ایک حدیث مبارک کی روشنی میں دو لفظی الحاقی اصطلاح ’زہد و تقوی‘ سے مضمون کا آغاز کریں گے۔ لفظ زہد کا لغوی مفہوم ہمہ جہت عبادت گذاری اور لفظ تقوی کا لغوی مفہوم ہے: خشیتِ ایزدی، پرہیزگاری، پارسائی کا خوگر ہونا۔ اس کا عملی اِظہار یوں ہوتا ہے کہ زہد و تقوی کی روح کو اپنے اندر سمو لینا کہ خالصتاً خشیتِ ایزدی اور خوفِ الٰہی میں عبادت گذاری، پرہیزگاری، پارسائی کے ساتھ سعیِ مسلسل اور طلب جستجوئے مولا کو اپنی روح میں اس طرح جاں گزیں کر لیا جائے جیسے ہم رب العالمین کو دیکھ رہے ہیں۔
زہد و تقوی کی روح یہ ہے کہ متقی لوگ اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے آئینہ میں اس طرح بسر کریں کہ اُن کی زندگیاں اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰهِ کا مصداق بن جائیں، ایسا مصداق کہ جن کے لیے قرآن حکیم بذاتِ خود یہ فرما رہا ہے:
اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ.
(التوبة، 9: 7)
بے شک اللہ پرہیزگاروں کو پسند فرماتا ہے (محبت کرتا ہے)۔
سنن ابن ماجہ شریف کی حدیث مبارک میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو یوں نصیحت فرمائی:
’’تم دنیا سے بے رغبتی اختیار کرو، اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔ جو چیز لوگوں کے پاس ہو، اُس سے بھی بے رغبتی اختیار کرو تو لوگ تمہارے ساتھ پیار کریں گے۔‘‘
حدیث مبارک کا تفسیری جائزہ لیا جائے تو محبوبِ خدا محمد مصطفی ﷺ نے زاہد اور متقی کے لیے درج ذیل شرائط لازم قرار دی ہیں:
اول: اللہ سے شدید محبت کے دعوے دار متقی لوگ قطعی طور اس دنیا سے دل نہ لگائیں اور لوگوں کے مال و دولت سے قلبی طور پر بے نیازی کا اظہار کریں۔ یہی روگردانی اور اعراض کرنا زہد و تقوی ہے۔
دوم: سب سے زیادہ متقی اور زہدو ورع کا حامل وہ شخص گردانا گیا ہے جو قبر کا امتحان نہ بھولے اور دنیا کی محبت ترک کر دے اور باقی (یعنی آخرت) کو فانی (یعنی دنیا) پر ترجیح دے۔
سوم: اللہ رب العزت سے شدید محبت کا دم بھرنے والے متقی و پرہیزگار لوگ دنیا کے مال و مَتاع میں سے فقط ضرورت کے مطابق لے لیتے ہیں۔ وہ دنیا کی سحر انگیزی اور رنگینیوں میں کبھی مبتلا نہیں ہوتے اور نہ کبھی ان کی خواہش کو اپنے اوپر غلبہ پانے دیتے ہیں۔
یہی شرائطِ ثلاثہ حدیث نبوی ﷺ کی روح اور زہد و تقوی کی بنیاد ہیں۔
قارئین گرامیِ قدر! مجھے یقین ہے کہ میری یہ اِستدلالیہ نگارش کے بعد آپ کو قرآن کے آئینے میں فرید ملتؒ کا مقامِ زہد و ورع سمجھنے میں دقت نہ ہوگی۔
فرید ملت کی ساری زندگی اطاعت الٰہی اور اطاعت مصطفی ﷺ کے تحت عجز و انکساری میں گزری ہے۔ لاریب کہ آپ بندگی خدا کے عظیم خوگر تھے۔ رب العزت کے عباد الصالحین میں سے تھے! اگر میں کہوں کہ ’’آہ فغان نیم شبی کے باعث ہمیشہ بارگاہ ایزدی میں توبۃُ النصوح طلب کرنے، ساری رات آب دیدہ رہنے، مصلّے پر کھڑے کھڑے خشیتِ ایزدی کے باعث ہچکی کے بندھ جانے اور یہاں تک کے ساری ساری رات مالک یوم الدین کو منانے میں گزر جاتی‘‘ تو اس میں کچھ شک نہیں۔ بے شک وہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَلا عَلَیْهِمْ کی عملی تفسیر تھے۔ خدا تعالیٰ کے پسندیدہ اور نیک بندوں میں سے تھے۔
خالق کائنات نے قرآن مجید میں جن پسندیدہ عباد اور ناپسندیدہ عباد کی نشاندہی کی ہے، ملاحظہ ہو۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ.
(البقرة: 2: 165)
ایمان رکھنے والے لوگ اللہ سے شدید محبت رکھتے ہیں۔
پھر ارشاد ہوتا ہے:
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًاo
(الفرقان، 25: 63)
اور (خدائے) رحمن کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں۔
پھر فرمایا:
وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًاo
(الفرقان، 25: 64)
یہ (پسندیدہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کیلئے سجدہ ریزی اور قیام (نیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیں۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَا کَانَ غَرَامًاo
(الفرقان، 25: 65)
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو (ہمہ وقت حضورِ باری تعالیٰ میں) عرض گزار رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے دوزخ کا عذاب ہٹالے، بے شک اس عذاب کا بڑا مہلک (اور دائمی) ہے۔
آگے ارشاد فرمایا:
وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًاo
(الفرقان، 25: 67)
اور یہ (وہ) لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ ہی تنگی(کنجوسی) کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا (زیادتی اور کمی کی) ان دو حدوں کے درمیان اعتدال پر (مبنی) ہوتا ہے۔
پھر ارشاد فرمایا:
وَالَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ لا وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًاo
(الفرقان، 25: 72)
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو کذب و باطل کاموں میں (قولاً اور عملاً دونوں صورتوں میں) حاضر نہیں ہوتے اور جب بیہودہ کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو (اپنا دامن بچاتے ہوئے) نہایت وقار اور متانت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔
آخر میں ایک مقام پر ارشاد فرمایا ہے:
وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًاo
(الفرقان، 25: 74)
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو (حضورِ باری تعالیٰ میں) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا دے۔
جیسا کہ فرید ملت کی قبول دعا کے باعث آپ فرید ملت مجتہد وقت، مجددِ رواں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ تعالیٰ کے والد گرامیٔ قدر اتالیقِ اول‘ مربی شیخ اور رہنما ٹھہرائے گئے۔
اُولٰٓـئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْهَا تَحِیَّةً وَّسَلٰـمًاo
(الفرقان، 25: 75)
انہی لوگوں کو (جنت میں) بلند ترین محلات ان کے صبر کرنے کی جزاء کے طور پر بخشے جائیں گے اور وہاں دعائے خیر اور سلام کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا۔
جیسا کہ حضرت فرید ملت نے کشف القبور (مراقبۂ ملاقات) میں اپنے فرزندِ ارجمند شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ سے فرمایا: بیٹا طاہر! میں جنازہ پڑھانے کے بعد اس لیے مسکرا رہا تھا کہ خالق عظیم نے عرش و فرش کے درمیان حائل تمام پردے ہٹا کر اپنے بے پایاں فضل و کرم اورانوار و تجیات کی بارش فرما دی تھی اور یوں رب اور میرے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہا! اس لئے میں ملاء اعلیٰ کے نظارے سے اپنی روح کے استقبال کے نظاروں میں محو اور گم رہا تھا اور دس دن بعد ملاقات کی وجہ بھی یہی تجلیات و نظائر تھے! جیسے ہی فرصت ملی میں آپ کو ملنے چلا آیا ہوں۔
سورۃ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:
اَلصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِo
(آلِ عمران، 3: 17)
(یہ لوگ) صبر کرنے والے اور قول و عمل میں سچائی والے ہیں اور ادب و اطاعت میں جھکنے والے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں اور رات کے پچھلے پہر (اٹھ کر) اللہ سے معافی مانگنے والے ہیں۔
اللہ رب العزت نے مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں عباد الصالحین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ تکالیف پر صبر کرنے والے، سچے، با آدب، عبادت گزار، اُس کی راہ میں خرچ کرنے والے اور راتوں کو پچھلے پہر رب کے حضور سجدہ ریز ہوکر مغفرت طلب کرنے والے ہوتے ہیں۔ الصابرین، الصدقین، القٰنتین، المنفقین، المستغفرین بالاسحار میرے محبوب ہوتے ہیں اور میں انہیں اپنا دوست ٹھہراتا ہوں۔
یاد رہے کہ اولیاء و صالحین نیکی اور عملِ صالح نہ تو حصولِ جنت کے لیے کرتے ہیں اور نہ ہی اعمال مکروہہ اور سیئات و معصیات سے اس لیے باز رہتے ہیں کہ جہنم سے بچے رہیں بلکہ وہ صرف اور صرف رضاے رب رحمن کے لیے عبادات بجا لاتے ہیں۔ سورۃ آل عمران میں ہی ارشاد ہوتا ہے:
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo
(آل عمران، 3: 134)
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں میں) خرچ کرتے ہیں۔ یہ غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں درج ذیل لوگوں کو پسندیدہ بندے قرار دیا گیا ہے:
1۔ متقین: اللہ سے ہر وقت ڈرنے والے ہوتے ہیں۔
2۔ المنفقین: خوشی ہو یا غمی ہر حال میں اللہ کے حضور خرچ کرنے والے ہوتے ہیں۔
3۔ الکاظمین الغیط: غصہ پی جانے والے ہوتے ہیں۔
4۔ العافین عن الناس: لوگوں کو معاف کر دینے والے ہوتے ہیں۔
5۔ المحسنین: احسان کرنے والے ہوتے ہیں یعنی کہ ہمیشہ دوسروں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔
6۔ الذاکرین: ہر حال میں اللہ کا ذکر کرنے والے ہوتے ہیں۔
7۔ فاستغفروا اللہ ربکم: اپنے گناہوں سے توبۃ النصوح کرتے ہیں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔
سورۃ النساء آیت نمبر 6کی روشنی میں اللہ تعالیٰ نے محبوب بندوں کے لیے فرمایا ہے۔
1۔ الراسخون فی العلم: مومن اور خدا کے پسندیدہ محبوب بندگانِ علم میں پختہ ہوتے ہیں! (جیسا کہ عطش علم فریدِ ملت کو لڑکپن میں ہی پہلے سیالکوٹ اور پھر لکھنو (حیدر آباد) انڈیا) لے گئی۔
2۔ المومنون باللہ: اللہ پر ایمان لانے والے ہوتے ہیں۔
3۔ المومنون بالیوم الآخر: یومِ آخرت پر ایمان رکھنے والے ہوتے ہیں۔
خالق کائنات کے ناپسندیدہ لوگ:
جہاں خالقِ عظیم ہمیشہ قرآن مجید میں جابجا فرماتے ہیں کہ نیکو کار بندے میرے محبوبین اور میرے دوست ہیں! وہاں رب العالمین نے فرمایا ہے کہ میں ایسے لوگوں کو ناپسند فرماتا ہوں اور وہ قطعی میرے دوست نہیں ہوسکتے جو میرے احکامات نہیں مانتے۔ ایسے بندوں کے اوصاف مختلف مقامات پر بیان ہوئے ہیں۔ مثلا سوۃ البقرۃ میں ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo
(البقرة، 2: 190)
خدا حد سے بڑھنے والے لوگوں کو پسند نہیں فرماتا۔
سورۃ آل عمران میں فرمایا گیا ہے:
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللهَ لاَیُحِبُّ الْکٰـفِرِیْنَo
(آل عمران، 3: 32)
اللہ رب العالمین کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔
ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے:
وَاللهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَo
(آل عمران، 3: 57)
اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔
سورۃ النساء میں حکم ہوتا ہے:
اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاo
(النساء، 4: 36)
بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبر والا(مغرور) فخر کرنے والا(خود پسند) ہو۔
سورۃ النساء میں ہی فرمایا گیا ہے:
اِنَّ اللهَ لاَیُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًاo
(النساء، 4: 107)
خداوند عظیم خائن اور مرتکب جرائم کو پسند نہیں فرماتا۔
سورۃ المائدۃ میں فرمایا گیا ہے:
وَاللهُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَo
(المائدة، 5: 64)
اور خدا تعالیٰ فساد کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
سورۃ النحل میں فرمایا گیا ہے:
اِنَہٗ لَا یُحِبُ الْمُستَکْبِرِیْنَo
(النحل، 61: 23)
بے شک وہ سرکشوں متکبروں کو پسند نہیں فرماتا۔
مندرجہ بالا بدخصلتین جن بندوں میں ہوگی، اللہ رب العزت انہیں نہ تو پسند فرماتا ہے اور نہ ہی ان کو اپنا دوست رکھتاہے؛ بلکہ وہ تو بندہ کہلانے کے بھی حق دار نہیں ہیں۔
قارئین ذیشان! میرے ذاتی مشاہدہ کے مطابق قلندرِ وقت حضور فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ لاریب مذکورہ ذیل آیت کریم کے مصداق تھے۔
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
(آل عمران، 3: 104)
تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور بھلائی کا حکم دے اور بُرائی (ناپسندیدہ) کاموں سے منع کرے، اور یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔
قارئین کرام! مندرجہ احکامِ بالا امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہیں جن کی ڈاکٹر فرید ملت عملی تفسیر تھے۔ وہ ہمیشہ نیکی کا حکم دیتے اور برائے سے منع فرماتے رہے۔ وہ تقویٰ و طہارت کا عظیم پیکر تھے اور قرونِ اُولیٰ کے اولیاء کی یاد تازہ کرتے تھے۔ میں فرید ملت کی زندگی کے آخری برسوں کا عینی شاہد ہوں، فرید ملت بے مثل خطیب اور مناظرِ اجل تھے! ذہانت و فطانت کے خوگر اور کاشفِ رموزِ خودی تھے، مومن طبع اور مومن روح تھے۔ میں نے کئی بار آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’مومن کی جنت اور کافر کی دوزخ کی ابتدا اس عالمِ ناسوت میں ہی ہوجاتی ہے۔ مومن اطاعت الٰہی کے باعث دنیا ہی میں اطمینانِ قلب پالیتا ہے اور کافر کے (عاقبت نا اندیش) کفر کے باعث دنیا ہی میں اس کو خوف و ہراس اور روح کی بے چینی دامن گیر ہوتی ہے۔ جیسا کہ آقائے دو جہاں محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
الدنیا سجن المؤمن وجنة الکافر.
(مسلم، الصحیح، 4: 2272، الرقم: 2956)
’’دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔‘‘
فرید ملت نے اپنی جوانی عبادت گزاری اور حصولِ علم میں گزاری جبکہ مابعد پوری زیست سورۃ المائدہ آیت 92 کی مصداق بسر کی۔
وَاَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا.
(المائده، 5: 92)
’’اور خدا کی فرمابرداری اور رسول(خدا) کی اطاعت کرتے رہو اور ڈرتے رہو۔‘‘
فرید ملت محسنِ تحریک منہاج القرآن انٹریشنل اس آیت کریم کی مصداق ہمیشہ راتوں کو خدا اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت گزاری اور خوفِ خدا میں گریہ و زاری اور آہ فغاں نیم شبی کے باعث اپنی جبینِ نیاز حاکم دو جہاں کے حضور بسجود رکھتے تھے۔ ان کی زندگی میں اکثر اوقات میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ خوفِ خدا اور ادبِ عشق مصطفی ﷺ کے باعث جائے نماز پر کھڑے ہوتے تو آپ پر خوف سے کپکپی طاری ہو جاتی اور کسی وقت چہرہ خوشی سے شاداں و فرحاں نظر آنے لگتا۔ میری دانستِ بے مائیگی کے مطابق فرید ملت پر ایسی خاص کیفیت طاری ہوجاتی تھی کہ دیدارِ الٰہی کی جلالت اور تمکنت سے آپ پر خوف طاری ہوتا تھا جبکہ دیدارِ مصطفی ﷺ سے خوشی اور شادمانی کی لہر دوڑ جاتی تھی۔
معزز سامعین کرام! جب فرید ملت کا وصالِ مبارک ہوا تو میں 1974ء میں ایف اے کا سٹوڈنٹ تھا۔ ان کی جائے نماز گھر کے کسی پرسکون گوشۂِ تنہائی میں مخصوص ہوا کرتی تھی، رات کے پچھلے پہر جب عمومی طور پر مخلوقِ خدا خوابِ غفلت کی نیند سورہی ہوتی تو فرید ملت مُصلّے کی پیٹھ پر کھڑے خدائے ربِ جلیل کے حضور دنیا مافیہا سے بے خبر مناجاتِ الٰہی میں ایسے مشغول نظر آتے جیسے روٹھے ہوئے محبوبِ یکتا کو ہزار واسطے دے دے کر منا رہے ہوں اور بالآخر مطمئن ہو جاتے! میرا وجدان مجھے یہ کہنے پر مجبور کر رہا ہے کہ ہر سجدہ میں ربِ الٰہی فرماتا ہوگا کہ: اے میرے فرید! میں تجھ پر راضی ہوگیا اور تو مجھ پر راضی ہوگیا۔ ’’اللہ اکبر‘‘۔