چند ہی لمحوں بعد ایک انصاری صحابی اسی دروازے سے مسجد میں داخل ہوئے۔ وضو کے قطرے ان کی داڑھی سے ٹپک رہے تھے۔ بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سلام پیش کرنے کے بعد وہ خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گئے۔ تمام صحابہ کی نظریں اس خوش نصیب ساتھی کے چہرے کی بلائیں لینے لگیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دوسرا دن ہوا تو آج بھی رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس دروازے سے ایک شخص اندر داخل ہونے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے۔ صحابہ کی اشتیاق بھری نظریں دروازے پر لگ گئیں کہ دیکھیں آج یہ بشارت کس کے حصے میں آتی ہے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس دفعہ بھی وہی انصاری صحابی دروازے پر نمودار ہوئے۔ جب تیسرے دن بھی ایسا ہی رونما ہوا اور وہی انصاری صحابی حضور علیہ السلام کی بشارت کی نعمت سے سرفراز ہوئے تو صحابہ کرام کے دلوں میں رشک کے ساتھ ساتھ تجسس بھی پیدا ہوگیا۔
مجلس برخواست ہوئی اور یہ انصاری صحابی حضور کی مجلس سے اٹھ کر جانے لگے تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے ہو لئے۔ انصاری اپنے گھر کے دروازے پر پہنچے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کسی وجہ سے میں تین راتیں اپنے گھر نہیں جانا چاہتا۔ کیا آپ مجھے اپنے ہاں قیام کی اجازت دیں گے؟ آیئے بسم اللہ کہہ کر وہ انصاری حضرت عبداللہ بن عمر کو اپنے گھر لے گئے جہاں انہوں نے تین راتیں قیام فرمایا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس جستجو میں تھے کہ دن بھر کے معمولات کے علاوہ آخر وہ کون سا خاص عمل ہے جو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اتنا محبوب قرار پایا کہ تین دن تک جنت کی نوید صرف انہی کا نصیب بنتی رہی۔ لیکن ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کوئی بھی تو غیر معمولی عمل اس انصاری کا نظر نہ آیا۔ ان کے شب و روز کے معمولات وہی تھے جو باقی تمام صحابہ کرام کے تھے۔
آخر انہیں اپنا دل کھول کر اس انصاری دوست کے سامنے رکھنا پڑا۔ میرے بھائی! میں نہ تو اپنے گھر سے لڑ کر آیا تھا اور نہ ہی کسی اور وجہ سے آپ کے ہاں ٹھہرنے پر مجبور ہوا۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے آقا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل تین دن تک یوں فرماتے رہے اور آپ کے لئے جنت کی نوید سناتے رہے۔ میرے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ آخر وہ کون سا خاص عمل ہے جو حضور علیہ السلام کی زبان مبارک سے آپ کے لئے بشارت کا سبب بنا۔ میں تین دن دیکھتا رہا لیکن مجھے تو آپ کا کوئی خاص اور غیر معمولی کام نظر نہیں آیا۔ میری درخواست ہے کہ اس راز سے خود ہی پردہ اٹھا دیجئے۔
انصاری صحابی نے مسکرا کر حضرت عبداللہ بن عمر کو دیکھا اور بڑی تواضع سے فرمایا : میرے دوست سب کچھ تمہارے سامنے تھا۔ میرا تو کوئی خاص عمل نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ ان کا جواب سن کر جب میں وہاں سے واپس آنے لگا تو انہوں نے فرمایا : عمل تو وہی کچھ تھا جو آپ نے ملاحظہ فرمالیا۔ ہاں اپنے من کی ایک بات سے تمہیں ضرور آگاہ کردیتا ہوں فرمایا :
انّی لَا اَجِدُ فِی نَفْسِی لِاَحَدٍ من المسلمين غِشًّا وَلَا اَحْسَدُ احدًا علٰی خير اعطاه اللّٰهُ اِيّاهُ.
’’میرے دل میں کسی مسلمان کے لئے کینہ نہیں ہے اور نہ میں اللہ کی طرف سے اسے ملنے والی کسی خیر پر حسد کرتا ہوں‘‘۔
دوسری روایت میں ہے : انی لَمْ اَبِت ضاغنًا علی مسلمٍ.
’’میں نے کسی مسلمان کے بارے میں کبھی اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھ کر رات نہیں گزاری‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمر خوشی سے پکار اٹھے۔ یہی تو راز ہے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کی مقبولیت کا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انصاری صحابی کے من کا کسی اور مسلمان کے لئے حسد، کینہ اور بغض و عناد سے پاک ہونا ان کے لئے جنت کی خوشخبری کی نوید سعید بن گیا۔
یقینا وہ معاشرہ جنت نظیر اور اس کے افراد جنتی کہلانے کے مستحق ہیں جن کا آئینۂ دل ایک دوسرے کے بارے میں مکدر نہیں ہوتا، جن کے دل بدگمانی، کینہ، بغض و عناد اور حسد سے پاک ہوتے ہیں۔ وہ نفرت، عداوت اور انتقام کی نفسیات میں جینے کی بجائے محبت، رحمدلی، تحمل، عفو و درگزر اور لطف و احسان کی پرامن اور طمانیت بخش فضاؤں میں سانس لینے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف خود خوشیاں اور سکون سمیٹتے ہیں بلکہ اوروں کے لئے بھی ان نعمتوں کے حصول کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
اسلام، امن و سلامتی اور احترام آدمیت کا درس دیتا ہے اس لئے وہ ہر اس دروازے کو بند کرنا چاہتا ہے جس سے امن و سکون اور خوشیاں غارت ہونے کا اندیشہ ہو۔ دین فطرت ان تمام رویوں کی پرزور مذمت کرتا ہے جو نفرت و کدورت، فتنہ و فساد اور باہمی تصادم کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ ان تمام منفی رویوں پر غور کیا جائے تو ان کے نشانات قدم سوءِ ظن یعنی بدگمانی کے گھر کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
بدگمانی
سوءِ ظن یعنی بدگمانی وہم اور شیطانی وسوسے سے پیدا ہونے والی ایسی بیماری ہے جس میں مبتلا شخص کا سکون قلب غارت ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے یہ بیماری اپنے پاؤں جماتی ہے کینہ، بغض و عناد جیسی مزید مہلک بیماریاں بھی اس کے اندر سرایت کرتی چلی جاتی ہیں۔ یہ سوچ بڑھتے بڑھتے آخر کار اسے تصادم اور انتقام کی آگ میں جھونک دیتی ہے۔ یوں ایک پورے کنبے یا خاندان کی خوشیاں اور باہمی محبتیں اور الفتیں جل کر خاکستر ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے بدگمانی کی مرض کو قوموں کی تباہی کا ایک بنیادی سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا :
وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْئِ وَکُنْتُمْ قَوْمَا م بُوْرًا.
(الفتح : 12)
’’تم نے ایک دوسرے کے بارے برا گمان رکھا اور تم برباد ہونے والی قوم تھے‘‘۔
قرآن مجید نے بڑے واضح انداز میں اپنے دامن اخلاق کو اس سے پاک رکھنے کی تاکید کی فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ
(الحجرات : 12)
’’اے ایمان والو! ظن (گمان) سے بہت کام نہ لیا کرو یقینا بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘۔
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب بدگمانی دل میں گھر کر جاتی ہے تو یہ مصالحت و مفاہمت کے امکانات کو ختم کر دیتی ہے۔ یہ اخلاقی برائی انسان میں موجود دوسری اخلاقی خوبیوں کو بھی نگل جاتی ہے۔ ایسا شخص حقیقت و سچائی کا ادراک نہیں کرسکتا۔ اسی لئے فرمایا :
ان الظن لايغنی من الحق شيئا.
ایک سبق آموز واقعہ
حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حوالے سے اپنی کتاب کیمیائے سعادت میں ایک دلچسپ اور سبق آموز واقعہ لکھا ہے جسے معمولی فرق سے دیگر کتب میں بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ایک شخص اپنے غلام کو فروخت کر رہا تھا اور ساتھ کہہ رہا تھا کہ اس میں کوئی عیب نہیں سوائے چغل خوری کے۔ ایک خریدار کو غلام پسند آگیا اس نے غلام کے عیب پر کوئی توجہ نہ دی اور اسے خرید کر گھر لے آیا۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ میاں بیوی غلام سے اولاد کی طرح حسن سلوک کرنے لگے لیکن یہ غلام بدنیت تھا۔ اس نے تمام جائیداد پر قبضہ جمانے کے لئے ایک سازش تیار کی۔ چنانچہ وہ مالک کی بیوی سے جا کر رازداری سے کہنے لگا کہ مالک کے ایک عورت سے تعلقات ہیں اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ بیوی بہت پریشان ہوئی۔ غلام کہنے لگا آپ پریشان نہ ہوں۔ ایک عامل روحانی میرا واقف ہے میں اس سے آپ کو تعویذ بنوا دوں گا جس سے عورت سے جان چھوٹ جائے گی اور آپ کا خاوند آپ کا ہی فریفۃ رہے گا۔ دوسرے دن کہا کہ تعویذ بنانے کے لئے آپ مالک کی داڑھی کے چند بال حلق کے قریب سے اتاردیں۔ غلام نے اس مقصد کے لئے ایک استرا بھی مالکن کے حوالے کر دیا۔
غلام یہاں سے فارغ ہوکر دکان پر جا کر تاجر سے کہنے لگا۔ آپ کی بیوی بڑی بے وفا ہے اور کسی اور پر مرتی ہے اور اب آپ کے قتل کے درپے ہے۔ شاید آج رات موقعہ پا کر آپ کو قتل کرنا چاہے۔ آپ آزمانا چاہتے ہیں تو جھوٹ موٹ سوجائیں، حقیقت سامنے آجائے گی۔ رات کے وقت مالک گھر آیا اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر بستر پر دراز ہوگیا اور خود کو جھوٹ موٹ گہری نیند میں ظاہر کیا۔ حسب پروگرام بیوی دبے پاؤں استرا ہاتھ میں لئے اس کے قریب آئی لیکن جونہی بال اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ تاجر اٹھ بیٹھا اسے یقین ہوگیا کہ یہ استرے سے مجھے قتل کرنا چاہتی تھی۔ اس نے طیش میں آکر اسی استرے سے بیوی کا گلا کاٹ دیا۔ عورت کے رشتہ داروں کو پتہ چلا تو انہوں نے تاجر کا کام تمام کر دیا۔ یوں خونریزی اور بربادی کا ایک سلسلہ چل نکلا۔
آپ نے دیکھا چغل خور غلام کی پیدا کردہ بدگمانی نے ایسی بداعتمادی کو جنم دیا کہ سوچنے سمجھنے اور حقیقت تک رسائی کی ساری صلاحیتیں ختم ہوکر رہ گئیں اور پورا خاندان تباہ و برباد ہوگیا۔
بدگمانی کی کوکھ سے بغض و عناد اور بغض و عناد کے بطن سے غیبتیں جنم لیتی ہیں جس سے دوسرے کے عیبوں کی تشہیر کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ غیبت اور بدگمانی کے ساتھ ساتھ مزید عیوب کی تلاش اور خامیوں کی کرید شروع ہو جاتی ہے تاکہ دوسرے فریق کی توہین و رسوائی کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ اسی لئے قرآن مجید نے بدگمانی کی مذمت کرنے کے بعد تجسس یعنی ٹوہ لگانے اور غیبت یعنی بدگوئی سے منع کرتے ہوئے فرمایا :
وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا.
(الحجرات : 12)
نہ تو ٹوہ لگاؤ اور نہ غیبت کرو یعنی دوسرے کی عدم موجودگی میں اس پر تہمت اور الزام نہ دھرو اور نہ اس کی بے عزتی و رسوائی کا سامان کرنے کے لئے اس کی خامیوں اور غلطیوں کی مزید کرید کرو بلکہ اسلام کا مطالبہ اہل ایمان سے یہ ہے کہ جو عیب اور خامیاں تمہارے مسلمان بھائی کی تمہارے علم میں آچکی ہیں ان پر بھی پردہ ڈالو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَه اللّٰه فی الدنيا والآخرة.
