سوال: کیا غوث الاعظم دستگیر کہنا شرک ہے؟
جواب: المدد یا غوث اعظم یا غوث الاعظم دستگیر کہنا شرعاً جائز ہے، شرک نہیں ہے۔ کہنے والا یقین سے جانتا ہے کہ مدد در حقیقت اﷲ تعالیٰ ہی فرمانے والا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی غزوہ احد میں شہادت پر اس قدر روئے کہ انہیں ساری زندگی اتنی شدت سے روتے نہیں دیکھا گیا۔ پھر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمانے لگے:
یا حمزة یا عم رسول الله اسد الله واسد رسوله یا حمزة یا فاعل الخیرات! یا حمزة یاکاشف الکربات یا ذاب عن وجه رسول الله.
آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے چچا حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد ان کے لیے ’’یا کاشف الکربات (اے تکالیف کو دور کرنے والے)‘‘ کے الفاظ کا استعمال واضح کررہا ہے کہ اگر اِن الفاظ یا اس جیسے الفاظ میں شرک میں ذرہ برابر بھی شبہ ہوتا تو آپ اس طرح نہ کرتے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے پیارے اور مقرب بندے قابلِ توسل ہیں۔
(المواهب اللدینه، 1: 212)
لہذا یہ جائز ہے لیکن خیال رہے کہ حقیقی مستعان فقط صرف اللہ ہی ہے اور اولیائے کرام فقط وسیلہ ہیں۔
حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر اولیائے کرام اﷲ تعالیٰ کی مدد کے مظاہر اور وسیلہ ہیں۔ ہم عام معمول کی زندگی میں ایک دوسرے سے مدد مانگتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں لیکن اس عمل کو کسی طور شرک قرار نہیں دیتے۔ ہر ایک چیز پر شرک کے فتوے لگانے والوں کو شرک کا پیمانہ بھی ایک رکھنا چاہیے، کیا جو چیز نبی اور ولی سے مانگنا شرک ہے، وہی چیز دوسروں سے مانگنا شرک نہیں؟
مزید وضاحت کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی درج ذیل کتابیں ملاحظہ فرمائیں۔
سوال: غوث، قطب، ابدال اور اوتاد ہمارے نظامِ زندگی میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
جواب: حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ نے لکھا ہے کہ ابدال کی خبر احادیث میں ہے اور ان کا وجود درجۂ یقین تک پہنچا ہے۔
علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سب سے واضح روایت ابدال کے بارے میں ہے، جو کہ امام احمد ابن عباد نے شریح ابن عبید سے روایت کی ہے:
حضرت علی کرم وجہہ اللہ سے مروی ہے کہ اہل شام پر لعنت نہ کرو کیونکہ ان میں چالیس ابدال رہتے ہیں۔ ان کی برکت سے بارش ہوتی ہے اور ان سے دین کو مدد ملتی ہے۔
امام سیوطی نے لکھا ہے کہ حضرت علی کرم وجہہ اللہ کی روایت جو امام احمد نے نقل کی ہے اس کی سند دس سے زائد طرق سے ملتی ہے۔
علامہ خطیب بغدادی نے کتاب ’’تاریخ بغداد‘‘ میں لکھا ہے کہ زمین پر ایک وقت میں 100 نقباء، 70 نجباء، 40 ابدال اور 7 اوتاد ہوتے ہیں، جبکہ 3 قطب اور قطب الاقطاب یا غوث ایک ہوتا ہے۔ غوث ان سب کا سردار ہوتا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باطنی جانشین یا خلیفہ ہوتا ہے۔
حضرت ابو نعیم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
روئے زمین پر اللہ کے ایسے خاص بندے ہوتے ہیں جن کی دعا و برکت سے اللہ تعالیٰ لوگوں پر رحم فرماتا ہے، آسمان سے بارش اور زمین سے فصل وغیرہ ان کی دعا سے اُگتی ہے۔ یہ لوگ دنیا کے لیے باعث امن ہیں۔
عبادہ بن صامت سے روایت کرتے ہیں کہ:
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں قیامت تک چالیس آدمی ایسے رہیں گے جن کی وجہ سے زمین و آسمان کا نظام قائم رہے گا۔
سوال: شریعت اور طریقت کے مفاہیم کی وضاحت فرمادیں؟
جواب: لفظ شریعت کامادہ ش۔ر۔ع ہے اور اس کا لغوی معنی ہے وہ سیدھا راستہ جو واضح ہو۔ جبکہ اصطلاحی معنی یہ ہے:
من سَنَّ الله من الدّین للعباد وامر به.
