عنبرین عاصم
زمین پر انسانی ذہن کے ارتقاء کے مراحل کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں چار نہایت واضح اور بنیادی مراحل نظر آتے ہیں۔ ارتقاء کا پہلا مرحلہ آدم علیہ السلام سے شروع ہوتا ہے۔ اسے ہم حیرتوں کا دور کہہ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے جب انسان کو نئی نئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ اسے ہر زاویے سے حیرت سے دیکھتا ہے۔ یہ تو عام چیز کی بات ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کے لئے تو قدرت نے بے شمار حیرتوں کا سامان اکٹھا کر دیا تھا۔
ارتقاء کا دوسرا مرحلہ حضرت نوح علیہ السلام سے شروع ہوتا ہے، اسے ہم آگہی کا دور کہہ سکتے ہیں۔ بہت ساری ایسی باتیں جنہیں اللہ تعالیٰ انسان کو آنے والے حالات کے بارے میں براہ راست دکھا کر سکھا رہا تھا اور آگاہ کر رہا تھا۔
ارتقاء کے تیسرے مرحلے کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوتا ہے۔ اس دور کے آغاز کو ہم تجسس، ادراک اور بعد ازاں یقین کے دور سے تعبیر کریں گے۔ وجہ ظاہر ہے کہ جب انسان کسی چیز کے تجسس میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنی عقل پر بھروسہ کرکے اس چیز کو درست قرار دیتا ہے یا پھر غلط لیکن کسی بھی پریکٹیکل کے اختتام پر نتیجہ لازمی سامنے آتا ہے اور نتیجہ غلط ہو یا صحیح یقین کرنا لازمی ٹھہرتا ہے۔ پس حضرت انسان کا یہ دور خالصتاً تجسس سے بھرپور تھا۔
ہر دور میں انسان کاملیت کی تلاش میں رہا۔ پس انسان کے شعوری ارتقاء کا اگلا مرحلہ یا چوتھا دور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شروع ہوتا ہے۔ جسے تجسس اور ادراک سے بڑھ کر دریافت اور انکشافات کا دور بھی کہا جا سکتا ہے۔
پہلے کے تین ادوار ہزاروں سالوں پر مشتمل تھے اور ہر ایک دوسرے سے وابستہ اور منسلک تھا۔ لیکن چوتھے دور کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے بعد ارتقاء کے درجے تو ہیں لیکن اگلا دور یا پانچواں دور نہیں ہے اور یہ دور ذہنی ارتقاء کے لحاظ سے کامل عروج کا دور ہے اگر اس کے بعد کچھ ہے تو صرف قیامت ہے اور یہیں سے انسان کامل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہستی سے پیر کامل کا درس ملتا ہے۔ انسان کی زندگی کا مقصد حاصل ہوتا ہے کہ وہ بلا مقصد اس دنیا میں نہیں لایا گیا۔ اسے ذمہ داریوں کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زن ہو کر اپنے لئے انمول موتی تلاشنے ہیں۔
قرآن اور تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے انسان اللہ کی مشیت سے، اس کے ارادوں سے، اس کی مرضی سے آشنا ہوا۔ انسان کو اس زمین پر اور اس کے اردگرد کام کرنے والے طبعی قوانین کے ادراک کا طریقہ سمجھ میں آیا۔ دراصل تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے انسان کو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت کے بارے میں آگہی ہوئی۔
تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہے؟ کیسے ان پر عمل پیرا ہوا جاتا ہے؟ کیسے انسان اپنے مقصد حیات تک پہنچتا ہے؟ اس کے لئے ہم سب سے پہلے ایک مکمل کتاب قرآن پاک کے ارشادات کو تحریر کریں گے اور اس کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سے رہنمائی حاصل کریں گے۔
دنیا میں آنے کا پہلا اور بنیادی مقصد تو یہی ہے کہ انسان اچھائی کو پھیلائے اور برائی سے روکے۔ ہمارے پاس ہر بات میں دو معانی ہوتے ہیں ایک رحمان کی صفت ہے ایک شیطان کی۔ اگر انسان اشرف المخلوقات سمجھ لے کہ اچھائی کیا اور برائی کیا ہے تو زندگی بہت آسان ہوجاتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے اس لئے پیدا کی گئی ہے تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
(آل عمران، 3 : 110)
اب یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کون سا انسان برائی سے منع کرسکتا ہے اور اچھائی کا حکم دے سکتا ہے؟ وہ کون بااختیار انسان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اتنا درجہ عطا کردیا۔ ملاحظہ فرمائیں قرآن اس کا کیا جواب دیتا ہے۔
