شہادت اﷲ کی نعمتوں میں سے ایک گراں بہا نعمت ہے۔ جن خوش نصیب حضرات کو یہ نعمت میسر آتی ہے ان انعام یافتہ بندوں کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے:
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔‘‘
(النساء، 4: 69)
مذکورہ آیہ کریمہ میں شہداء کو اﷲ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندوں میں شامل کیا گیا ہے اور شہداء کو صالحین پر فضیلت دی گئی ہے۔ شہادت بھی ایک کمال اور اﷲ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے بلکہ یہ تو ایسی نعمت ہے کہ اس کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی شدید آرزو تھی۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مسلمانوں کے دل میں اس سے رنج نہ ہوتا کہ میں ان کو چھوڑ کر جہاد کے لئے نکل جاؤں اور میرے پاس اتنی سواریاں نہیں ہیں کہ سب کو ساتھ لے جاؤں تو میں ہر اس گروہ کے ساتھ نکلتا جو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے جاتا ہے۔‘‘مگروعدہ الٰہی کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اﷲ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونے سے مانع تھا جبکہ یہ بھی ضروری تھا کہ نبی کی دعا قبول ہو اور یہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ شہادت کی خواہش پوری نہ ہوتی۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو خواہش کو یوں پورا فرمایا کہ آپ کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام - جنہیں آپ اپنا بیٹا کہہ کر پکارتے تھے - کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوہر شہادت کے ظہور تام کے لئے منتخب فرمایا چنانچہ شہادت حسین سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باب بھی بن گئی۔حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت محض شہادت ہی نہیں تھی بلکہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک باب تھا اس لئے ضروری تھا کہ اس شہادت کو اتنا چرچا اور شہرت ملے کہ اس کے مقابلے میں کسی اور شہادت کو وہ مقام حاصل نہ ہو سکا ہو۔ یہی وجہ یہ کہ دوسروں کی شہادت کی شہرت اور چرچا ان کے شہید ہونے کے بعد ہوتا ہے مگر حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا چرچا ان کے شہید ہونے سے پہلے ہو چکا تھا۔حضرت امام حسین علیہ السلام ابھی بچے تھے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اس جگہ کی مٹی عطا فرمائی جہاں امام حسین علیہ السلام نے شہادت پانا تھی۔یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی سب ازواج میں سے زیادہ محبوب تھیں ان کو مٹی عطا نہیں فرمائی اور نہ ہی کسی اور زوجہ مطہرہ کے سپرد فرمائی بلکہ حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے حوالے فرمائی اور فرمایا کہ اے ام سلمہ! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا شہید ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نگاہِ نبوت سے دیکھ رہے تھے کہ میرے بیٹے کی شہادت کے وقت ازواج مطہرات میں سے صرف ام سلمہ ہی زندہ ہوں گی چنانچہ جب واقعہ کربلا ظہور پذیر ہوا اس وقت صرف ام سلمہ رضی اﷲ عنہا ہی زندہ تھیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باقی تمام ازواج مطہرات وفات پا چکی تھیں۔محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ اس جگہ کی نشاندہی فرمائی تھی جہاں حضرت امام حسین علیہ السلام نے شہادت فرمانا تھی بلکہ اس سن کی طرف اشارہ بھی فرما دیا تھا جس سن و سال حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہونے والی تھی۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ساٹھ ہجری کے سال اور لڑکوں کی امارت (حکومت) سے اﷲ کی پناہ مانگو۔‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساٹھ ہجری کے سال سے پناہ مانگنے کا حکم ارشاد فرمایا تھا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ ساٹھ ہجری میں میرے جگر کے ٹکڑوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جائیں گے اور انہیں بڑی بے دردی سے شہید کر دیا جائے گا۔ یہ صرف چند افراد کی ہلاکت نہیں ہو گی بلکہ اس سے پوری امت مسلمہ اس طرح ہلاکت کا شکار ہو گی کہ ہمیشہ کے لئے اس کا شیرازہ بکھر جائے گا اور آپس میں اس قسم کے اختلافات پیدا ہوں گے جو ہمیشہ امت کی تباہی و بربادی کا سبب بنتے رہیں گے۔مذکورہ حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ دین میں کمزور لوگوں کی حکومت و امارت ساٹھ ہجری سے شروع ہو گی اور یزید ساٹھ ہجری میں ہی تخت نشین ہوا تھا بلکہ یزید کے بارے میں تو آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے کہ یہ پہلا شخص ہو گا جو عدل و انصاف کے نظام کو تباہ کرے گا۔حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’میری امت کا امر (حکومت) عدل کے ساتھ قائم رہے گا یہاں تک کہ پہلا شخص جو اسے تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہو گا جس کو یزید کہا جائے گا۔‘‘
آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان اقدس سے نہ صرف یہ کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت، جائے شہادت اور سن شہادت کو پہلے سے بتلا دیا گیا تھا بلکہ اس بات کی بھی پہلے سے نشاندہی کی جا چکی تھی کہ میدان کربلا میں اہل بیت کرام کے خیمے کس کس جگہ نصب ہوں گے اور کس کس جگہ پر ان کا خون بہے گا۔الغرض شہادت حسین علیہ السلام پر اتنی صریح شہادتیں اور واضح دلائل موجود ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی ہر خاص و عام میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا چرچا ہو چکا تھا۔ چنانچہ سیدنا امام حسین علیہ السلام جب میدان کربلا میں پہنچے تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو بارہا کہا کہ شہادت میرا مقدر ہو چکی ہے مجھ کو تو شہید ہونا ہے لیکن میں تم پر شہادت ٹھونسنا نہیں چاہتا۔ تم میں سے جس کسی نے جانا ہے رات کے اندھیرے میں چلا جائے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا چونکہ آپ کو معلوم تھا کہ میری شہادت جوہرِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہورِ تام کے لئے مقدر کر دی گئی ہے اس لئے آپ نے جان دینے سے خود کو بچانے کی کوئی کوشش نہ کی۔ وہ کسی بھی لمحہ زندگی میں بارگاہ خداوندی میں اس انجام سے بچنے کی دعا کرتے نظر نہیں آتے۔ اگر آپ دعا کرتے تو ممکن تھا کہ کربلا میں پانسا پلٹ جاتا اور اہل بیت کے ایک ایک فرد کے شہید ہونے کی بجائے یزیدی لشکر تہس نہس ہو جاتا۔ دعا سے حالات تو بدل جاتے لیکن اس طرح جوہر شہادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور ممکن نہ ہوتا۔حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت دس محرم الحرام کو بڑی شہرت، چرچے اور تحمل کے ساتھ رونما ہوئی۔ تمام قرآن میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو آزمانے کی جو جو صورتیں بیان کی ہیں مثلاً وطن سے نکال دیا جانا، پریشانیوں میں مبتلا کیا جانا اور اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جان کا قربان کرنا وغیرہ وہ سارے کے سارے طریقے اور سب کی سب آزمائشیں شہادت امام حسین علیہ السلام اور معرکہ کربلا میں مجتمع نظر آتی ہیں۔شہادت امام حسین کو دوسری شہادتوں سے اس اعتبار سے بھی امتیاز حاصل ہے کہ دوسری شہادتیں مشہود بالملائکہ ہوتی ہیں جبکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت مشہود بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ دوسری شہادتوں میں صرف فرشتے حاضر ہوتے ہیں مگر حضرت امام حسین علیہ السلام وہ خوش قسمت شہید ہیں کہ ملائکہ تو ملائکہ خود تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نواسے کی شہادت کے وقت موجود تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے جسم مبارک سے روح کو قبض کیا گیا۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کے کٹے ہوئے سر کا نیزے پر چڑھ کر بول پڑنا شہداء کے زندہ ہونے کی واضح اور ناقابل تردید دلیل ہے۔ حضرت منہال بن عمرو فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! جب حضرت امام حسین علیہ السلام کے سر کو نیزے کے اوپر چڑھائے گلیوں اور بازاروں میں پھرایا جا رہا تھا تو میں اس وقت دمشق میں تھا، میں نے بچشم خود دیکھا کہ سر مبارک کے سامنے ایک شخص سورہ کہف پڑھ رہا تھا۔ جب وہ اس آیت پر پہنچا کہ کیا تو نے نہیں جانا کہ بے شک اصحاب کہف ہماری نشانیوں میں سے ایک عجوبہ تھے تو اﷲ تعالیٰ نے سر مبارک کو قوت گویائی عطا کی اور اس نے بزبانِ فصیح کہا: اصحاب کہف کے واقعہ سے میرا قتل اور میرے سر کو لئے پھرنا زیادہ عجیب ہے۔شہادت امام حسین علیہ السلام کا دوسری شہادتوں سے ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ دوسری شہادتیں تو وقوع پذیر ہونے کے بعد لکھی اور درج یا بیان کی جاتیں ہیں مگر شہادت امام حسین علیہ السلام ایسی شہادت ہے کہ جس کا ذکر شہادت سے پچاس برس پہلے ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کر دیا تھا پھر یہ کہ دوسری شہادتوں کے راوی عام لوگ ہوتے ہیں مگر اس شہادت کے راوی خود آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ازدواج مطہرات اور صحابہ کرام ہیں اوروں کی شہادتیں عظیم سہی مگر ان کی شہادتوں اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت میں فرق یہ ہے کہ دوسرے جب میدان شہادت کی طرف جاتے ہیں تو اگرچہ ان کا شہید ہونے کا عزم اور ارادہ ہوتا ہے مگر کسی کو اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ واقعی اس کو شہادت نصیب ہو گی یا وہ غازی بن کر لوٹے گا جبکہ امام عالی مقام علیہ السلام صحابہ کرام اجمعین کی طرف سے روکنے کے باوجود کشاں کشاں میدان کربلا کی طرف بڑھ رہے تھے تو یقینا آپ اپنی شہادت کے انجام سے باخبر تھے۔ آپ جانتے تھے کہ کربلا کے ریگزاروں میں شہادت میرا انتظار کر رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے ہر ہر منزل پر رک رک کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں کسی اقتدار کے حصول کے لئے نہیں جا رہا۔ اس سفر کا انجام دردناک ہو سکتا ہے۔ اس لئے میں تمہیں کھلے دل سے اجازت دیتا ہوں کہ جس کا جی چاہے چلا جائے۔ میں اس سے وعدہ کرتا ہوں کہ ناراض نہیں ہوں گا۔ اگر کسی کو دن کے اجالے میں چھوڑ کر جانے میں جھجک ہے تو رات کے اندھیرے میں چلا جائے مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا لیکن ہر ایک نے امام عالی مقام علیہ السلام سے کہا: ’’آج اس عالم غربت و سفر میں آپ کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے تو کل قیامت کے دن اﷲ کی بارگاہ میں کیا منہ دکھائیں گے۔‘‘تاریخ اسلام میں اور بھی بہت سی شہادتیں ہوئی ہیں اور ہر شہادت کی اہمیت اور افادیت مسلّم ہے مگر شہادت حسین علیہ السلام کی دوسری شہادتوں کے مقابلے میں اہمیت اور اطراف و اکناف عالم میں اس کی شہرت دوسری سب شہادتوں سے بڑھ کر اس لئے بھی ہے کہ اس میں شہید ہونے والوں کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خاص نسبتیں ہیں پھر یہ کہ یہ داستان شہادت گلشن نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسی ایک پھول پر مشتمل نہیں بلکہ یہ سارے کے سارے گلشن کی قربانی ہے۔ باقی واقعات شہادت ایک، دو، تین یا چار نفوس کی شہادت پر مشتمل ہیں مگر واقعہ کربلا گلشن نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیسیوں پھولوں کے مسلے جانے کی داستان ہے لہٰذا تاریخ کے کسی بھی دور میں امت مسلمہ واقعہ کربلا، اس کی تفصیلات اور اس کی اہمیت کو فراموش نہیں کر سکتی مگر اس کے باوجود بعض لوگ نادانی کے باعث یا اہل بیت اطہار کی محبت سے محرومی اور اپنی بدبختی کے باعث جو کہ بغض اہل بیت کی شکل میں ان کے اندر جاگزیں ہے، واقعہ کربلا کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں اور وہ معاذ اﷲ اس واقعہ کو دو شہزادوں کے اقتدار کی جنگ قرار دیتے ہیں، واقعہ کربلا کو اقتدار کی جنگ قرار دینا بہت بڑا ظلم اور، منافقت کی براہ راست حمایت ہے، حق سے عمداً اعراض اور اسلام کی تاریخ مسخ کردینے کے مترادف ہے کیوں کہ:
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد