حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں بہت سی شہادتیں ہوئیں اور آپ سے قبل امم سابقہ میں بھی بڑی شہادتیں ہوئیں مگر ہمیشہ تاریخ کا قاعدہ ہے جب شہادت کا سانحہ وقوع پذیر ہوجائے تو پھر اس کی شہرت ہوتی ہے لیکن سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایک ایسی عظیم شہادت ہے کہ اس کی شہرت آپ کے بچپن میں ہی ہوگئی تھی۔ یعنی 53، 54 سال شہادت کی شہرت لوگوں کی زبان پر رہی۔ اس کی کوئی مثال کسی دوسری شہادت میں نہیں ملتی۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم آیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں آپ کو ذبح کررہا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ بیٹے نے عرض کیا: جو اللہ کا حکم ہوا ہے وہ آپ کردیجیے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام امر الہٰی میں بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے اوندھے منہ لٹاکر جب چھری چلانے لگے تو اللہ پاک نے حکم دیا:
’’اے ابراہیم تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا۔ ہم نیکو کاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں‘‘۔ حضرت ابراہیم کا اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے بہت بڑی آزمائش تھی مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اس نازک امتحان میں کامیاب رہے۔ آسمان سے ایک مینڈھا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ذبح کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے ابراہیم! تمہاری قربانی قبول ہوگئی ہم نے اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کو ’’ایک ذبح‘‘ کے ساتھ فدیہ کردیا۔ پس حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ مینڈھے کی قربانی ایک سنت بن گئی۔ آقا علیہ السلام نے اس قربانی کو واجب کردیا۔ اب امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک اس قربانی کو یعنی سنت ابراہیمی کو ادا کرتی رہے گی۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی ذبح عظیم ہوگئی۔ اس تفسیر میں کوئی اختلاف نہیں مگر مینڈھے کی قربانی کو ذبح عظیم کہنا یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس کا ایک اور اطلاق بھی سوچا جائے۔ اس سوچ سے ایک خیال ابھرتا ہے کہ پیغمبر کے بیٹے کی قربانی تب ذبح عظیم بنتی ہے جب اس سے بھی بلند رتبہ پیغمبر کا بیٹا آئے اور اس کی قربانی زیادہ مصائب و آلام سے ثابت ہو۔ جب اس تناظر میں دیکھتے ہیں تو ذبح اسماعیل علیہ السلام فدیہ ذبح حسین علیہ السلام نظر آتے ہیں۔ شہادت امام حسین علیہ السلام صرف ایک تن واحد حضرت حسین علیہ السلام کی شہادت نہیں بلکہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے 72 تنوں کی شہادت ہے۔ ایسی شہادت حضرت آدم علیہ السلام کی بعثت سے لے کر بعثت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک، 72 تن ریگزار میں شہید ہوں اور اتنے مظالم ان پر گرائے جائیں کہ نہ اول تاریخ انسانیت میں اس امر کی مثال ہے اور نہ قیامت تک ہوگی۔ پس ذبح اسماعیل علیہ السلام فدیہ ہوا ذبح حسین علیہ السلام سے۔
امام عالی مقام کے حوالے سے ایک فدیہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہوا۔ حدیث مبارک ہے جس کو خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز مدینہ طیبہ میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے اپنی گود میں دائیں طرف سیدنا امام حسین علیہ السلام کو بٹھا رکھا ہے اور اپنی بائیں طرف اپنے صاحبزادے ابراہیم علیہ السلام کو بٹھا رکھا تھا۔ حسین و ابراہیم آقا علیہ السلام کے دو شہزادے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں بیٹھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے پیار فرمارہے تھے۔ اتنے میں حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یارسول اللہ! اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو سلام بھیجا ہے اور سلام کے بعد اللہ رب العزت نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ میرے محبوب کو پیغام دو۔ یہ دونوں بیٹے آپ کے پاس اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ ایک کو دوسرے کے بدلے فدیہ کردو۔
حدیث پاک میں ہے حضور علیہ السلام نے باری باری دونوں کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر ابراہیم علیہ السلام جاتے ہیں تو رونے والا صرف میں ہوں گا اور اگر حسین علیہ السلام جائے تو میں بھی روؤں گا اور میری فاطمہ علیہا السلام بھی روئے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے رونے کی تو خیر ہے لیکن مجھ سے فاطمہ علیہا السلام کا رونا دیکھا نہیں جائے گا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت فاطمہ علیہا السلام سے بڑا پیار تھا۔ چونکہ اللہ کا امر تھا۔ جبریل امین حاضر ہوئے۔ اے محبوب جواب دیں کس کو رکھنا ہے کس کو ہمیں دینا ہے فرمایا میں ابراہیم علیہ السلام کو فدیہ کرتا ہوں حسین علیہ السلام کا۔ مولا حسین علیہ السلام میرے پاس چھوڑ دو۔ میرا ابراہیم علیہ السلام لے لو۔
