ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
ذبح اسماعیل علیہ السلام کا واقعہ انسانی تاریخ کا ایسا بے مثال اور شاندار باب ہے جس کا تذکرہ قرآن حکیم میں بڑے اہتمام سے کیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ہوا کہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ہمارے لئے قربان کردیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے فرمایا:
اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی.
’’اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘
(الصافات، 37: 102)
اﷲ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو فیضانِ نبوت کے طفیل فہم و شعور کی بلند سطح عطا کر رکھی تھی۔ آپ علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے ذبح نہ کریں بلکہ آپ علیہ السلام نے جو جواب دیا وہ بھی پیغمبرانہ بصیرت کا حامل تھا۔ قرآن حکیم نے آپ علیہ السلام کے اس جواب کو بھی ابدی شان عطا فرماتے ہوئے اپنے دامن میں جگہ دی۔ عرض کرنے لگے:
یٰٓـاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ.
’’ابّاجان! وہ کام (فوراً) کرڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے۔‘‘
(الصافات، 37: 102)
آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ابا جان آپ نے تو خواب دیکھا ہے، خواب کی تعبیر کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ آپ اگرچہ بچے تھے لیکن اتنا جانتے تھے کہ نبی کا خواب عام خواب نہیں ہوتا بلکہ وحی ہوتی ہے۔ ثانیًا یہ جواب اس خیال سے بھی دیا کہ ایسا نہ ہو کہ انسانی اور بشری تقاضوں کی بناء پر شفقتِ پدری غالب آئے اور بیٹے کی گردن پر چھری چلتے چلتے ہاتھ لرز جائیں، اس لئے بحیثیت بیٹا عرض کیا:
سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَﷲُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَo
’’اگر اﷲ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘
(الصافات، 37: 102)
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے صبر کے عمل کو بھی اپنی طرف منسوب نہیں کیا بلکہ اسے اﷲ تعالیٰ کی توفیق قرار دیا۔ یہی وہ آدابِ گفتگو تھے جن کا تصور بھی عام انسان سے نہیں کیا جا سکتا۔ علامہ اقبال نے اسی لئے فرمایا:
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی؟
جب ذبح ہونے والا صبر کا مظاہرہ کر رہا ہو تو لامحالہ ذبح کرنے والے کا صبر بھی دیدنی ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی نیت سے منیٰ کی طرف لے کر چل پڑے۔ راستے میں شیطان نے بارہا ورغلانے کے جتن کیے لیکن آپ علیہ السلام کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ باپ نے اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بیٹے کی گردن پر چھری رکھی۔ یہی وہ تاریخی لمحہ تھا جس کو اﷲ رب العزت کی ذات اور قدسیانِ فلک دیکھ رہے تھے کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا اور باپ بیٹا دونوں محبت الٰہی کے اس بہت بڑے امتحان میں عشاقانِ جہاں کی نمائندگی کرتے ہوئے شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو مینڈھے کی قربانی سے بدل دیا۔ جنت سے ایک مینڈھا لایا گیا جسے راهِ خدا میں قربان کیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَفَدَیْنٰـهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ. وَتَرَکْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ.
