درس : 40
دروس سلوک و تصوّف کی تعلیم کے بنیادی مقاصد
صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی
مرکزی امیر تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل
دروس سلوک و تصوّف میں اب تک ہم تصّور بّ کائنات، انسان، علم، عقل، اقدار اور کائنات کے بارے میں مختصر گفتگو کرتے رہے ہیں۔ تا کہ قارئین اور راہ طریقت پر چلنے کا ارادہ رکھنے والوں کے ذہن میں خالق آفاق و انفس کی قدرت، طاقت، عظمت اس کی منشا اور رضا، کائنات اور انسان کی تخلیق کا مقصد، اللہ سبحانہ و تعالی کی رضا کے حصول کے اسباب و ذرائع اور معاشرے میں انسان کے حقیقی کردار کے بارے میں ایک اجمالی تصوّر اور عقیدہ (dogma) قائم رہے۔ اور سلوک و تصّوف کے لیے مطلوب علم اور تعلیم کے عمل کے مقصد (objectives of education of salook-o-tassawaf)، نصاب تعلیم، تربیت یافتہ معلّم، مربیّ، شیخ یا پیر کی ضرورت و اہمیت، متعلّم اور مرید کی خصوصیات، پیری اورمریدی کے تقاضے، تعلیم و تعلم کے مختلف طریقے اور تعلیم تصوف کے مطلوبہ آداب سے آگاہی ہو سکے۔ اور اسلامی سلوک و تصوّف؛ جس کی بنیاد کلیتاً قرآن و سنت، اور شریعت حقہ پر قائم ہے، میں غیر اسلامی تخیّلات اور عقائد کی آمیزش سے محفوظ رہا جا سکے۔
ظاہر ہے کہ کسی بھی خاص علم و فن کی تعلیم اور تربیت کے حصول کے لیے اسی علم و فن سے متعلق ماہر تعلیم سے پڑھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بڑھئی کا فن بڑھئی اور کمہار کا کمہار سے سیکھا جاتا ہے، علم الادویہ یا علم العلاج یعنی علاج معالجے کا فن سیکھنے کے لیے کسی ماہر طبیب اور معالج سے رجوع کرناضروری ہوتاہے، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی سیکھنے کے لیے سکول آف ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ میں داخلہ لینا لازم ہوتا ہے۔ علوم قرآن، حدیث اور فقہ کے لیے ماہر مفسرین قرآن، شیوخ الحدیث اور فقہ کے ماہرقاضیوں اور فقیہوں کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنالازم ہوتا ہے۔ دیگر اسلامی علوم و فنون کی طرح علم سلوک و تصوف بھی ایک باقاعدہ علم اور فن ہے۔ جس کے معلم، شیخ، راہبر، مربی ّ اور پیر کے لیے شریعت اور طریقت سے متعلق علوم اور فنون؛ قرآن، حدیث، فقہ، عقائد، طریقت، اعمال تزکیہ، تصفیہ، حکمت، دانائی، فراست اور شعور کے میدان میں مہارت تامہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک تربیت یافتہ شیخ، معلّم، مربی ّ یا پیر کے اوصاف، خصوصیات، اُس کے تبحر علمی، ظاہری و باطنی اعمال، پیر کامل کی پہچان اور کاملیتِ شیخ کی علامتوں پر گفتگو کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ شیخ یا مربیّ سے حاصل کئے جانے والے علوم اور فنون کے بنیادی مقاصد (fundamental objectives) سے آگاہی حاصل کی جائے، تعلیم و تربیت کے عمل سے حقیقی معنوں میں اسی وقت استفادہ ہو سکتا ہے جب اس کے مقاصد(purposes,aims,goals) کو پہلے اچھی طرح سمجھا جائے، کسی بات کوسمجھنے کے بعد اس پر عمل کرناآسان ہوتا ہے۔
یہ امر معلّم، مربیّ، شیخ، پیراور متعلم و مرید کے لیے یکساں طور پر ضروری اور لازم ہوتا ہے، کہ ہر دو فریق یعنی معلّم اور متعلم یا پیر اور مرید دونوں سلوک و تصّوف کی تعلیم اور تربیت کے مقاصد سے واقف ہوں، مرید کو اچھی طرح معلوم ہو، کہ شیخ سے اس نے کس قسم کی تعلیم اورتربیت حاصل کرنی ہے اُس کا مقصد اور مریدی کی اصل غرض کیا ہے؟ وہ کس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پیر کا مرید ہونا چاہتا ہے؟ اور معلّم، مربی ّ اور شیخ کو جہاں سلوک و تصوف کے علوم، نصاب تعلیم اورطریقہ تعلیم و تعلم سے مکمل آگاہی ہو، وہیں اس کو تصوف کے علمی و عملی تصرفات، تفقہ اور کمالات بھی حاصل ہوں، لازم ہے کہ شیخ اور مربیّ کو اپنے مریداور متعلم کے علمی کوائف، احوال، جذبہ، عمل، صدق و اخلاص اور راہ طریقت پر چلنے کے ذوق و شوق، ہمت، طاقت، شجاعت، عفت، عصمت، حوصلے اوررادہ سے آگاہی ہو۔ یہ امر سالک کے ہمہ وقت پیش نظر رہے، کہ وہ رب کائنات کی رضا کے حصول کے لیے ایک ایسی مشکل اور تنگ گھاٹی (عقبہ) میں قدم رکھ رہا ہے، کہ جس کے اندر داخل ہونے پر اس نے دنیائے فانی سے ایک ایسی دنیا کی طرف ہجرت کرلی، کہ اب اس کو دنیاوی شہوات و لذّات سے مکمل روگردانی کی زندگی بسر کرنی ہے۔ اس نے جہان حقیقی کے اس سفر میں قدم قدم پر محبوب حقیقی کے ساتھ اپنی جان و مال کا سودا کرنا اور اپنا سب کچھ قربان کرنا ہے۔ طریقت کی راہ میں محبوب کا محب کی جان اور مال کو قبول کرلینااور اس کو دنیا و مافیہا سے بے خبر کر دینا ہی سالک کی پہلی کامیابی ہے، سالک کا اللہ سبحانہ و تعالےٰ کا ہو جانا اور اللہ جل مجدہ‘ کا اس کو اپنی بارگاہ میں قبول کر لینا ہی رضائے الہی اور وصول الی اللہ کا پہلا زینہ ہوتا ہے یہی مقصد تخلیق اور مقصود انسان ہے۔
بس ایک تو ہے جو دِل میں سما سکتا ہے
تو جو ہو دِل میں تو پھر کوئی تمنا نہ رہے!