حدیث مبارک میں ہے کہ جب تک آقا علیہ السلام کا وصال نہیں ہوا تھا۔ تب تک حسین علیہ السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آتے یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ادھر جاتے جہاں حسین علیہ السلام کھیل رہے ہوتے ان کو اٹھاتے اور چومتے تو ایک جملہ اکثر کہتے: ’’حسین علیہ السلام میں نے تجھے ابراہیم علیہ السلام دے کر لیا تھا‘‘۔ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ آقا علیہ السلام کی گود میں امام حسین علیہ السلام شہزادے کھیل رہے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مقدسہ سے آنسو رواں تھے۔ ہم نے پوچھا یارسول اللہ! کیا ہوا؟ اچانک آپ رونے لگ گئے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ اے ام سلمہ رضی اللہ عنہا ! حضرت جبریل میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ یہ میرا بیٹا حسین علیہ السلام جس کو میں نے ابراہیم علیہ السلام دے کر لیا تھا، میرے بعد یہ بھی شہید کردیا جائے گا، عراق کی سرزمین پر اس میدان میں جس کا نام کربلا ہے۔ شہزادے حسین علیہ السلام کو یہاں شہید کیا جائے گا۔ اس مقام شہادت کی مٹی دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا دکھا دو۔ جبرئیل گئے اور مٹی لاکر دکھادی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔ (البدایه والنهایه، 8: 196-200)
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب میں اندر آئی تو وہ مٹی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں تھی اور اس مٹی کو چوم رہے تھے۔ آپ نے مٹی مجھے دے دی اور فرمایا ’’یہ مٹی رکھ لو۔ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا اس دن میرا حسین علیہ السلام شہید ہوگیا۔
شہادت کی جگہ (مقتل، مشہد) ملک عراق اور سرزمین کربلا بیان کردی گئی تھی۔ سیدنا مولا علی شیر خدا علیہ السلام اپنے زمانے میں لشکر کے ساتھ دریائے فرات سے گزرے تو میدان کربلا پر رک گئے۔ آپ علیہ السلام نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
ههنا مناخ رکابهم وموضع رحالهم.
(الخصائص الکبریٰ، 2: 162)
لوگو یہ وہ جگہ ہے پہچان لو کہ یہاں حضور علیہ السلام کی اہل بیت کے کجاوے اتریں گے۔ وہ خیمہ زن ہوں گے۔ اونٹنیوں سے اونٹنیاں بیٹھیں گی ان کے خون بہیں گے یہاں خون بہے گا آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا۔ اس پر زمین و آسمان خون کے آنسو روئیں گے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ: مدینہ طیبہ میں دوپہر کا وقت تھا، میں نماز ظہر کے بعد آرام کررہی تھی، کسی کو کوئی خبر نہیں تھی کہ کربلا کے مقام پر کیا ہورہا ہے۔ فرماتی ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پریشان حال تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر انور اور ریش مبارک گرد آلود تھی۔ فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا! یہ کیا ماجرا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ام سلمی رضی اللہ عنہا میں ابھی مقتل حسین علیہ السلام سے آرہا ہوں۔ حضرت سلمی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے اسی وقت اٹھ کر مٹی والی شیشی دیکھی جو خون میں بدل چکی تھی۔ وہ سمجھ گئیں کہ امام حسین علیہ السلام شہید ہوگئے۔
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ شہادت امام حسین علیہ السلام مشہود بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی یعنی شہادت کے مقام پر حضور علیہ السلام روحانی طور پر موجود تھے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں۔ انہیں بھی اسی وقت حضور علیہ السلام کی زیارت ہوئی۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غبار آلود ہیں۔ عجیب کیفیت ہے اور ہاتھ میں شیشی ہے اس شیشی کے اندر خون ہے۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خون کیسا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ حسین علیہ السلام اور انکے اصحاب کا خون ہے۔ (تهذیب التهذیب، 2: 355)
شہید کی موت مشہود بالملائکہ بھی ہوتی ہے ان کی موت پر ملائکہ حاضر ہوتے ہیں۔ مشہود کا معنی ہے حاضر ہونا۔ شہید کی روح جب قبض ہوتی ہے تو ستر ہزار ملائکہ کے جھرمٹ میں اللہ کے حضور پیش کیا جاتا ہے۔ مگر امام حسین علیہ السلام کی شہادت مشہود بالنبی تھی۔ اس لیے یقینا آپ علیہ السلام کی شہادت پر سیدنا مولا علی شیر خدا علیہ السلام ، سیدہ عالم فاطمۃ الزہراہ علیہا السلام امام حسن مجتبیٰ کی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روحیں سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے لمحے کربلا میں موجود ہوں گئیں۔ شہید کا ایک معنی مدد بھی ہوتا ہے سورۃ البقرہ میں ہے:
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْآ شُهَدَآئَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ.
