ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ.
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔
(القلم، 68: 4)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو باری تعالیٰ نے تمام انسانوں کے حق میں خلق عظیم اور اسوہ جلیل اور بے مثل سیرت اور سب کے لئے قابل تقلید نمونہ، انسان سازی اور شخصیت و کردار کی تشکیل کے لئے ایک ماڈل آف لائف بنایا ہے۔
اعلیٰ خلق، انسان کی ضرورت
اللہ رب العزت کو کونسا انسان پسند ہے اس انسان کے اخلاق اور اعمال کیا ہوں اس انسان کے اطوار اور طریقے کیا ہوں اور اس انسان کی عادات اور خصلتیں کیا ہوں اور اس انسان کے اندر کون کون سی انسانی صفات ہوں کہ وہ انسان اپنے وجود میں بھی انسان لگے اور انسانیت کا قابل فخر نمائندہ ہو اور انسانیت کے حق میں قابل رشک ہو اور اللہ کا بھی فرمانبردار ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی اطاعت گزار ہو۔ وہ انسان بنے جس کے لئے قرآن نے کہا:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی اٰدَمَ.
’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ‘‘۔
(الاسراء، 17: 70)
اور جس انسان کو ساری مخلوقات میں اشرف المخلوق ہونے کا شرف عطا کیا ہے اور اس کے لئے ارشاد فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ.
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے‘‘۔
(التين، 95: 4)
انسان کی وجہ فضیلت عقل ہے
انسان کا شرف تمام مخلوقات پر صرف مشکل کی بناء پر نہیں بلکہ عقل کی بناء پر ہے اور اسی حقیقت کو ہم یوں بھی بیان کرسکتے ہیں کہ انسانی شرف، صورت کی بناء پر نہیں بلکہ سیرت کی بناء پر ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ انسان اپنی سیرت کیسے بنائے اپنی سیرت کی تعمیر کیسے کرے اپنی سیرت کے لئے کونسے رہنما اصول اور ضابطے اختیار کرکے کون سے اخلاق اپنائے اور کون سے اخلاق چھوڑے۔ کس عمل کو اپنے وجود میں جگہ دے اور کس عمل کو اپنے وجود سے دور رکھے اور کیسی اس کی سیرت ہو جو بندوں کے ہاں بھی قبول ہو اور رب کی بارگاہ میں بھی مقبول ہو۔ اس کا فیصلہ اگر کوئی انسان کرتا تو کوئی اسے مانتا اور کوئی اس کا انکار کردیتا، رب نے چاہا کہ اپنے بندوں پر ایک اور مہربانی اور کرم نوازی کروں جہاں ان کو میں نے صورت دی ہے وہاں ان کو سیرت بنانے کا راز بھی عطا کردوں تو فرمایا:
تمہیں تمہاری سیرت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے ذریعے عطا کرتا ہوں اور میں نے اپنے نبی کی سیرت کو سیرت کامل، اسوہ اکمل اور آپ کی حیات کو دوسروں کے لئے ایک نمونہ کمال بنایا ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.
’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہِ (حیات) ہے ‘‘۔
(الاحزاب، 33: 21)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلق عظیم
حیات رسول کو اسوہ حسنہ اور سیرت بے مثل اور دوسروں کے لئے قابل عمل بنانے کے رازوں میں سے ایک راز خود باری تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ظاہر کردیا کہ آپ ’’خلق عظیم‘‘ کے مالک ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اس حقیقت کو آشکار کردیا ہے کہ لوگو! اللہ رب العزت نے مجھے رسول بناکر بھیجا ہے۔ میری بعثت اور میری رسالت اور میری نبوت کے مقاصد میں سے ایک بہت بڑا مقصد تمام انسانوں کے لئے اعلیٰ اخلاق، اعلیٰ رویوں، اعلیٰ اطوار اور اعلیٰ عادات کا ظہور ہے اور باری تعالیٰ نے جو بھی ایک اعلیٰ خلق ہے وہ مجھے عطا کردیا ہے اب تک اور رہتی دنیا تک جو بھی ایک اعلیٰ خلق کسی انسان میں ہوسکتا ہے حتی کہ باری تعالیٰ نے مختلف انبیاء علیہم السلام کو جو اخلاق کریمانہ عطا کئے ہیں۔ وہ سارے کے سارے میری ذات میں جمع کردیئے ہیں، ہر خلق رفیع کو باری تعالیٰ نے میری ذات میں مجتمع کردیا ہے۔
میں انسانوں کو اللہ کی طرف اعلیٰ اخلاق دینے کے لئے آیا ہوں اور اعلیٰ ارفع اخلاق کا عملی اظہار کرنے کے لئے آیا ہوں۔ تمام انسانوں کے سامنے باری تعالیٰ نے مجھے حسن اخلاق، مکارم اخلاق اور خلق قرآن کا پیکر بنایا ہے۔ اس لئے لوگو سن لو میں تمہارے سامنے اپنی بعثت کا مقصد یوں بیان کرتا ہوں۔
انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق.
’’میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘۔
اس مضمون کو دوسری حدیث میں حسن الاخلاق سے بیان کیا ہے۔ حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
عن مالک بلغه ان رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم قال بعثت لاتمم حسن الاخلاق.
(موطا امام مالک، باب حسن الاخلاق)
’’میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘۔
خلق عظیم اور مکارم اخلاق
اب ان دونوں احادیث مبارکہ میں جو الفاظ آئے ہیں وہ ساری توجہ اپنی طرف مبذول کرتے ہیں۔ ایک حدیث میں ’’مکارم اخلاق‘‘ اور دوسری میں ’’حسن اخلاق‘‘ کی تکمیل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد عظیم قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر خلق کو اپنی ذات میں اختیار کرکے اسے خلق عظیم بنا کر اللہ کی مخلوق کے سامنے ظاہر کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر انسانی خلق کو اپنی ذات میں خلق عظیم بنایا ہے۔ خواہ وہ خلق صدق ہو، خلق صبر ہو، خلق حیاء ہو، خلق احسان ہو، خلق احصان ہو (پاک دامنی) خلق امانت داری اور خلق دیانت داری ہو۔ خلق وفائے عہد ہو، خلق شکر ہو خلق عفو ہو، خلق عدل و انصاف ہو، خلق تواضع و انکساری ہو، خلق حلم و بردباری ہو، خلق رحم و مہربانی ہو، خلق سخاوت و جودو کرم ہو، خلق شجاعت و بہادری ہو، خلق ایثار و بے نفسی ہو، خلق حق گوئی اور صاف گوئی ہو، خلق اعتدال و توازن ہو اور خلق رفق ونرمی ہو۔
ان سب اخلاق کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات میں خلق عظیم کی صورت میں پروان چڑھایا۔ ان سارے خلقوں کو اپنے کمال پر پہنچایا ہے اور ان سب کو پرعظمت اور انسان کے لئے باعث عزت بنایا ہے اور ان سب اخلاق کو اتنا عظیم اور اتنا زعیم اور اتنا وجہ تکریم اور اتنا باعث تنعیم بنایا ہے جب ان میں سے خلق صدق آپ کی ذات اقدس سے ظاہر ہوا تو باری تعالیٰ نے اسے خلق عظیم قرار دیا۔ اسی طرح جب خلق صبر آپ سے ظاہر ہوا تو باری تعالیٰ نے فرمایا آپ اس خلق میں صبر عظیم پر فائز ہیں جب خلق حیاء آپ سے ظاہر ہوا تو آپ اس میں بھی خلق عظیم پر فائز ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلق کو خلق عظیم بنایا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلق احسان کو خلق عظیم بنایا، خلق احصان کو خلق عظیم بنایا، خلق امانت و دیانت کو خلق عظیم بنایا، خلق وفائے عہد کو خلق عظیم بنایا، خلق شکر کو خلق عظیم بنایا، خلق عفو کو خلق عظیم بنایا، خلق عدل و انصاف کو خلق عظیم بنایا، خلق تواضع و انکساری کو خلق عظیم بنایا، خلق حلم و بردباری کو خلق عظیم بنایا، خلق رحم و مہربانی کو خلق عظیم بنایا، خلق سخاوت و جود و کرم کو خلق عظیم بنایا، خلق شجاعت و بہادری کو خلق عظیم بنایا، خلق ایثار و بے نفسی کو خلق عظیم بنایا، خلق حق گوئی اور خلق صاف گوئی کو خلق عظیم بنایا اور خلق اعتدال و توازن کو خلق عظیم بنایا اور خلق رفق و نرمی کو خلق عظیم بنایا۔
جب ہر خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود اقدس میں خلق عظیم بنتا چلاگیا اور ہر خلق آپ کی ذات میں مکارم اخلاق کی منزل پر پہنچتا گیا اور ہر خلق آپ کی ذات اقدس میں حسن اخلاق کے مقام پر پہنچتا گیا تو باری تعالیٰ نے ہر ہر خلقِ حسن کی آپ کی ذات اقدس میں تکمیل اور کمال کی بشارت اس آیہ میں یوں دی:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ.
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔
(القلم، 68: 4)
اخلاق سیئہ کا انسداد
اخلاق کی تعمیر، تشکیل اور تکمیل کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں اخلاق حسنہ کو اپنے عروج و کمال پر پہنچایا وہاں اخلاق سیئہ اور اخلاق شنیعہ کی قباحتوں سے آگاہ کیا اور ہر ہر خلق سیئہ اور خلق شنیعہ کی جڑیں آپ نے کاٹ ڈالیں، دنیا بھر میں پھیلا ہوا کذب آپ کے دور میں کمزور پڑگیا۔ وعدہ خلافی کا آپ نے سدباب کیا۔ خیانت پر کاری ضرب لگائی۔ کبرو غرور کے بت کو زمین بوس کیا، حسد کی لعنت سے خبردار کیا، خودستائی کے صنم کو پاش پاش کیا۔ غیبت کا قلمع قمع کیا، تمسخرا و استہزاء کا خاتمہ کیا، بدظنی و بدگمانی پر پہرے بٹھائے، بخل کو اللہ کے انعامات کے خلاف جانا، بہتان اور تہمت کو معاشرتی اخوت و محبت کے خلاف تصور کیا، چغل خوری کو انسانی نفرت کی اساس قرار دیا، ظلم کو انسانی وجود کی عظمت کے خلاف گردانا، منافقت کو انسانی ذلت قرار دیا، بے جا خوشامد کو انسانی رفعت کے خلاف جانا، فحش گوئی کو حسن تکلم کے آداب کے منافی سمجھا، ریاء کو اعمال کے ضیاع کا سبب مانا، حرص و طمع کو انسانیت کی تذلیل اور توہین جانا، غیظ و غضب کو انسانی وقار کے خلاف تسلیم کیا، عیب جوئی کو اپنی ذات سے بے وفائی اور بدعہدی جانا، غرضیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلق عظیم دونوں اعتبار سے تھا۔ خلق حسنہ کے اثباتی پہلو کے اعتبار سے اور خلق سیئہ کے انسدادی پہلو کے لحاظ سے تھا۔ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلق حسنہ کا اثبات کیا ہے اور خلق سیئہ کا انسداد کیا ہے۔ خلق حسنہ کو فروغ دیا ہے اور خلق سیئہ کی ممانعت اور خاتمہ کیا ہے۔
خلق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خلق الہٰیہ کی جلوہ آرائی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اخلاق کریمانہ پر اللہ کے اخلاق کا رنگ چڑھایا ہے، اپنے اخلاق کو اخلاق الہٰی کے تابع کیا ہے، جب خلق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلق الہٰی میں ڈھل گئے اور قرآن کی زبان میں ان کی یہ صورت ہوگئی۔
وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اﷲِ صِبْغَةً.
’’اللہ سے بڑھ کر کس کا رنگ (خلق) سب سے اچھا ہے‘‘۔
(البقرة، 2: 138)
جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کے اس رنگ اور اس کی کیفیت اور اس فضیلت کو دیکھا تو پوچھنے والے سائل کے سوال میں خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ تعریف کردی ہے اور خلق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ حقیقت بتادی ہے جو آج تک سب سے زیادہ معتبر، سب سے زیادہ مستند اور سب سے زیادہ جامع ہے۔ ام المومنین کا ایک مختصر جملہ ہزاروں کتابوں اور لاکھوں خطبوں کا مواد اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ ام المومنین نے فرمایا اے خلق رسول کے بارے میں سوال کرنے والے جان لے، خلق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہیں:
کان خلقه القرآن.
’’آپ کا سارا خلق قرآن ہی ہے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر خلق کی بنیاد اللہ کا قرآن ہے، ہر خلق رسول کی اساس قرآن سے پھوٹی ہے، ہر خلق رسول پر قرآن کا رنگ چڑھا ہے، ہر خلق رسول میں روشنی قرآن سے ہے، قرآن اگر بیان اخلاق ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس قرآن کے اخلاق کا عملی اظہار اور مضبوط ثبوت ہے۔ قرآن اگر نظریہ اخلاق ہے تو رسول اللہ کی سیرت ان اخلاق کا عملی اظہار ہے۔ قرآن کے ہر خلق کی کامل، اکمل اور باکمال تصویر رسول اللہ کی ذات اقدس ہے۔
خلق کو اعلیٰ بنانے کی دعا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اخلاق پر خلق الہٰیہ کا رنگ چڑھانے کے لئے یوں دعا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
عن عائشة قالت کان رسول الله اللهم حسنت خلق فاحسن خلقی.
’’اے اللہ تو نے مجھے صورت میں ظاہری حسن و جمال عطا کیا ہے پس اسی طرح مولا میرے اخلاق و کردار کو حسن و جمال کی بلندیوں پر پہنچا اور میرے خلق کو حسنِ خلق سے مزین فرما‘‘۔
(مسند امام احمد بن حنبل)
حسن خلق اللہ کی نعمتوں اور بندے پر رب کی رحمتوں اور رب کی عطائوں میں سے سب سے بڑی عطا، حسن خلق ہی ہے اس لئے حضرت اسامہ بن شریک روایت کرتے ہیں:
عن اسامه بن شریک قال شهدت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم والاعراب يسئلونه قالوا يارسول الله ماخير مااعطی العبد قال خلق حسن.
’’حضرت اسامہ بن شریک سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اعرابی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کررہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بندے کو سب سے بہترین چیز رب کی بارگاہ سے کیا عطا کی گئی ہے؟ تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ سب سے بڑی نعمت حسن خلق ہے‘‘۔
(مسند امام اعظم، کتاب الادب)
حسن خلق ایک عظیم نعمت
رب کی ہر نعمت انسان کے لئے بہت بڑی ہے لیکن کچھ نعمتیں ایسی ہیں جو دوسری نعمتوں کا سبب بن جاتی ہیں اور اللہ کی کرم نوازیوں اور فضل و انعام کا باعث بن جاتی ہیں تو ان میں سے ایک انسان کا حسن اخلاق ہے اور اعلیٰ اخلاق سے مزین ہونا ہے۔
حسن خلق رب سے مانگنے اور اپنی ذات میں ارادی طور پر اختیار کرنے سے آتا ہے۔ خلق حسن اور خلق سیئہ بندے کا اختیاری فعل ہے۔ اسے اپنانا اور ترک کرنا بندے پر منحصر ہے۔ اسے اپنے وجود میں ڈھالنا اور اپنے وجود سے ہٹانا بندے کا اختیار ہے۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سب امتیوں کو اخلاق حسنہ اپنانے اور اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بطور خاص جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یمن بھیج رہے تھے تو اس وقت ان کو یوں ارشاد فرمایا:
احسن خلقک للناس.