سمایا ہے تو جب سے نظروں میں میری
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے !
یہی وہ لمحہ وصل ہوتا ہے کہ جب اللہ تعاليٰ خود اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ اگر تم مجھے پکارو گے، تو میں تم کو جواب دوں گا۔ اگر تم مجھ سے محبت کرو گے تو میں تم سے محبت کروں گا۔ اس محبت کا نتیجہ یہ ہو گا۔ کہ تم میں میری صفات کا انعطاف اور انعکاس ہو گا۔ اور تم بچشمِ قلب میرا دیدار کر سکو گے۔
گفت دین عامیان؟ گفتم شنید
گفت دینِ
عارفان؟ گفتم کہ دید! (اقبال)
سلوک؛ اللہ سبحانہ و تعالےٰ سے ملنے، اس کو پانے اور اس کو دل کی آنکھ سے تکتے رہنے کی شدید آرزو کا دوسرا نام ہے۔ اس جذبہ شوق کو تیز تر کرنے کے لیے راہ طریقت پر گامزن ہونے اور وادی معرفت میں سفر کرنے کے لیے مبتدی سالک، مرید یا متعلم کواس راہ کے کسی ماہر سفر سے آداب سفر و سیاحت سیکھنے کی حاجت ہوتی ہے۔ ایسے ماہر معلّم و مربیّ کے اوصاف و خصوصیات کے بیان سے پہلے ہم معلم کے سلوک تعّلُم کے بنیادی مقاصد پر گفتگو کرتے ہیں :
سلوک و تصوف کی تعلیم اور تعّلُم کے پانچ مقاصد مسلّم ہیں :
- دعوت و تلقین؛ یعنی وعظ و نصیحت سے متعلم کو تعلیم دینا اور تربیت کرنا۔
- تدریس؛ درس و تدریس کے ایک با قاعدہ نظام کے تحت تعلیم و تعلم کا فریضہ ادا کرنا۔
- تربیت؛علمی اور فقہی تعلیم کے ساتھ ساتھ متعلم میں عملی طور پر اخلاق حسنہ پیدا کرنا اور رذائل اخلاق سے ایسے چھڑانا، کہ رفتہ رفتہ اخلاق حسنہ اُس کی فطرت ثانیہ (second nature) بن جائیں۔ اور وہ فطرتی طور پر برائی، بدی اور شر کے تصوّر سے خالی الذہن ہو جائے۔
- تادیب؛طالب سلوک و تصوّف کو اس طرح موّدب بنانا اور اس کو آداب معاشرت سکھانا کہ اس میں تواضع، تحمل، بردباری اور سلیقہ مندی پیداہو اور اس کے روزمرہ کے معمولات عوام کے لیے نمونہ تقلید بن جائیں۔
- تدریب؛ مشق، تمرین۔ ریاضت، مشقت، اور مجاہدہ سے تعلیمات تصوّف پر عمل کرانا اور اس کی نگرانی اور محاسبہ کرنا۔
تعمیر کعبہ کے بعد سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعلیمات الہیہ کے بنیادی مقاصد کی تعلیم اور تربیت کے لیے اللہ کی بارگاہ میں معلّم انسانیت کی بعثت کے لیے اللہ سبحانہ تعالےٰ کی بارگاہ میں جو دُعا عرض کی، اس کے الفاظ یوں تھے کہ
’’اے ہمارے ربّ! انہیں (قوم ابراہیم و اسماعیل علہیما السلام) میں ایک رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) خود ان ہی میں سے مبعوث فرما جو ان کو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب سکھائے( کتاب کی تعلیم دے اور) دانائے راز بنائے (حکمت و اسرار کی باتیں بتائے) اور ان ( کے قلوب) کو (غیر اللہ) سے پاک (صاف) کر دے۔ بے شک تو بڑا زبردست حکمت والا ہے۔
(البقره : 129)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ نبوت سے لے کر حضرت عیسيٰ علیہ السلام کی نبوت کے زمانہ تک خاندان بنی اسرائیل کے ہر نبی، رَ سول، پیغمبر اور دیگرا قوام و ملل کے انبیاء، رسل، پیغمبروں، اوتاروں اور صالحین نے بھی دُعائے ابراہیمی کی طرح اپنے اپنے زمانہ میں بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کیلئے الوہی تعلیمات کے بنیادی اور عمومی مقاصد کی عملی تعلیم اور تربیت کے لیے معلّم انسانیت نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کے لیے ربّ للعالمین کی بارگاہ میں دعائیں کیں۔ نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کے بعد اللہ جل مجدہ‘ نے سورہ البقرہ کی ایک سو اکیاون (151) آیہ کریمہ کے ذریعے اپنے پیغمبروں رسولوں اور صالحین کی دُعا کی قبولیت کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
کَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْکُمْ رَسُوْلاً مِنْکُمْ يَتْلُوْ اعَلَيْکُمْ اٰيٰتِنَا وَ يُزَکِّيْکُمْ وَ يُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَيُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْ ا تَعْلَمُوْنَ o
(البقرة، 2 : 151)
(جیساکہ ہم نے تم میں تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا۔ جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتا ہے۔ (ہمارے احکام، ہمارے وعدے وعید تم کو پہنچاتا ہے) اور تم کو پاک کرتا ہے ( تمہاری اصلاح کرتا ہے، تمہارے لیے اللہ سے مغفرت چاہتا ہے، اور تمہاے قلوب کو پاک صاف کرنے کے بعد تم کو ) کتاب اللہ کی تعلیم دیتا ہے اور اس کے اسرار و حِکَم( تم پر واضح کرتا ہے، تم کو دانائے راز بناتا ہے) اور تم کو وہ سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے (جان ہی نہ سکتے تھے)
اب جب بتانے والا آگیا ہے تو تمہارا کام ہے کہ تصوّرِ حضوری میں رہو۔ اس آیہ کریمہ سے متصل ایک سو باون (152) آیہ کریمہ میں اللہ جل مجدہ‘ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیماتِ نبویہ کے ثمرہ کے طور پر فرماتا ہے کہ
’’فَاذْ کُرْونیِ اَذْ کُرُکُمْ وَ اشْکُرُوْالِيْ وَ لَا تَکْفُرُوْنِ
(البقرة، 2 : 152)
’’پس تم مجھے یاد کرو، میں تم کو یاد رکھو ں گا اور تم میرا احسان مانو اور (دیکھو) میری ناشکری مت کرنا‘‘۔
دنیائے انسانیت کو معلم کائنات کا عطا کرنا بلا شبہ اللہ سبحانہ و تعاليٰ کے جملہ احسانات میں سب سے بڑا احسان ہے۔ آمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نوید جان فزا اور حضرت معلم کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ورودِ مسعود کے ساتھ تعلیمات نبویہ کی غرض و غایت، عالمِ انسانیت کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنااور نبی کائنات سے جُڑی لازوال نعمتوں کا اعلان بھی ربّ جلیل نے خود فرمایا۔ اللہ جل مجدہ‘ نے تعلیماتِ نبوی سے ملحق نعمتوں؛ نعمتِ تعمیر ملّت، نعمت نظام مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، نعمت تلاوتِ آیات، نعمتِ تربیت و اصلاح احوال، نعمتِ تزکیہ نفس و قلب، تصفیہ جسم و جان، نعمتِ علم الکتاب، نعمتِ اصلاحِ احوال انفرادی، اجتماعی اور بین الاقوامی، نعمت ذکرو فکر، نعمتِ حضوری، نعمت ذکرِ سلطانی، نعمتِ احسان، نعتِ شکر، نعمت صبر و قناعت، نعمتِ استعانت، نعمتِ صلوۃ، نعمتِ معیت ربّانی، نعمتِ حیات جاودانی، نعمت شہادت کبريٰ، نعمت عطائے مکتب، نعمتِ عقل ووجدان، مخلوقات سے نعمتِ بے خوفی، نعمتِ عدم خوف و غم، نعمتِ رجوع الی اللہ، نعمتِ مژدۂِ رحمت و قربت، نعمتِ ہدایت، نعمت عطائے شعائر اللہ، نعمت طواف کعبہ، حج و عمرہ، نعمت توبہ، نعمت قبو لیت توبہ و مغفرت اور نعمت سلوک و تصوّف پر بندوں کو اپنی بارگاہ میں شکر کرنے کا حکم دیا ہے۔
یہ اللہ‘ ربّ العالمین جل شانہ‘ کی جانب سے نوید رحمت للعالمینی اور رحمت عامہ کااعلان عام تھا۔ اللہ جل مجدہ‘ نے امت محمدیہ سے ارشاد فرمایا۔ تم مجھے یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا، تم مجھ کو محبت سے یادر کھو گے، میں تم پر رحمت سے متوجہ ہوں گا۔ ذکر فرض ہے۔ اس ذکر کا نتیجہ دیکھو یعنی محبت کی دنیا کا تماشہ دیکھنا ہے تو اس کو محبت کے ساتھ دیکھتے چلو، تمہارے قلوب پر رحمتوں کی بارش ہو گی۔ تم پر ہر لمحہ نئی نئی عنایتیں اور رحمتیں نازل ہوتی رہیں گی۔ یہی تومیری رحمت کی وسعت اور رحمتہ للعالمینی ہے۔ لیکن ہر مقام اور منزل پر ادب شرط ہے۔ ہمارا احسان عظیم مانتے رہو اور اُس کا اتباع کرو۔ ہر کام عدل سے یعنی جو کام جس طرح کرنے کا میرا حکم ہے، اسی طرح کرتے رہنا۔ کہیں دنیا کی رنگینیوں اور جذبات میں بہہ کرنا شکرگزار نہ ہو جانا۔ ہر وقت میرا ذکر کرتے رہنا۔ تمہاری زندگی کی ہر سانس اور ہر عمل وسلوک میری یاد سے مملو ہو۔ جیسے اہل احسان نماز کے وقت مجھے یاد کرتے ہیں۔ میری یاد پر ثابت قدم رہنا؛ آزمائشوں پر پورا اترناکیونکہ میری آزمائشیں ہی ذریعہ قربت ہیں۔ امر کے تحت ناگوار کو گوارہ کرنا، اور صفتِ رضا سے متصّف ہو کر میری طرف صبر سے رجوع کرنا، اس کا ثمرہ میری نعمتوں سے مالا مال ہونا ہے۔ یہ سب نعمتیں تعلیماتِ نبویہ کی اتباع سے نصیب ہوتی ہیں۔
دنیا کے مختلف معاشروں میں تعلیم اور تربیت کے مقاصد مختلف ہیں۔ اس کی بنیاد زیادہ تر اقدار اور معاشرے کی مختلف ضروریات کے تصور پر قائم ہوتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد ؛حصول رضائے الہی ہے۔ یعنی انسان کے اندر اللہ جل شانہ‘ کی محبت اور تقويٰ راسخ کرنا، تعلیمات نبویہ کی روشنی میں اسلامی اخلاقی اور ر وحانی اقدار کا پروان چڑھانا، آفاق یعنی کائنات الہی کا مطالعہ، مشاہدہ، اس کی تسخیر اورانسان کی ذات کا فہم، شعور اور ادراک پیدا کرنا، نفس کی تشخیص اور معرفت اور انسان کی تعمیرِ شخصیت، کردار سازی (personality development and character building) اور زندگی کے ہر فعل اور سلوک کو بہتر اور متصوف بنانا ہے۔ اسلام کے خانقاہی نظام میں اسلام کی تعلیم کے بنیادی مقاصد کی روشنی میں علمائے سلوک و تصوّف نے تعلیم و تربیت کا ایک باقاعدہ نصاب دنیا کے سامنے عمل کے ذریعے پیش کیا ہے۔
تعلیماتِ صوفیہ کے مقاصد کی افادیت اور موثریت کے بارے میںہر دور کے ماہرین تعلیم نے کثرت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جس سے آگاہی ہر سالک کے لیے بدرجہ اتم ضروری ہے۔ علمائے تصوّف نے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ ان شاء اللہ مناسب اوقات میں ان نامور صوفیاء اور مشاہیر اسلام کی قیمتی آراء سے قارئین دروس سلوک و تصوف کو استفادہ کا موقع ملتا رہے گا۔ حالیہ در س میں ہم عالم اسلام کے ایک نامور ماہر تعلیم اور صوفی بزرگ حضرت امام ابو حامد بن محُمَّد بن مُحمّد الغزالی کا تعلیماتِ صوفیہ کے بنیادی مقاصد اور اُن کی ہمہ گیر اور عالمگیر افادیت اور موثریت کے بارے میں ان کے کچھ مختصر خیالات و آراء سمجھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
حضرت امام ابو حامد مُحّمد بن مُحمّد الغزالی، بلا خوفِ تردید عالم اسلام کے ایک عظیم مفکر، مفسر قرآن، استاد الحدیث، مایہ ناز فقیہ، فلسفی، مصنف علم و ادب اور جملہ اسلامی علوم و فنون کے آسمان کے ایک درخشندہ ستارہ ہونے کے علاوہ اسلامی سلوک و تصوّف کے ایک ماہر استاد، مربیّ اور صوفیائے اسلام کے صفِ اول میں ایک نمایاں مقام کے حامل عملی صوفی تھے، ظاہری علوم و فنون کے کثیر الجہت اور متنوع میدان میں آپ نے تلاشِ حقیقت کی جستجو اور اس کے حصول کے لیے بے پناہ جدو جہد کی اور ان کے ذریعے قلبی سکون اور اطمینان ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی اور ان کو حقیقی اطمینان قلب نصیب نہ ہُوا، ظاہری علوم میں آپ کی وجاہت اور ثقاہت کیوجہ سے آپ کو زندگی کی ہر سہولت، شاہانہ کرّو فر اور شان و شوکت حاصل تھی۔ لیکن ان کے دل حزین کے اندر جو بیقراری اور بے چینی سماچکی تھی۔ وہ کسی طور دور نہیں ہوپاتی تھی۔ سکون قلب میّسر نہ تھا۔ آپ کو حقیقت کی تلاش تھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ جس حقیقت کی معرفت کا میں متلاشی تھا اس کو میں نے ابتدا میں علم الکلام کے ایسے گہرے اور دبیز پردے چاک کر کے ڈھونڈنے کی کوشش کی، کہ جو دوسرے علماء، معلمین اور متعلمین کے بس کی بات نہ تھی۔ میں نے علم کلام میں اعليٰ درجے کی علمی تحقیق و تفتیش کی اور اس کی عمیق گہرائی میں جاکر اس کو سمجھا، علم کلام کے دیگر محقیقین (researchers) کی کتابوں کا گہرامطالعہ کیا اور اس علم میں خود ایسی نادر علمی کتابیں تصنیف کیں۔ جن کادیگر متکلمین کی طرح مقصد اہل سنت کے عقیدہ کی حفاظت اور اہل بدعت کے فتنہ سے اہل اسلام کو بچانا تھا۔ میں اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب رہا۔ اور معاصرین میں بڑا نام پایا۔
دیگر اہل رائے اور اہل نظر متکلمین حق نے بھی یہ فریضہ بخوبی ادا کیا۔ شیطان کے وسوسوں کے زیر اثراہل بدعت نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جو طرح طرح کی بدعات داخل کیں، ان کو متکلمین نے خوب صاف کیا۔ لیکن اہل بدعت کے ساتھ طویل مباحثات اور مناظرات کے سلسلہ میںاہل کلام میں سے بعض نے مخالفین کے مسلمہ مقدمات پر اعتماد بھی کیا۔ اور تقاضائے منطق کے تحت ان کو تسلیم بھی کرنا پڑا۔ علم الکلام میں مجھے گہرا رسوخ حاصل تھا، لیکن میرے حق میں اتنا علم الکلام کافی نہ تھاور جو عارضہ مجھے قلب کی بے سکونی کا لاحق تھا۔ اس کی شفا کے لیے وُہ کافی نہ تھا۔ میرے دل کی بے اطمینانی کا مداوا متکلمین کی تعلیم و تعلم میں میسر نہ ہُوا۔ کیونکہ اس مسئلہ میں افکار و خیالات کی جن گہرائیوں کا میں طالب تھا۔ وہ ان کے علم کا مقصود نہ تھا۔ خلق کے باہمی اختلافات کے سبب فکری پریشانی کی تاریکی جس طرح مسلط تھی، علم الکلام کے مباحث سے وہ مجھ کو دُور ہوتی نظر نہیں آتی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کو اس سے فائدہ بھی ہُوا ہو، تا ہم جس حقیقت کی تلاش میرا مقصود تھا۔ علم کلام سے وہ قلبی اطمینان مجھے نصیب نہ ہوا۔ قرآن حکیم کی آیات کریمہ میں میرے لیے نور ہی نور تھا۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب سورہ الانعام کی ایک سو چھبیسویں آیہ کریمہ : ۔
