حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا شمار اپنی قوم کے افضل ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ آپ جاہ و حشمت کے مالک، شیریں کلام اور شرم وحیا کے پیکر تھے۔ مال ودولت اور ظاہری اسباب کی فراوانی تھی۔ قوم کے لوگ آپ کی عزت وتکریم کرتے۔ ایسی نیک فطرت کہ نہ قبل از اسلام کسی بت کو سجدہ کیا، نہ برائی کے مرتکب ہوئے اور نہ کبھی شراب کی طرف نہ دیکھا۔
آپ خود فرماتے ہیں:
میں نے کبھی گیت نہیں گایا، نہ اس کی تمنا کی اور جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی ہے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنی شرمگاہ کو نہ چھوا، نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں کبھی شراب نوشی کی اور جاہلیت واسلام میں کبھی زنا کے قریب نہ گیا۔
(حلیة الاولیا، 1: 60-61)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا لقب ذو النورین مشہور ہے اور اس کا سبب آپ کا سرکار کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیوں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہما سے یکے بعد دیگرے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا ہے۔ امام بدر الدین عینی فرماتے ہیں:
آپ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کی زوجیت میں کسی بھی نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں۔
(عینی، عمدة، 16: 201)
آپ رضی اللہ عنہ کا نسب مبارک عبد مناف پر سرکارِ دوعالم کے سلسلہ نسب سے جا ملتا ہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دعوتِ اسلام دی تو آپ کی عمر مبارک 34 برس تھی۔ فطرتِ سلیمہ پر پروان چڑھنے والی اس شخصیت نے دین فطرت کو پہچاننے میں دیر نہ کی اور بلا لیت ولعل حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی دعوت پر لبیک کہا اور یوں سابقین اولین کی فہرست میں داخل ہو گئے۔ آپ چوتھے نمبر پر اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی فروغِ اسلام کے لیے دی جانے والی قربانیاں اپنی مثال آپ ہیں۔ بئرِ رومہ خرید کر لوگو ںکے لیے وقف کردینا، مسجد نبوی کی توسیع کے لیے زمین خریدنا، جملہ غزوات بالخصوص غزوہ تبوک کے موقع پر انفاق کی حد کردینا، قحط اور مالی مشکلات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر مال و دولت اور غلہ کے ڈھیر حضور کے قدموں میں نچھاور کردینا آپ کی انفرادی خصوصیات میں شامل ہے۔ آپ کی اس حد درجہ انفاق ہی کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت عطا فرمائی۔
حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کا طرزِ خلافت
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے طرز حکومت میں عصر حاضر کے لیے بے شمار رہنمائی پنہاں ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ سن چوبیس ہجری کی ابتداء میں مجلس شوری کے انتخاب سے تیسرے خلیفہ راشد اور امیر المومنین منتخب ہوئے۔ آپ کارِ خلافت شیخین کی سنت کے مطابق انجام دیتے تھے۔آپ اپنے نظامِ حکومت میں اسلامی تشریحات کو فوقیت دیتے اور کوشاں رہتے کہ ہر شعبہ حیات میں ان ہی تعلیمات کی پیروی رہے۔ ان قوانین اسلام کا اولین اطلاق حاکم وقت پر ہوتا۔ پھر اس کے نامزد والیان، عمال اورقضاۃ (گورنروں، وزرا اور ججوں) پر ہوتا تاکہ حکام کی سیرت اور قوانین کی پاسداری کا عمل رعایا کے لیے مشعلِ راہ بنے اور وہ قوانین کی پاسداری کریں۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا طرز حکومت، خلافت راشدہ کے باقی حکمرانوں کی طرح ہر دور میں حقیقت کے متلاشی کے لیے رہبر ورہنما ہے۔ عصر حاضر میں بھی موجودہ حکومت جو کہ پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کی خواہش مند ہے، کیا ہی کمال ہو کہ وہ ریاستی اصولوں، ترجیحات کے تعین اور عدل وانصاف کی فراہمی میں عہد عثمانی سے رہنمائی لے۔ حقیقی تبدیلی کے لیے پاکستان میں حکومت وقت کو اس طرز عمل کو لازمی اپنانا چاہیے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے سابقہ اسلامی حکومتوں کی اتباع میں اسلامی دنیا کی وحدت کو برقرار رکھا۔ نظامِ عدل اور نظامِ اقتصاد میں برابری کو ملحوظ رکھا گیا۔خلافت کی ذمہ داری اٹھانے کے بعد آپ نے عصرِ فاروقی کی تمام پالیسیوں کو من و عن جاری رکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس بات کا شعور دلاتا ہے کہ حکومتیں قومی نوعیت کے قوانین کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر بدلتی نہ پھریں بلکہ قومی مفاد میں وجود میں آئی طویل مدتی پالیسیز کو جاری رکھا جانا چاہیے۔ ذیل میں آپ رضی اللہ عنہ کے طرزِ حکمرانی کی چند جھلکیاں نذرِ قارئین ہیں:
1۔ حکومتی ترجیحات
حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے طرزِ حکومت کا عمومی تصور واضح کرنا مقصود ہو اور آپ کی حکومت کی ترجیحات کا تعین جاننا ہو تو ان خطوط کا بخوبی مطالعہ کر لینا چاہیے جو آپ نے اپنے گورنروں، سپہ سالاروں، خراج وصول کرنے والوں اور عام رعایا کے نام لکھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو واضح پیغام ارسال فرمایا کہ صرف ٹیکس وصول کرنے والے نہ بنیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے خطوط میں ٹیکس وصول کرنے والی حکومتوں میں اور مصالح عامہ کے لیے کام کرنے والی حکومتوں میں فرق واضح فرمایا۔ نیز فرمایا کہ کامیاب حکومت وہ ہے جو محض لوگوں سے مختلف مدات میں رقم جمع کرنے میں نہ لگی رہے بلکہ رفاہ عامہ کے لیے مصروف عمل رہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حکومتی حکام پر واضح کیا کہ ان کے ذمے رعایا کی مصالح کا خیال رکھنا ہے۔رعایا پر جو واجبات ہیں وہ وصول کریں اور ان کے جو حقوق ہیں وہ ادا کریں۔ پھر واضح فرمایا کہ اگر رعایا اور حکومت کی جانب سے حقوق کی ادائیگی اور فراہمی کا ایسا دوہرا توازن برقرار نہ رہا تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ حیا،امانت داری اور وفاداری مفقود ہو جائے گی۔ آپ نے نہ صرف یہ کہ ان پر عادلانہ طرز سیاست کو اختیار کرنے کا حکم دیا بلکہ معاشی، سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی اقدار کو بھی اپنائے رکھنے کی تاکید فرمائی۔
2۔ عدل و انصاف: اصولی ضابطہ
حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے ہر قول وعمل سے یہ واضح کیا کہ ریاستی معاملات میں اصولی ضابطہ: لا طاعة فی المعصیة، إنما الطاعة فی المعروف رہے یعنی معصیت میں کسی کی اطاعت درست نہیں ہوگی بلکہ اطاعت صرف بھلائی کے کاموں میں ہو گی۔ یوں آپ نے اسلام کے ابد الآباد تک متعارف کرائے آفاقی ضابطے کو اپنے عہد میں جاری فرمایا اور لوگوں کو واضح کر دیا کہ اجتماعی قوانین کی پاسداری ہی کی صورت میں حاکم وقت کی پیروی ہے اور اگر ایسا نہ ہو، حاکم اپنی من مانی پر اتر آئے تو رعایا کو اس کے محاسبے کا حق حاصل ہے۔
آپ نے طرز حکومت میں شورائی نظام ہی کو اختیار فرمایا۔ آپ جنگی مہموں کی تنفیذ اور انتظام وانصرام کے لیے مشورے کیا کرتے تھے اور ہر صورت مظلوم کا ساتھ دینے کی تلقین فرماتے۔ آپ فرماتے: بھلائی کا حکم دو جبکہ برائی سے روکو۔ مومن (بصورت حق تلفیِ غیر) اپنے آپ کو ذلیل نہ ہونے دے۔ میری حمایت ہمیشہ طاقتور کے خلاف اور کمزور کے ساتھ ہے، اگر وہ مظلوم ہو
(طبری، 4: 414)
مغربی تہذیب آج صدیوں بعد جس نظامِ عدل کے قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اس کی اساس میں برابری کا تصور وہی ہے جو خلافت راشدہ میں متعین ہو چکا تھا۔
3۔ قانون کی حکمرانی
آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی رہی کہ رعایا کو نہ صرف آزادی رائے حاصل رہتی بلکہ رعایا کی براہ راست خلیفہ وقت تک رسائی ہوتی اور اگر وہ کسی گورنر سے ناخوش ہوتے تو جائز وجوہات کے ہونے کی صورت میں اسے باآسانی معزول کروا دینے کا اختیار بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ روایات بتاتی ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ولید بن عقبہ پر اعتراضات ثابت ہونے کی صورت میں کوفہ کی گورنری سے معزول کر دیا تھا۔
اسلامی حکومتی قوانین میں عمومی فائدہ ملحوظ رکھنا اور فرد واحد کا ذاتی نفع ٹھکرا دینا بھی آپ رضی اللہ عنہ کی امتیازی خصوصیت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی قوانین متعین کرنے میں فرد واحد یا چند خاندانوں کا نفع ملحوظ رکھا گیا تو نتیجے میں عام رعایا کے ہاتھ سوائے تباہی، استحصال، استبداد اور محرومیوں کے کچھ نہ آیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے قوانین کے تقرر میں ان ہی مصالحِ عامہ کو پیش نظر رکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بحیثیت امیر المومنین بیت المال کے حق کوحاصل کرنے میں غلو سے منع فرمایا اور زکوٰۃ میں لوگوں کا بہترین مال لینے سے منع فرمایا۔ پھلوں کی زکوٰۃ وصول کرنے میں آسانی وتخفیف کا حکم دیا۔
آپ کے اصولوں میں سے یہ تھا کہ خدماتِ عامہ (پبلک سروس) کی شکل میں حکومت؛ عوام کو جو عطیات پیش کرتی ہے اس میں یہ جائز نہیں کہ فرد معین کی منفعت پیش نظر ہو بلکہ ضروری ہے کہ پوری امت کا نفع پیش نظر رکھا جائے۔
(السیاسة المالیة لعثمان، ص: 64)
4۔ صوبوں کو حاصل خود مختاری اور نگرانی کا عمل
آپ کی سلطنت مختلف صوبوں میں منقسم تھی، ہر صوبے کا ایک گورنر تھا اس کو بیت المال سے تنخواہ ملتی۔ وہ اسلامی قوانین کے مطابق صوبے کا انتظام وانصرام سنبھالتا۔ گورنر کو اختیار ہوتا کہ بیت المال پر خلیفہ کی طرف سے نمائندہ مقرر نہ ہونے کی صورت میں وہ جزیہ وخراج اور تجارتی عشر کی وصولی کی نگرانی کرتا اور اسے صوبے کی ضروریات پر خرچ کرتا۔ زائد مال مدینہ میں مرکزی بیت المال کو بھیج دیتا۔ صوبے کے امرا ء سے لیکر فقرا پر خرچ کیا جاتا۔
(سیدنا عثمان بن عفان، ص: 186)
آپ کا طرز عمل بتاتا ہے کہ سوائے چند امور کے وفاق کو صوبوں کی خود مختاری کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ وسائل واختیارات زیادہ تیزی سے عام شخص تک پہنچیں۔
گورنروں، وزرا اور ججوں کی کارکردگی سے متعلق معلومات کے حصول اور ان کے احوال واخبار پر نگرانی کے لیے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مختلف اسلوب اختیار فرمائے جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ریاست میں عہدہ ایک امانت ہے، جس کا استحقاق صرف کارکردگی کی بنیاد پر ہے اور اعلی مناصب صرف اہل لوگوں کو ہی دیے جانے چاہئیں جیسا کہ قرآن وسنت اس کی صراحت کرتے ہیں۔ چنانچہ اعلی حکام کی نگرانی کے لیے آپ رضی اللہ عنہ درجہ ذیل ضوابط پر عمل فرماتے:
- آپ حج کے موقع پر حجاج سے ملتے، ان کی شکایتیں سنتے۔ نیز گورنروں کو بھی حکم تھا کہ وہ بھی حج میں شریک ہوں۔
- مختلف اطراف وامصار سے لوگ مدینہ میں ملنے حاضر ہوتے جس سے پورے ملک کی خبریں آپ تک پہنچتیں۔
- مختلف علاقوں سے خطوط کا سلسلہ بھی جاری رہتا جو انہیں گورنروں کی کارکردگی کی خبر دیا کرتے تھے۔
- آپ صوبوں میں معائنہ کے لیے مختلف وفود بھیجتے۔ اسی مقصد کے لیے عمار بن یاسر کو مصر، محمد بن مسلمہ کو کوفہ، اسامہ بن زید کو بصرہ اور عبد اللہ بن عمر کو شام بھیجا۔دیگر لوگوں کو بھی دیگر صوبوں میں روانہ فرمایا۔
- آپ خود صوبوں کا سفر فرماتے اور براہ راست رعایا سے ملتے ان کے مسائل سنتے۔
- صوبوں سے وفود طلب کیے جاتے تاکہ وہ وہاں کے معمولات کی اطلاع دیں۔
- کبھی حالات دریافت کرنے کے لیے گورنروں کو دار الخلافہ طلب فرما لیتے اور کبھی بشکل مراسلہ رپورٹ طلب فرما لیتے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے گورنروں کے اوقات کار سے متعلق باقاعدہ ہدایات جاری فرما رکھی تھیں کہ عوام الناس کو کبھی بھی کسی صورت گورنر سے ملاقات کے لیے پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ روایات میں آتا ہے کہ کوفہ کے گورنر ولید بن عقبہ سے متعلق مشہور تھا کہ ان کے گھر پر دروازہ نہیں تھا۔ وہ ہر وقت لوگوں کا استقبال کرتے، لوگوں کو مکمل آزادی حاصل تھی کہ جب چاہیں گورنر سے ملیں اور اپنے مسائل حل کروائیں۔
(سیدنا عثمان بن عفان، ص: 338)
آپ رضی اللہ عنہ کا طرزِ حکومت ایک مثالی طرزِ حکومت ہے جو تاقیامت آنے والے حکمرانوں کو اصولِ حکومت مہیا کرتا رہے گا۔
اسبابِ شہادت
تاریخ عالم میں ہمیں شاذ ہی کوئی ایسی مثال ملے گی کہ کسی کو اللہ تعالیٰ ’’کابل‘‘ سے لے کر ’’مراکش‘‘ تک کے تمام علاقوں میں زمین کے طول وعرض میں حکومت دے اور اس کی حکمرانی کے خلاف چند مٹھی بھر لوگ بغاوت کر دیں اور وہ ان باغیوں کی سرکوبی سے صرف اس لیے روک دے کہ کہیں حرمتِ مدینہ پامال نہ ہوجائے اور اس کی ذات کے لیے کوئی جان تلف نہ ہو جائے۔ جبکہ صورت حال یہ ہو کہ جانثار رفقا، ارکان دولت اور تمام افواج اس کے حامی ہوں اور باغیوں کی سرکوبی کا مطالبہ بھی کر رہے ہوں۔
مورخین کہتے ہیں کہ عہد عثمانی کے نصف ثانی (سن 30 تا 35 ہجری) میں فتنے پیدا ہونے شروع ہوئے جس کے نتیجے میں آپ کی شہادت ہوئی۔
(طبقات ابن سعد، 1: 39-47)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں سوچی سمجھی بڑی سازش کے نتیجے میں بعض لوگوں نے شورش پیدا کر دی اور فتنہ وفساد کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ اسلام مخالف دشمن کا مقصد مسلمانوں میں افتراق پیدا کر کے ان کی قوت کو پاش پاش کرنا تھا۔ اس غرض کے تحت تمام سازشی ذہن بلا تفریق ِ قوم ومذہب اپنی کوشش میں تھے۔ اشتر نخعی، جندب اور صعصعہ نے کوفہ کو اپنی شرارتوں کا مرکز بنا رکھا تھا، لیکن سب سے زیادہ خطرناک شخص ایک نو مسلم عبد اللہ بن سبا تھا جس نے اپنی حیرت انگیز سازشانہ قوت سے مختلف الخیال فتنہ پروروں کو ایک مرکز پر متحد کیا۔عبد اللہ بن سبا اور اس کے حواریوں کا طریقِ واردات یہ تھا کہ بظاہر متقی اور پرہیز گار بنتے اور وعظ ونصیحت سے لوگوں کو اپنا حلقہ بگوش کرتے لیکن یہ لوگ در حقیقت عمال کو تنگ کرتے اور ہر ممکن طریقہ سے ان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہتے۔ انہوں نے ہر جگہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اقربا پروری اور ناانصافی کی خود ساختہ من گھڑت داستانیں مشہور کرنا شروع کر دیں۔
حقیت حال یہ ہے کہ ان کا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر اقربا پروری کا اتہام بالکل بے بنیاد تھا۔ طبری وغیرہ نے اس کی وضاحت کی کہ آپ نے صرف چند مناصب پر اموی خاندان کے افراد کو متعین کیا تھا۔ جن میں سے ایک حضرت معاویہ بن ابی سفیان اموی ہیں، جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت سے شام کے گورنر تھے۔ دوسرے صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح عامری تھے جنہیں مصر کا عامل بنایا۔ تیسرے صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عامر بن کریز اموی تھے جو بصرہ کے عامل مقرر تھے اور چوتھے مروان بن حکم اموی کاتب تھے۔
ان چاروں کے علاوہ دو اموی عاملوں کو مقرر کر کے آپ نے معزول کر دیا جن میں سے ایک ولید بن عقبہ اور دوسرے سعید بن العاص تھے۔ یہ تھے کل وہ اموی افراد جن کے بارے میں مخالفین نے تہلکہ مچا دیا کہ آپ نے کنبہ پروری اور اقربا نوازی کر کے اپنے خاندان کے افراد کو حکومت کے عہدے سونپے اور کسی نے یہ نہ دیکھا کہ اس کے علاوہ تقریباً اٹھارہ جگہ پر بلاد اسلامیہ میں گورنری اور دیگر اہم عہدوں پر سب غیر اموی افراد مقرر تھے۔ اگر پانچ عہدے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے امویوں کو تفویض فرما دیے،جو عمال کی تقرری کے عمومی ضابطوں کے مطابق بھی تھے، تو اس پر اتنی شورش اور ہنگامہ کھڑا کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا تھا۔
آپ رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا گیا کہ آپ نے کم عمر جوانوں کو اونچے منصب پر براجمان کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ خود فرماتے:
مجھ سے پہلے کم عمر لوگوں کو مناصب دیے گئے تو مجھ پر اعتراض کیوں؟ یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسامہ بن زید،(جنہیں روم پر چڑھائی کے لیے تیار لشکر پر سپہ سالار بنایا گیا)سے متعلق کی گئی۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: ایسا ہی ہے۔ فرمایا: لوگ بلا سوچے سمجھے عیب لگاتے ہیں۔
(طبری، 5: 355)
البدایہ والنہایہ میں ہے کہ مولا علی شیر خدا فرماتے ہیں:
عثمان رضی اللہ عنہ نے جس کو بھی والی بنایا، سب باصلاحیت اور عادل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عتاب بن اسید کو مکہ کا گورنر مقرر فرمایا تھا حالانکہ وہ ابھی بیس سال کے تھے۔
(البدایه والنهایه، 8: 178)
المختصر یوں باغیوں کے سرغنہ؛ رہبروں کا حلیہ اپنائے طرح طرح کے بہتان باندھ کر لوگوں کو بغاوت پر اکساتے رہے اور ریاست کے خلاف بغاوت کے مرتکب ہوتے رہے۔ ان حالات میں حضرت عثمان غنی اصلاح کی کوشش فرماتے رہے۔ آپ نے وفود بھی روانہ کیے لیکن آپ کی کاوش بے سود نکلی کیونکہ مخالفین کے مقاصد ہی کچھ اور تھے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ جب اکثر صحابہ حج کی ادائیگی میں مصروف تھے تو ان ہی ایام میں چند سو باغیوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور مطالبہ کرنے لگے کے آپ رضی اللہ عنہ خلافت سے دستبردار ہوں۔
احوالِ وقتِ شہادت
آپ رضی رضی اللہ عنہ کو مخبر صادق نبی بر حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ملنے والی بشارات سے اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ آپ کی شہادت اب قریب آ گئی ہے۔ تاہم اسی لیے باربار صحابہ کرام کے اجازت طلب کرنے کے باوجود آپ نے باغیوں کو کچلنے کا اذن نہ دیا۔ کم وبیش سات سو صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں آپ کی حفاظت پر مامور تھے۔ آپ فرماتے کہ میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔
آپ کی رہائش کا چالیس روز محاصرہ رہا ، آپ کو ضروریات زندگی سے محروم کر دیا گیا مگر کیا شان استغنائی تھی کہ خندہ پیشانی سے بھوک وپیاس برداشت کرتے رہے مگر صبر واستقامت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ آپ کی رعایا کو آپ کے حق پر ہونے کا یقین تھا۔ اور ہوتا بھی کیوں نہ کہ غیب کی خبریں دینے والے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے حق پر ہونے اور آپ کی شہادت کی خبر بھی دے چکے تھے۔
محاصرہ کے دوران حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا اطمینان اور عدمِ اضطراب بھی بلا وجہ نہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ پر عجیب روحانی وجدانی کیفیات طاری تھیں۔ قدرت الہٰیہ انہیں اگلے عالم کی خوشگوار اور اطمینان بخش نعمتوں کا مشاہدہ کروا رہی تھی۔ جن میں سے کچھ کا اظہار تو آپ نے فرما بھی دیا تھا تاکہ اپنے قریبی واقفِ حال جاں نثار خدام زیادہ پریشان نہ ہوں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس اطمینان کا اور باغیوں سے جھڑپ نہ کرنے دینے میں پوشیدہ حکمت اور راز کو سمجھ جائیں۔۔
چنانچہ ایسی مافوق الطبیعاتی روحانی واردات اور مشاہدات نے آپ کو لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون والی کیفیت دے رکھی تھی۔آپ کے خادم حضرت مسلم فرماتے ہیں کہ
آپ نے اپنے بیس غلاموں کو آزاد کر دیا،ایک پاجامہ منگوایا اور زیب تن فرما لیا۔ ایسا لباس آپ نے نہ کبھی زمانہ جاہلیت میں زیب تن فرمایا نہ کبھی دور اسلام میں۔ پھر فرمایا:
ممیں نے گزشتہ رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ابو بکر وعمر kبھی تھے۔ وہ سب کہنے لگے: اے عثمان صبر کرو، تم کل افطار ہمارے ساتھ کرو گے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے مصحف منگوایا اور اسے کھول کر تلاوت کرنے لگے۔ اسی اثنا میں آپ کو شہید کر دیا گیا اور وہ مصحف آپ کے سینے پر تھا۔
آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت سے متعلق اگر جملہ روایات کا مطالعہ کرنا مقصود ہو تو شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی سیدنا عثمان غنی پر تحریر کردہ تالیف ایمان کی تروتازگی کے لیے بہت مفید ہے۔ اس کا مطالعہ ضرور کریں۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی عظمتوں کا کیا کہنا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے نہ مکہ کی حرمتوں کو خطرے میں پڑنے دیا، نہ مدینۃ الرسول کو میدان جنگ بننے دیا۔۔۔ نہ آپ نے اپنی جان کے تحفظ کے لیے دیارِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑا اور نہ اپنے جانثار رفقا کی زندگی کو خطرے میں ڈالا۔۔۔ حتی کہ آخری وقت میں اپنے غلاموں کو بھی آزاد کر دیا اور ظلم وستم کے تمام وار اپنی جان پر جھیلے۔
محترم قارئین! حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنی تمام تر صفات میں امت کے لیے راہبر وراہنما ہیں۔آپ کی زندگی کا جس جہت سے بھی مطالعہ کیا جائے، وہی جہت امت کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ کی ذات مقدسہ اپنے اندر بے شمار صفات اور خصائص سمیٹے ہوئے ہے جن کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اپنی زندگی میں عزم واستقلال کا کوہِ گراں تھے۔ اللہ تعالیٰ حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہمیں خلفائے راشدین سے محبت کرنے اور ان کی سیرت کو اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے۔