گزشتہ ماہ فروری میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے والد گرامی حضرت فریدِ ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کو بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی معیت میں اور مصورِ پاکستان حضرت علامہ محمد اقبالؒ کی زیرِ سرپرستی تحریکِ پاکستان کے دوران نمایاں خدمات انجام دینے پر گولڈ میڈل سے نوازا گیا ہے۔ یہ گولڈ میڈل تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ڈاکٹر محمد عارف علوی نے دیا ہے۔ گولڈ میڈل حضرت فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کے پوتے اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے صاحبزادے صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے وصول کیا۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے اشتراک سے تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے زیرِ اِہتمام ہونے والی اس تقریب میں حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کی گرانقدر اور بے مثال خدمات کے اعتراف میں گولڈ میڈل کے ہمراہ ایک سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا ہے جس میں حضرت فریدِ ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کی تحریکِ پاکستان میں انجام دی جانے والی خدمات کو سراہا گیا ہے۔
تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کی طرف سے حضرت فریدِ ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کی تحریک پاکستان کیلئے خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر فرید الدین قادری کو تحریکِ پاکستان گولڈ میڈل کا نذرانہ تشکر پیش کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر فرید الدین نے مسلمانانِ برصغیر کے نصب العین کے حصول یعنی قیامِ پاکستان کے لئے جو کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں انہیں ہمیشہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ یہ سند قوم کی جانب سے ان کی خدمات اور قربانیوں کا اعتراف ہے جو آپ نے حصولِ پاکستان کے لئے پیش کیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی مبارکباد
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حضرت فریدِ ملتؒ کو ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ملنے والے گولڈ میڈل پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا: 3 فروری 2022ء کا دن تحریک منہاج القرآن کے جملہ کارکنان اور محبان کے لیے خوشی اور مسرت و شادمانی کا باعث ہے۔ اس دن حضرتِ فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کی خدمات پر حکومتی سطح پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ حضرت فرید ملت میرے والدِ گرامی تو ہیں ہی مگر تحریک منہاج القرآن کا ہر کارکن ان کی اولاد کی طرح ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں قیامِ پاکستان کی تحریک میں غیر معمولی تاریخی خدمات اور فکری، علمی، عملی، سیاسی، دینی اور ملی حوالے سے بے پناہ قربانیاں دی تھیں۔ صدرِ پاکستان نے حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کی ان عظیم تاریخی اور ملی خدمات کے اعتراف میں گولڈ میڈل اور سرٹیفیکیٹ پیش کیا ہے۔ اس سرٹیفیکیٹ میں یہ درج ہے کہ ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کی خدمات، قربانیوں، عظیم جدوجہد اور کاوشوں کو قیامِ پاکستان کی تحریک میں اور مسلمانانِ برصغیر پاک و ہند کی عظیم منزل کے حصول میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کا نام پاکستان کے محسنین میں شامل ہے۔