’’اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اِس کا فدیہ کردیا۔ اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں اس کا ذکرِ خیر برقرار رکھا۔‘‘
(الصافات، 37: 107-108)
اللہ تعالیٰ نے اس ذبحِ عظیم کے فدیے کے طور پر دی گئی مینڈھے کی قربانی کو قبولیت کا وہ درجہ عطا کیا کہ اس مثال کو آئندہ آنے والی ملتِ اسلامیہ کے اندر ایک عظیم اسلامی شعار کے طور پر قائم رکھا۔ قربانی کی رسم کو دین کا اہم رکن بنانے کے لئے ایسے نبی اور ایسی امت کو منتخب فرمایا جو ہر نبی اور ہر امت سے عظیم اور قیامت تک قائم رہنے والی تھی تاکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اس عظیم یادگار کو قیامت تک ہر سال دس ذو الحج کو تازہ کرتے رہیں۔
مقاصد قربانی
مومن کی پوری زندگی اعلیٰ و ارفع مقاصد کے حصول کی تگ و دو سے عبارت ہے۔ اسلام نے ان مقاصد کی تکمیل کے شرعی اصول وضع کئے تاکہ انسان بطریقِ احسن اپنے مقاصد میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکے۔ قربانی ایک عظیم الشان عمل ہے۔ اس کا مقصد صرف ایک جانور قربان کر دینا ہی نہیں بلکہ نفس میں غنا، بے نیازی کی کیفیت پیدا کرنا اور بڑے سے بڑے ایثار کے لئے تیار ہونا ہے۔ دیگر مذاہب میں بھی اگرچہ قربانی مروج تھی لیکن اسلام نے قربانی کے جو مقاصد بیان کئے ہیں وہ حیاتِ انسانی میں ایک انقلاب بپا کر دیتے ہیں۔ درج ذیل نکات میں ان کو زیربحث لایا جاتا ہے:
1۔ سنتِ ابراہیمی علیہ السلام کا اِحیاء
قربانی کا عمل وہ سنتِ ابراہیمی علیہ السلام ہے جسے امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یادگار کی صورت میں قیامت تک کے لئے محفوظ کر لیا گیا ہے اور امتِ مسلمہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے عملی صورت میں اس کا مظاہرہ کرتی رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا.
’’اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کر دی ہے‘‘
(الحج، 22: 34)
اللہ تعالیٰ کو اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کا فعل اس قدر پسند آیا کہ امت مسلمہ کے لیے اس کی تقلید کو عبادت قرار دے دیا۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ! یہ قربانی کیا شے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ ث نے عرض کیا: اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر بال کے عوض ایک نیکی۔ صحابہ ث نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اگر مینڈھا ہو تو بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بکُلِّ شَعَرَةٍ مِنَ الصُّوْفِ حَسَنَةٌ.
’’تب بھی اس کی اون کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ملے گی۔‘‘
(ابن ماجه، السنن، کتاب الأضاحی، رقم: 3127)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّ رَسُولُ اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم کَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ یُضَحِّيَ اشْتَرَی کَبْشَیْنِ عَظِیْمَیْنِ سَمِیْنَیْنِ أَقْرَنَیْنِ أَمْلَحَیْنِ مَوْجُوْئَیْنِ فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ لِمَنْ شَهِدَ ِﷲِ بِالتَّوْحِیْدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَـلَاغِ، وَذَبَحَ الآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب قربانی کاارادہ کرتے تو دو مینڈھے خریدتے جو موٹے تازے، سینگوں والے، کالے اور سیاہ دھاری دار ہوتے۔ ایک اپنی امت کی جانب سے ذبح کرتے جو بھی اللہ کو ایک مانتا ہو اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا قائل ہو اور دوسرا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے ذبح فرماتے۔‘‘
(ابن ماجه، کتاب الأضاحی، رقم: 3122)
پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنی، اپنے اہل بیت اور قیامت تک آنے والی اپنی امت کی طرف سے بھی قربانی کی۔ یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کے احیاء اور یاد گار کے طور پر اللہ رب العزت کی طرف سے عطا ہوا تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد اپنی اور میری طرف سے قربانی کرناجس پر امیر المومنین حضرت علیص نے تادمِ وصال عمل کیا۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا، باب الاضحیة عن المیت، 3: 4، رقم: 2790)
حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے افعال کی تقلید کرنے سے نہ صرف اُن کے اعمال کی یاد زندہ رہتی ہے بلکہ نیک عمل کا جذبہ بھی بیدار ہوتا ہے۔ سنتِ ابراہیمی علیہ السلام پر کاربند رہنے کا عمل امتِ مسلمہ کو یہ یاد کراتا ہے کہ جس طرح امت آج اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے عمل کو زندہ رکھنے کے لیے جانور قربان کرتی ہے اسی طرح اس خون کو گواہ بنا کریہ وعدہ کرے کہ دین کی سربلندی کے لئے جان کی قربانی کا نذرانہ پیش کرنا پڑا تو بھی دریغ نہیں کرے گی۔ یہ ذہن نشین رہے کہ اگر قربانی کے اندر یہ روح کار فرما نہ ہو تو قربانی اپنے تقاضوں اور مقاصد کو حاصل نہیں کرسکتی۔
2۔ رضائے الٰہی کا حصول
ہر عمل انسانی شخصیت، نفس اور قلب و باطن پر خاص اثرات مرتب کرتا ہے لیکن کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جن سے خاص اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔ قربانی بھی انہی اعمال میں سے ہے۔ وہی قربانی اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہے جس کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصود و مدعا بھی یہی تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَنْ یَّنَالَ ﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.
