اسلام کی تعلیمات کا مرکز و محور امن و سلامتی ہے۔ تعلیماتِ اسلام کے مطابق یہ امن و سلامتی صرف مومنین اور مسلمانوں ہی کے لیے مختص نہیں بلکہ اللہ رب العزت کی تمام مخلوق کو امن و سلامتی فراہم کرنا اسلام کا تقاضا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید نے ارشاد فرمایا:
وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْهُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ ط ذٰلِکَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّایَعْلَمُوْنَ.
(التوبة: 6)
’’اور اگر مشرکوں میں سے کوئی بھی آپ سے پناہ کا خواستگار ہو تو اسے پناہ دے دیں تاآنکہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر آپ اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دیں، یہ اس لیے کہ وہ لوگ (حق کا) علم نہیں رکھتے۔‘‘
اسلام ’’سلم‘‘ سے ہے جس کا معنی سلامتی ہے اور ’’ایمان‘‘ ’’امن‘‘ سے ہے، جس کا معنی امن و سکون ہے۔ اللہ رب العزت نے نبی آخرالزماں ﷺ کو مبعوث فرمایا تو آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کو سراپا رحمت و سلامتی قرار دیا۔ آپ ﷺ کی سیرت مطہرہ کے ہر گوشے میں ہمیں رحمت و سلامتی کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ آج کے اس پرفتن دور میں اگر ہم دنیوی و اخروی کامیابی کے طالب ہیں تو ہمیں بھی امن، سکون، رحمت، شفقت اور سلامتی کی صفات سے متصف ہونا ہوگا۔ جو لوگ اسلام کی تعلیماتِ امن پر کماحقہ عمل پیرا ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن لوگوں سے اپنا تعلقِ ولایت قائم فرمالیتا ہے اور انہیں اپنا دوست (اولیاء اللہ) قرار دیتا ہے۔ بالفاظِ دیگر جو لوگ اس کے دوست ہوجاتے ہیں وہ نہ صرف خود امن و سکون میں آجاتے ہیں بلکہ چشمۂ امن و سلامتی بن جاتے ہیں۔ لہذا ان کے قریب آنے والے اور ان سے نسبت رکھنے والے امن و سلامتی کی بارش سے سیراب ہوتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اولیاء اللہ اور صوفیاء کرام امن و سلامتی کی تعلیمات کے ذریعے لوگوں کے احوال تبدیل کرنے پر بھی قادر ہوجاتے ہیں۔
اشاعتِ اسلام، ترویجِ اخلاق اور بقائے امن و سلامتی کے سلسلے میں صوفیاء کرام کی خدمات نہ صرف اہم اور قابلِ قدر ہیں بلکہ مایوسی کے اندھیروں میں امتِ مسلمہ کے لیے ایک روشن نشانِ منزل ہیں۔ کسی بھی دور کا مفکر و مصلح ان صوفیاء و صالحین کی تعلیمات سے بے نیاز نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کے افکار اور تعلیمات انسانیت پروری اور انسانیت سازی کے لیے ہوتی ہیں۔ ان میں تعصب نہیں بلکہ وسعت ہوتی ہے۔
صوفیاء امن کے حقیقی سفیر ہیں
آج کے پُرفتن حالات میں تعلیماتِ صوفیاء کے چراغ روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ صوفیاء کی سادگی، مساوات، محبت، عجز، انکساری اور اپنی ذات کی نفی ہی ان کا طریقہ اور پہچان تھی۔
جملہ صوفیاء جنہوں نے اپنے اخلاق و عادات سے معاشرے کے افراد کی تربیت کی اور معاشرہ کو امن، رواداری، مساوات، اخوت اور مواخات کے ڈھانچے میں ڈھالے رکھا، یہ تمام علم لدنی کے حامل ہوتے ہیں۔ اللہ کے یہ بندے اللہ سے قرب رکھتے ہیں اور قربِ الہٰی ان کا مشرب ہوتا ہے۔
حضرت خواجہ بہائوالدین نقشبندؒ (نقشبندی سلسلہ کے پیشوا) سمندر میں سیپ کی مثال دیتے ہیں کہ کس طرح سیپ رحمت کے قطرے کی خاطر ساری زندگی بیتاب گزارتی ہے۔ حالانکہ سمندر پانی سے بھرا پڑا ہے اور اس کی حدود کا بھی اس سے تعین نہیں ہوتا مگر وہ اُس رحمت کے قطرہ کی خاطر پرامید زندگی گزارتی ہے اور کبھی ادھر اُدھر نہیں جھانکتی، اسے انتظار ہے تو بس اس رحمت کے قطرے کا، جسے وہ حاصل کرکے گوہر نامدار یعنی موتی کو پیدا کرتی ہے۔ بعینہ صوفی معرفت کی دنیا حاصل کرکے آسودگی و راحت حاصل کرتا ہے۔
صوفیاء آہ و زاری کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اس لیے کہ آہ و زاری میں جتنی لگن اور تڑپ ہوگی، اتنی ہی قبول ہوگی۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم بظاہر رو رہے ہوتے ہیں مگر ہمارا دل بے چین ہی نہیں ہوتا۔ حضرت جنید بغدادیؒ کی خدمت میں ایک عورت آئی اور کہا کہ اس کا بیٹا گم ہوگیا ہے اور مل نہیں رہا، دعا کریں۔ جنید بغدادیؒ نے دعا کی، مگر بیٹا نہ ملا۔ وہ خاتون دو تین دن مسلسل آتی رہی، دعا کا کہتی رہی، آپ دعا کرتے رہے مگر اس کا بیٹا نہ ملا۔ چوتھے دن حضرت جنید بغدادیؒ نے دعا کی تو اس عورت کا بیٹا مل گیا۔ لوگوں نے کہا کہ اس عورت کی آہ و زاری آج دیکھی۔ اس میں وہ تڑپ تھی کہ آج اگر بیٹا نہ ملا تو وہ فوت ہوجائے گی۔ یعنی کچھ حاصل کرنے کے لیے تڑپ اور لگن بہت ضروری ہے۔
صوفی ہونا ایک خاص مشرب اور راستہ ہے۔ جس کا خلاصہ ہر کسی کو گلے لگانا ہے۔ صوفی کسی کا مسلک و مذہب نہیں پوچھتا۔ وہ یہ نہیں پوچھتا کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ دولت مند ہو، یا غریب ہو؟ دوست ہویا نہیں؟ رشتہ دار ہو یا نہیں؟ پیر سے متعلق ہو یا بے مرشد؟ شاہ عبدالطیف بھٹائی کہتے ہیں:
’’اے میرے پیارے! مجھے یاد کرتے ہوئے اگر کبھی تو آجائے تو میں آنکھوں کی پلکیں تیرے قدموں کے تلے بچھادوں۔ اے میرے پیارے ! اے میرے دوست! جو گھر کو چھوڑ کر تم یہاں آئے ہو، واللہ آپ کا آنا مجھ گنہگار کے لیے اتنی بڑی چیز ہے، اتنی بڑی خوشی ہے، اتنا بڑا اعزاز ہے کہ میں اگر کمر بستہ ہوکر پوری زندگی ایک غلام کی مانند آپ کا پانی بھرتا رہوں تو اس سے بڑھ کر میرے لیے کوئی نعمت نہیں ہوسکتی۔‘‘
صوفیاء کرام نے امن، سلامتی اور محبت کے رویے عام کرکے اپنے کردار سے لاکھوں لوگوں کی تقدیر بدل دی۔ اسلام کا تنگ نظری، انتہا پسندی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو امن و سلامتی کا دین ہے۔ صوفیاء نے اپنے کردار سے لوگوں کو باطنی طہارت و پاکیزگی اور محبت و پیار عطا کیا اور انھیں ایثار کی دولت سے مالا مال کردیا۔
صوفیاء نے ہمیشہ انس و محبت اور برداشت کی تعلیم دی۔ خانقاہی نظام بنیادی طور پر ایسا تربیتی اور رہنمائی کا نظام تھا جس نے معاشرہ میں سکون، امن اور رواداری کو فروغ بخشا۔ بے شمار صوفیاء کرام نے اس طریقہ کار کی بدولت لوگوں میںمحبتیں بانٹیں، لوگ شیر و شکر ہوگئے اور دیگر مذاہب سے بھی لوگ اسلام کی جانب کھنچے چلے آئے۔ اسی طرح انہوںنے خواتین کی تعلیم و تربیت کے مراکز بھی قائم کیے۔ آج کا معاشرہ مادی اقدار کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن صوفیاء کا پیغامِ امن ہمیں ایک مرتبہ پھر روحانیت کی طرف لاسکتا ہے۔
اولیاء و صوفیاء کی فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں
اولیاء و صوفیاء کے فضائل اور اعلیٰ صفات اور حسنِ اخلاق و کردار قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں جابجا مذکور ہیں۔ ذیل میں چند فضائل درج کیے جارے ہیں:
1۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهِ لَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ. الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ.
(یونس، 10: 62-63)
’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔ (وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقویٰ شعار رہے۔‘‘
یعنی اولیاء اللہ کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک طرف خوفِ دنیا سے بے نیاز ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف ظلم و ستم سے پرہیز اور امن و امان کے داعی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا میں ظلم و ستم کی تیز آندھیوں سے بچ کر محفوظ راستوں پر چلتے ہیں اور مخلوقِ خدا کو بھی اعتدال و متوازن راہ پر گامزن کرتے ہیں مگر جو لوگ ہدایت کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں اور بدامنی کا باعث بنتے ہیں، وہ ان سے الگ ہوجاتے ہیں۔
2۔ اولیاء و صوفیاء کی صفات کو قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اللہ رب العزت نے یوں بیان فرمایا:
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ هَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا.
(الفرقان، 25: 63)
’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں۔‘‘
3۔ اولیاء و صالحین وہ لوگ ہیں جو اذیت و تشدد کو کلیتاً حرام سمجھتے ہیں اور امن و محبت اور رواداری کی تلقین کرتے ہیں۔ جس کی رہنمائی انھیں قرآن مجید کی اس آیت سے ملتی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَھُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ.
(البروج، 85: 10)
’’بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہے۔‘‘
4۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اولیاء و صوفیاء کرام کو خیر و بھلائی کا خزانہ کہا ہے۔ حضرت سہل بن ساعدی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
خیر (دراصل) خزانے ہیں اور ان خزانوں کو کھولنے کی چابیاں بھی ہیں۔ اس شخص کو مبارک ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے خیر کی چابی بنادیا اور شر کو بند کرنے والا بنادیا۔ بربادی ہو اس شخص کے لیے جس کو اللہ تعالیٰ نے شر کی چابی اور خیر کو بند کرنے والا بنادیا۔‘‘ (ابن ماجہ، السنن، 1؛ 78، رقم: 215)
5۔ صوفیاء و اولیاء دنیا میں اللہ رب العزت کی خشیت کے حامل ہوتے ہیں اور جو دنیا میں اللہ کا خوف اپنے ہر معاملہ میں پیشِ نظر رکھے تو اس کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان نہایت قابلِ توجہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت کی قسم! میں اپنے بندے پر دو خوف اور دو امن اکٹھے نہیں کروں گا۔ اگر وہ مجھ سے دنیا میں خوف رکھے گا تو میں اسے قیامت کے روز امن میں رکھوں گا اور اگر وہ مجھ سے دنیا میں بے خوف رہا تو میں اسے قیامت کے روز خوف میں مبتلاکروں گا۔‘‘ (اخرجہ ابن حبان فی الصحیح، 2: 406، الرقم: 640)
6۔ امنِ عالم کا ایک حسین تصور انسانیت کی خیر خواہی بھی ہے۔ اولیاء کرام اور صوفیاء عظام انسانیت کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ خیر خواہی کے اس جذبے کے پیشِ نظر وہ انسانیت کا تعلق رب تعالیٰ کی بارگاہ سے جوڑنے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ اس لیے کہ اس روّیے سے امن جنم لیتا ہے اور فتنہ و فساد کا قلع قمع ہوتا ہے۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے کسی نے کہا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، بے شک اللہ کے محبوب ترین بندے (یعنی اولیاء اللہ) وہ ہیں جو لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت ڈالتے ہیں اور اس زمین پر (لوگوں کی) خیر خواہی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ (اخرجہ ابن ابی الدنیا فی الاولیاء، 1: 53، الرقم: 36)
7۔ اولیاء و صوفیاء کرام کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ دکھاوے اور شہرت سے پاک ہوتے ہیں بلکہ خود کو معاشرے کی گرد آلود فضا سے محفوظ رکھتے ہیں۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’معمولی سا دکھاوا بھی شرک ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بندوں میں سے محبوب ترین، متقی اور خشیتِ الہٰی رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو موجود نہ ہوں تو تلاش نہ کیے جائیں اور موجود ہوں تو پہچانے نہ جائیں۔ وہی لوگ ہدایت کے امام اور علم کے چراغ ہیں۔‘‘ (اخرجہ الحاکم فی المستدرک، 3: 303، الرقم: 5182)
8۔ اولیاء و صوفیاء تقویٰ و پرہیزگاری کا نمونہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آقاeنے ان کو اپنی آل میں شامل فرمایا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ آلِ محمد کون ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
’’تمام اہل تقویٰ (میری آل میں سے ہیں) اور پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
اِنْ اَوْلِیَآئُهٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ؟
(اخرجہ الطبرانی فی المعجم الاوسط، 3: 338، الرقم: 3332)
صرف متقین ہی اللہ تعالیٰ کے اولیاء ہیں۔‘‘
9۔ صوفیاء نے ہمیشہ قرآن و حدیث کو اپنے سینے سے لگایا اور اس آیت کی عملی تفسیر بن کر زندگی گزاری کہ
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ.
(الذاریات، 51: 56)
’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔‘‘
صوفیاء سے زیادہ عبادت گزار کون ہوگا، عاجزی، انکساری، سادگی، اخوت، بھائی چارہ اور قرآن کی دیگر تعلیمات پر صوفیاء نے من وعن عمل کیا۔
جو بندہ قرآن و سنت یعنی شریعت پر عمل پیرا ہے وہ صحیح راستے پر ہے اور حق پر ہے۔ لہذا صوفی وہی ہے جو شریعت اور طریقت کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ بزرگان دین کی زندگیاں حضور ﷺ کے اتباع میں گزرتی تھیں۔ اگر کوئی اپنی زندگی کا کوئی اور رخ رکھتا ہے تو وہ پھر صوفی نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کے تصوف کی ضرورت ہے۔ اگر تصوف میں خرافات اور بدعات ہیں تو وہ تصوف نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔
حضرت داتا گنج بخشؒ نے کفر کے اندھیروں میں روشنی کے چراغ جلائے، کشف المحجوب لکھ کر لوگوں کو باطنی طہارت سے آشنا کیا۔ آج بھی یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی کوئی ایسی بات نہیں جو بدعت ہو یا شریعت کے خلاف ہو۔ اسی لیے آپ کا پیغام آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے جو امن و رواداری کا پیغام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاؒ ذکر فرماتے ہیں کہ جسے کوئی رہبر و رہنما یعنی پیر نہ ملے تو وہ کشف المحجوب کا مطالعہ کرلے۔
حضرت بایزید بسطامیؒ کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا: حضرت خرقہ کا ٹکڑا عطا فرمائیں تاکہ میں بھی کوئی مقام پالوں۔ آپؒ نے فرمایا: اگر تم بسطامی کی کھال بھی پہن لو تو تمہارے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جب تک تم ارادہ و نیت درست نہ کرلو۔ اس لیے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے پاس شیطان آیا جس نے انسان کا روپ دھار رکھا تھا۔ کہنے لگا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو نمازیں معاف کردیں۔ آپ نے فرمایا کہ استغفراللہ، یہ نمازیں اللہ کے پیغمبر اور صحابہl کو معاف نہیں ہوئیں تو مجھے کیسے معاف ہوسکتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ صوفیاء کا مذہب وہی ہے جو اسلام کی تعلیم ہے۔
تمام صوفیاء کی تعلیم شریعت کی پاسداری اور امن کی تعلیم ہے۔ جملہ صوفیاء و اولیاء نے اپنے پیروکاروں یا دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بے رخی نہیں برتی بلکہ اُن کے در پر جو بھی آجاتا تو وہ بلا تفریق مذہب و نسل اور علاقہ و زبان ہر ایک کے لیے امن و سلامتی کا پیکر بنے رہتے اور ہر ایک کو نوازتے رہتے۔ آج کے اس پُرفتن دور میں اگر صوفیاء و اولیاء کی تعلیمات کو فروغ دیا جائے تو یہ معاشرہ جنت نظیر معاشرہ بن سکتا ہے اور زوال پذیر اخلاقی اقدار ایک مرتبہ پھر زندہ ہوسکتی ہیں۔