بلاشبہ وہ فائونڈنگ فادرز جو قائداعظم کی قیادت میں کام کررہے تھے اور اس سے قبل علامہ محمد اقبال کی فکری قیادت میں جدوجہد کررہے تھے، ان کا مقام پاکستانیوں کے لیے محسن کا ہے۔ لہذا 3 فروری کے دن ایک عظیم تاریخی اعتراف کیا گیا ہے۔ اس پر میں پوری تحریک منہاج القرآن کو اور منہاج القرآن کے جملہ رفقاء، کارکنان اور وابستگان کو اور پوری دنیا میں ان کے محبین اور متعلقین کو صمیمِ قلب سے مبارکباد دیتا ہوں۔ تحریک منہاج القرآن کے تمام رفقاء و کارکنان یقینا ان کی فکری و روحانی اولاد ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کارکن کا سر آج فخر سے بلند ہوا ہوگا اور انھیں آج اس بات کا اندازہ ہوا ہوگا کہ تحریک منہاج القرآن کس حقیقت کا تسلسل ہے۔ تحریک منہاج القرآن ایک ایسی جدوجہد ، ایسی تحریک یا ایک ایسی کاوش نہیں جو یکا یک 1980ء سے وجود میں آگئی، نہیں اس کے پیچھے کئی دہائیوں پر مشتمل ایک فکر، ایک تاریخ، ایک سوچ، ایک جدوجہد اور قربانیوں کی ایک لمبی داستان تھی۔ اسی قافلے کے سرخیل حضرت فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ تھے۔
1940ء میں جب منٹو پارک (مینارِ پاکستان) پر قرار داد پاکستان کا عظیم جلسہ ہوا، جس سے قائداعظم نے خطاب کیا اور مسلمانانِ ہند کے لیے ایک نئی مملکت کے حصول کی جدوجہد کا عملی آغاز ہوا، جس میں لاکھوں لوگ پورے برصغیر پاک وہند سے کارکنانِ تحریک کے طور پر شریک ہوئے، اس کی تیسری صف میں حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ تحریک پاکستان کے ایک عظیم کارکن کی حیثیت سے بیٹھے تھے اور وہ نہ صرف جھنگ اور خطہ پنجاب میں بلکہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اپنے اپنے وقت میں قیامِ پاکستان کے حصول کے لیے ہر فکری، سیاسی، قومی اور ملی تحریک میں پیش پیش رہے۔
علاوہ ازیں 1947ء سے پہلے برصغیر پاک وہند کے وہ انتخابات جس کے نتیجے میں مسلم اکثریتی علاقے اور ریاستیں پاکستان کا حصہ بن گئے، ان انتخابات میں مسلمانوں کو دو قومی نظریے پر Motivate کرنے میں، مسلمانوں کے لیے الگ خطہ، سلطنت اور مملکت کے حصول کی جدوجہد میں حضرت فریدِ ملت نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ آپ نے نہ صرف جھنگ میں بلکہ پنجاب کے کئی اور علاقوں میں لوگوں کو فکری واضحیت دی اور مسلمانوں کے الگ وطن کے حصول کی اہمیت، ضرورت اور ناگزیریت پر فوکس کرکے انھیں سمجھایا اور ان الیکشنز میں بھرپور حصہ لے کر جھنگ کی سیٹ کو آل انڈیا مسلم لیگ کے حق میں جتوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ برصغیر میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے حصول کا فکری شعور جہاں مسلمان ایک خود مختار اور آزاد قوم کی طرح اپنی اسلامی تہذیب و ثقافت کے اندر حریت اور عزت کے ساتھ زندگی بسر کریں، یہ فکر حضرت فریدِ ملت کو کہاں سے ملا؟ میں نے تو ان سے سنا ہے اور کئی بار اس کے تذکرے میں نے اپنی گفتگو میں زندگی بھر کیے مگر آج چونکہ آفیشل اعتراف ہوا ہے لہذا اس کی بیک گرائونڈ پر روشنی ڈالنی ضروری ہے۔
1930-31ء سے لے کر 1938-39ء تک پورا عرصہ جو حضرت فریدِ ملت نے لکھنو میں گزارا اور فرنگی محل لکھنو میں اپنی دینی تعلیم کی تکمیل کی۔ آپؒ نے اس وقت کے جلیل القدر اساتذہ کے پاس زانوئے تلمذ طے کیا جبکہ ساتھ ہی ساتھ وہ طبی علوم کی تکمیل کررہے تھے۔ بعد ازاں انھوں نے میڈیکل کالج لکھنو سے میڈیسن میں MD کی ڈگری لی۔ یہ پورا زمانہ مختلف جہتوں میں ان کا حصول تعلیم کا ہے۔ اس کے بعد دو سال کے لیے حیدر آباد دکن گئے۔ یہ دس سال انھوں نے لکھنو میں گزارے، قیام پاکستان کی یہ فکر جو تحریکِ پاکستان کی عملی جدوجہد میں منتقل ہوئی وہ لکھنو سے لے کر آئے تھے، چونکہ حضرت فریدِ ملت عظیم فرزندگانِ فرنگی محل میں ایک نمایاں نام اور مقام ہے۔ آپ سب کو معلوم ہونا چاہیے اور جنہیں معلوم نہیں انھیں آج آگاہی ہوجائے گی کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں ڈھاکہ میں عمل میں آیا تھا۔ پھر آل انڈیا مسلم لیگ کا مرکزی دفتر پورے انڈیا کے لیے 1906ء سے لے کر 1910ء تک ان چار پانچ سالوں میں علی گڑھ میں رہا، پھر بوجوہ علی گڑھ سے دفتر کو منتقل کرنا پڑا۔