’’اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور (اس کام کے لیے بے شک) اللہ کے سوا اپنے (سب) حمائتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہو۔‘‘
(البقره، 2: 23)
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہید تو شہیدہوگا وہ مدد کیسے کرے گا۔ امام حسین علیہ السلام کا جسد انور کٹ گیا۔ بعض اندھی عقل والے، تاریکی میں گم ہیں جن کو روشنی نصیب نہیں۔ انہیں تو مدد کے معنی ہی معلوم نہیں۔ مدد کا معنی درج ذیل مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک ماچس جلاتے ہیں ماچس چھوٹی سی تیلی ہے۔ ماچس پر تھوڑا سا مصالحہ ہوتا ہے۔ ہزار بجھے ہوئے چراغ پڑے ہوئے ہیں۔ ایک ماچس جلائی، چراغ جلادیا، دوسرا جلادیا پھر تیسرا جلادیا اور چراغ سے چراغ جلتے جلتے ایک ہزار چراغ جل گئے۔ یہ مدد ہے کہ ماچس خود تو جل کر راکھ ہوگئی مگر ہزار چراغوں کو جلا گئی۔ بجھے چراغوں کو جلاکر اندھیروں کو مٹاگئی اور دنیا کو روشنی دے گئی اس سے بڑی مدد کیا ہے؟ دنیا کا اندھیرا ختم کردیا اس طرح شہید خود تو سرکٹا کر ایک لاش کی شکل میں زمین پر لیٹ جاتا ہے مگر کروڑوں تنوں کو جلا دے جاتا ہے لوگوں کو جینے کا طریقہ سکھا جاتا ہے کہ ظالموں کے سامنے اپنا سر کٹواکے حق کو اس طرح بلند کرنا ہے۔ یہ شعائر زندگی ہے۔ شہید اسلام کو زندہ کرجاتا ہے تو شہید مدد کرتا ہے انسانوں کی بھی اور اسلام کی بھی۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
آقا علیہ السلام وہاں موجود تھے وہ بھی مدد کررہے تھے۔ ذہن میں خیال آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب کی مدد کرتے ہیں لیکن اپنے نواسے کی نہیں کرسکے۔ یہ نا سمجھی اور لاعلمی ہے۔ پہلے مدد کا معنی تعین کرنا ہوگا کہ کیا حسین علیہ السلام کو اس مدد کی ضرورت تھی کہ یزیدیوں سے بچا کر زندہ سلامت واپس مدینہ میں چلے جائیں اور شہادت سے محروم ہوجائیں، وہ جو پچاس برس سے شہادت کے منتظر تھے، ملائکہ منتظر تھے۔ تاریخ میں اس شہادت سے اسلام کو زندہ کیا جانا تھا۔ اسلام کی مدد ہونے والی تھی۔ تو کیا یہ حسین علیہ السلام کی مدد تھی کہ وہ شہادت سے بچ جائیں یا صبر و رضا کے ساتھ شہادت کی وادی سے گزر جائیں؟ اس نکتہ کو ایک مثال کے ذریعے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک روزہ دار ہے اس نے روزہ رکھا ہے، گرمیوں کے دن ہیں، پچھلا ٹائم ہوگیا ہے، پیاس سے زبان، حلق خشک ہیں۔ بالکل افطار کا وقت قریب ہے، اس کی بری حالت ہے۔ پانی پلانا مدد ہے یا روزہ مکمل کروانا مدد ہے۔ روزہ دار کو کہیں گے سارا دن گزر گیا ہے، اب چند منٹ باقی رہ گئے ہیں۔ صبر کرو، روزہ افطار کرو گے تو اس کا اجر پاؤ گے پس روزہ دار کی مدد روزہ توڑنا نہیں بلکہ مکمل کرنا ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں فلسفہ شہادت امام حسین علیہ السلام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین