قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یأَیُّهَاَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.
( البقرة، 2: 183)
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘
مذکورہ آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ روزہ پہلی امتوں پر بھی فرض تھا۔ کتبِ حدیث و تاریخ اور تورات و انجیل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قریشِ مکہ ایامِ جاہلیت میں دسویں محرم کو اس لئے روزہ رکھتے تھے کہ اس دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا۔ (بخاری، الصحیح، کتاب الحج، باب قول الله: جعل الله الکعبۃ البیت الحرام، 2: 578، رقم: 1515)
مدینہ میں یہود اس دن اس لئے روزہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے قوم بنی اسرائیل کو اس دن فرعون سے نجات دی تھی۔ (بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشورہ، 2: 704، رقم: 1900)
ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ شریعت محمدی ﷺ سے قبل اُمم میں بھی بحیثیت عبادت کے روزہ معروف اور جانا پہچانا جاتا تھا۔
انسائیکلو پیڈیا آف جیوز میں لکھا ہوا ہے:
’’یہودی اور عیسائی روزہ بطورِ کفارۂ گناہ یا توبہ کی خاطر یا پھر ان سے بھی تنگ تر مقاصد کے لئے رکھتے تھے اور ان کا روزہ محض رسمی نوعیت کا ہوتا تھا، یا پھر قدیم تر ایام میں روزہ ماتم کے نشان کے طور پر رکھا جاتا تھا۔‘‘
یعنی ان لوگوں نے روزے کی اصل مقصدیت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اسے اپنے مخصوص مفادات کے ساتھ وابستہ کر لیا تھا مگر اسلام نے انسانیت کو روزے کے بامقصد اور تربیتی نظام سے آشنا کیا۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے مسلمانوں کو روزے پر وسیع دائرہ ہائے کار اور بلند اغراض و مقاصد عطا کئے۔ زندگی کی وہ تمام تمنائیں اور خواہشات جو عام طور پر جائز ہیں، روزہ میں ان پر بھی کچھ عرصہ کے لئے پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ہر اطاعت گزار اُمتی ان پابندیوں کو دلی رغبت و مسرت کے ساتھ اپنے اوپر عائد کرلیتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ یہ عمل جسم و روح دونوں کے لئے مفید ہے۔
علاوہ ازیں مختلف مذاہب میں روزہ رکھنے کے مکلف بھی مختلف طبقات ہیں۔ مثلاً: پارسیوں کے ہاں صرف مذہبی پیشوا، ہندوؤں میں برہمن اور یونانیوں کے ہاں صرف عورتیں روزے رکھنے کی مکلف ہیں، جبکہ ان کے اوقاتِ روزہ میں بھی اختلاف اور افراط و تفریط پائی جاتی ہے لیکن اسلام کے پلیٹ فارم پر دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے عاقل، بالغ اور مسلمان مرد و عورت کے لئے ایک ہی وقت میں ماہ رمضان کے روزے فرض کیے گئے ہیں۔
روزہ کی فضیلت اور اس کے اسباب
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِ یْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَہ. مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ.
(بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، باب صوم رمضان احتسابا من الایمان، 1:22، رقم:38)
’’جس نے بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
2۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ.
(نسائی، السنن، کتاب الصیام، 2: 637، رقم: 2230-2231)
’’روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔‘‘
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ یُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَاءَ اللهُ ، یَقُوْلُ اللهُ تَعَالَی: إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ. (ابن ماجه، السنن، کتاب الصیام، باب ما جاء فی فضل الصیام، 2: 305، رقم: 1638)
’’آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا الله چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے: روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ اعمالِ صالحہ کا ثواب صدقِ نیت اور اخلاص کی وجہ سے دس گنا سے بڑھ کر سات سو گنا تک بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے لیکن روزہ کا ثواب بے حد اور بے اندازہ ہے۔ یہ کسی ناپ تول اور حساب کتاب کا محتاج نہیں، اس کی مقدار الله تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ روزے کی اس قدر فضیلت کے درج ذیل اسباب ہیں:
1۔ پہلا سبب: روزہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتا ہے اسے الله کے سوا کوئی نہیں جان سکتا جبکہ دوسری عبادتوں کا یہ حال نہیں ہے کیونکہ ان کا حال لوگوں کو معلوم ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ خالص الله تعالیٰ کے لئے ہی ہے۔ فانّا لِیْ سے اسی کی طرف اشارہ ہے۔
2۔ دوسرا سبب: روزے میں نفس کشی، مشقت اور جسم کو صبر و برداشت کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس میں بھوک، پیاس اور دیگر خواہشاتِ نفسانی پر صبر کرنا پڑتا ہے جبکہ دوسری عبادتوں میں اس قدر مشقت اور نفس کشی نہیں ہے۔
3۔ تیسرا سبب: روزہ میں ریاکاری کا عمل دخل نہیں ہوتا جبکہ دوسری ظاہری عبادات مثلاً: نماز، حج، زکوٰۃ وغیرہ میں ریاکاری کا شائبہ ہو سکتا ہے۔
4۔ چوتھا سبب: کھانے پینے سے استغناء الله تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ روزہ دار اگرچہ الله تعالیٰ کی اس صفت سے متشابہ تو نہیں ہو سکتا لیکن وہ ایک لحاظ سے اپنے اندر یہ خلق پیدا کر کے مقربِ الٰہی بن جاتا ہے۔
5۔ پانچواں سبب: روزہ کے ثواب کا علم الله تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں جبکہ باقی عبادات کے ثواب کو رب تعالیٰ نے مخلوق پر ظاہر کر دیا ہے۔
6۔ چھٹا سبب: روزہ ایسی عبادت ہے جسے الله کے سوا کوئی نہیں جان سکتا حتی کہ فرشتے بھی معلوم نہیں کر سکتے۔
7۔ ساتواں سبب: روزہ کی اضافت الله کی طرف شرف اور عظمت کے لئے ہے جیسا کہ بیت الله کی اضافت محض تعظیم و شرف کے باعث ہے ورنہ سارے گھر الله کے ہیں۔
8۔ آٹھواں سبب: روزہ دار اپنے اندر ملائکہ کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے وہ الله کو محبوب ہے۔
9۔ نواں سبب: جزائے صبر کی کوئی حد نہیں ہے، اس لئے رمضان کے روزوں کی جزاء کو بے حد قرار دیتے ہوئے الله تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف منسوب کیا کہ اس کی جزاء میں ہوں۔
رمضان اور شیاطین کا جکڑا جانا
عام طور پر دو چیزیں گناہ اور الله تعالیٰ کی نافرمانی کا باعث بنتی ہیں۔ ایک نفس کی بڑھتی ہوئی خواہش اور اس کی سرکشی، دوسرا شیطان کا مکر و فریب۔ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ وہ نہ صرف خود بلکہ اپنے لاؤ لشکر اور چیلوں کی مدد سے دنیا میں ہر انسان کو دینِ حق سے غافل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے مگر رمضان المبارک کی اتنی برکت و فضیلت ہے کہ شیطان کو اس ماہ مبارک میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا جبکہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک منادی پکارتا ہے: اے طالب خیر! آگے آ، اے شر کے متلاشی! رک جا۔ الله تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے اور ماہ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔(ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ما جاء فی فضل شہر رمضان، 2: 61، رقم:682)
رمضان المبارک میں شیطانوں کا جکڑ دیا جانا اس امر سے کنایہ ہے کہ شیطان لوگوں کو بہکانے سے باز رہتے ہیں اور اہلِ ایمان ان کے وسوسے قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کے باعث حیوانی قوت جو غضب اور شہوت کی جڑ ہے، مغلوب ہو جاتی ہے۔ غضب اور شہوت ہی بڑے بڑے گناہوں کا باعث ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس قوتِ عقلیہ جو طاقت اور نیکیوں کا باعث ہے، روزے کی وجہ سے قوی ہوتی ہے۔ جیسا کہ مشاہدہ میں ہے کہ رمضان میں عام دنوں کی نسبت گناہ کم ہوتے ہیں اور عبادت زیادہ ہوتی ہے۔
شیطانوں کو جکڑے جانے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ گناہوں میں منہمک ہونے والے اکثر لوگ رمضان میں باز آجاتے ہیں اور توبہ کرکے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پہلے وہ نماز قائم نہیں کرتے تھے، اب پڑھنے لگتے ہیں، اسی طرح وہ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر کی محافل میں شریک ہونے لگتے ہیں، حالانکہ وہ پہلے ایسا نہیں کیا کرتے تھے۔ پہلے جن گناہوں میں علی الاعلان مشغول رہتے تھے اب ان سے باز آجاتے ہیں۔
بعض لوگ جن کا عمل اس کے خلاف نظر آتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطانی وساوس ان کے شریر نفوس کی جڑوں میں سرایت کر چکے ہوتے ہیں کیونکہ آدمی کا نفس اس کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ زمانے میں شر تو موجود ہے اور گناہ بھی مسلسل ہو رہے ہیں تو پھر شیطان کے جکڑنے کا کیا فائدہ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان المبارک سے شیطان سرکشی اور طغیانی کی شوکت ٹوٹتی ہے اور اس کے ہتھیار کند ہو جاتے ہیں اور اس کی بھڑکائی ہوئی آگ کچھ مدت کے لئے ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا بھی جانتا ہے کہ وہ کیا گل کھلاتا؟
رمضان المبارک میں قیام اللیل کی فضیلت
رمضان المبارک میں قیام اللیل کو بہت اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا معمول مبارک تھا کہ آپ ﷺ رمضان المبارک کی راتوں میں تواتر و کثرت کے ساتھ نماز، تسبیح و تہلیل اور قرات قرآن میں مشغول رہتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ صحابہ کو فرضیت کے بغیر قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے تھے۔ آپ ﷺ فرماتے:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَّ احْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
(ترمذی، الجامع الصحیح، أبواب الصوم، باب الترغیب فی قیام رمضان وما جاء فیہ من الفضل، 2: 161، رقم: 808)
جس شخص نے ایمان اور احتساب (محاسبۂ نفس کرنے) کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کیا اس کے پچھلے سارے (صغیرہ) گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ رمضان میں نمازِ تراویح بھی قیام اللیل کی ایک اہم کڑی ہے جسے قیامِ رمضان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نمازِ تراویح کے سبب جتنا قیام اس مہینے میں کیا جاتا ہے وہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں نہیں ہوتا۔ اس سے منشاء ایزدی یہ ہے کہ بندہ رمضان المبارک کی راتوں کو زیادہ سے زیادہ اس کے حضور عبادت اور ذکر و فکر میں گزارے اور اس کی رضا کا سامان مہیا کرے۔ اس لئے کہ رمضان کی با برکت راتیں شب بیداری کا تقاضا کرتی ہیں کیونکہ روایات میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی راتوں کو آسمان دنیا پر نزولِ اجلال فرما کر اپنے بندوں کو تین مرتبہ یہ ندا دیتا ہے:
هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأُعْطِیَهُ سُؤْلَهُ، هَلْ مِنْ تَائِبٍ فَأَتُوْبَ عَلَیْهِ؟ هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاغْفِرَ لَهُ؟
(بیهقی، شعب الإیمان، 3: 335، رقم: 3695)
’’کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اس کی حاجت پوری کروں، کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں، کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں۔‘‘
رحمتِ پروردگار رمضان المبارک کی راتوں میں سب کو اپنے دامنِ عفو و کرم میں آنے کی دعوت دیتی ہے۔ شومئی قسمت کہ انسان رحمت طلبی اور مغفرت جوئی کی بجائے رات کی ان گراں بہا ساعتوں کو خوابِ غفلت کی نذر کردیتا ہے جبکہ رب کی رحمت اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر پکارتی ہے:
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہرو منزل ہی نہیں
یوں بد نصیب انسان غفلت کی نیند تانے یہ ساعتیں گزار دیتا ہے اور رحمتِ ایزدی سے اپنا حصہ وصول نہیں کرتا۔
رمضان المبارک میں حاصل ہونے والے تحائفِ خداوندی
حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے:
1. أَمَّا وَاحِدَةٌ فَإِنَّهُ إِذَا کَانَ أَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ نَظَرَ اللهُ تَعالی عزوجل إِلَیْهِمْ وَمَنْ نَظَرَ اللهُ إِلَیْهِ لَمْ یُعَذِّبْهُ أَبَدًا.
پہلا یہ کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو الله تعالیٰ ان کی طرف نظرِ التفات فرماتا ہے اور جس پر الله کی نظر پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔
2. وَأَمَّا الثَّانِیَةُ فَإِنَّ خُلُوْفَ أَفْوَاهِهِمْ حِیْنَ یُمْسُوْنَ أَطْیَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ.
دوسرا یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو الله تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔
3. وَأَمَّا الثَّالِثَهُ فَإِنَّ الْمَلاَئِکَةَ تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ.
تیسرا یہ کہ فرشتے ہر دن اور رات ان کے لئے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔
4. وَأَمَّا الرَّابِعَةُ فَإِنَّ اللهَ عزوجل یَأْمُرُ جَنَّتَهُ فَیَقُوْلُ لَهَا: اسْتَعِدِّی وَتَزَیَنِی لِعِبَادِی أَوْشَکُوْا أَنْ یَسْتَرِیْحُوْا مِنْ تَعَبِ الدُّنْیَا إِلَی دَارِی وَکَرَامَتِی.
چوتھا یہ کہ الله عزوجل اپنی جنت کو حکم دیتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے بندوں کے لئے تیاری کر لے اور مزین ہو جا، قریب ہے کہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔
5. وَأَمَّا الْخَامِسَةُ فَإِنَّهُ إِذَا کَانَ آخِرُ لَیْلَةٍ غُفِرَ لَهُمْ جَمِیْعًا.
پانچواں یہ کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے تو ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔
ایک صحابی نے جب اِن انعامات کو سنا تو عرض کیا: کیا یہ شبِ قدر کو ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
لَا، أَلَمْ تَرَ إِلَی الْعُمَّالِ یَعْمَلُوْنَ فَإِذَا فَرَغُوْا مِنْ أَعْمَالِهِمْ وُفُّوْا أُجُوْرَهُمْ؟
(بیهقی، شعب الإیمان، 3: 303، رقم: 3603)
نہیں۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور کام سے فارغ ہو جاتے ہیں، تب انہیں مزدوری دی جاتی ہے۔
رمضان المبارک کا پیغام
رمضان المبارک امتِ مسلمہ کے لئے یہی پیغام لاتا ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں، ایک دوسرے کے لئے رحمت و شفقت کا پیکر بن جائیں۔ دوسروں کی ضرورتوں کا بھی اس طرح احساس کریں جس طرح اپنی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہیں۔ رمضان المبارک ہمیں اپنے نادار، مفلس، فاقہ کش، تنگ دست مسلمان بھائی جن کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ لباس و طعام خرید کر اپنا اور اپنے بچوں کا تن ڈھانپ سکیں اور ان کا پیٹ پال سکیں، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔
علاوہ ازیں ماہ رمضان ہمیں ریاکاری، غیبت، عیب جوئی، مکر و فریب، بغض و حسد اور جھوٹ جیسے بے شمار معاشرتی و روحانی امراض سے بچانے کی تربیت بھی کرتا ہے۔