’’کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی‘‘
سحر خیزی اور نماز تہجد کے روحانی اور طبی فوائد
نماز تہجد اللہ کے ہاں بہت مقبول ہے نفل نمازوں میں سب سے زیادہ اسی نماز کا ثواب ہے۔
قرآن پاک میں تہجد کی فضیلت میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍO آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِينَO كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَO وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَO
(الذاريات : 15تا 18)
’’بیشک پرہیزگار باغوں اور چشموں میں (لطف اندوز ہوتے) ہوں گےo اُن نعمتوں کو (کیف و سرور) سے لیتے ہوں گے جو اُن کا رب انہیں (لطف و کرم سے) دیتا ہوگا، بیشک یہ وہ لوگ ہیں جو اس سے قبل (کی زندگی میں) صاحبانِ احسان تھےo وہ راتوں کو تھوڑی سی دیر سویا کرتے تھےo اور رات کے پچھلے پہروں میں (اٹھ اٹھ کر) مغفرت طلب کرتے تھےo‘‘۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًاO وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًاO
(الفرقان : 63 : 64)
’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیںo اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لئے سجدہ ریزی اور قیامِ (نِیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیںo‘‘۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’تم لوگوں کو چاہیے کہ رات کو قیام کرو۔ اس لیے کہ تم سے پہلے نیک بندوں کی عادت بھی یہی تھی یہ تمہارا اپنے رب سے قربت حاصل کرنا ہے، یہ عمل تمہاری برائیوں کو مٹانے والا اور تمہیں گناہوں سے بچانے والا ہے۔‘‘ (ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اللہ اس شخص پر رحم کرتا ہے جو آدھی رات کو اٹھتا ہے اور تہجد کی نماز پڑھتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی جگاتا ہے اور وہ بھی نماز پڑھتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے (پیار سے ) پھینکتا ہے اور اللہ اس عورت پر بھی نظر کرم فرماتا ہے جو رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتی ہے اور اپنے خاوند کو بھی تہجد کے لیے جگاتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ عورت (پیار سے ) اپنے خاوند کے منہ پر پانی کے چھینٹے پھینکتی ہے۔‘‘ (ابو داؤد، نسائی)
تہجد کی نماز کے اجر و ثواب کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جنت میں ایسے شفاف کمرے ہیں کہ جن کے اندر سے باہر کا سب کچھ نظر آتا ہے اور باہر سے اندر نظر آتا ہے اور وہ اللہ نے ان لوگوں کے لیے تیار فرمائے ہیں جو نرم انداز میں گفتگو کرتے ہیں، غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں، اکثر روزے رکھتے ہیں اور راتوں کو اٹھ کر نمازیں (تہجد) پڑھتے ہیں جب کہ لوگ سو رہے ہوتے ہیں‘‘۔(ترمذی، بیہقی فی شعب الایمان)
توبہ کا بہترین وقت
اللہ کے حضور میں اپنے گناہوں سے مغفرت طلب کرنے کا بہترین وقت تہجد کا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، تو ہمارا رب و برتر آسمان دنیا پر اترتا اور فرماتا ہے کہ کوئی میرے حضور دعا کرنے والا ہے، کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں اس کا سوال پورا کروں؟ ہے کوئی بخشش چاہنے والاکہ میں اسے بخش دوں۔‘‘ (بخاری، مسلم، ابو دداؤد، ترمذی)
محاسبۂ نفس کا وقت
تہجد کا وقت اپنی ماضی کی زندگی کا محاسبہ کرنے اور اپنے کیے ہوئے گناہوں پر ندامت کا بہترین وقت ہے۔ اس وقت انسان کی یادداشت کی صلاحیت (Ability To Recall) اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں امریکہ کے سائنسی جریدے (Scientif American) میں ایک ریسرچ چھپی تھی جو امریکہ کی یونیورسٹی آف پنسلو ینیا اور اسرائیل کی ایک یونیورسٹی میں کی گئی تھی، جس میں انسانوں اور جانوروں کے دماغوں پر برقی ایلیکٹروڈ (Electrodes) لگا کر نیند کے دوران ان کے دماغوں کا تجزیہ کیا گیا۔ اس تحقیق کا نتیجہ یہ تھا کہ نیند لینے کے بعد انسانی یادداشت کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے رات کی آخری گھڑیوں میں جب بندہ نیند سے بیدار ہو کر تہجد کی نماز ادا کرتا ہے تو دعا کے دوران اپنی ماضی کی کوتاہیوں کو رات کی خاموشی میں بآسانی یاد کر سکتا ہے۔۔۔ ان پر ندامت کے آنسو بہا کر اللہ کے حضور گڑگڑا کر معافی مانگ سکتا ہے۔۔۔ آئندہ کے لیے اپنے گناہوں سے صدقِ دل سے توبہ کر سکتا ہے۔ اسی قسم کے لوگوں کے متعلق اللہ تعالٰی ارشاد فرمایا :
الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِO الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِO
(آل عمران : 16، 17)
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم یقینا ایمان لے آئے ہیں سو ہمارے گناہ معاف فرما دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لےo (یہ لوگ) صبر کرنے والے ہیں اور قول و عمل میں سچائی والے ہیں اور ادب و اطاعت میں جھکنے والے ہیں اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں اور رات کے پچھلے پہر (اٹھ کر) اﷲ سے معافی مانگنے والے ہیںo‘‘۔
قبولیت کے تقاضے
تہجد کی نماز کے وقت انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرتا اور اپنی غلطیوں پر پشیمان و نادم ہوتا ہے اور آئندہ ان گناہوں کو نہ کرنے کا عہد کرتا ہے مگر اس کی دعاؤں کی قبولیت کا دارومدار اس عمل پر بھی ہے کہ وہ حلال ذریعہ سے رزق کماتا ہے اور حرام کی آمیزش اپنے رزق میں نہیں کرتا۔ علاوہ ازیں وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پابندی میں بھی سرگرداں نظر آتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
’’جس شخص کی کمائی اور آمدنی حرام ہو اور اس کی خوراک، مشروب اور لباس حرام کی کمائی سے آئے ہوں تو ایسے شخص کی دعا اللہ تعالٰی کیسے قبول کر سکتا ہے ؟(صحیح مسلم)
تہجد کی نماز اور گریہ و زاری تبھی نفع بخش ہو سکتے ہیں جب انسان رزقِ حلال کا اہتمام کرتا ہو اور اس کے گھر میں سب لوگ حلال رزق کماتے ہوں۔ آج کے دور میں حرام ذرائع جگہ پر جواء، سود، بلیک مارکیٹنگ، ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کی صورت میں موجود ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم شعوری اور لاشعوری طور پر ان ذرائع کو استعمال کرکے اپنا اور اپنے زیر کفالت افراد کا پیٹ بھرتے ہیں اور پھر سکون و اطمینان بھی چاہتے ہیں، ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ پس نماز تہجد اور دیگر عبادات کی قبولیت کا تقاضا کسب حلال اور حقوق العباد کی ادائیگی ہے۔
تہجد کے وقت اٹھنے کے طبی فوائد
رات کی آخری گھڑیوں میں اٹھ کر تہجد ادا کرنے سے ویسے تو وہ تمام میڈیکل فوائد حاصل ہوتے ہیں جو ہر نماز سے حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً جسم کے پٹھوں اور جوڑوں کی ورزش سجدہ کی وجہ سے چہرے کے مساموں (Tissues) میں خون کی مزید گردش۔۔۔ انسان کے Sinuses میں جمع شدہ بلغم کا اخراج۔۔۔ رات کو تنفس (Breathing) کی رفتار آہستہ ہونے کی وجہ سے پھیپھڑوں کے مکمل طور پر کھل نہ سکنے کی وجہ سے جو ایک تہائی ہوا ( Residual Air) جمع ہوتی ہے اسے بھی پھیپھڑوں سے نکلنے اور داخل ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔۔۔ سجدے کی حالت میں دماغ کو زائد خون پہنچتا ہے جو اس کی نشوو نما کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔
حضرت سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث روایت کرتے ہیں۔
’’تہجد کے وقت اٹھ کر نماز پڑھنے کی عادت بنا لو کیونکہ تم سے پہلی قوموں کے صالح لوگوں کی یہ عادت تھی، یہ تمہیں خدا سے قریب کرتی ہے، تمہارے گناہوں کا کفارہ ہے، تمہارے گناہوں کو مٹاتی ہے اور جسم سے بیماری کو دور کرتی ہے‘‘۔
اس حدیث میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حدیث جس صحابی نے روایت کی ہے یعنی حضرت سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ ان کا اس حدیث پر خود اتنا عمل تھا کہ انہوں نے بہت لمبی عمر پائی، بعض روایات کے مطابق 150 سال اور بعض کے مطابق 250 سال۔ ابن حجر نے ’’الاصابہ فی تمیز الصحابہ رضی اللہ عنہ ‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے 250 سال کی عمر میں وفات پائی۔
اسی طرح ایک دوسری صحیح حدیث میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا :
’’بورک لامتی فی بکورها‘‘.
’’میری امت کے لیے صبح اٹھنے میں برکت رکھی گئی ہے ‘‘۔
اس میں شک نہیں کہ تہجد کے وقت اٹھنا جسم میں بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ صبح جلدی بیدار ہونے سے جسم میں جمع شدہ فضلات (پیشاب و پاخانہ وغیرہ) کو جسم سے جلدی نکلنے کا موقع مل جاتا ہے جو کہ بصورتِ دیگر جسم میں رہ کر فساد پیدا کرتے ہیں اور گردوں پر زائد بوجھ پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ آکسیجن سے بھر پور صبح کی تازہ ہوا میں سانس لینے سے پھیپھڑوں اور دماغ کو تقویت ملتی ہے۔ امریکہ کے نامور مفکر، سیاستدان او رسائنسدان بینجمن فریکلن (Benjamin Franklin) نے سحر خیزی کے انہی فوائد کے پیشِ نظر اپنی کتاب (Poor Richards Almand) میں یہ قول زریں رقم کیا تھا۔
Early to bed and early to rise. Maks the man healthy, wealthy and wire.
’’رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا انسان کو صحت مند، مالدار اور عقلمند بناتا ہے ‘‘۔
امریکہ کے ڈاکٹر ڈینیل کریبک اوران کے معاون سائنسدانوں نے امریکن کینسر سوسائٹی کی چھ سالہ تحقیق (1982 سے 1988 تک) میں ایک ملین سے زیادہ امریکیوں کے سونے کے معمول اور صحت کے بارے میں سائنسی سروے کیا۔ اس تحقیق کے مطابق جو لوگ روزانہ 8 گھنٹے سے زیادہ سوتے ہیں ان کی شرح اموات ان لوگوں کے مقابلے میں جو روزانہ 8 گھنٹے یا اس سے کچھ کم سوتے ہیں، تین گنا زیادہ ہوتی ہے۔ مزید برآں، جو لوگ روزانہ 10گھنٹے سوتے ہیں (چھوٹے بچوں کے علاوہ) ان کے مرنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں جتنے موٹے لوگوں کے ہوتے ہیں۔
اس تحقیق کے سربراہ سائنسدان ڈاکٹر کربک نے بتایا : ’’ہمیں روزانہ لازمی 8گھنٹے سونا ضروری نہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ رات کو 7 یا 4گھنٹے سونا بھی صحت کے لیے محفوظ ہے۔‘‘
رات گئے سونا اور دن چڑھے اٹھنا
آج کل یہ بیماری بڑی عام ہے کہ لوگ رات گئے جاگتے ہیں اور نصف شب کے بعد سوتے ہیں۔ اس کا ایک نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ انسان اگلے دن کی مصروفیات میں بدنظمی کا شکار رہتا ہے۔ دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ سونے کے بعد بھی جسم سکون و طمانیت کی نعمت سے محروم رہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم کے نظاموں پر مصنوعی روشنی کافی گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ رات کو دیر سے سونا خصوصًا جب ٹی وی یا کمپیوٹر کی سکرین سے نکلنے والی مصنوعی روشنیوں کے سامنے بیٹھا جائے اور صبح دیر سے اٹھنا انسان کی صحت پر برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ سورج کے غروب ہو جانے کے بعد انسان کے جسم کے اندر اللہ تعالٰی کی لگائی فطری گھڑی (Circadian Rhythm) جسم کو یہ پیغام دیتی ہے کہ جسم سے خارج ہونے والے دباؤ (Stress) کے ہارمون یعنی (Cortisol) کی مقدار کم ہو جائے اور اس کے مقابلے میں رات کے اندھیرے میں خارج ہونے والے ہارمون (Melatonin) کی مقدار خون سے زیادہ ہو۔ (Cortisol) ہارمون کے جہاں فوائد ہیں وہاں اس کا ایک نقصان یہ ہے کہ یہ انسان کو بوڑھا جلدی کرتا ہے۔ اس کے برعکس (Melatonin) ہارمون جو دماغ کے پائینیل غدود (Glands Pineal ) وغیرہ کے عمل میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ (The Merck Indes مطبوعہ امریکہ 2003ء)
جب انسان تیز مصنوعی روشنیوں کے سامنے رات کو بیٹھا رہے اور پھر سورج نکل آنے کے بعد بھی سوتا رہے تو جسم کے اندر ہارمونز کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور جسم کے دباؤ Tissues کی مرمت وغیرہ کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور انسان کی صحت پر وقت گزرنے کے ساتھ برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
دماغی قوت میں اضافے کا وقت
تہجد کے وقت اٹھنے سے دماغی قوتوں کو بھی تقویت ملتی ہے۔ 2000ء میں امریکہ کے مؤقر میڈیکل جریدے جرنل آف امریکن کالج آف ہیلتھ (Vol. 4, Pg 125, 130) میں ایک بریگھیم ینگ یونیورسٹی (Brigham Young Univorsity) کے 184 طلبہ پر علموں پر یہ ریسرچ کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جو طالبعلم جتنی دیر سے صبح بیدار ہوتے تھے امتحانات میں ان کے نمبر اتنے ہی کم آئے تھے۔ امتحانات میں بری کارکردگی اور کم مارکس حاصل کرنے کا انطباق ان طالبعلموں پر بھی ہوتا تھا جو ویک اینڈ (Weekend) کی صبح کو دیر سے بیدار ہوتے تھے۔ اس کے برخلاف سحر خیزی کی عادت رکھنے والے طالبعلموں کی امتحانات میں کارکردگی بہت اچھی تھی۔ اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جوزف مرکولا (Joseph Mercola) نے کہا کہ ہمارے اعضاء بالخصوص ایڈرنل غدود (Adrenal Glands) ہمارے جسم میں مرمت اور تعمیر کا کام رات کے اوائل میں کرتے ہیں اور اس وقت انسان کا سویا ہوا ہونا مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
ماہرین نفسیات ہمیں بتاتے ہیں کہ جسم میں مرمت اور تعمیر کا کام گہری نیند کے مرحلہ 3 اور 4 (Dreamless Sleep) یعنی غیر خواب کے نیند، میں ہوتا ہے۔ اسی مرحلے میں یادداشت کے لیے خلیے دماغ کے (Hippocampus) میں بنائے جاتے ہیں۔ پھر مرحلہ 5 میں جسے ریم نیند (Rapid Eye Movement Sleep (Rem کہتے ہیں، خواب آتے ہیں۔ یہ مراحل رات کو چار یا پانچ مرتبہ دہرائے جاتے ہیں۔
تجربات بتاتے ہیں کہ رات کے آخری حصے میں آئے ہوئے خواب انسان کو رات کے پہلے حصے کے خوابوں کے مقابلے میں زیادہ اچھی طرح یاد رہتے ہیں کیونکہ رات کے آخری حصے تک یادداشت کے نئے خلیے تیار ہو چکے ہوتے ہیں۔ یاد داشت کی تقویت کے اس عمل کے بعد جاگ کر انسان جب نمازِ تہجد میں قرآن پڑھتا ہے، اس پر تدبر کرتا ہے اور اللہ کے ہاں گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے تو اس کے وہ الفاظ اس کے حافظے کی لوح پرمرتسم ہو جاتے ہیں اور اس کے کردار کا حصہ بن جاتے ہیں۔
دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والوں کے لیے تہجد
وہ کارکنان جو احیائے اسلام، تجدید دین، ترویج و اقامت اسلام، تبلیغ و فروغ اسلام اور اصلاح احوال کے عظیم مشن سے وابستہ ہیں ان کے لیے تہجد کی نماز بہت ضروری ہے اس کی کئی وجوہات ہیں جو درج ذیل ہیں :
٭ اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والے نبوی مشن سر انجام دے رہے ہوتے ہیں جن کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ان العلماء ورثة الانبياء‘‘.
(سنن ابی داؤد، ابنِ ماجه)
’’علماء نبیوں کے وارث ہوتے ہیں‘‘۔
٭ رات کے آخری پہر کی میٹھی نیند کی قربانی دے کر اٹھنے سے اسلام کا کام کرنے والوں کی قوتِ ارادی میں مضبوطی آتی ہے سورۃ المزمل میں ارشاد باری تعالٰی ہے۔
اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِیَ اَشَدُّ وَطْأً وَّاَقْوَمُ قِيْلًا.
(المزمل : 6)
’’بے شک رات کا اُٹھنا (نفس کو) سخت پامال کرتا ہے اور (دِل و دِماغ کی یکسوئی کے ساتھ) زبان سے سیدھی بات نکالتا ہے‘‘۔
نیند انسان کے اندر ایک انتہائی قوی محرک ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کی فطرت بھی آرام طلب واقع ہوئی ہے۔ اس لیے اللہ نے فرمایا ہے کہ رات کو عبادت کے لیے اٹھنا اور دیر تک کھڑے رہنا چونکہ طبیعت کے خلاف ہے اور نفس اس وقت آرام کا مطالبہ کرتا ہے اس لیے یہ فعل ایسا مجاہدہ ہے کہ جو نفس کو دبانے اور اس پر قابو پانے کی بڑی زبردست تاثیر رکھتا ہے۔ یہ عبادت چونکہ دن کی عبادت کی نسبت آدمی پر زیادہ گراں ہوتی ہے، اس لیے اس کے التزام کرنے سے آدمی میں بڑی ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے۔ وہ خدا کی راہ میں زیادہ مضبوطی کے ساتھ چل سکتا ہے اور دینِ حق کی دعوت کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کام کر سکتا ہے۔
٭ تہجد کی نماز دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کے ظاہر و باطن میں مطابقت پیدا کرنے کا بڑا کارگر ذریعہ ہے۔ کیونکہ رات کی تنہائی میں جو شخص اپنا آرام چھوڑ کر اٹھے گا تو وہ اخلاص ہی کی بناء پر ہو گا، اس میں ریاکاری کا سرے سے کوئی موقع نہیں۔
٭ رات کی خاموشی میں یہ نماز ادا کرنے سے انسان کو عبادت میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ کیونکہ اس وقت ذہن کو یکسوئی میسر ہوتی ہے۔ پھر یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کے ایمان کی تربیت کس حد تک ہوئی ہے۔ کہیں انسان کا وہ حال تو نہیں جس کے متعلق علامہ اقبال نے اللہ کا انسان کو پیغام، اپنی نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں دیا تھا۔
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے، ہاں نیند تمہیں پیاری ہے