’’فَمَنْ يُرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ للْاِسْلامِ ‘‘
کے معنی اور اور شرح صدر کی حقیقت دریافت کی گئی ( پس جس کو اللہ سبحانہ و تعاليٰ ہدایت کرنا چاہتا ہے۔ تو ان کا سینہ اسلام کے لیے کشادہ کر دیتا ہے)تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
’’هُوَ نُوْرٌ يُقْذِ فَهُ اللّٰهُ تَعَالٰی فِيْ الْقَلْبِ‘‘
( وہ ایک نور ہوتا ہے جو اللہ تعاليٰ (مومن کے) سینے کے اندر داخل کر دیتا ہے) پھر نبی ذیشان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا۔ کہ اس کی علامت کیا ہے؟حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
’’اَلتَّجَا فٰی عَنْ دَارِا الْغُرُوْرِ وَا لْاِ نَا بَةِ اِلٰی دَارِا الْخُلُوْدِ‘‘
( دنیا سے منہ پھیرنا جو دارِ غرور ہے اور عاقبت کی طرف متوجہ ہونا جو ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے)
اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالےٰ نے خلق کو اندھیرے میں پیدا کیا، پھر ان پر اپنا نور چھڑکا‘‘ اس لیے صرف اس نور ہی سے کشف کو طلب کرنا چاہیے۔
حضرت مُحمَّد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ سکون قلب کی تلاش میں اس کے بعد میں نے علم فلسفہ کا مطالعہ شروع کیا۔ اور علم فلسفہ کی تحصیل میں حد درجہ کوشش کی۔ اورا للہ تعاليٰ نے مجھے اس علم کے انتہائی درجہ تک پہنچا دیا۔ اس کو پوری طرح سمجھنے کے بعد میں برابر اسی پر غورو فکر کرتا رہا اور ایک سال تک اپنے ذہن میں مختلف زاویوں سے اس کو دہراتا رہا۔ اس کے نقائص اور مفاسد کی تلاش کرتا رہا۔ لیکن جیسا جیسا میرا مطالعہ گہرا ہوتا گیا۔ ان کے بہت سارے فرقوں اور مختلف مذاہب؛ دہریہ، طبیعیہ اور الہیہ اور ان کے مختلف مکاتب اور علوم کی اقسام کا مشاہدہ کرنے کے بعد ان کی تکفیر یا اس کے قریب قریب متاخرین اور ان سے ذرا پہلے فلاسفہ کا حقیقت سے دُور ہونا مجھ پر واضح ہوتا گیا۔ فلاسفہ میں میں نے تین اقسام کے افراد کو معلوم کیا۔ ایک قسم پر تو تکفیر واجب آتی ہے۔ ایک قسم اہل بدعت کی ہے اور ایک وہ قسم ہے۔ کہ اس کے انکار کی ضرورت نہیں؛ علوم کے اعتبار سے فلسفہ کے چھ اقسام ہیں۔ ریاضی، منطق، طبیعیات الہيٰات، سیاسیات، اور اخلاقیات، علم ریاضی میں حساب و ہندسہ اور ہیت عالم کے علوم شامل ہیں۔ ان میں سے کسی علم کا تعلق براہ راست امورِ دین سے نہیں بلکہ یہ سب امور برہانیہ ہیں۔ علوم اور فنون اگر تہذیب انسانی کے لیے باعث منفعت اور وسیلۂ ظفر ہوں، تو بجا، لیکن اگر ان سے انسانیت اور اخلاق کی تباہی اور بربادی کا سامان پیدا ہو، تو وہ مردود و مطرود ہوتے ہیں۔ ریاضی کے اکثر فلاسفہ اس کے باریک دقائق، قوی، پختہ اور واضح دلائل کی روشنی میں جب دینیات، مذہبیات اور الہیات کے عقائد اور ارکان کا مطالعہ اور چھان بین باریک بینی سے کرنے لگ جاتے ہیں۔ تو وہ اپنی تحقیق اور دلائل میں اکثر گمراہ ہو جاتے ہیں اور اپنے پیرو کاروں کو بھی گمراہی میں مبتلا کرتے ہیں۔ اور جس طرح ان علوم میں بحث و تمحیص، نقد و جرح اور ردّ و قبول جائز ہے، وُہ سمجھتے ہیں، کہ دین اور مذہب کو بھی ان ہی پیمانوں پر پر کھا جا سکتا ہے، لہذا ایمان بالغیب سے صریح انکار کرتے ہُوئے وہ اس کی حقیقت سے منکر ہو کر کافر ہو جاتے ہیں۔
