اسلام ، دین امن و سلامتی ہے جسکی بنیاد اخوت و بھائی چارہ ، مساوات و برابری ، محبت و الفت اور صبرو برداشت پر ہے۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق مسلمان وہ ہے جسکی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں لہذا اسلامی تعلیمات کی روسے مسلمان کی تعریف میں وہی شخص شامل ہو سکتا ہے جسکے ہاتھوں مسلم و غیر مسلم سب بے گناہ انسانوں کے جان و مال محفوظ رہیں کیونکہ دین اسلام میں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے اور کسی بھی انسان کی جان لینا اور اسے ناحق قتل کرنا فعل حرام کا ارتکاب کرنا ہے بلکہ بعض صورتوں میں اسے کافرانہ فعل گردانا گیا ہے جیسے موجودہ حالات میں دہشت گردی ہے کہ بعض ظالم اور سفاک لوگ جس بے دردی اور بے حسی سے لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں، بم دھماکوں اورخود کش حملوں کے ذریعے اپنے مخالفین کی جانیں لیتے ہیں، مساجد، مزار ات، گھروں، دفاتر، بازاروں اور عوامی مراکز کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا رہے ہیں اسکی جتنی بھی مزمت کی جائے کم ہے۔ دین اسلام نے ان لوگوں کیلئے دنیا و آخر ت میں درد ناک عزاب کی و عید سنائی ہے۔ جہاں دہشت گردی کا فرانہ اور مشرکانہ فعل ہے وہیں اس میں جو خود کشی کا عنصر شامل ہے جو از خود فعل حرام ہے اس نے اسکی سزا کو مزید سخت اور غضبناک بنا دیا ہے اوراب تو ان نام نہاد مسلمانوں کی سفاکی ، بیباکی اور بربریت حرم نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جا پہنچی ہے ۔ تو پھر ان گستاخوں پر اللہ رب العزت اور پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی ، سختی اور غضبناکی کا عالم کیا ہو گا؟
دین اسلام اختلاف کی اجازت دیتا ہے تاکہ مختلف آراء اور خیالات علم میں اضافہ کا باعث بنیں مگر اسلام خلاف کی ہر گز اجازت نہیں دیتا کیونکہ اس سے مخالفت برائے مخالفت کا دروازہ کھلتا ہے جو تعصب ، تنگ نظری اور دشمنی پر جاکر منتج ہوتا ہے۔ ایسے ہی اسلام اپنی بات اور مئوقف کو زبردستی منوانے اور نہ ماننے کی صورت میں گولی اور بندوق کے ذریعے اپنا عقیدہ کسی پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ ہتھیار اٹھانے کی بجائے بات چیت ، ٹیبل ٹاک ، گفت و شنید اور دلائل سے اپنا مئوقف ثابت کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور زبردستی اور ظلم و زیادتی کے ذریعے اپنا نکتہ نظر اور مئوقف کو مسلط کرنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ کیونکہ بندوق اور گولی کی زبان وہی استعمال کرتا ہے جسکے پاس ذخیرہ علم اور دلائل نہ ہوں۔ یہ اُنہی لوگوں کا کام ہے جو جہالت و عصبیت میں گرفتا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا دین اسلام سے کوئی واسطہ اور تعلق نہیں بلکہ یہ لوگ قرآن و حدیث اور شریعت اسلامیہ کے علاوہ اپنے ملک کے قوانین سے بھی بغاوت کے مرتکب ہوتے ہیں ۔
موضوع کی اہمیت:
اس موضوع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دین اسلام تو غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کی ہدایت کرتا ہے ۔ یہ صرف دین اسلام کی خوبی ہے کہ وہ غیر مسلموں کو بھی مسلمانوں کی طرح یکساں شہری حقوق عطا کرتا ہے اور وہ مسلمانوں کو تلقین کرتا ہے کہ وہ ان سے شفقت آمیز برتائو کریں۔ اسلام چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والے غیر مسلموں سے ویسا ہی سلوک کریں جیسا ایک ڈاکٹر اپنے مریض سے کرتا ہے۔ اسی چیز کا عملی مظاہرہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر تمام اہل مکہ سے کیا تھااور تمام مجرموں کی سرِ عام معافی کا اعلان کرکے ان غیر مسلموں کے نہ صرف دل جیت لیے بلکہ وہ اس حسنِ سلوک کی وجہ سے حلقہ بگوش اسلام ہو گئے ۔ یہ وہ عظیم سنت نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جس پر آج ان نام نہاد مسلمانوں کو عمل کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے ناپاک عزائم سے دین اسلام کے اصل چہرے کو مسخ کر رہے ہیں جو امن وسلامتی ، محبت و پیار اور احسان و انعام پر مشتمل تھا۔ غیر مسلموں سے حسن سلوک کا حکم نہ صرف پیغمبر اسلام نے دیا بلکہ خود اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں حکم فرمایا :
يٰاَ يُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ اکُوْنُوْا قَوّٰ مِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدآءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِ مَنَّکُمْ شَنْٰانُ قَوْمٍ عَلٓی اَلاَّ تَعْدِلُوا اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقویٰ وَاتَّقُوْا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْر بِمَا تَعْمَلُوْنَo
(المائدة، 5 :8)
اے ایمان والو! اللہ کیلئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جائو اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیز گاری سے نزدیک تر ہے اور اللہ سے ڈرا کرو۔ بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی طرح غیر مسلم شہریوں کو بھی بحیثیت انسان عدل و انصاف کی فراہمی، جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ، معاہدات کی پاسداری ، شخصی اور مذہبی آزادی ، انکی پراپرٹی اور عبادت گاہوں کا تحفظ اسلامی ریاست کے ذمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی قوانین میں غیر مسلم شہریوں کو مسلمانوں کی طرح قصاص اور دیت میں بھی برابر حقوق حاصل ہیں۔ غیر مسلم سفیروں اور تاجروں کی جان و مال کا تحفظ بھی اسلامی ریاست کا فریضہ ہے چہ جائیکہ غیر مسلم شہریوں کو قتل کیا جائے ، انکی املاک کو تباہ کیا جائے، ان پر قاتلانہ حملے کیے جائیں، انہیں اغوا کیا جائے یا تاوان کا مطالبہ کیا جائے یا انہیں قیدو بند کی صعوبت دی جائے یا ان پرجسمانی تشدد کیا جائے یا اُنہیں ذہنی اذیت دی جائے یہ سب کچھ سراسر قرآنی اور اسلامی تعلیمات سے انحراف، صریح خلاف ورزی اور حکم عدولی کے زمرے میں آتا ہے۔
موضو ع کی وسعت:
اس حوالے سے اسلام کی تعلیمات میںامن پسندی ، خیر خواہی ،رواداری اور وسعتِ نظری کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ غیر مسلموں سے جہاد کے دوران میدان جنگ میں بھی غیر مسلم خواتین، چھوٹے بچوں ،بیمار اور ضعیف افراد اور جو میدان جنگ میں شریک نہیں انکو قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ اس طرح انکے مذہبی طبقہ کے افراد ، انکی تاجر برادری کے افراد ، ان میں سے جو ہتھیار ڈال دیں، جو اپنے گھروں میں مقید ہو جائیں ، جو کسی کی جائے پناہ میں آجائیں انکو بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں چہ جائیکہ انکا قتل عام کیا جائے ، قتل و غارتگری کا بازار گرم کیا جائے ، خودکش حملہ کیا جائے یا بم بلاسٹ کرکے زندگیوں کا خاتمہ کیا جائے۔
اسلام کی امن پسندی اور انسان دوستی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ دوران جہاد بھی مجاہدین پر پابندی ہے کہ وہ غیر مسلموں کے چرچ، کلیسا، مندر، انکے مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کو نذرِ آتش یا تباہ نہیں کرسکتے ۔ انکی عمارتوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتے انکے بازاروں ، دوکانوں اور کاروبار کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ،انکے کھیتوں اور کھلیانوں کو ویران نہیں کر سکتے اور انکی فصلوں، باغات اور درختوں کو اجاڑ نہیں سکتے۔ جب شریعت اسلامیہ نے غیر مسلموں کو دوران جنگ بھی اتنے زیادہ حقوق انہیں مرحمت فرمائے ہیں تو پھر یہ کون سے نام نہاد مسلمان ہیں جو اپنے ہی ہم مذہب مسلمانوں کو مساجد میں عبادت کے دوران بم بلاسٹ کرکے یا خودکش حملہ کے ذریعے شہید کر رہے ہیں۔ جو بازاروں اور گلیوں میں خواتین ، بچوں، بوڑھوں اور مردوں کا خونِ ناحق کر رہے ہیں ۔ یہ کونسا اسلام ہے ؟ یہ کونسی مسلمانی ہے؟ بقول اقبال
ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے، نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر
مسلم ریاست اور اسکے ساکنین کے جان و مال کا تحفظ اور معاشرے میں امن و سکون کا قیام اسلام کو اتنا عزیز ہے کہ اسلام اعلیٰ مقصد کی خاطر مسلمان حکمرانوں کی اخلاقی کمزوریوں اور انکے فاسقانہ اور ظالمانہ کردار کے باوجود بھی کوئی مسلح گروہ اسلامی ریاست کے خلاف علم بغاو ت بلند نہیں کرسکتا اور اسلامی ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کرسکتا ۔ جب تک وہ حکمران صریح اور اعلانیہ طور پر کفر کے مرتکب نہیں ہوتے اور اسلام کے فرائض پر پابندی نہیں لگاتے، اسلامی شعائر کا کھلے عام مزاق نہیں اڑاتے یا قانون سازی کے ذریعے اسلام کو معطل نہیں کرتے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلح جدوجہد اور بغاوت سے منع کیا گیا ہے۔ فاسق و فاجر حکمرانوں کی اصلاح اور انہیں راہ راست پر لانے سے ہرگز منع نہیں کیا گیا کیونکہ امر بالمعروف ونھی عن المنکر کا فریضہ ایمان کا حصہ ہے جو ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اسی طرح معاشرے کی اصلاح اور طاغوتی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے اپنے آپ کو محفوظ کرنا ہم سب کا فریضہ ہے لہذا وقت کے حکمرانوں کو ظلم و نا انصافی اور فسق و فجور سے روکنا اور اس سلسلے میں تمام قانونی ، آئینی، جمہوری ، سیاسی اور اخلاقی طریقے اختیار کرنا ضروری ہیں اور اس سلسلے میں باطل نظام کی تبدیلی کیلئے سیاسی و جمہوری جدوجہد کرنا خواہ وہ انفرادی سطح پر ہو اجتماعی سطح پر ، تنظیمی سطح پر ہو یا جماعتی سطح پر نہ صرف جائز بلکہ وقت کا تقاضا ہے جو امر بالمعروف و نھی عن المنکر کے زمرے میں آتا ہے مگر اصلاح کی بجائے دوسروں کو جان سے مار دینا یہ جہاد نہیں بلکہ فساد فی الارض ہے اور پھر اپنی اس جدوجہد کو اصلاح اور جہاد سے تعبیر کرنا یہ اس سے بھی بڑا جرم ہے جسکے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذا قِدْلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُوْافِیْ الْاَرْضِ قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَoأَلآ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لاَّيَشْعُرُوْنَo
(البقرة ، 2: 11 تا 12)
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو وہ کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں (یعنی مصلحین ہیں) آگاہ ہو جائو! یہی لوگ (حقیقت میں) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں (اسکا ) احساس تک نہیں‘‘۔
قرآن کے مطابق فتنہ و فساد برپا کرنے والے کبھی اپنے اس عمل کو فتنہ پروری اور فساد انگیزی خیال نہیں کرتے بلکہ وہ اس خون خرابے کو جہاد اور اصلاح کا نام دیتے ہیں۔ یہ بات بھی کابلِ غور ہے کہ اصلاح اور جہاد کی نیت اورمشروع اور جائز ہوسکتی ہے اور نہ ہی اسکے لئے رحم کی اپیل اور معافی ہے کیونکہ ایسے باغی اور مفسد لوگوں کے بارے قرآن میں حکم ہے:
اَلّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِیْ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنَعًا.
(الکهف، 18: 104)
’’یہ وہ لوگ ہیں جنکی ساری جدوجہد دنیاکی زندگی میں ہی برباد ہو گئی اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام انجام دے رہے ہیں‘‘۔