اور زندگی بسر کرنے کے لیے خود وضع کرتے ہیں۔
یاد رہے، معاشرے میں جس طرح کے علوم کی تعلیم ہوگی اسی انداز کی ثقافت تشکیل پائے گی۔ اگر مجموعی سطح پر ’’خیر‘‘ پر مبنی علوم ہوں گے تو ثقافتی رنگ بھی حضرت انسان کی بھلائی پر مشتمل ہوں گے۔ لیکن اگر علوم کی بنیاد ’’شر‘‘ پر ہے تو پھر نتیجہ کے طور پر انتہائی منفی ثقافتی نمونے جنم لیں گے۔ اسی سلسلے میں ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں:
’’میتھیو آرنلڈ کہتا ہے کہ کلچر کی مثال ایسی ہے جیسے شہد کی مکھیوں کا چھتہ ہو، اس میں شہد بھی ہوتا ہے اور موم بھی۔ شہد میں شیرینی بھی ہے اور غذا بھی، دوا اور شفا بھی۔ چھتے میں جو موم ہوتا ہے اس سے شمع بنتی ہے،انسان کو نور علم اور شیرینی کردار دونوں کی ضرورت ہے۔
مندرجہ بالا گفتگو سے بآسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ثقافت کسی بھی علاقے یا معاشرے کی ہو اس کے فروغ کے اقدامات کرتے ہوئے صرف انہی ثقافتی زاویوں کو فروغ دینا چاہیے جو انسانیت کی بھلائی کا پہلو رکھتے ہیں۔ اگر علاقائی کھیلوں اور تہواروں کی بات کی جائے تو یہ بھی افرادِ معاشرہ کے پرسکون رہنے کے ضامن ہوتے ہیں اور امن کی علامت بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا فروغ معاشی وسائل میں اضافہ کا باعث بنتا ہے اور خوشحالی لے کر آتا ہے۔ حضرت اقبال کے الفاظ میں اس گفتگو کو سمیٹتے ہیں:
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ یہ صحرا یہ سمندر یہ ہوائیں
تھیں پیشِ نظر کل تک تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
تو پیرِ صنم خانۂ اسرار ازل سے
محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے
ان اشعار میں اقبال نے جس خوبصورتی سے ماضی کے تجربات سے فیض اٹھاتے ہوئے اپنی محنت شاقہ کے بل پر اپنے حال کو خوبصورت و خوشحال بنانے کی ترغیب دی ہے یہی انداز ثقافت کے فروغ کی اک کڑی ہے۔ بے شک انسان اشرف المخلوقات ہے اور اگر دین محمدی ﷺ کا فیضان اس اشرف المخلوقات انسان کو حاصل ہوجائے تو وہ مقام آجاتا ہے۔ جہاں تہذیب و ثقافت کے ضمن میں بھی تازہ جہان اپنے ہنر سے آباد کیے جاتے ہیں۔ بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ امر واضح ہوتا ہے کہ فروغ ثقافت کے اگر ثبت سطور پر اقدامات کیے جائیں تو یہ شعبہ زندگی معاشرہ میں رہنے والے افراد کو معاشی وسائل عطا کرتا ہے۔ مثلاً سیاحت سے منسلک ثقافت کا فروغ قومی معیشت میں نہایت مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ اسی طرح علاقائی دستکاری اور مخصوصی علاقائی لباس جہاں علاقائی ثقافت کی پہچان ہوتے ہیں وہیں تجارتی سطح پر ان کی تشہیر اچھے خاصے معاشی فائدوں کے حصول کا باعث بن جاتی ہے۔
شیخ الاسلام محترم جناب طاہرالقادری صاحب اپنی تصنیف اقتصادیات اسلام (تشکیل جدید) میں قرآن مجید کی سورۃ مبارکہ الزخرف آیت 43:32 کی روشنی میں فرماتے ہیں:
’’دنیوی زندگی کا دارو مدار اسباب معیشت پر ہے یہ وسائل افراد و اقوام میں تقسیم کرنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ہر کسی کو اسی کی حکمت و حکم کے مطابق رزق ملتا ہے۔ یہ وسائل اللہ تعالیٰ نے افراد و اقوام میں یکساں تقسیم نہیں کیے بلکہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ عطا کیا ہے۔ اس عدم مساوات میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ سب ایک دوسرے سے خدمت لیں ایک دوسرے کے محتاج بھی ہوں اور معاون بھی۔‘‘ (اقتصادیات اسلام، تشکیل جدید، ص: 68)
افراد معاشرہ کا مل جل کر باہمی تعاون سے زندگی گزارنے کا یہ تصور ہی اس تہذیب و ثقافت کی بنیاد بنتا ہے جس کے فروغ کی بات کی جاتی ہے۔ جہاں تک پاکستانی ثقافت کا تعلق ہے تو یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ہماری قومی و علاقائی ثقافت قدیم ہے اور یہ صدیوں پرانی ثقافت کبھی سندھی کلچر کے خوبصورت رنگ لیے نظر آتی ہے تو کہیں فلک بوس چوٹیوں کے سرد علاقوں کی بودوباش جھلکتی ہے۔ کہیں بیساکھی کے تہواروں کی صورت میں سونا اگلتے کھیت کھلیانوں کو پیش کرتی ہے تو دوسری جانب برف پوش پہاڑوں کے دامن میں ہونے والے ’’پولو‘‘ کے مقابلہ جات دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں یہ کھیل پاکستان کے شمالی علاقہ جات سکردو، لداخ، کارگل میں خاص مانا جاتا ہے اور اتنے سال گزرنے پر وہاں کا ثقافتی رنگ بن چکا ہے۔ چترال کا روایتی کھیل پولو جشن شندور میں جگمگ کرتا نظر آتا ہے اور وقت کے ساتھ وہاں کی ثقافت کا جزو بن چکا ہے۔
زمانہ قدیم سے ہی کھیل ہماری ثقافت کا بڑا حصہ رہے ہیں۔ لیکن تکلیف دہ امر یہ ہے کہ پاکستان کے روایتی کھیل جو ہماری علاقائی ثقافت کا خوبصورت جزو ہیں، اب نایاب ہونے لگے ہیں۔ گویا ہماری یہ ثقافتی روایات دور جدید کی چکا چوند میں گم ہورہی ہیں۔ مثلاً ہمارے پنجاب کے کھیت کھلیانوں سے منسلک دیہات کی ثقافت کا ایک رخ گلی ڈنڈا کا وہ کھیل بھی تھا جو ہر خاص و عام کھیلا کرتا تھا اور باعث تفریح ہوا کرتا تھا، چھوٹے بڑے اس کھیل کو خاصی توجہ سے کھیلتے تھے مگر ہماری علاقائی ثقافت کا یہ رنگ اب نایاب ہوتاجارہا ہے۔ علاقائی ثقافت سے جڑے یہ کھیل (گلی ڈنڈا، آنکھ مچولی، پٹھو گرم، کشتی، کبڈی، نیزا بازی، جھولے جھولنا، کشتی رانی، پتنگ بازی، بھنگڑے اور جھومر وغیرہ) ایسے تفریح موقع ہوا کرتے تھے جن کے لیے روپیہ پیسہ درکار نہ ہوتا تھا۔ لیکن دورجدید میں ہزاروں اور لاکھوں روپے سے خریدے جانے والے فون اور کمپیوٹر ان کی جگہ لے گئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دھرتی ماں کی مٹی سے جڑے ان ثقافتی رنگوں سے دور ہوکر اور مذہبی اور علاقائی تہواروں سے ہٹ کر جب ہم برقی آلات اور مصنوعی خوشیوں میں گم ہوجاتے ہیں تو نہ ہماری آنکھیں ٹھیک رہتی ہیں اور نہ ہی جیب میں پیسہ ٹکتا ہے۔
سارا وقت اینٹ پتھر سے بنی دیواروں میں بیٹھے رہنے سے جب ہمارا تعلق سرسبز و شاداب باغات، قدرتی نظاروں پرندوں کی چہکار اور تازہ ہوا سے ٹوٹ جاتا ہے تو پھر افراد معاشرہ مختلف ذہنی و جسمانی بیماریوں میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ماضی کے جھرونکوں میں ذرا جھانکیں تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ہمارے آبائو اجداد کا رہن سہن اور تہذیب و ثقافت، صحت مند اصولوں پر مشتمل تھی۔ صبح و شام چہل قدمی کرنا مساجد میں نماز پڑھنے کی باقاعدگی، بزرگوں کے پاس شام کو بیٹھنا اور دن بھر کے واقعات سناکر راہنمائی وصول کرنا، ہمسایوں کو اہمیت دیتے ہوئے ان کے دکھ سکھ میں ساتھ دینا، یہ سب گویا ہماری ثقافت کا حصہ اور پُرسکون زندگی کا راز تھا۔ لیکن
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
کے مصداق ہمیں دور حاضر میں ایسی بہت سی ثقافتی خوشیاں مفقود نظر آتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ثقافت سے جڑی وہ تمام روایات پھر سے تازہ کی جائیں جو خوشگوار معاشرتی زندگی میں معاون ہیں اور زندہ دل معاشروں کی پہچان ہوا کرتی ہیں۔ کیونکہ
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیسا کرتے ہیں