اداریہ : ہماری قومی سلامتی اور حکومتی ذمہ داری

ڈاکٹر علی اکبر قادری

ہر جگہ بحران ہیں، یہ جملہ لکھتے سنتے اور پڑھتے ایک عمر گزر چکی کہ ’’پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے‘‘ مگر مجبوری ہے کہ اس گھِسے پٹے جملے کو ایک بار پھر استعمال کرنا پڑ رہا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ نازک ترین دور سب گذشتہ ادوار کی نزاکت کے مقابلے میں زیادہ بڑھ کر ہے اور گذشتہ ادوار کی نزاکت اس کے مقابلے میں نزاکت نظر ہی نہیں آرہی۔ بدامنی، مہنگائی، غربت، بے روزگاری، روز مرہ استعمال کی اشیاء کی کمی، قومی خزانے کا دیوالیہ پن، آئے روز بڑھتی ہوئی بیرونی مداخلت، ہماری سرحدوں کی روزانہ ہونے والی خلاف ورزیاں، شعائر اسلام کی تذلیل، بے حیائی و فحاشی کا بڑھتا ہوا سیلاب، علاقائی و لسانی تعصبات اور سب سے بڑھ کر اشرافیہ، دانشور طبقات اور عامۃ الناس کی بے حسی یہ سب نازک ترین دور کی علامات ہی نہیں تو کیا ہیں۔ پاکستانی قوم پر یہ کڑا وقت اچانک نہیں آیا کہ اسے ایک طرف اپنی بقاء کا چیلنج درپیش ہے اور دوسری طرف اس کے زر مبادلہ کے ذخائر اختتام پذیر ہیں۔ اس کی تیاری ایک مدت سے ہو رہی تھی مگر ہم خود آنکھیں بند کر کے سو رہے تھے اور اب بھی یہ سکوت مرگ طاری ہے۔ تاریخ نے ہمارے ساتھ ایسا سنگین مذاق کیا ہے کہ دنیا کا بچہ بچہ ہماری ’’حکمت و دانش‘‘ پر ہنس رہا ہے۔ جس عالمی استعمار کے جہاز ہر روز ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ان کے میزائل باقاعدگی کے ساتھ ہمارے ہم وطنوں اورہم مذہب بھائیوں کی بستیاں قبرستانوں میں بدل رہے ہیں، ہم روح اور بدن کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے اسی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر قرض مانگنے پر مجبور ہوئے مگر بھیک ملنے پر ایک دفعہ پھر IMF سے معاہدہ کرنا پڑا۔

قومی وقار اورجمہوریت کا یہ عالم ہے کہ جس دن سات روزہ بند کمرے کے انتہائی حساس اجلاس کے بعد قومی اسمبلی نے قومی سلامتی سے متعلق متفقہ قرارداد پاس کی اسی دن چند گھنٹوں بعد امریکی جہازوں نے ہمارے درجنوں غریب باشندوں کوخون میں نہلادیا۔ یہ مرگِ مفاجات جس جرم ضعیفی کی سزا ہے اس جرم کے مرتکب سابقہ حکمران اب بھی سرکاری حفاظتی پروٹوکول کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ بیرون ملک دورے پر ان کو سرکاری پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ معلوم نہیں دشمن کو مسلمان قوم میں اتنی کثرت کے ساتھ یہ میر جعفر اور میر صادق کیوں میسر رہتے ہیں جبکہ ٹیپو اور صلاح الدین جیسی غیور قیادت کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ خدا جانے قدرت کی یہ ستم ظریفی اسلامی دنیاکو کب تک بے بسی کے صحراء میں آبلہ پا رکھے گی۔ اس وقت دشمنان اسلام متحد ہو کر اسلامی دنیا کی رہی سہی قوت و طاقت اور آزادی و خود مختاری کو ختم کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ اس نے خطرناک منصوبہ بندی اور دور رس حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ ایک ایک ملک کو چن چن کر کھنڈر بنایا جا رہا ہے۔ اس تاریخی ستم ظریفی کا یہ منظر نہایت تکلیف دہ اور حیرت انگیز ہے کہ اپنی بستیوں پر فوج کشی اور بمباری میں ’’فرنٹ مین اتحادی‘‘ کے طور پر خود مسلمان ہی نظر آرہے ہیں چاہے وہ عراق، افغانستان اور پاکستان کے عسکری اہلکار ہوں یا ان کا مقابلہ کرنے والے مزاحمت کار۔ کئی گھرانوں اور قبیلوں کے افراد بیک وقت دو مخالف سمتوں سے ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں اور دونوں اپنی اپنی جگہ پر ’’قومی اورملی فریضہ‘‘ ادا کر رہے ہیں۔ استعماری قوتوں نے بڑی ہوشیاری سے آپس میں لڑانے کی یہ پالیسی مرتب کی ہے جو سابقہ تاریخ کے جنگی پلان سے مختلف اور کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ جب تک مسلمانوں کو اس جنگی ’’حکمت عملی‘‘ کی شر انگیزیوں کا علم ہوگا اس وقت تک وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے کلمہ گو بھائیوں کے خون کی ندیاں بہاچکے ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری تازہ دم جمہوری حکومت 18 فروری کو عوام کی طرف سے جومینڈیٹ لے کر آئی تھی اس میں یہ امید اور عزم تھا کہ 60 سالوں سے جاری قومی پالیسیوں میں تبدیلی لائی جائے گی۔ معاشی معاشرتی سیاسی اور دفاعی حکمت عملی میں بہتری کی کوشش کی جائے گی۔ باطل نواز آمریت کے چنگل سے نکال کر ملک کی تقدیر کو حقیقی عوامی نمائندوں کے ہاتھوں میں دینے کا مقصد ہی یہ تھا کہ اب ہم بدلی ہوئی دنیا کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے قومی پالیسیاں مرتب کریں گے لیکن صد افسوس کہ نتائج کے اس کے برعکس نکل رہے ہیں۔ اس جمہوری حکومت کو انہی استعماری طاقتوں نے پہلے دن سے ہی ایسے حالات ومعاملات میں الجھا دیا کہ مسائل کا حل تو دور کی بات ہے اسے اپنی بقا کی ضمانت ابھی تک میسر نہیں آرہی۔ عالمی منڈی میں خوردنی تیل اور پٹرول کی قیمتوں میں حیرت انگیز کمی کے باوجود یہ حکومت مہنگائی کے سیلاب میں قابل ذکر کمی نہیں لاسکی۔ حکومت میں شامل حلیف اور باہر حریف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دائروں میں بند اپنے سیاسی مستقبل کئے لئے منصوبہ بندی کررہی ہیں اورآئندہ الیکشن کے لئے حالات کو سازگار رکھنے پر متوجہ ہیں۔ انہیں ملک کی بقاء سے زیادہ اپنی بقا عزیز ہے۔ ہمارے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں جوڑ توڑ اور خرید و فروخت کا عمل بھی جاری ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ملکی صورتحال سے قطع نظر ایک دوسرے کو رام کرنے کی انتہائی کوشش میں مبتلا ہیں۔ عالمی اور قومی معاملات پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اور مبصرین اب ایک مرتبہ پھر فوج کی مداخلت کے امکان کا خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ موجودہ سیاسی قوتوں کی ہمیشہ کے لئے موت ثابت ہوگی اور بے بس قوم ایک مرتبہ پھرکسی فوجی آمر کی من مانیوں کے رحم و کرم پر جا پڑے گی۔ اﷲ تعالیٰ ہی ہمارے حال پر رحم فرمائے اور بحرانوں کی اس دلدل سے عزت و وقار کے ساتھ ہمیں باہر نکال دے۔ (آمین)

ڈاکٹر علی اکبر قادری