قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے درج ذیل 3 ایسے اشخاص کا تذکرہ کیا ہے جواپنے اپنے معاشرے میں معاشرتی، سیاسی اور معاشی استحصال کے نمائندہ تھے:
- فرعون
- نمرود
- قارون
آیئے ان کے استحصال اور ان کے مقابلے میں انبیاء کرام علیہم السلام کی جدوجہد کا مطالعہ کرتے ہیں:
1۔ معاشرتی استحصال
قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کے دوران کثرت سے فرعون کا تذکرہ ملتا ہے کہ وہ کس طرح بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کردیتا تھا اور ان کی بچیوں کو زندہ رکھتا تھا۔ لوگوں کو غلام بناکر رکھتا تھا، ظلم و بربریت کا ایک بازار گرم تھا اور فحاشی و عریانی اپنے عروج پر تھے۔ غرض وہ معاشرتی استحصال کا ایک بڑا نمائندہ تھا۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ.
(القصص:4)
’’بے شک فرعون ز مین میں سرکش و متکبّر (یعنی آمرِ مطلق) ہوگیا تھا اور اس نے اپنے (ملک کے) باشندوں کو (مختلف) فرقوں (اور گروہوں) میں بانٹ دیا تھا اس نے ان میں سے ایک گروہ (یعنی بنی اسرائیل کے عوام) کو کمزور کردیا تھا کہ ان کے لڑکوں کو (ان کے مستقبل کی طاقت کچلنے کے لیے) ذبح کر ڈالتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا (تاکہ مردوں کے بغیر ان کی تعداد بڑھے اور ان میں اخلاقی بے راہ روی کا اضافہ ہو)، بے شک وہ فساد انگیز لوگوں میں سے تھا‘‘۔
جب بنی اسرائیل کے لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے تو فرعون کے ظلم و ستم میں بھی اضافہ ہوگیا اور اُس نے بھی بنو اسرائیل کو ایمان لانے کی پاداش میں اس طرح سزا دی کہ
فَـلَاُ قَطِّعَنَّ اَيْدِيَکُمْ وََاَرْجُلَکُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّلَاُوصَلِّبَنَّکُمْ فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ اَيُنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰی.
(طه:71)
’’پس (اب) میں ضرور تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں الٹی سمتوں سے کاٹوں گا اور تمہیں ضرور کھجور کے تنوں میں سولی چڑھاؤں گا اور تم ضرور جان لوگے کہ ہم میں سے کون عذاب دینے میں زیادہ سخت اور زیادہ مدت تک باقی رہنے والا ہے‘‘۔
حتی کہ اُس نے موسیٰ علیہ السلام کو بھی اپنے استحصال کا نشانہ بنایا اور کہنے لگا:
لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰهًا غَيْرِيْ لَاَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَ.
(الشعراء:29)
’’(فرعون نے) کہا: (اے موسیٰ!) اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تم کو ضرور (گرفتار کرکے) قیدیوں میں شامل کر دوں گا‘‘۔
دوسرے مقام پر ہے کہ
وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِيْ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْيَدْعُ رَبَّهُج اِنِّيْ اَخَافُ اَنْ يُبَدِّلَ دِيْنَکُمْ اَوْ اَنْ يُظْهِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ.
(المومن:26)
’’اور (اپنی سرکشی اور ظلم و اِستبداد سے بے شعور) فرعون بولا: مجھے چھوڑ دو میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور اسے چاہیے کہ اپنے رب کو بلا لے۔ مجھے خوف ہے کہ وہ تمہارا دین بدل دے گا یا ملک (مصر) میں فساد پھیلا دے گا‘‘۔
الغرض وہ جابرانہ طرز حکومت کا قائل تھا اور مظلوم عوام کے حقوق سلب کئے ہوئے تھا۔ حتی کہ ان سے جینے کا حق بھی چھین چکا تھا۔ لوگوں کا مال اور جانیں تک اس سے محفوظ نہ تھیں، مائیں فرعون کے خوف سے اپنے بچوں کو چھپا دیا کرتی تھیں یہاں تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ان کو ایک صندوق میں ڈال کر پانی کے سپرد کردیا کہ کہیں یہ ظالم حکمران میرے فرزند کی جان نہ لے لیں۔
قرآن مجید نے فرعون کی صورت میں ہمارے سامنے مثال رکھی کہ اگر تم نے معاشرتی استحصال کو سمجھنا ہو تو فرعون کے دور حکومت کو دیکھو کہ
وَاَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدٰی.
’’اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کردیا اور انہیں سیدھے راستہ پر نہ لگایا‘‘۔
(طه:79)
پس فرعون جس طرح استحصال کیا کرتا تھا اسے معاشرتی استحصال کہتے ہیں۔
2۔سیاسی استحصال
اللہ رب العزت نے جب سیاسی استحصال کو واضح فرمانا چاہا تو نمرود کی مثال کے ذریعے بیان فرمایا کہ یہ شخص خدائی کا دعوی کرتے ہوئے سیاسی استحصال کرتا تھا اور اگر کوئی اس کے سامنے علمِ حق بلند کرتا تو چاہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کیوں نہ تھے وہ انہیں بھی آگ میں پھینکوا دیتا۔
قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَانْصُرُوْا اٰلِهَتَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ.
’’وہ بولے: اس کو جلا دو اور اپنے (تباہ حال) معبودوں کی مدد کرو اگر تم (کچھ) کرنے والے ہو‘‘۔
(الانبياء:68)
گویا جب سیاسی استحصال، سیاسی حقوق کے سلب ہونے، سیاسی میدان میں قتل و غارت، ظلم و بربریت اور زوال کی بات ہوئی تو قرآن مجید نے ہمارے سامنے نمرود کی بات کردی اور اسے سیاسی استحصال کے نمائندہ کے طور پر ذکر فرمایا۔
3۔معاشی استحصال
استحصال کی تیسری قسم معاشی استحصال ہے۔ جس کا نمائندہ قرآن مجید نے قارون کو قرار دیا۔ جس نے خزانوں کا انبار لگا رکھا تھا۔ غریب غربت میں پستا چلا جارہا تھا مگر اس کے خزانے بڑھتے چلے جاتے تھے۔ اس کے دور میں غریب کا دم گھٹتا رہتا تھا مگر قارون کے خزانے کی چابیاں اونٹوں پر لادھی جاتی تھیں۔ اس کے خزانے بڑھتے چلے جارہے تھے مگر ہر گھر میں موت رقص کررہی تھی۔ جب معاشی استحصال کی بات آئی تو قرآن مجید نے اس معاشی استحصال کا نمائندہ قارون کی شکل میں ہمارے سامنے رکھا۔
استحصالی نظام کے خلاف صدائے انقلاب
جب بھی کسی معاشرے کے زوال کو پرکھنا، اس معاشرے کے استحصال کو سمجھنا اور وہاں پائے جانے والے ظلم و بربریت کو جاننا ہو تو اس کی پرکھ درج ذیل تین پیمانوں پر ہوا کرتی ہے:
- کیا اس معاشرے میں سیاسی حقوق میسر ہیں؟
- کیا اس معاشرے میں معاشرتی حقوق میسر ہیں؟
- کیا اس معاشرے میں معاشی حقوق میسر ہیں؟
اگر ہم جاننا چاہیں کہ خدا کی نظر میں کون سا معاشرہ ظالم معاشرہ ہے تو جان لیں کہ وہاں پر یہ تینوں استحصال پائے جاتے ہوں گے۔ وہاں پر لوگوں کا معاشی، معاشرتی، اور سیاسی استحصال ہورہا ہوگا یعنی لوگوں کو معاشرتی، معاشی اور سیاسی حقوق میسر نہ ہوں گے۔
ان تین درجوں کا استحصال جہاں بھی نظر آئے تو قرآن مجید کی رُو سے یہ ظالم معاشرہ ہے۔ ایسے حالات میں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے؟ اس کی رہنمائی ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی جدوجہد سے حاصل ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے ادوار میں پائے جانے والے استحصال کے خلاف عملی جدوجہد کرتے ہوئے ہر استحصال کا سدِّباب فرمایا اور استحصالی قوتوں سے اقتدار چھینتے ہوئے غریب اور پسی ہوئی عوام کو اُن کے حقوق بہم پہنچائے۔ ارشاد فرمایا:
وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامٰـنَ قف وَلَقَدْ جَآءَهُمْ مُّوْسٰی بِالْبَيِّنٰتِ فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ وَمَا کَانُوْا سٰبِقِيْنَ. فُکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْبِهِج فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًاج وَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُج وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَج وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَاج وَمَا کَانَ اﷲُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ.
(العنکبوت:39، 40)
’’اور (ہم نے)قارون اور فرعون اور ہامان کو (بھی ہلاک کیا) اوربے شک موسیٰ (ں) ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے تھے تو انہوں نے ملک میں غرور و سرکشی کی اور وہ (ہماری گرفت سے) آگے بڑھ جانے والے نہ تھےo سو ہم نے (ان میں سے) ہر ایک کو اس کے گناہ کے باعث پکڑ لیا، اور ان میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جس پر ہم نے پتھر برسانے والی آندھی بھیجی اوران میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جسے دہشت ناک آواز نے آپکڑا اور ان میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے (ایک) وہ (طبقہ بھی) تھا جسے ہم نے غرق کر دیااور ہرگز ایسا نہ تھا کہ اللہ ان پر ظلم کرے بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے‘‘۔
اس استحصال کے سدِّباب اور اس کی جگہ کمزور لوگوں کے پیشوا بنادیئے جانے کو اس طرح واضح فرمایا:
وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَئِمَّةً وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِيْنَ. وَنُمَکِّنَ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا کَانُوْا يَحْذَرُوْنَ.
(القصص:5، 6)
’’ اور ہم چاہتے تھے کہ ہم ایسے لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں (حقوق اور آزادی سے محرومی اور ظلم و استحصال کے باعث) کمزور کردیے گئے تھے اور انہیں (مظلوم قوم کے) رہبر و پیشوا بنا دیں اور انہیں (ملکی تخت کا) وارث بنادیں۔ اور ہم انہیں ملک میں حکومت و اقتدار بخشیں اور فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجوں کو وہ (انقلاب)دکھادیں جس سے وہ ڈرا کرتے تھے‘‘۔
جب فرعون نے معاشرتی اور قارون نے معاشی استحصال کا بازار گرم کررکھا تھا تو خدا نے اپنے برگزیدہ بندے اور پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ جاؤ اور علم انقلاب اور صدائے انقلاب بلند کرو۔
اِذْهَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّهُ طَغٰی.
(طه:24)
’’تم فرعون کے پاس جاؤ وہ (نافرمانی و سرکشی میں) حد سے بڑھ گیا ہے‘‘۔
یعنی اس کو چیلنج کرو اور بنی اسرائیل کی مظلوم قوم کو اس کے شکنجے سے نجات دلاؤ۔
وَاِذْ نَادٰی رَبُّکَ مُوْسٰی اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ.
(الشعراء:10)
’’اور (وہ واقعہ یاد کیجیے) جب آپ کے رب نے موسیٰ (ں) کو نِدا دی کہ تم ظالموں کی قوم کے پاس جاؤ‘‘۔
اسی طرح جب نمرود نے ظلم و بربریت اور سیاسی استحصال کا بازار گرم کر رکھا تھا تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اسی انقلاب کا حکم دیا کہ اے ابراہیم علیہ السلام جاؤ اور صدائے انقلاب دو، لوگوں کو اس استحصال سے نجات دلا کر ظالموں کے اقتدار کا خاتمہ کرو اور میری مخلوق کو ان استحصالی عناصر سے نجات دلاؤ۔
الغرض جب جب استحصال نے سر اٹھایا تب تب اس استحصال کا خاتمہ کرنے والے لوگ منظر پر آتے چلے گئے۔حتی کہ تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ آیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخلوق کو ایک نئی راہ دکھائی، ہر ہر طبقے کو ان کے حقوق عطا کئے۔ ایک نئی روشنی سے ایک نئے عالم نے جنم لیا، ظلم و جہالت کا خاتمہ ہوا۔ پہلی قوموں پر جس بھی قسم کا استحصال مسلط ہوتا اللہ تعالیٰ اس کے جواب کے لئے اپنا ایک نبی ان میں مبعوث فرمادیتا۔ جب تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں بھی ابوجہل، ابولہب، امیہ بن خلف اور سرداران مکہ کی صورت میں استحصالی طاقتیں موجود تھیں، ان استحصالی قوتوں نے مشن مصطفوی کے راستے میں ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کیں، ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے مگر آقا علیہ السلام اور آپ کے جانثاران کے قدم صبرو استقامت سے جمے رہے۔ دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے آقا علیہ السلام کے دور میں کسی استحصالی طاقت کو جرات نہ دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیئے گئے نظام کو چیلنج کرسکے۔
مگر دوسری طرف یہ بات بھی پوری کرنا تھی کہ ہر دور میں ایک استحصال تھا تو ایک نبی اس استحصال کو چیلنج کرتا تھا۔ پس جب انبیاء کے سلطان آئے تو انکے دور کے چیلنجز کو پچھلے ادوار سے بڑھ کر ہونا تھا۔ لہذا گذشتہ تمام ادوار بڑھ کر چیلنج نواسہِ رسول، جگر گوشہ بتول سیدنا امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام کے دورمبارک میں آپ علیہ السلام کو پیش آیا اور آپ علیہ السلام نے اس کا کماحقہ جواب دیا۔ اسی لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کہتے ہیں کہ شہادتِ حسین علیہ السلام اصل میں سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ایک باب ہے۔ آیئے! امام حسین علیہ السلام کو درپیش چیلنج کا جائزہ لیتے ہیں۔ کہ اس چیلنج کی کیا نوعیت تھی جس سے نبرد آزما ہونے کے بعد دین اسلام جو از اول تا قبل از کربلا، محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا مگر کربلا کے بعد اسلام قیامت تک حسینی قرار پایا۔
صدا حسین علیہ السلام کی گونجے گی رہبر بن کر
یزید کے دور میں معاشی استحصال، معاشرتی استحصال اور سیاسی استحصال، تینوں جمع ہوگئے اور اپنی انتہاء کو پہنچ گئے۔
٭ یزید 60 ہجری کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جبراً بیعت لے کر حکومت پر قابض ہوا۔
٭ 61 ہجری کو امام حسین علیہ السلام کو شہید کروایا۔
٭ 62 ہجری میں مدینہ منورہ کے باسیوں کو قتل کروایا بلکہ اس نے اپنے لشکر کے لئے مدینہ منورہ کو تین دن کے لئے مباح قرار دیا کہ وہ اس مدت میں جو چاہیں کرتے پھریں۔ اس میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری اور عورتوں کے ساتھ زیادتی کو حلال قرار دیا۔
٭ 63 ہجری کو مکہ مکرمہ میں حضرت ابن زبیر اور ان کے ساتھیوں کے محاصرہ پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ کعبہ معظمہ پر منجنیق سے سنگ باری کروائی اور اسے منہدم کروایا۔
جبکہ حکومت پر قابض ہونے سے پہلے کھیل کود، بے حیائی، لذت و تفریح میں مشغول اور شراب پینے میں مشہور تھا مسلمانوں کے لئے اسکی حکومت سخت وبال اور انتہائی ناپسندیدہ و مکروہ تھی۔
علامہ شمس الدین ذہبی اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں نقل فرماتے ہیں کہ باقی برائیوں کے ساتھ ساتھ یزید کے دور میں امت مسلمہ کے اندر جتنا سیاسی انتشار بڑھا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس استحصال کی ابتداء اس نے سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے کی اور بعد ازاں بھی اس نے کسی ایسے شخص کو گوارا نہ کیا جو اس کے سیاسی نظام کو چیلنج کرنے کے لئے اٹھا۔
اسی طرح امام ابن حجر المکی الہیتمی اپنی کتاب الصواعق المحرقہ میں فرماتے ہیں کہ یزید کے دور میں فقط سیاسی استحصال ہی نہیں بلکہ مذہبی و معاشرتی استحصال بھی اپنی عروج پر تھا۔ وہ ایک شرابی، بدکار، گناہگار اور دین دشمن شخص تھا۔ اس کے دور میں حرم مکہ میں نمازیں بھی معطل ہوگئیں، کعبۃ اللہ کے غلاف کو آگ بھی لگی۔ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کو تین دنوں کے لئے اس کی فوجوں کے لئے حلال بھی کیا گیا۔ وہ شہر جس کی حرمت کا تذکرہ قرآن نے کیا تھا، اس کی حرمت کو اس کے دور میں پامال بھی کیا گیا۔ یہ سب مذہبی اور معاشرتی استحصال کی علامت تھی کہ اس نے معاشرتی استحصال کو بھی اپنے دور میں عروج پر پہنچادیا۔
اسی طرح اس کے دور میں معاشی استحصال نے بھی اپنی انتہاء کو چھوا۔ تاریخ کی کتب میں آتا ہے کہ اس کے دور میں جتنی کرپشن و مالی خیانت وجود میں آئی اسلام کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
الغرض قرآن مجید میں فرعون، نمرود اور قارون کی شکل میں جس معاشرتی، سیاسی اور معاشی استحصال کی بات ہے، دورِ یزید میں یہ تینوں استحصال جمع تھے۔ یہاں دشمن زیادہ طاقتور تھا اس لئے کہ یہاں پر تینوں استحصال ایک جگہ پر جمع تھے۔ اب کوئی ایسی ذات چاہئے تھی کہ جو ان تینوں محاذوں پر جنگ کرسکے، ایک نگاہ سے ان کا محاسبہ کرسکے۔ لہذا نواسہِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر خدا کی نگاہ میں کوئی نہ جچا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ان تینوں استحصال کو خاتمہ کرنے کے لئے چن لیا۔ اس طرح سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جملہ استحصال کے خلاف جنگ کا باب شہادتِ امام حسین علیہ السلام اور واقعہ کربلا کی صورت میں مکمل ہوا۔ امام حسین علیہ السلام نے صدائے انقلاب دی اور یزید کے ان تینوں استحصال کا خاتمہ کردیا۔ وہ تین نمائندے جو تین استحصال لے کر چلے تھے، وہ جمع ہوکر یزید بن گئے اور پھر ان تین استحصال کے مقابلے کی طاقت جمع ہوئی تو امام حسین علیہ السلام بن گئے اور انہوں نے اس استحصال کا جرات و بلند حوصلگی سے مقابلہ کیا۔
بیداریِ شعور کی ضرورت
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اِنَّآ اَنْزَلَنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ. وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ. لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ.
(القدر:1 - 3)
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔ اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے۔ شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔
حضرت یوسف بن سعد سے روایت ہے کہ جب امام حسن علیہ السلام، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہوگئے تو مدینۃ المنورہ کا ایک شخص آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے کہا اے امام! یہ آپ نے کیا کردیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ آپ نے فرمایا:
اللہ تم پر رحم کرے زیادہ غصہ نہ دکھاؤ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خواب دیکھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بنو امیہ منبر رسول پر بیٹھی ہوئی ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بنو امیہ کی سلطانی کا دور شروع ہو رہا ہے۔
(ترمذی، السنن، باب ومن سورۃ القدر، 5: 444، رقم:3350)
اس کا تذکرہ ایک اور حدیث مبارکہ میں بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں منبر رسول پر بنو امیہ کے اوباش نوجوانوں کو بندروں کی طرح ناچتے دیکھا۔
(ابویعلیٰ، المسند، 11: 348، الرقم:6461)
یعنی آقا علیہ السلام کو یہ خواب دکھایا گیا کہ بنو امیہ کا استحصالی دور شروع ہونے والا ہے، آپ کی امت پر ایک کڑا وقت آنے والا ہے، مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹنے والے ہیں، ظلم و بربریت کا بازار بنو امیہ کی حکمرانی کی صورت میں شروع ہونے والا ہے۔ اس شے نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دکھی کردیا کہ میری امت کا اب معاشی، سیاسی اور معاشرتی استحصال بھی ہوگا۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر پر نہایت گراں گزری۔ حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
اللہ رب العزت نے آپ کی اس کیفیت کو دیکھ کر ’’انا اعطينک الکوثر‘‘ کی آیت آپ کے قلب اطہر پر نازل فرمادی کہ اے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں۔ آپ کے لئے تو ہم نے خیرِ کثیر مقررفرمارکھی ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے سورۃ القدر کی آیتیں تاجدار کائنات کے قلب اطہر پر نازل فرمائیں تو پریشانیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر سے ختم ہوگئیں۔
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پریشانی ختم ہوجاتی ہے۔ اس بات کا باہمی تعلق کیا ہے؟
مفسرین لکھتے ہیں کہ ’’بنو امیہ کا استحصالی دور ہزار مہینوں یعنی 83 سال پر محیط تھا‘‘۔ اب آیئے سمجھتے ہیں کہ کس بات نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر سے پریشانی دور کر دی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے درحقیقت ان ہزار مہینوں کا ذکر کرنے کے ساتھ ایک ایسی رات کا بھی ذکر کردیا جو ظلم کے ہزار مہینوں کے مقابلے میں تھی اور یہ لیلۃ القدر ہے۔ اس رات کی فضیلت یہ ہے کہ اس رات خدا نے قرآن کی صورت میں دستورِ انقلاب اتارا ہے۔ قرآن میں کیا ہے؟ یہ ہمیں حقوق سکھاتا ہے۔۔۔ اس نے خبر دی ہے کہ اگر کوئی معاشرہ ظلم کے خلاف کھڑا نہ ہو تو خدا تقدیر نہیں بدلتا۔۔۔ اس نے بتایا ہے کہ مظلوم کا حق کیا ہے۔۔۔؟ اس نے خبر دی ہے کہ ظالم حکمرانوں کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے اور ایک اچھے معاشرے کی بنیاد کیسے رکھی جاتی ہے۔۔۔؟ اس نے خبر دی ہے کہ صحیح قیادت کیا ہے اور انقلاب کیسے لایا جاتا ہے۔۔۔؟ قرآن نے خبر دی ہے کہ مظلوم، عورتوں، بچوں، بوڑھوں کے حقوق کیا ہیں۔۔۔؟ قرآن نے خبر دی ہے کہ خدا، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین مبین کے حقوق کیا ہیں۔۔۔؟ قرآن نے خبر دی ہے کہ جب ظلم کا دور ایک ہزار مہینوں تک لمبا ہوجائے تو اسکا تختہ الٹتے کیسے ہیں۔۔۔؟ اس رات اللہ تعالیٰ نے صحیفہِ انقلاب اتارا اور کہا ہر وہ رات جس رات تمہیں اپنے حقوق سمجھ آجائیں، جس رات تمہیں صحیفہِ انقلاب کا مضمون سمجھ آجائے، جس رات تمہارا شعور بیدار ہوجائے، وہ رات ہزار ظلم کی راتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تنہا ہی کافی ہے کیونکہ وہ ایک رات جس میں شعور بیدار ہوجائے تو پھر کوئی ظالم و جابر مسند اقتدار پر برقرار نہیں رہ سکتا۔
تاجدار کائنات کو اللہ رب العزت نے پیغام دیا کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اپنی نگاہ اس طویل ظلم کے دور پر نہ ڈالیں، میں نے صحیفہ انقلاب اتارکر ایک ایسا موقع بھی عطا کر رکھا ہے کہ جس کے ذریعے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں شعور بار بار پیدا کرتا رہوں گا۔ چاہے ظلم کے مہینوں کی راتوں کا عدد ایک ہزار مہینوں سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو، وہ فقط ایک رات ہی کافی ہوگی جس رات آپ کی امت کا شعور بیدار ہوجائے۔ پھر فرمایا:
تَنَزَّلُ الْمَلٰئِکَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْج مِّنْ کُلِّ اَمْر.
(القدر:4)
’’اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں‘‘۔
تفاسیر تو اس کی کئی ہوں گی لیکن انقلاب کے لئے جو سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ جب انقلاب کی خاطر شعور بیدار کرلو گے، ہزار مہینوں پر محیط دورِ ظلمت کے خاتمہ کے لئے نکل پڑو گے تو اللہ تعالیٰ، روح الامین کی قیادت میں سلامتی دے کر فرشتوں کو تمہارے بازو مضبوط کرنے کی خاطر دنیا میں نازل فرمائے گا اور پھر وہ ہمارے دست و بازو بن کر انقلاب کی کوشش میں ہمارے ساتھ شریک ہوں گے۔ فرشتوں کی یہ معاونت منزل کے حصول تک حاصل رہے گی۔ ارشاد فرمایا:
حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ.
مطلع الفجر سے مراد طلوعِ فجرِ انقلاب ہے جو سراسر سلامتی، امن اور سکون کا پیام ہے۔
پس ظلم کی راتیں اگر ایک ہزار مہینوں پر بھی محیط ہوں تب بھی انقلاب لانے کے لئے ایک وہ رات ہی کافی ہے، جس میں صحیفہِ انقلاب اور فلسفہِ انقلاب کو سمجھا گیا۔ لہذا ہر ایک اپنی استطاعت کے مطابق محنت و کوشش کرے۔ ہماری قیادت بھی عظیم ہے اور ورکر بھی عظیم ہیں۔ نہ ہماری قیادت کی کوئی نظیر ہے نہ اس قیادت کے عظیم ورکر کی کوئی نظیر ہے۔ اسی طرح ہمارا مشن بھی بے نظیر ہے۔ مشن کو آگے بڑھاتے جائیں تا وقتیکہ ہم اپنی منزل کو حاصل کرلیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے تاکہ ہم اپنے مشن کو پایہِ تکمیل تک پہنچا سکیں۔