میرا آج کا دن بھی تیرے نام
میرے پیارے اللہ میرا آج کا دن بھی تیرے نام
میرے سانس کا آنا جانا آج کا دن بھی تیرے نام
پانی کا گھر یہ دو آنکھیں تجھ کو ڈھونڈتی پھرتی ہیں
جل تھل آنکھیں درد کا دریا آج کا دن بھی تیرے نام
تیری رضا کی خاطر کب سے مارا مارا پھرتا ہوں
تیری رضا کی خاطر میرا آج کا دن بھی تیرے نام
تیری یاد میں بھیگے رہنا رکھتا ہے سرشار مجھے
میری اداسی کا ہر لمحہ آج کا دن بھی تیرے نام
پیارے اللہ میں تو ہر دم تجھ سے راضی رہتا ہوں
غم ہے مجھے تو تیری رضا کا آج کا دن بھی تیرے نام
یہ تو بتا تو شرمندوں سے کیسے راضی ہوتا ہے؟
دل کی دھڑکن سوچ کا دریا آج کا دن بھی تیرے نام
جب تیرے محبوب کے در پر میں نے اپنا سر رکھا
میرے ماتھے پر لکھا تھا آج کا دن بھی تیرے نام
دے کے مجھے دیدار کی لذت یوں کیوں پردہ کر بیٹھے
کرتا ہوں یہ تیری دنیا آج کا دن بھی تیرے نام
جب تک تیری یاد آئے گی جپتا رہوں گا نام ترا
اور ہر دن یہ کہتا رہوں گا آج کا دن بھی تیرے نام
سکواڈرن لیڈر (ر) عبدالعزیز
نعت بحضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یا رب! مری قسمت میں ہوں سرخابِ مدینہ
دے تشنہ زمینوں کو خنک آبِ مدینہ
برسے لبِ اظہار پہ توصیف کا ریشم
اور چرخِ ثنا پر رہے مہتابِ مدینہ
یہ صبحِ ازل فیصلہ قدرت نے کیا تھا
ہر لمحہ بجا لائے گا آدابِ مدینہ
ہر روز مواجہے میں کھڑے رہتے ہیں پہروں
خوش بخت ہیں کتنے مرے احبابِ مدینہ
وہ (ص) صرفِ نظر کرتے ہیں ہر مری خطا سے
مسجدوں کا بھرم رکھتی ہے محرابِ مدینہ
پوشاکِ قلم حشر کے دن بھی ہو جدا سی
آقا جی (ص)، ملے اطلس و کمخوابِ مدینہ
کس رقصِ مسلسل میں ہیں طیبہ کی ہوائیں
کس کیفِ مسلسل میں ہیں اربابِ مدینہ
اب کے بھی برس چمکے مقدر کا ستارا
اب کے بھی برس پیدا ہوں اسبابِ مدینہ
کھو جاؤں کھجوروں کے گھنے پیڑوں میں آقا (ص)
کشتی بھی کسی روز ہو غرقابِ مدینہ
چوموں گا میں ہر نقشِ کفِ پائے محمد (ص)
لے جائے بہا کے مجھے سیلابِ مدینہ
اک دھند سی چھائی ہے مری آنکھوں کے آگے
کھولوں گا ریاض آج ہی ابوابِ مدینہ
(ریاض حسین چودھری)