’’لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آنا‘‘۔
(موطا امام مالک، باب ماجاء فی حسن الخلق)
اسی طرح حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو بھی یہی حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
خالق الناس بخلق حسن.
’’لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق کے ساتھ پیش آؤ‘‘
خلق حسن کو کیسے اختیار کریں
اب سوال یہ ہے کہ آج ہم حسن خلق اختیار کرنا چاہیں تو کیسے کریں؟ اور ہم ایک عمل اختیار کرلیں تو ہمارا ہر عمل حسن خلق بنتا چلا جائے۔
عن النواس بن سمعان رضی الله عنه قال سالت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم عن البر والاثم فقال البر حسن الخلق والاثم ماحاک في صدرک وکرهت ان يطلع عليه الناس.
’’نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حسن خلق اختیار کرنا نیکی ہے اور گناہ یہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تو اس بات کو ناپسند کرے کہ لوگ اس پر مطلع ہوجائیں‘‘۔
(صحيح مسلم، باب تفسير البروالاثم)
اب اس حدیث مبارکہ میں ہر برّ کو ہر نیکی کو اور نیک عمل کو اور عمل صالح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن خلق قرار دیا ہے۔ گویا حسن خلق سراسر نیکی ہے اور نیک عمل اختیار کرنا ہے خود کو وجود صالح بنانا ہے اور ہر عمل صالح کو اختیار کرنا ہے اور عمل صالح ہی حسن خلق ہے اور عمل اطاعت ہی مکارم خلق ہے۔ عمل بندگی ہی ارفع خلق ہے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے ہر فرد کو حکم دیا:
عن زياد يرفعه الی النبی صلی الله عليه وآله وسلم انه امر بالنصح لکل مسلم.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر ایک مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرو‘‘۔
(مسند امام اعظم کتاب الادب)
یہ خیر خواہی ہی انسان کو خوش اخلاق بناتی ہے اور حسن خلق کا پیکر بناتی ہے۔
امت کو اخلاق حسنہ اپنانے کی ترغیب اور تاکید
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو اخلاق حسنہ کو اپنانے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اکمل المومنين ايمانا احسنهم خلقا.
’’مومنوں میں سے ایمان کے لحاظ سے کامل وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں‘‘۔
(جامع ترمذی)
اور دوسری حدیث میں فرمایا:
ان من خيارکم احسنکم اخلاقا.
’’تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں‘‘۔
(صحيح بخاری)
اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا:
قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ان من احبکم احسنکم اخلاقا.
’’اللہ کے بندوں میں سے اللہ کا سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں‘‘۔
یہ احادیث مبارکہ آج ہم سب اہل ایمان سے تقاضا کرتی ہیں کہ ہم اپنے اخلاق کو اخلاق حسنہ سے مزین کریں، خود کو اکمل المومنین بنانے کے لئے اخلاق حسنہ کو اختیار کریں اور ’’ان من خیارکم‘‘ میں تم میں سے سب سے بہتر کا اعزاز پانے کے لئے اور ان من احبکم (تم میں سب سے زیادہ پسندیدہ) کا مقام پانے کے لئے اخلاق حسنہ کو اپنی شخصیت کی پہچان بنائیں۔ اپنی ظاہری وجود کو سنوارنے کی طرح باطنی وجود کو بھی اعلیٰ عادات، اعلیٰ اخلاق، اعلیٰ رویوں سے مزین کریں۔ اپنے وجود کو اعلیٰ انسانی اوصاف کا پیکر بنائیں، انسانیت کے شرف کو اپنے وجود سے تسلیم کرائیں۔ ولقد کرمنا بنی آدم کو اپنی شخصیت کی شناخت بنائیں اور خود کو لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم اور لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ کا پیکر اتم بنائیں۔
باری تعالیٰ ہمارے ظاہر و باطن کو سیرت الرسول کا پیکر بنائے اور ہمیں اپنی بندگی اور رسول کی اطاعت گزاری کی زندگی عطا فرمائے۔ آمین