’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘
(الحج، 22: 37)
یہی وجہ ہے کہ رضائے الٰہی کے لئے دی جانے والی قربانی کے خون کا قطرہ ابھی زمین پر نہیں گرتا کہ اللہ کی بارگاہ سے شرف قبولیت کا پروانہ جاری ہو جاتا ہے اوربندے کو بارگاہ الٰہی میں قبولیت کی وہ شان عطا ہوتی ہے جس کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَا عَمِلَ آدَمِي مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ النَّحْرِ أحَبُّ إِلَی ﷲِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ، إِنَّهُ لَیَأْتِي یَوْمَ الْقِیْامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلَافِهَا وَإِنَّ الدّمَ لَیَقَعُ مِنَ اﷲِ بِمَکَانٍ قَبْلَ أَنْ یَقَعَ مِنَ الْأَرْضِ، فَطِیبُوا بِهَا نَفْسًا.
’’قربانی کے دن اللہ کو خون بہانے سے زیادہ بندے کا کوئی عمل محبوب نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا۔ (اور قربانی کے جانور کا) خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک بلند درجہ حاصل کر لیتا ہے تو تمہیں اپنی قربانی سے مسرور ہونا چاہیے۔‘‘
(ترمذی، أبواب الأضاحي عن رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم، باب ما جاء في فضل الأضحیة، 3: 159، رقم: 1493)
3۔ ایثار و قربانی کا جذبہ
ایثار کا معنی ہے کہ انسان کو کسی چیز کی حاجت اور ضرورت ہو لیکن اس کے باوجود کسی دوسرے ضرورت مند انسان کو وہ چیز دے۔ تاریخِ اسلام ایثار و قربانی کے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے۔ مومن کی ان ہی صفات کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ.
’’اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو۔‘‘
(الحشر، 59: 9)
ہماری عبادات بھی ہمیں ایثار و قربانی کا درس دیتی ہیں۔ نماز خواہشِ نفس کی قربانی، زکوٰۃ مالی ایثار، جہاد جانی قربانی اور حج و عمرہ ہمیں مالی و جانی ہر دو طرح کے ایثار کا درس دیتے ہیں لیکن محبت کی اصطلاح میں ان سب عبادات کا مقصود اپنی محبوب ترین چیز کو اپنی محبوب ترین ذات کے طلب کرنے پر اس کے سپرد کر دینا ہے۔
مشیتِ ایزدی اور رضائے الٰہی کی خاطر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لاڈلے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے فوراً تیار ہو گئے۔ اپنی محبوب ترین چیز دوسرے کو دینے کا جذبہ اس وقت تک پیدا نہیں ہوتا جب تک اس سے بے پناہ محبت نہ ہو جس کے سپرد چیز کی جا رہی ہے ۔ قربانی کا یہ جذبہ خود سپردگی اور تسلیم و رضا سے پیدا ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کیونکہ اللہ تعالیٰ سے عشق تھا اس لئے مشکل امتحان سے آسانی سے گزر گئے۔
عید کے دن مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی پیروی میں جانور قربان کر کے وہ جذبہ ایمانی اپنے دلوں میں تازہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر اللہ کی رضا کے لئے ہمیں جانور تو کیا جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑا تو اس سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
گویا قربانی کا اصل مدعا مسلمان کے اندر جذبۂ ایثار اجاگر کرنا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر شے قربان کرنے کے لئے مستعد ہو جائیں اور بڑی سے بڑی قربانی دینے میں تساہل اور تردّد نہ کریں۔ عید الاضحی کے دن اس خیال کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جذبہ قربانی کسی صورت ماند نہ پڑے اور ہم میں اتنی جرات و ہمت ہونی چاہئے کہ اگر دین، قوم، ملک اور معاشرہ بھی ہم سے قربانی مانگے تو ہم پیچھے نہ ہٹیں اور ہر قسم کی قربانی پیش کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کریں۔
4۔ ہدیۂ تشکر اور گناہوں کی بخشش کا ذریعہ
عید الاضحی کے روز قربانی کا ایک بڑا مقصد بارگاہِ رب العزت میں ہدیہ تشکر پیش کرنا بھی ہے۔ اﷲ تبارک وتعالی نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ مینڈھے کی قربانی قبول فرما کر انسانیت کو زندگی کی عظیم نعمت سے نوازا۔ یوں قربانی کے لیے انسانوں کی بجائے جانوروں کی قربانی کو قیامت تک کے لئے ملتِ ابراہیمی کے لیے لازم قرار دے کر بنی نوعِ انسانی پر بے پایاں احسان فرمایا۔
دستورِ زمانہ ہے کہ کوئی کسی پر احسان کرتا ہے تو محسن کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے جس سے محسن خوش ہوکر مزید نوازتا ہے۔ اظہارِ شکر مزید انعام و اکرام کا ذریعہ ہے۔ علاوہ ازیں انسان کی اپنی زندگی بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں سے عبارت ہے۔ لا تعداد نعمتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ محسنِ حقیقی کا اس طرح سے شکر ادا کیا جائے کہ زندگی مکمل طور پر سراپا تشکر بن جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ.
’’اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔‘‘
(البقرة، 2: 152)
علامہ کاسانی قربانی کو شکرانۂ حیات قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
الَّذِي یَجِبُ عَلَی الْغَنِيِّ دُوْنَ الْفَقِیْرِ…بَلْ شُکْرًا لِنِعْمَةِ الْحَیَاةِ.
’’(قربانی) جو دولت مند پر واجب ہے، فقیر پر واجب نہیں (اس کا وجوب دراصل) نعمتِ زندگی کا شکر ادا کرنے کے لئے ہے۔‘‘
(کاسانی، بدائع الصنائع، کتاب التضحیة، 5: 62)
زندگی جیسی عظیم نعمت کا شکر اسی صورت میں کما حقہ ادا ہو سکتا ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو اسے رضائے الٰہی کے لئے قربان کر دیا جائے۔
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
علاوہ ازیں دس ذوی الحجہ کو ادا کیا جانے والا عملِ قربانی گناہوں کی بخشش کا بھی ذریعہ ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یَا فَاطِمَةُ! قُومِي إِلَی أُضْحِیَّتِکِ فَاشْهَدِیهَا، فَإِنَّ لَکِ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِهَا یُغْفَرُ لَکِ مَاسَلَفَ مِنْ ذُنُوْبِکِ.
’’(اے فاطمہ) اٹھو اور اپنی قربانی ادا ہوتے دیکھو۔ بے شک (جانور) کے خون کا پہلا قطرہ بہتے ہی تمہارے تمام سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔‘‘
( حاکم، المستدرک، کتاب الأضاحی، 4: 247، رقم: 5725)
معلوم ہوا کہ قربانی سابقہ گناہوں کی بخشش، درجات کی بلندی اور روز قیامت فلاح و نجات کا مؤثر ترین وسیلہ ہے۔
قربانی کی روح
قربانی کا عمل صرف جانور ذبح کرنے پر موقوف نہیں بلکہ قربانی یہ ہے کہ اپنی جان و مال، عزت و آبرو، راحت و آرام، سکون و اطمینان، خواہشاتِ نفسانی اور جو کچھ انسان دنیاوی زندگی میں چاہتا ہے، اُسے رضائے الٰہی کے لئے قربان کر دے۔ اس سلسلے میں قربانی کی اہم اقسام درج ذیل ہیں:
1۔ جان کی قربانی
جان کی قربانی سے مراد ہے زندگی کے تمام معاملات اور امور کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع کر دینا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ مَالِهِ وَأَهْلِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ.
’’تم میں سے کوئی ایماندار نہیں ہوسکتا جب تک وہ مجھ کو اپنے مال، اہل و عیال اور تمام انسانوں سے زیادہ نہ چاہے۔‘‘
(نسائی، السنن، کتاب الإیمان و شرائعة، باب علامة الأیمان، 8: 83، رقم: 5014)
جان کی قربانی حقیقت میں یہ ہے کہ سب کچھ اس طرح اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا جائے جیسے مردہ غسال کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔ جب روح قفسِ عنصری سے پرواز کر جاتی ہے تو مردے کی کوئی خواہش اور حرکات و سکنات نہیں رہتی، اب غسال اسے جس طرح چاہے پلٹے، سیدھا کرے، دائیں کرے، بائیں کرے، پیٹ کے بل لٹا دے یا کمر کے بل، بندہ اب کسی چیز اور عمل پر قادر نہیں ہے۔ اسی طرح اسلام میں جان کی قربانی یہ ہے کہ بندۂ مومن معاملات زندگی کے حوالے سے سب تدبیریں بروئے کار لائے لیکن نتائج کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خود کو اس طرح سپرد کر دے جس طرح مردہ غسال کے سپرد ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ.
’’تو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بے شک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے۔‘‘
(آل عمران، 3: 26)
اب یہ اﷲ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ کسی کو کرسی پر بٹھا دے یا خاک نشین کر دے۔۔۔ اہل ثروت میں سے کر دے یا کنگال۔۔۔ صحت دے یا بیماری۔۔۔ زندگی دے یا موت۔۔۔ لیکن بندہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اس بات پر یقین رکھے کہ ہر شے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اسی کی رضا کے لئے اپنی تمام خواہشات کو قربان کر دے۔ فقط رضائے الٰہی کا طالب رہنا بندے کا شیوہ ہونا چاہئے جیسا کہ مقربانِ بارگاہِ الوہیت کی تعریف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ.
’’وہ صرف اپنے رب کی رضا چاہتے ہیں‘‘۔
(الأنعام، 6: 52)
الغرض جان کی قربانی کا تقاضا یہ ہے کہ جھوٹی ’’انا‘‘ اور ان تمام سفلی خواہشات کو قربان کر دیا جائے جو انسانی جسم و روح کی تباہی و ہلاکت کا باعث ہیں۔
2۔ مال کی قربانی
مال کی قربانی سے مراد یہ ہے کہ حلال، پاکیزہ اور پسندیدہ مال اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.
’’تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔‘‘
(آل عمران، 3: 92)
اس آیت کریمہ میں اپنی سب سے پسندیدہ اور محبوب چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم ہے۔ اس لیے مستحب عمل یہی ہے کہ قربانی کا جانور خوبصورت، فربہ، بے عیب، توانا، نہایت عمدہ اور نفیس ہو تاکہ انسان اس کی طرف رغبت و کشش محسوس کرے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
کَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ یُضَحِّيَ اشْتَرَی کَبْشَیْنِ عَظِیْمَیْنِ سَمِیْنَیْنِ أَقْرَنَیْنِ أَمْلَحَیْنِ مَوْجُوئَیْنِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب قربانی کا ارادہ کرتے تو دو مینڈھے خریدتے جو موٹے تازے، سینگوں والے، کالے، اور سیاہ دھاری دار ہوتے۔‘‘
(ابن ماجه، کتاب الأضاحی، رقم: 3122)
اس حدیث مبارکہ سے یہ ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قربانی کے لئے سب سے اچھا جانور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ذبح فرماتے۔ حضرت ابو الاسد السلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ أَحَبَّ الضَّحَایَا إِلَی ﷲِ أَغْلَاهَا وَأَسْمَنُهَا.
’’اﷲ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ قربانی وہ ہے جو زیادہ مہنگی اور زیادہ فربہ ہو۔‘‘
(بیهقی، السنن الکبری، کتاب الضحایا، باب ما جاء في أفضل الضحایا، 9: 368، رقم: 18829)
قربانی شعارِ اسلام میں سے ہے
قربانی شعائر اسلام میں سے ہے اور ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر واجب ہے۔ قربانی کے دنوں میں جانور کے ذبح کی بجائے کوئی اور متبادل عمل زیادہ مقبول نہیں ہوسکتا۔ امام فخر الدین رازی نے قربانی کا معنی یوں بیان کیا ہے:
اَلْقُرْبَانُ: إِسْمٌ لِما یُتَقَرَّبُ بِهِ إِلَی ﷲِ تَعَالَی مِنْ ذَبِیْحَةٍ أَوْ صَدَقَةٍ.
’’وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہو اسے قربانی کہتے ہیں، چاہے وہ جانور ذبح کیا جائے یا ویسے ہی صدقہ دیا جائے۔‘‘
(رازی، التفسیر الکبیر، 11: 205)
1۔ مذکورہ معنی سے کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ مغالطہ پیدا ہوا کہ 10، 11، 12 ذوالحج کو جانور ذبح کرنا شاید واجب نہیں۔ اسی مغالطہ کی بناء پر یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اتنے زیادہ جانور ذبح کرنے کی بجائے نقد صدقہ کر دینا زیادہ بہتر ہے۔ یہ سوچ سراسر ذہنی اختراع ہے اورمنشائے اسلام کے خلاف ہے۔ حقیقت سے اس کا دور کا واسطہ بھی نہیں۔ امام رازی نے فقط لفظ ’’قربان‘‘ کا لغوی معنیٰ بیان کیا ہے، قربانی کا اصطلاحی و شرعی معنی بیان نہیں کیا۔ سنن ابن ماجہ میں واضح طور پر وہ حدیث موجود ہے جس میں قربانی نہ کرنے والوں کو شدید وعید سنائی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ کَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَـلَا یَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا.
’’جس میں استطاعت ہو اور پھر وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔‘‘
(ابن ماجه، السنن، کتاب الأضاحی، باب الأضاحي واجبة هِیَ أم لا؟ 2: 1044، رقم: 3123)
اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہر صاحبِ استطاعت پر جانور ذبح کرنا ہی لازمی و ضروری ہے، صدقہ و خیرات کرنے سے یہ فریضہ ادا نہیں ہوتا۔
2۔ دوسرا مغالطہ یہ پیدا کیا جاتا ہے کہ ان تین ایام میں بیک وقت لاکھوں جانور ہلاک ہو جاتے ہیں جس کا مضر اثر قومی اقتصایات پر پڑ سکتا ہے اور یہ اندیشہ دامن گیر رہتا ہے کہ اس طرح جانور کم ہو جائیں گے اور سال بھر لوگوں کو گوشت ملنے میں مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
یاد رکھیں! یہ خیالات انسان کے ذہن پر اس وقت مسلط ہوتے ہیں جب وہ خالق کائنات کی قدرتِ کاملہ اور اس کے وسیع تر نظام سے بالکل غافل ہو جائے۔ نظامِ قدرت ہمیشہ سے یہ رہا کہ جب دنیا میں کسی چیز کی ضرورت بڑھتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس چیز کی پیداوار بڑھا دیتے ہیں اور جب ضرورت کم ہو جاتی ہے تو پیداوار بھی گھٹ جاتی ہے۔ اسکی مثال اس طرح ہے جیسے کوئی شخص کنویں کے پانی پر رحم کھا کر اس لئے نکالنا چھوڑ دے کہ کہیں ختم نہ ہو جائے۔ ایسا کرنے سے بجائے کسی فائدے کے یہ نقصان ہوگا کہ کنویں کے سوتے بند ہو جائیں گے اور وہ پانی نہیں دے گا۔ جبکہ جتنا زیادہ پانی نکلتا چلا جائے گا، اسی قدر کنویں سے زیادہ پانی ملے گا۔
اس طرح اعداد و شمار کا حساب لگا کر دیکھ لیں کہ پچھلے زمانے میں جتنی قربانی کی جاتی تھی، آج اتنی نہیں کی جاتی۔ جس طرح آج ارکانِ دین نماز، روزہ اور زکوۃ کی بجا آوری میں کاہلی اور تساہل سے کام لیا جاتا ہے، اسی طرح قربانی کے مسئلے میں بھی غفلت برتی جاتی ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپa نے 100 اونٹ قربان کیے:
فَنَحَرَ ثَـلَاثًا وَسِتِّیْنَ بِیَدِهِ ثُمَّ أَعْطَیٰ عَلِیًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تریسٹھ اونٹوں کو اپنے ہاتھوں سے قربان کیا پھر باقی اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نحر کے لئے دیئے۔‘‘
(مسلم، کتاب الحج، رقم: 1218)
قربانی کی اس قدر فراوانی کے زمانے میں کسی جگہ سے یہ شکایت نہیں سنی گئی کہ جانور کم پڑ گئے ہیں۔ لہذا ان بے سرو پا خدشات کو ذہن سے نکالتے ہوئے اس عبادت کو بجا لانے میں کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ کرنا بندہ مومن کے شایانِ شان نہیں۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ قربانی کا عمل شعائر اﷲ میں سے ہے اور شعائر اﷲ کی مخالفت در اصل دین کی مخالفت اور اس سے انحراف ہے۔ ابن دقیق؛ امام شافعی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں کہ قربانی شعائر دین میں سے ہے۔‘‘
(ابن دقیق، إحکام الأحکام، باب الأضاحی، 4:207)
امام شوکانی، علامہ ابن حزم سے نقل کرتے ہیں:
’’اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قربانی دین کے محکم احکام میں سے ہے۔‘‘
(شوکانی، نیل الأوطار، باب ما احتج به فی عدم وجوبها بتضحیة رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم عن أمته، 5: 198)
قربانی کی جگہ صدقہ و خیرات کرنا اس صورت میں درست ہو گا کہ قربانی کے دن گزر گئے اور کسی عذر کے باعث قربانی نہیں کی جا سکی تو قربانی کی جگہ فقراء و مساکین میں صدقہ کرنا واجب ہے لیکن قربانی کے تین دنوں میں جانور کی قیمت کے برابر صدقہ کر نے سے فریضۂ قربانی ادا نہیں ہو گا بلکہ قربانی نہ کرنے والا گنہگار ہوگا۔ قربانی ایک مستقل عبادت ہے جیسے نماز ادا کرنے سے روزہ اور روزہ رکھنے سے نماز ادا نہیں ہوتی، زکوۃ ادا کرنے سے حج ادا نہیں ہوتا، ایسے ہی صدقہ و خیرات کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کبھی قربانی ترک نہیں کی۔
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے:
أقَامَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم بِالْمَدِیْنَةِ عَشْرَ سِنِیْنَ یُضَحِّي کُلَّ سنةٍ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ طیبہ میں دس سال قیام پذیر رہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال قربانی دیتے رہے۔‘‘
(ترمذي، السنن، أبواب الأضاحي عن رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم ، باب الدلیل علی أن الأضحیة سنة، 3: 170، رقم: 1507)
قربانی واجب ہونے کی حقیقت سے نا آشنا مسلمان سوچیں اور غور کریں اور قربانی کی رسم کو فیشن کی حیثیت نہ دیں بلکہ اسے دین کا ایک لازمی حصہ اور سنتِ ابراہیمی علیہ السلام کی اتباع کے طور پر ادا کریں تو ایمان و عمل میں قوت اور اخلاص کی برکات نصیب ہوں گی۔
قبولیتِ قربانی کا معیار
قربانی کی قبولیت میں جو چیز کار فرما ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حسنِ نیت اور صدق و اخلاص ہے۔ عمل اگر صدق و اخلاص کی بنا پر ہو تو وہ اگرچہ قلیل تر ہی کیوں نہ ہو، انسان کا درجہ بلند تر کر دیتا ہے۔ وہی عمل اگر صدق و اخلاص، نیک نیتی اور للّٰہیت سے خالی ہو تو خواہ وہ عمل پہاڑ کے برابر ہی کیوں نہ ہو، اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر ایک مسلمان دکھاوے کی نیت سے بہت بڑے اور کثرت سے جانورخریدے تاکہ لوگ متاثر ہوں تو اس سے لوگوں کی نظروں میں بہت بڑا ہونا تو دکھایا جاسکتا ہے لیکن اﷲ تعالیٰ کے ہاں ایسا شخص بڑا نہیں ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں پچھلی صف پر بیٹھا ہوا وہ آدمی بڑا ہو جس میں قربانی کرنے کی سکت بھی نہ ہو لیکن اس کا دل چاہ رہا ہو کہ میرے پاس دولت ہوتی تو میں اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے قربانی کرتا۔ قربانی کی استطاعت نہ رکھنے کے باوجود لیکن حسنِ نیت کی وجہ سے اس کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وہ اجر مل جاتا ہے جو ریا کاری کی قربانی کرنے والے کو کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔
ٍ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے والد گرامی شاہ عبد الرحیم رحمۃ اﷲ علیہ ہمیشہ صدقہ و خیرات کرتے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف کے دن کثرت سے صدقہ کرتے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک سال ایسا آیا کہ میرے والد ماجد کے پاس اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی میں صدقہ کر سکتے۔ بالآخر مجبور ہو کر انہوں نے تھوڑے سے چنے لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں تقسیم کر دیئے لیکن دل میں بوجھ رہا کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی ولادت کے موقع پر یہ ادنیٰ سا صدقہ ہے۔ خدا جانے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں قبول ہوا ہوگا یا نہیں؟ بس اتنا عمل کرنے کی دیر تھی کہ اسی رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ان کے صدقہ کئے ہوئے چنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرما رہے ہیں: بیٹا عبد الرحیم! ہم تھوڑے یا زیادہ کی طرف نہیں جاتے، ہم تو حسنِ نیت کو دیکھا کرتے ہیں اور بس! جس نیت سے تو نے خوشی کی، یہی حسنِ نیت اور تقویٰ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت پاگیا ہے۔ (شاہ ولی اﷲ، الدر الثمین: 40)
قربانی کا قبول ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ قربانی کس نیت سے دی جا رہی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ یُّـعَـظِّـمْ شَعَآئِرَ ﷲِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ.
’’اور جو شخص اﷲ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات،احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اﷲ یا اﷲ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہو گیا ہو)۔‘‘
(الحج، 22: 32)
اس ارشاد ربانی میں تقویٰ کو دل کی کیفیت قرار دیا گیا ہے۔ قربانی کے جانور اللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے ذبح کیے جاتے ہیں۔ ان کی نسبت چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہو جاتی ہے اس لئے یہ شعائر اللہ میں سے ہو جاتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ ﷲِ.
’’اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لیے اﷲ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے۔‘‘
(الحج، 22: 36)
قرآن و سنت کے تمام احکام کو سامنے رکھ کر انسان اس نتیجے پر آسانی سے پہنچ جاتا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں جس شے کی قدرو منزلت ہے وہ اس کی ظاہری صورت نہیں بلکہ اس میں پنہاں حسنِ نیت اور دلوں کا تقویٰ ہے۔ قربانی کرنے والے اخلاصِ نیت اور تقویٰ کے باعث اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں لیکن اگر قربانی سے تقویٰ ہی نصیب نہ ہو تو پھر قربانی کرنا محض ایک رسم رہ جاتی ہے۔