شومئی قسمت سے چونکہ یہ لوگ اکثر دین کے علوم اور فنون سے بے بہرہ اور ناواقف ہوتے ہیں اور اپنے ذہن میں کچھ دلائل استدلالِ باطل کے وضع کر کے دین اور مذہب سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ اور بھول جاتے ہیں کہ کسی علم اور فن کے ردّ و انکار کے لیے ان سے کما حقہ‘ آگاہی ضروری ہو تی ہے۔ فلسفہ کے بعدآپ نے علم منطقیات کی پہنائیوں میں حق کو تلاش کیا۔ اور دلیل و قیاس کے مختلف اورنئے طریقے معلوم کئے، دلائل کے مقدمات کے نئے شرائط مرتب کئے، صحیح تعریف کے شرائط کی ترتیب کی۔ اور جدید طریق سے علم منطق میں ریسرچ کر کے حقیقت کی تلاش کی۔ لیکن آپ پر منطق کا یہ راز جلد ہی منکشف ہُوا، کہ اس سے متعلق علوم کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ نفی کے لحاظ سے اور نہ اثبات کے لحاظ سے۔ منطقی قدم قدم پر مہیب آفات کا شکار ہو جا تے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ہی قائم کردہ نظریات، دلائل اور اٹکل پچّو کیوجہ سے ایسے کفریات میں پھنس جاتے ہیں۔ کہ علوم الہیہ کی انتہا تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنے دلائل و براہین کی دلدل میں پھنس کر کافر ہو جاتے ہیں۔
فی نفسہ علم منطق میں کوئی امر ایسا نہیں جس سے انکار کیا جائے۔ لیکن فلاسفہِ اہل منطق نے از خود اس میں اس طرح کے اسقام و عیوب پیدا کر دئیے ہیں اور دلائل دیتے وقت اس قسم کے داؤ و پیچ کا استعمال کرتے ہیں۔ کہ لوگ گہرے تفّحص اور تعمّق کے بغیر ان کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، منطقی خود بھی اکثر اپنے بنائے ہوئے جال کی کڑیوں میں الجھ کر نت نئے تشکیک و شبہات کے جالے اپنے اردگر بُنتے رہتے ہیں۔
علم طبیعیات، فلسفہ اور منطقیات کے بعد علوم طبیعیات کے ذریعے حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے حقیقت کی تلاش کی۔ یہ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا خاص میدان علم و تحقیق تھا۔ اور ان کا یہ عقیدہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ کہ طبیعت اور فطرت ( nature ) اللہ تعاليٰ کے حکم کے تابع ہے۔ وہ اپنے آپ کچھ نہیں کر سکتی، بلکہ اپنے خالق کے حکم کے مطابق کام کرتی ہے۔ سورج، چاند، ستارے اور طبائع (آفاق و انفس) سب اللہ تعالےٰ کے مطیع اور فرمان بردار ہیں اور ان کا کوئی فعل اپنی ذات کے یا اپنے سبب نہیں ہے۔ طبیعیات (physics) کے بعد حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ الہيٰات (metaphysics) کی طرف متوجہ ہوئے، انہوں نے دیکھا کہ الہیات کے فلاسفہ سے اس علم کو سمجھنے میں فاش غلطیاں سرزد ہوئیں۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ ان کا باہمی اختلاف بھی شدید نوعیت کا رہا ہے۔ قدیم اور جدید الہیاتی مذہب سب کو اگر اصولوں کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو بیس بنیادی اصولوں میں سے تین اصول تو ایسے ہیں کہ دین اسلام کے نکتہ نظر سے ان کی تکفیر واجب ہے۔ اور باقی سترہ صریح بدعات سیّیۂ ہیں۔ علمائے شریعت نے ان کے ابطال میں واضح احکام جاری کئے ہیں۔ علوم سیاسیات اور اخلاقیات کا حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے عمیق مطالعہ کیا۔ پھر فرقہ تعلیمیہ کے مذہب کے بارے ان کے بزرگانِ سلف کی کتب و رسائل کا مطالعہ کیا اور یہ پایا کہ فرقہ تعلیمیہ کے زیادہ تر مقالات اور کلمات ان کے بزرگان سلف کے نہیں بلکہ ہم عصر افراد کی اختراعات اور بدعات پر مشتمل ہیں۔ اور بے شمار خرابیاں اُن کے اندر ہیں۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اصلی کتب کا بغور مطالعہ کِیا اور اُس کے بعد تعلیمین کے دلائل کو انتہائی وضاحت و صحت کے ساتھ دوبارہ بیان کیا اور پھر اسی قدر مستحکم اور اٹل دلائل کے ساتھ ان کا فساد اور بطلان ثابت کیا۔ تعلیمین میں کچھ لوگ ایسے ہیں۔ کہ وہ کسی خاص علم کا دعويٰ بھی کرتے ہیں، لیکن جو کچھ وُہ بیان کرتے ہیںوُہ سراسر فیثا غورث کے کمزور فلسفہ سے ماخوذ ہوتا ہے۔ فیثا غورث کا مذہب تمام فلاسفہ الہیات کے مذاہب میں سب سے زیادہ کمزور ہے۔ ارسطو نے اس کی تردید کی ہے بلکہ اُس کو کمزور اور ضعیف سمجھا ہے۔