پھر 1910ء سے لے کر 1936ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کا مرکزی دفتر لکھنو میں رہا اور اس کے تمام تر اخراجات اور انتظامی ذمہ داریاں فرنگی محل لکھنو کے ایک عظیم عالمِ دین مولانا عبدالباری فرنگی محلیؒ کے پاس تھیں اور ان کی مدد کرنے والے راجہ محمود آباد اور اس طرح کے چند اور لوگ تھے۔ فرنگی محل کے علماء کا تحریکِ پاکستان اور دو قومی نظریہ کے فروغ میں بڑا کردار تھا۔ دس سال حضرت فریدِ ملت کے تمام تعلیمی مرحلے وہاں طے پائے ہیں، لہذا وہ اس دفتر سے منسلک تھے، جہاں سے فکر کا چشمہ پھوٹ رہا تھا اور آپ اس سے فیضیاب ہورہے تھے۔ بعد ازاں جب حیدر آباد دکن میں 2 سال انھوں نے ڈائیگناسٹک سائنسز میں سپیشلائزیشن کیا۔ حکیم عبدالوہاب جنہیں حکیم نابینا انصاری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ان کے جونیئر کے طور پہ مطب پر بیٹھتے تھے۔ وہ زمانہ وہاں کے مسلمانوں کی فکری اور ملی شعور کی بیداری کا دور تھا۔
جب حضرت فرید ملت نے 1940ء کے جلسے میں شرکت کی اور قرار داد پاکستان کے موقع پر قائداعظم کا خطاب سنا، اس وقت وہ ابھی جھنگ میں نہیں تھے بلکہ حیدر آباد دکن سے اپنے دوستوں کے ہمراہ سفر کرکے آئے تھے، بعد ازاں وہ واپس چلے گئے چونکہ تعلیم کی ڈگری کی تکمیل ابھی رہتی تھی۔ جب لکھنو میں تھے تو وہ بطور طالب علم نوجوان لیڈر تھے۔ ان کی ادبی، علمی، فکری اور روحانی سرگرمیاں تھیں اور ان کا رول اتنا نمایاں تھا کہ آپ اندازہ کریں کہ جب حضرت فرید ملت کی علامہ اقبال سے لاہور میں آخری ملاقات ہوئی، اس وقت علامہ اقبال علیل تھے اور ڈاکٹرز نے ملاقاتیں بند کردی تھیں۔ ایک نوجوان لکھنو سے آتا ہے اور کسی کو ملاقات کی اجازت نہیں ہے، ڈاکٹروں نے منع کررکھا ہے مگر جب حضرت فریدِ ملت نے اپنا نام خادم کے ذریعے اندر بھجوایا کہ حضرت علامہ کو اطلاع کریں کہ لکھنو سے فریدالدین آیا ہے تو علامہ اقبال اٹھ بیٹھے، فوراً بلالیا اور ڈیڑھ گھنٹے کے قریب نشست رہی۔
اس سے ایک اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال یا بعد ازاں حضرت قائداعظم محمد علی جناح کو پتہ تھا کہ ہندوستان کے کس کس سٹیٹ میں، کس کس ضلع میں اور کس کس شہر میں دو قومی نظریے کی موومنٹ پر کون کون جدوجہد کررہا ہے؟ مسلمانوں کے اس تشخص کو اجاگر کرنے میں کون شعور بیدار کررہا ہے اور نمایاں صفِ اول کا کردار کن کے پاس ہے؟ یہ وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ نوجوان تھے، علامہ اقبال نے آخری وقت میں جب کسی کو ملاقات کی اجازت نہ تھی، آپ کو بلالیا اور ڈیڑھ گھنٹہ ملاقات کی۔ لازمی بات کہ علامہ اقبال انھیں ہدایات دیتے رہے ہوں گے، رہنمائی کی ہوگی، آپ کچھ استفسار کررہے ہوں گے اور علامہ اقبالؒ سے گائیڈ لائن لے رہے ہوں گے۔
بعد ازاں حضرت فریدِ ملت نے قیام پاکستان کے وقت اور اس کے بعد 1950ء تک جب ہندو واپس جارہے تھے، قتل و غارت کا ماحول بن گیا تھا، اس موقع پر حضرت فریدِ ملت نے غیر مسلموں کی جان کی حفاظت کرکے انھیں سلامتی سے واپس بھیجا اور انڈیا کے علاقوں سے جو مسلمان پاکستان آتے ہوئے زخمی ہوئے اور بے گھر ہوکر آرہے تھے ان کا علاج بھی فرماتے رہے، ان کے لیے رہائش کا بندوبست بھی کرتے رہے اور ان کو تحفظ بھی دیتے رہے۔ اس ساری جدوجہد میں وہ نمایاں تھے۔
ان دس سالوں میں وہ جھنگ سے ایک رسالہ بھی نکالتے تھے اور خود اس کے چیف ایڈیٹر بھی تھے۔ اس رسالہ کا عنوان تو طب جدید پر تھا مگر آدھا رسالہ قیامِ پاکستان کی فکر پر ہوتا تھا۔ اس طرح وہ علمی، ادبی، سیاسی، فکری حلقوں میں صفِ اول پر شعور کو بیدار کرنے میں کلیدی کردار ادا کررہے تھے۔
الحمدللہ تعالیٰ! تحریک منہاج القرآن حضرت فریدِ ملت اور اِن کی کاوشوں کا تسلسل ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج ان کے وصال کے 48 سال اور قیام پاکستان کے لگ بھگ 74 سالوں کے بعد ان کی خدمات تسلیم کرلی گئیں۔ تحریک منہاج القرآن کے ہر کارکن کے لیے اور ان سے ہر محبت و عقیدت کرنے والے کے لیے یہ بڑے فخر کی بات ہے۔ رفقاء و کارکنان تحریک منہاج القرآن کے لیے ڈھیروں دعائیں کرتا ہوں کہ آپ استقامت کے ساتھ اس شمع کو جلائے ہوئے ہیں جو حضرت فریدِ ملت نے جلائی تھی تاکہ علم، شعور اور صالحیت کی جدوجہد منزل کی جانب گامزن رہے اور ان شاء اللہ وہ وقت آئے گا کہ ہم کامیابی و کامرانی کی آخری منزل کو حاصل کرسکیں گے۔