’’اللہ نے یہ بھی لازم کردیا ہے کہ جن اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو وہ تمہارے اپنے اندر موجود ہونی چاہئیں۔ کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجود اس کے کہ تم کتاب پڑھتے ہو کیا تم میں اتنی بھی عقل نہیں‘‘۔
(البقره، 2 : 44)
زندگی گزارنے کا پہلا مقصد نظر آنا شروع ہوگیا ہے اور وہ ہے تبلیغ لیکن اچھے طریقے سے۔ پہلے خود عمل کرنا ہے پھر لوگوں کو بتانا ہے تاکہ لوگوں کو اچھی طرح ذہن نشین ہوسکے وہ بات جو بتانا ضروری ہے لیکن اب ہم اپنی زندگی پر غور کریں تو بہت کم لوگ ہیں جو قوانین کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنہیں سمجھانا بہت مشکل ہے۔ مقصد زندگی سے آگاہ کرنا نہایت کٹھن ہے۔ ایسے لوگوں کو سمجھانے کے لئے میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والی دو جہاں نے فرمایا :
’’تم میں سے کوئی شخص کوئی برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے، اگر یہ بس میں نہ ہو تو زبان سے روکے اگر یہ بھی بس سے باہر ہو تو دل سے اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے‘‘۔ (مسلم)
غور کریں کہ زندگی گزارنے کا جو پہلا مقصد ہمارے سامنے آیا ہے وہ برائی سے اپنے آپ کو بچانا ہے اور بھلائی اور نیکی کے کام کرنے ہیں تو جب انسان صرف ایک ہی مقصد پورا کرلیتا ہے تو وہ بہت سی باتوں کا احاطہ کر لیتا ہے اور جو لوگ اس مقصد کو پورا نہیں کر پائے ان کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تم ضرور (لازمی طور) پر نیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ورنہ اللہ تم پر عذاب بھیجے گا۔ تم اس کے حضور دعائیں کرو گے مگر وہ تمہاری دعائیں قبول نہ کرے گا‘‘۔ (ترمذی)
اچھائی کو پھیلانے اور برائی کو روکنے میں جو چیز بنیادی کردار ادا کرتی ہے وہ ہے اتفاق۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی حیات کا دوسرا بنیادی مقصد ہے اتفاق اور یگانگت۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے :
’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘۔
(آل عمران : 103)
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
’’میں تم کو وہ بات بتاتا ہوں جس کا درجہ نماز، روزہ اور زکوۃ سے زیادہ بلند ہے۔ وہ آپس میں اتحاد و اتفاق رکھنا ہے، جبکہ آپس کا نفاق رکھنا برباد کرنے والا ہے‘‘۔ (مسند احمد)
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں اپنی آیات کھول کھول کر بتاتا ہے۔ ضرورت صرف عقل کے درست استعمال کی ہے۔ ہمیں اجتماعی طور پر بھی اتحاد کی ضرورت ہے اور انفرادی طور پر بھی جب ہمارے ملک پر کوئی خدانخواستہ آفت آتی ہے، کوئی پریشانی آتی ہے تو ہم کہنے لگ جاتے ہیں کہ عذاب الہٰی ہے اور سب لوگ ایک دوسرے پر اس کا الزام لگادیتے ہیں کہ فلاں غلط ہے۔ لیڈر غلط ہے قوم غلط ہے لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ہم سب غلط ہیں۔ ہمیں ذاتی احتساب کی ضرورت ہے۔ ہمیں اتفاق کی ضرورت ہے۔ اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کے اصولوں پر چلنے کی ضرورت ہے۔ ہم کہتے ہیں ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں؟ اسی لئے کہ ہم اندر ہی اندر سازشوں کے تانے بانے بنتے رہتے ہیں۔ انجانے میں کئی لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں اتفاق سے رہیں تو ہماری زندگی کا مقصد خود بخود حل ہوجائے گا۔ ہمیں شدت پسندی بھی نہیں اپنانی چاہئے۔ بلکہ نرمی کے ساتھ اعتدال کے ساتھ اپنے روزمرہ امور کو سرانجام دینا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’ہم نے تم کو امت وسط (اعتدال پسند امت) بنایا ہے‘‘۔
(البقره، 2 : 143)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود فرماتے ہیں :
’’تم لوگ غلو (شدت پسندی) سے بچو کیونکہ تم سے پچھلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں‘‘۔ (ابن ماجہ)
مقصد حیات جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم پنی آنکھیں کان، دماغ کھلے رکھیں۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر ریسرچ کریں۔ دیکھیں کہ مالک کائنات ہمیں کیا بنانا چاہتا ہے۔ غوروفکر کریں، فضول سوچوں سے اپنے آپ کو نکالتے ہوئے تدبر کریں۔ اللہ کی حکمت یہ ہے کہ تدبرکے بغیر عبادت بھی بے روح ہے۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
’’سن لو جس تلاوت میں تدبر نہ ہو اور جس عبادت میں تفقہ (سمجھ بوجھ) نہ ہو اس میں کوئی چیز نہیں‘‘۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
’’جو شخص کسی کو قتل کرے سوائے اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین پر فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا‘‘۔
(مائده : 32)
’’بے شک دنیا کا نیست و نابود ہو جانا اللہ کے نزدیک زیادہ آسان ہے اس سے کہ کسی انسان کو قتل کر دیا جائے‘‘۔ (ابن کثیر)
یہ ہے اللہ تعالیٰ کے قرآن پاک میں وہ دلائل جنہیں عقل انسانی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کررہی۔
اللہ تعالیٰ واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ کسی کو بے گناہ قتل نہ کیا جائے۔ ہمارے ملک میں ہزاروں لوگ بے گناہ قتل کردیئے جاتے ہیں اور کسی پر اس کا کوئی اثر نہیں کیوں غافل ہوگئے ہیں ہم؟
ہمیں ایک دوسرے کو میڈیا اور اخبارات کے ذریعے لوگوں کو بتانا ہوگا کہ دیکھو کہ اسلام شدت پسند مذہب نہیں اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے اور غور کریں تو کیا یہ ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہئے۔ کیا قرآن پاک کی آیات ہمیں سمجھا نہیں رہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟ کیا یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا ہے۔ نہیں ہمیں اٹھنا ہے اور اپنے معاشرے میں سدھار پیدا کرنا ہے۔ تبلیغ کرنی ہے تاکہ بند ذہن کھل جائیں۔
ہمیں غور کرنا ہے کہ آخر وہ کون سے حالات ہیں جو معاشرے میں بے پناہ جرائم پیشہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ کررہے ہیں۔ اس حوالے سے قرآن پاک کی آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کرنا چاہوں گی۔
’’اور ایک دوسرے کا مال ناجائز طور پر نہ کھاؤ نہ اس کو بطور رشوت حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کا مال جان بوجھ کر کھا جاؤ‘‘۔
(البقره : 188)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’خدا نے ایک دوسرے کا مال غصب کرنا حرام قرار دیا ہے‘‘۔ (مسند احمد)
رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ (ترمذی)
یہ تو ہوگئی معاشرے کی ایسی لعنت جس سے بچنا ضروری ہے اور بہت سے جرائم پیشہ لوگوں کو انجام تک پہنچاتی ہے۔ اب اس بات کا بھی ذکر ہوجائے کہ جو لوگ مال دار ہیں وہ اپنے مال کو کیسے برتیں؟
’’اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ان کو درد ناک عذاب کی بشارت دے دو‘‘۔
(توبه : 34)
’’تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اس چیز میں سے خرچ نہ کردو جو تمہیں سب سے زیادہ پیاری ہے اور جو تم خرچ کرتے ہو وہ اللہ کو معلوم ہے‘‘۔
(آل عمران : 91)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات گرامی ہیں :
تم پر صدقہ دینا لازمی ہے اس کے دس فوائد ہیں۔ پانچ دنیا میں اور پانچ آخرت میں حاصل ہونگے۔ دنیا میں یہ تمہارے مال کو پاکیزہ کرتا ہے تمہارے جسموں کو تطہیر کرتا ہے۔ تمہاری بیماریوں کی دوا ہے۔ دلوں میں خوشی پیدا کرتا ہے۔ رزق کو وسیع کرتا ہے، آخرت میں صدقہ دینے کا فائدہ یہ ہوگا کہ قیامت کے دن وہ سایہ میں ہوگا۔ حساب میں آسانی ہوگی، میزان میں نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا، پل صراط سے گزرنے میں آسانی اور جنت میں بلند درجے کا سبب ہوگا۔
ایک مرتبہ فرمایا :