حضرت ابو حامد بن محمّد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ کہ جب میں ان تمام علوم سے فراغت پا چکا، تو میں قدماء صوفیا جو آسمان علم کے درخشندہ ستارے اور اپنے اپنے وقت کے علوم قرآنیہ، حدیث فقہ، کلام، تصوّف، اخلاق، تاریخ، اور ادب وغیرہ کے ماہرین تھے اور جن کا شمار اعليٰ درجہ کے اساتذہ اور ماہرین تعلیم میں ہوتا تھا، ان کی کتب و تصانیف کا بغور مطالعہ شروع کیا۔ اور ان سے علم کی تحصیل شروع کی۔ سلوک و تصّوف پر میں نے اس وقت تک لکھی گئی سب کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا اور تصّوف کے جملہ امور سے کما حقہ آگاہی حاصل کی، یہاں تک کہ تعلیماتِ سلوک و تصّوف کے علمی مقاصد کی ماہیت اور حقیقت کو پا لیا۔ اور جو کچھ بھی تعلیم( مطالعہ) اور سماع (گفتگو اور مکالمہ) سے حاصل ہو سکتا تھا، حاصل کر لیا۔ مجھ پر یہ حقیقت بہت جلدمنکشف ہو گئی کہ سلوک و تصّوف کے اصل خواص صرف مطالعہ سے حاصل نہیں ہو سکتے، بلکہ اپنے ذوق، عمل، حال اور صفات کو تبدیل کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔
قبل ازیں علوم شرعیہ اور عقلیہ کی تحقیق و تفتیش(research) کے مشق و تمرین سے مجھ کو ؛ اللہ تعاليٰ، نبوت اور روز آخرت پر ایمان کے امور یقینی پر مکمل ایمان و ایقان حاصل ہو چکا تھا۔ اور ایمان کے یہ اصول میرے دِل میں کسی دلیل معین سے نہیں بلکہ اُن اسباب و قرائن اور تجربات سے نہایت مستحکم طور پر جم چکے تھے۔ جو تفاصیل کے متحمل نہیں۔ اور عملی طور پر مجھ پر یہ امر روشن ہو گیا کہ آخرت کی کامیابی اور سعادت کی توقع سوائے تقويٰ اور نفس کو ہَوا و ہوس سے بچانے کی نہیں کرنی چاہیے۔ اور ان سب کی اصل؛ اپنے دِل کو دنیا سے لا تعلق کرنے، دارالغرور یعنی دنیا سے دارالخلود یعنی آخرت کی طرف رجوع کرنے اور نہایت ہمت کے ساتھ اللہ تعاليٰ کی طرف متوجہ ہونے میں ہے۔ اور یہ باتیں دنیاوی مال و جاہ سے مُنہ موڑنے اور دنیا کے غیر ضروری مشاغل اور فضول وقت گزاری سے کنارہ کشی کے سِوا حاصل نہیں ہوتیں، توفیق الہی سے میں نے سلوک و تصوف کے بنیادی مقاصد کو سمجھ لینے کے بعد جب عملی طور پر (practically) اپنے ’’احوال‘‘ کا جائزہ لیا اور ان پر تفکر اور تدبر کیا۔ تو دیکھا کہ میں تو دنیا داری کے امراض میں مبتلا ہوں اور علائق دنیوی میں گرفتار ہوں۔ احوال کے بعد پھر میں نے اپنے ’’اعمال‘‘ کا جائزہ لیا۔ اور دیکھا کہ ان میں سب سے اچھا کام تدریس و تعلیم کا ہے۔ تعلیم کے بغور جائزہ کے بعد میں نے دیکھا کہ اُس میں بھی بہت سے ایسے غیر ضروری علوم داخل ہیں، جو آخرت کی راہ کے لیے مفید نہیں، تدریس اور تعلیم میں پھر میں نے اپنی ’’نیت‘‘ کا جائزہ لیا کہ وُہ کیسی ہے اور حقیقتاً کیا چاہتی ہے۔ تو جلد ہی میرے قلب پر ثابت ہو گیا۔ کہ وہ بھی خالصتاً لوجہ اللہ نہیں ہے، بلکہ درحقیقت اُس کا محرک اور باعث نام و نمود، جاہ و منصب اور شہرت کی آرزو ہے۔
اب مجھے یقین ہو گیا۔ کہ میں گویا بہہ جانے والے ریتلے ساحل پر کھڑا ہوں اور اگر میں نے اپنے ’’حال‘‘ کی تلافی اور اصلاح نہ کی تو دوزخ کی آگ میرا مقدر ہو گی۔ (یہ میرا اپنا قلبی حال، عمل اور نیت تھی، جس کو میں ہر وقت محسوس کرتا تھا۔ میں ان کے بارے میں اپنے آپ سے مخاطب ہوتا تھا۔ کسی دوسرے کے سامنے تاویل پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی، معاملہ میرا اور اللہ کے درمیان تھا۔ اور اصل بات اللہ سبحانہ وتعاليٰ، اُس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور روز آخرت پر ’’یقین‘‘ کی تھی جو مجھے حاصل تھی، لہذا کسی دوسرے شخص کو دھوکادینے کی تو بات ہی نہ تھی، اگر میں حجّت اور تاویل کا سہارا لیتا تو دھوکاتو اپنے کو دیتا)حال، عمل اور نیت کا جائزہ لینے کے بعد اور اس تمام تر یقین کامل کے باوجود میں مدت تک اسی فکر میں رہا، کہ میں اب آگے کیا کروں، دنیاوی وجاہت کا خیال، بچوں، بیوی، گھر بار اور موجودہ شان و شوکت کا خیال اور پھر آخرت کا خیال آڑے آتا۔ کبھی دنیا کو ترک کرنے کا ارادہ اور کبھی اس سارے عزم سے ہاتھ اٹھانے کا خیال، ایک قدم آخرت کی جانب آگے بڑھاتا تو دوسرا پیچھے ہٹاتا تھا۔ اگر صبح حصولِ عقبيٰ کی طلبِ صادق پیدا ہوتی تھی، تو شام کو خواہشات نفسانی کا لشکر حملہ آور ہو کر اُسے مغلوب کر دیتا۔ فقہی تاویلات بھی اکثر عزم آخرت کی کمزوری کا باعث بن جاتی تھیں۔