’’جس نے مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالٰی دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘۔ اور فرمایا :
من رای عورة فسترها کان کمن احيا الموءُ وْدة.
’’جس نے کسی کا مخفی عیب دیکھ لیا اور پھر اس پر پردہ ڈال دیا تو یہ ایسا ہے جس طرح کسی نے زندہ درگور کی ہوئی بچی کو موت کے منہ سے بچالیا‘‘۔
جب گمان کو بے لگام چھوڑ دیا جاتا ہے اور بدگمانیاں غالب آنے لگتی ہیں تو تجسس اور کرید کے ذریعے دوسروں کے پوشیدہ معاملات کا کھوج شروع ہوجاتا ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کون کون سی ان میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسی بداخلاقی ہے جو فساد، بدامنی اور بے سکونی کی نہ صرف راہ ہموار کرتی ہے بلکہ اس شخص کی خود اپنی رسوائی کا بھی سامان ہونے لگتا ہے۔
سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَا تَتَّبِعُوا عوراتِ المسلمين فَاِنّه من اتَّبَعَ عوراتهُمْ يَتّبِعُ اللّٰهُ عَوْرَتَه ومن يَتَّبِعُ اللّٰهُ عَوْرَتَه يَفْضَحُه فی بيتِه.
’’مسلمانوں کے پوشیدہ معاملات کا کھوج نہ لگایا کرو جو شخص مسلمانوں کے عیب ڈھونڈنے کے درپے ہوگا، اللہ تعالٰی اس کے عیوب کے درپے ہوجائے گا اور اللہ تعالٰی جس کے عیوب کے درپے ہوجائے اسے اس کے گھر میں رسوا کرکے چھوڑتا ہے‘‘۔
ایک بزرگ کا قول ہے کہ سچے مومن کا یہ مزاج ہوتا ہے کہ اس کا سابقہ کسی شخص سے پڑتا ہے تو وہ دوسرے کے حصے کی غلطیوں کو نہیں دیکھتا بلکہ اس کا سارا دھیان اپنے حصے کی کمیوں اور کوتاہیوں کی طرف رہتا ہے اس کا مزاج مسئلہ ختم کرنے کا ہوتا ہے نہ کہ اسے مزید الجھانے کا۔
چغل خوروں کی در اندازی
بدگمانی کے شکار آدمی کی چونکہ ساری فکر دوسرے کو برا سمجھنے کے گرد گھومتی ہے اس لئے اسے ہر وہ بات بھلی معلوم ہوتی ہے اور وہ شخص اچھا لگتا ہے جو اس کی سوچ کی تقویت کا باعث ہو۔ یہیں سے چغل خوری کو راہ ملتی ہے چنانچہ چغل خور اپنی کسی سابقہ رنجش، مفاد یا حماقت کے تحت الاؤ تیز کرنے کے لئے لکڑیاں اور تیل مہیا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَلَا اُنَبّئُکُمْ بشرارکُمْ؟ قالوا بَلَی يارسول الله صلی الله عليه وآله وسلم قال المشّاءُ ونَ بِالنَّمِيْمَةِ المفرقُونَ بين الاحِبّةِ.
’’کیا تمہیں بدترین انسان کے متعلق آگاہ نہ کروں؟ صحابہ نے عرض کیا : ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! حضور علیہ السلام نے فرمایا وہ چغل خور لوگ ہیں جو پیارے دوستوں کے درمیان تفرقہ ڈال دیتے ہیں‘‘۔
ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
اَلنّمِيْمَةُ وَالشَّتِيْمَةُ وَالحميّةُ فی النار.
’’چغل خوری، بد زبانی اور متکبرانہ ہٹ دھرمی و ناجائز طرف داری دوزخ میں لے جانے والے کام ہیں‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ لَا يَدْخُلُ الْجَنّةَ قَتّاتٌ. چغل خور جنت میں نہ جائے گا۔ قتت الاحادیث کا مطلب ہے فساد کی غرض سے ادھر کی باتیں ادھر پہنچانا۔
اللہ معاف کرے ہمارے معاشرہ میں یہ مرض اس قدر سرایت کرچکا ہے کہ شاید ہی کوئی گھر اور خاندان اس کی ہلاکت آفرینی سے محفوظ ہو۔ ساس بہو کے اختلافات اور دیگر خاندان کے اکثر جھگڑے اور فساد اسی مرض سے پیدا ہوتے ہیں۔ مرد حضرات بالعموم اور خواتین بالخصوص اس اخلاقی مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ گھروں، خاندانوں اور تنظیمی زندگی میں بدگمانی، چغل خوری اور عیب جوئی زیادہ خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ بطور خاص ان خواتین و حضرات کو اس مرض سے زیادہ محتاط رہنا چاہئے جو خدمت دین کے کسی شعبے سے وابستہ ہیں کیونکہ شیطان کو ایسے لوگوں کی زندگیوں میں زہر گھول کر زیادہ سکون ملتا ہے۔ اسی طرح ساس بہو کے اکثر جھگڑوں کی بنیاد بھی یہی بدگمانی اور عیب جوئی ہوتی ہے۔
اصلاح احوال کی تدابیر
1۔ عجلت سے کوئی رائے قائم نہ کریں۔
کسی کے بارے میں کوئی بات سن کر یا دیکھ کر فوراً رائے قائم نہ کریں کیونکہ سماعت اور نظر میں دھوکے کا امکان بہر حال رہتا ہے اور حقیقت ویسے نہیں ہوتی جیسے آدمی سمجھ رہا ہوتا ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بستر پر نہ پایا تو میں نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی کسی بیوی کے پاس چلے گئے ہیں چنانچہ میں آپ کو ڈھونڈنے نکلی تو دیکھا کہ آپ سجدے یا رکوع میں ہیں اور اللہ تعالٰی کی حمد و تسبیح بیان کر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر میں نے کہا۔
بِاَبی انت وَ امِّی اِنّی لَفِیْ شَانٍ وَاِنّکَ لَفِیْ شَانٍ آخر.
’’میرے ماں باپ آپ پر قربان میں کس خیال میں تھی اور آپ تو کسی اور حال میں ہیں‘‘۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ غلط فہمی کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے یعنی بات ویسی نہیں ہوتی جیسے آدمی سمجھ رہا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا افضل ترین خاتون تھیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدالانبیاء تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے وہ رائے قائم کر لی جو حقیقت کے خلاف تھی چہ جائیکہ عام خواتین، جن کا ایمان اور عمل بھی کمزور ہوتا ہے اس کی یہ کمزوری کتنی پریشانیوں کا باعث بن سکتی ہے۔
وہ سمجھیں کہ کسی اور بیوی کی یاد آئی اور آپ وہاں چلے گئے حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ آپ کو خدا کی یاد آئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے چلے گئے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض دفعہ حقیقت وہ نہیں ہوتی جو بظاہر نظر آتی ہے۔ چنانچہ اگر کسی بات یا واقعہ کے مثبت اور منفی دونوں پہلو نکل سکتے ہوں تو مسلمان کو حکم ہے کہ
ظَنّ المومنينَ خيراً.
’’اہل ایمان کے بارے میں حسن ظن سے کام لے‘‘۔
2۔ اگر آپ تک کوئی ایسی بات پہنچی ہے جس سے آپ کو دکھ ہوا یا کوئی کام ایسا دیکھا گیا، جس نے غلط فہمی کو جنم دیا تو آپ غیبت اور بدگوئی کرنے یا اس رنجش کو دل میں پالنے کی بجائے متعلقہ شخص سے براہ راست رابطہ کریں اور اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے جذبات و احساسات اس تک پہنچائیں یہ براہ راست رابطہ اور تحقیق آپ کو بہت ساری الجھنوں سے بچالے گی۔ گھریلو اور خاندانی زندگی میں اکثر بگاڑ انہیں غلط فہمیوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ غلط فہمی کے بعد اگر سنجیدگی سے تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ محض بے بنیاد تھی۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ غلط فہمی کی تحقیق نہیں کرتے اگر تحقیق کرتے بھی ہیں تو براہ راست نہیں کرتے ادھر ادھر سے معلومات حاصل کرتے ہیں جس میں بتانے والوں کی اپنی کدورتیں اور میلانات بھی شامل ہوجاتے ہیں جس سے بگاڑ میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔
مندرجہ بالا واقعہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ براہ راست تحقیق کرنے سے غلط فہمی رفع ہوسکتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ایک غلط فہمی ہوئی انہوں نے دل آزردہ کر کے بیٹھ جانے کی بجائے تحقیق کر لی تو حقیقت حال سامنے آگئی۔
براہ راست رابطے کا ایک اور مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ ممکن ہے فریق ثانی سے واقعتاً کوئی ایسی بات کا فعل سرزد ہوا ہو لیکن وہ اس بات کو معمولی سمجھ رہا ہو اور اسے احساس ہی نہ ہو کہ میری اس بات کا اور معنی بھی ہو سکتا ہے جو کسی کے لئے دکھ کا سبب بن رہا ہے۔ اخلاص پر مبنی باہمی گفت و شنید کے نتیجہ میں تو اسے اپنی بات کی تلافی کرنے کا بہتر موقعہ مل سکتا ہے۔
3۔ اگر آپ کی باہمی ناراضگی اور غصے کی بنیاد نمیمہ کاروں کی پہنچائی ہوئی معلومات ہیں اور آپ نے براہ راست کچھ دیکھا نہ سنا تو ان چغل خوروں کا قطعاً لحاظ نہ کریں جنہوں نے دو خاندانوں کا سکون غارت کرنے اور بدگمانی اور بغض و عناد میں مبتلا کر کے ان کا ایمان اور انہیں غیبت اور بدگوئی میں مبتلا کر کے ان کے اعمال صالحہ کو غارت کرنے کی کوشش کی۔ ایسے لوگوں پر پردہ ڈالنا سراسر ظلم ہوگا۔ ان کو سامنے لائیں یقینا جب ان کو آمنے سامنے کریں گے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا اور انہیں آئندہ ایسی مذموم حرکات کی جرات نہ ہوگی۔
نہایت اہم
ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ جب دو گھرانوں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو چغل خوروں کے علاوہ ایک اور طبقہ بھی موجود ہوتا ہے جو خود کو غیر جانبدار ثابت کرنے کے خیالِ باطل میں مست رہتا ہے۔ وہ اگرچہ لگائی بجھائی تو نہیں کرتا لیکن اپنے مسلمان بھائی کو رسوا ہوتے اور سر عام اس کی تذلیل ہوتے بڑی خاموشی سے دیکھتا رہتا ہے۔ وہ اصلاح احوال کے لئے کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنا رہتا ہے جبکہ اسلام اس رویے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ اَذُلَّ عِنْدَه مُومِنٌ فَلَمْ يَنْصُرهُ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلٰی ان يَنْصُرَهُ اَذَلَّه اللّٰهُ عَلٰی رووس الخلائقِ يوم القيامة.
’’جس کے سامنے کسی مومن کی تذلیل کی جا رہی ہو اور وہ اس کی مدد نہ کرے حالانکہ وہ اس کی مدد کر سکتا ہے، تو ایسے شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالٰی ساری مخلوق کے سامنے ذلیل و رسوا کرے گا‘‘۔
حدیث درج بالا ان لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو اپنی عافیت کوشی یا غیر جانبداری ثابت کرنے کے لئے ایک بھائی کی تذلیل پر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور پورے اخلاص، دیانتداری اور خیر خواہی کے جذبے سے اصلاح احوال کی کوشش نہیں کرتے۔
امت کے غمخوار آقا سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
مَامِن مُسْلمٍ يَخْذلُ امراً مُسْلِمًا فی موضع تُنْتَهَکُ فيه حرمَتُه وينقصُ فيه من عرضه اِلَّا خَذَلَهُ اللّٰهُ تعالیٰ فی مواطِنِ يحِبُّ فيها نُصْرَتُه.
’’اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کی حمایت ایسے مواقع پر نہیں کرتا جہاں اس کی بے حرمتی کی جا رہی ہو اور اس کی عزت و احترام میں کمی کی جا رہی ہو تو اللہ تعالٰی اس آدمی کی ایسے موقعوں پر مدد نہیں کرتا جہاں وہ خدا کی مدد کا خواستگار ہوتا ہے‘‘۔
اس کے بعد حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کی تحسین فرمائی جو اپنے بھائی کی اس موقع پر مدد کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا :
وما من امرءٍ يَنْصُرُ اِمْرا مُسْلِمًا فی موضعٍ ينتَهَکُ فيه من عرضِه وينْتَهَکُ فيهِ من حرمته اِلّا نَصَره اللّٰهُ عَزّوجَلّ فی مواطن يُحِبّ فِيها نُصْرَتَه.
(ابوداؤد)
’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حمایت و مدد اس موقع پر کرتا ہے جہاں اس کی تذلیل اور توہین کی جا رہی ہو تو اللہ جل شانہ اس کی مدد ان مواقع پر کرتا ہے جہاں وہ اس کی مدد چاہتا ہے‘‘۔
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو اللہ تعالٰی کی بتائی ہوئی ہدایات کی روشنی میں اپنا طرز عمل متعین کرتے ہیں انہیں جب بھی کسی الجھن کا سامنا کرنا پڑے وہ اپنی نفسانی تدبیروں کی بجائے اس کا حل خدائی فارمولے میں تلاش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا خدا مددگار ہوجاتا ہے۔ يخرجهم من الظلمات الی النور انہیں وہ اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے۔
لیکن جو لوگ اللہ تعالٰی کی رہنمائی کو خاطر میں نہیں لاتے اور اپنے نفس اور دماغ پر بھروسہ کرتے اور خدائی تدبیروں کی بجائے اپنے نفس کی تدبیروں کو بروئے کار لاتے ہیں اور مثبت کی بجائے منفی اور وسعت قلبی کی بجائے تنگ دلی اور غصہ و انتقام کی راہ اپناتے ہیں۔ اولياءهم الطاغوت يخرجونهم من النور الی الظلمات. آسمانی ہدایت کا انکار کرنے والوں کے دوست شیاطین ہوتے ہیں جو روشنی سے نکال کر انہیں اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔
خدا پرست انسان اس کے بندوں کے معاملہ میں بڑا محتاط ہوتا ہے وہ جب یہ حقیقت دریافت کر لیتا ہے کہ الخلق عيال الله فاحب الخلق الی الله من احسن الی عياله یعنی ساری مخلوق خدا کاکنبہ ہے خدا کا سب سے پیارا وہی ہے جو اس کے کنبے سے حسن سلوک کرے۔
سب کو اس کے کنبے کے افراد سمجھ لینے کے بعد ان کے بارے میں اس کے رویے یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں چنانچہ وہ اس کنبے کے مالک کی توجہ اور اس کی نگاہ محبت پانے کے لئے افراد کنبہ سے محبت حسن سلوک، احترام و رواداری کی نفسیات میں جینے لگتا ہے۔ ان کے باہمی تعلقات بگاڑنے، ان کی عزت و آبرو خراب کرنے اور ان کے سکون کو غارت کرنے کے شیطانی اور نفسانی منصوبوں کو ناکام بنانے کی فکر میں رہتا ہے۔ اسے ساری مخلوق اپنے گھر ہی کے افراد لگتے ہیں۔ خدا پر ایمان ایک مومن کو دوسروں کا خیر خواہ بناتا ہے۔ اس کا ایمان اس سے تقاضا کرتا ہے کہ اگر تمہارے پاس بھائی کو دینے کے لئے کچھ نہیں تو کم از کم اسے دکھوں اور ذلتوں کے حوالے بھی نہ کرو کیونکہ شر سے بچالینا بھی اس کی خدمت اور خیر خواہی ہے۔