اے لوگو! اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرو کیونکہ یہ مصیبتوں اور بلاؤں کو کھاجاتا ہے۔
اب اگر ہم قرآن حکیم کے ارشادات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات میں غوروفکر کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ صدقہ ہی معاشرے میں توازن لاتا ہے۔ اگر ہم اپنے خزانے میں اضافہ کرتے جائیں گے غریب کو اسکا حق نہیں دیں گے تو غریب غریب ہوتا جائے گا اور اس طرح وہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ جرائم پیشہ ہوجائے گا، یہاں پر ہم کہیں گے کہ وہی مقصد جو سب سے پہلے بیان کیا گیا وہ کس قدر لوگوں کی زندگی پر حاوی ہونا چاہئے کہ جس سے معاشرے بن جاتے ہیں۔ عدم تحفظ میں مبتلا نہیں ہوتے۔
ایک اور بات جو کہ انسانی زندگی کو کاملیت بخشتی ہے وہ ہے عدل اور انصاف۔ بحیثیت انسان ہمیں عدل اور انصاف کا بول بالا کرنا چاہئے۔
’’بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔
(مائده : 42)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’تم سے پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب ان میں سے کوئی صاحب ثروت شخص کسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اس سے درگذر کیا جاتا لیکن جب کسی مفلس اور بے سہارا شخص سے کوئی ایسا جرم سرزد ہوجاتا تو اسے سخت سزا دیتے۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدوں کو توڑ دیا جائے‘‘۔ (نسائی)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
’’جو قومیں معاملات کا فیصلہ انصاف کے ساتھ نہیں کرتیں۔ اللہ تعالیٰ وہاں غربت عام کردیتا ہے‘‘۔ (بیضاوی)
اب ہم اپنے اردگرد حالات کا جائزہ لیں تو کیا یہی سب کچھ آج کے معاشرے میں نہیں ہورہا ہے؟ تو بحیثیت من حیث القوم ہمارا کیا فرض ہے؟ لوگوں کو آگاہ کرنا۔ انصاف کے اصولوں کو خود پر لاگو کرنا۔ قبل اس کے ہم ہلاک ہوجائیں۔ ہمیں بصیرت اور شعور حاصل کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
’’اور نصیحت تو عقل والے ہی حاصل کرتے ہیں‘‘۔
(البقره : 269)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’مومن زمانے کی بصیرت رکھتا ہے‘‘۔
’’تم کسی کے اسلام پر تعجب نہ کرنا جب تک کہ تم جان نہ لو کہ اس کی عقل کیسی ہے؟ عقل کو اپنا رہنما بناؤ تاکہ ہدایت پاؤ۔ عقل کی مخالفت مت کرو کہ تم کوندامت اور پریشانی ہو‘‘۔
قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا :
میرے بندوں سے کہہ دو وہ ایسی بات کیا کریں جو اچھی ہوں۔
(بنی اسرائيل : 53)
’’اور اپنی آواز نیچی رکھو بلاشبہ سب سے ناگوار آواز گدھے کی ہے‘‘۔
(لقمان : 19)
’’اگر تمہیں علم نہ ہو تو صاحبان علم سے دریافت کرو‘‘۔
(انبياء : 7)
ان سب باتوں کے لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ انسان زندگی کے اسرار کو جان لے۔
کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو اس میں علم والوں کی تعداد بڑھا دیتا ہے اور جاہلوں کی تعداد گھٹا دیتا ہے۔
میں اس مضمون کا اختتام سورۃ الاحزاب کی آیات کے ترجمے سے کروں گی جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’بے شک مسلمان مرد اور مسلان عورتیں : مومن مرد اور مومن عورتیں فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبرکرنے والی عورتیں، انکساری اختیار کرنے والے مرد اور انکساری اختیار کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں۔ اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عصمت کی حفاظت کرنے والی عورتیں، اللہ کا ذکر کثیر کرنے والے مرد اور ذکر کثیر کرنے والی عورتیں، ان سب کے لئے اللہ نے مغفرت اور بڑا اجر رکھا ہے‘‘۔
(احزاب : 35)
اتنی مکمل اور جامع آیات کے بعد کیا یہ گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ ہمیں مقصد حیات سمجھ میں نہ آئے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس میں واضح طور پر مرد اور عورت کہہ کر ذمہ داریوں کا اعادہ کیا ہے۔