شہوات دنیوی اپنی زنجیروں میں جکڑ کر مجھے اسی مقام پر رہنے پر مجبور کرتی تھیں اور دوسری طرف ایمان کا منادی کرنے والا آواز دیتا تھا۔ ’’کوچ، کوچ! عمر بہت تھوڑی رہ گئی ہے۔ اور سفر طویل در پیش ہے۔ اور جو کچھ علم و عمل تیرے گرد وپیش پھیلا ہُوا ہے۔ وُہ بجزریا اور توہم کے اور کچھ نہیں۔ اگر تم آخرت کے لیے اب تیار نہ ہوئے تو پھر کب ہو گے اوراگر اب ترکِ خواہشات اور علائق دنیا وی سے منہ موڑو گے تو پھر کب کرو گے‘‘؟ ان سب باتوں سے ارادہ میں قوت پیدا ہُوتی تھی اور دنیا سے ہجرت اور فرار کا عزم بالجزم پیدا ہوتا تھا، لیکن شیطان پھر آکر بہکاتا اور کہتا۔ یہ عارضی کیفیت ہے۔ اس کی پیروی مت کرو۔ کیونکہ اس کیفیت کو جلد ہی زوال ہو گا، اگر اس خیال کی پیروی کر کے دنیا کے جاہ و منصب، عزت، شہرت، شان و شوکت جو آج تمہیں حاصل ہے۔ اور دشمنوں سے بھی محفوظ ہو۔ ان کوچھوڑ و گے۔ تو تمہارا نفس پھر اس کی طرف مائل ہوگا اور اس وقت پھر یہ اعزاز تمہیں آسانی سے حاصل نہ ہو سکے گا۔ تقریباً چھ مہینے تک میں شہوات دنیوی اور دواعی آخرت کے درمیان کشمکش اور تردّد میں مبتلا رہا اور سخت اضطراری کیفیت مجھ پرچھا گئی۔ میرا کھانا پینا تک ختم ہو گیا۔ اور سخت ضعف کا شکار ہو گیا۔
پھر جب میں نے محسوس کر لیا۔ کہ میں اب عاجز محض ہو گیا اور کوئی اختیار باقی نہ رہا۔ تو میں نے اللہ تعالےٰ کی جناب میں اس طرح التجا کی کہ جیسے کوئی بے وسیلہ اور بے سہارا التجا کیا کرتا ہے۔ پس اُس مجیب الدعوات نے میری التجا قبول فرمائی۔ وُہ جو بیقراروں کے التجا کرنے پر ان کی درخواست قبول فرماتا ہے، اُس نے میرے قلب پر دنیاوی شان وشوکت، شہرت، جاہ و مال، اولاد اور پیروکار وں سے ر وگردانی آسان کر دی۔ دنیاوی علائق سے رو گردانی کے بعد بھی میں عوام و خواص کی طرح طرح کی باتوں، طنزو تشنیع، اور لومتہ لائم کی زد میں آیا۔ لیکن اللہ نے مدد فرمائی۔ اس کے بعد ملک شام میں دو سال مسلسل میں نے گوشہ نشینی، خلوت گزینی اور ریاضت و مجاہدہ اختیار کیا۔ اور سوائے ذکر الہی سے تزکیہ نفس اور تہذیب اخلاق کے میرا اور کوئی مشغلہ نہ تھا۔ جس طرح تصّوف سے میں نے اسے سیکھا۔ دمشق کی مسجد میں ایک عرصہ تک میں معتکف رہا۔ اس دوران میں نے فریضہ حج کی ادائیگی کی سعادت حاصل کی۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے فیوض و برکات سے مستفید ہُوا اسی حالت میں دس برس کے قریب عرصہ گزرا۔
آخر زمانے کے حوادث، عیال و اطفال کی ضروریات اور وجہ معاش کی تنگی اکثر اصل مقصدِ مراد میں خلل انداز ہوتی تھی اور صفائے قلب کو مکدّر کرتی تھی اور احوال کی صفائی اور قلبی اطمینان سکون صرف اوقات متفرقہ میں حاصل ہوتی۔ اس کے باوجود میں تزکیہ قلب، تصفیہ باطن اور جمعیتِ خاطر سے مایوس نہ ہُوا۔ اور ترقی ہوتی گئی۔ دنیاوی امور مجھے سلوک و تصوف سے روکتے تھے۔ لیکن میں بار بار اُس کی طرف رجوع کرتا۔ دس برس کشمکش کا یہ عرصہ بہت کٹھن، جان گسل اور پر خطر تھا۔ لیکن دنیا سے روگردانی، خلوتوں اور عزلتوں میں مجھ پر بہت سے امور و اسرار منکشف ہوئے جن کا احاطہ و شمار نا ممکن ہے۔ ان میں سے میں صرف اتنا بیان کرتا ہوں جس سے راہ طریقت پر چلنے والے اہل سلوک و تصوف کو فائدہ پہنچے۔ اس عرصہ میں جس امر سے مجھے یقینا آگاہی ہوئی۔ وہ یہ تھا کہ بلاشبہ اللہ تعاليٰ کے راستہ پر چلنے والے صرف صوفیائے کرام ہیں۔ ان کی سیرت سب سے اعليٰ، اُن کا طریقہ سب سے درست اور ان کے اخلاق سب سے پاکیزہ ہیں۔ بلکہ اگر کل عقلاء کی عقلیں اور سب حکماء کی حکمتیں اور دنیا کے تمام علوم و فنون کے علماء و ماہرین، فلاسفروں، علمائے شریعت اور واقفانِ علوم دینیہ کے علوم جمع کئے جائیں، کہ صوفیائے کرام کے سیرت و اخلاق سے بہتر کچھ لایا جاسکے۔ تو ایسا کرنے کی کوئی سبیل نہ ہو سکے گی۔ کیونکہ صوفیائے کرام کے تمام اعمال و اشغال سلوک تصوف اور تمام حرکات و سکنات خواہ ظاہری ہوں کہ باطنی، مشکوٰۃ نبوت کے نُور سے مستنیر اور مقتبس ہیں اور روئے زمین پر کوئی نور سوائے نورِ نبوت کے ایسا نہیں کہ جس سے اکتسابِ نور کیا جا سکے۔ اور حاصل کلام یہ کہ کہنے والا ایسے طریقے کے متعلق کہہ ہی کیا سکتا ہے۔ نور نبوت سے منور سلوک و تصوف کی تعلیمات کا بنیادی مقصد رضائے الہی کا حصول ہے۔ طہارت جو اس کی شرط اول ہے ماسوی اللہ سے دِل کا قطعی پاک و مطہر کرنا ہے۔ اور اس کا پہلا مرحلہ بجائے نماز کی تکبیر تحریمہ کے دِل کا کلیتہً ذکر الہی میں مستغرق ہو جانا ہے۔ اور اس کا آخری درجہ کلیتاً فنا فی اللہ!
تو جو ہو دِل میں تو پھر کوئی تمنا نہ رہے!
٭٭٭٭٭