بندوں کے لئے زندگی گزارنے کا وہ طریقہ جسے اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا اور بندوں کو اس پر چلنے کا حکم دیا(جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰہ اور جملہ اعمال صالحہ)۔
(ابن منظور، لسان العرب، 8: 175)
لغت کی کتاب مختار الصحاح میں شریعت کے اصطلاحی معنی یہ درج ہیں:
شریعت سے مراد وہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے بطور ضابطۂ حیات جاری فرمائے ہیں۔
(عبدالقادر الرازی، مختار الصحاح: 473)
اس سے معلوم ہوا کہ شرع اور شریعت سے مراد دین کے وہ معاملات و احکامات ہیں، جو اللہ نے بندوں کے لئے بیان فرما دیے اور جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ ضابطۂ حیات سے ثابت ہیں۔ شریعت سے اوامر و نواہی، حلال و حرام، فرض، واجب، مستحب، مکروہ، جائز و ناجائز اور سزا و جزا کا ایک جامع نظام استوار ہوتا ہے۔ شریعت ثواب و عذاب، حساب و کتاب کا علم ہے۔ شریعت کے اعمال دین کے اندر ظاہری ڈھانچے اور جسم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی فرماتے ہیں:
شریعت دراصل قرآن و سنت پر مبنی اوامر و نواہی کا وہ نظام ہے، جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے عمل کو منظم اور منضبط کرتا ہے۔ طریقت درحقیقت شریعت ہی کا باطن ہے۔ شریعت جن اعمال و احکام کی تکمیل کا نام ہے، ان اعمال و احکام کو حسنِ نیت اور حسنِ اخلاص کے کمال سے آراستہ کر کے نتائجِ شریعت کو درجۂ احسان پر فائز کرنے کی کوشش علم الطریقت اور تصوف کی بنیاد ہے۔
شیخ احمد سرھندی اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
شریعت و حقیقت ایک دوسرے کا بالکل عین ہیں اور حقیقت میں ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہیں ہیں۔ فرق صرف اجمال و تفصیل، کشف و استدلال، غیابت و شہادت اور عدمِ تکلّف کا ہے۔
(شیخ احمد سرهندی، مکتوبات امام ربانی، 2: 255)
اس کو ایک مثال کے ذریعے یوں سمجھ لیجیئے:
اگر کوئی شخص ظاہری شرائط و ارکان کے مطابق نماز ادا کرتا ہے تو فرضیت کے اعتبار سے اس کی نماز ادا تو ہو جائے گی لیکن اس کے باطنی تقاضے پورے نہیں ہوں گے اس لیے کہ نماز میں جس طرح اس کا چہرہ کعبہ کی طرف ہوتا ہے اسی طرح ضروری ہے کہ اس کے قلب و روح کا قبلہ بھی ربِ کعبہ کی طرف ہو اور جسم کے ساتھ ساتھ اس کا قلب اور روح بھی خالقِ حقیقی کی طرف متوجہ ہو۔ یہ قلبی اور باطنی کیفیات ہیں، جس سے بندے کو روحانی مشاہدہ نصیب ہوتا ہے اور ایمان اور اسلام دونوں کو جِلا ملتی ہے۔
تصوف کا منشاء انہی روحانی کیفیات کو اجاگر کرنا ہے۔ اس روحانی ترقی اور فروغ کے لئے جو طریقے اہل اﷲ نے وضع کیے ہیں انہیں طریقت کہتے ہیں۔ ان طریقوں کو اصطلاحاً علم التزکیہ و علم التصوف بھی کہتے ہیں۔ وہ بزرگ ہستیاں جنہوں نے قلب و باطن کی تطہیر اور اصلاح و تصفیہ کی خیرات اخلاقی و روحانی تربیت سے امتِ مسلمہ میں تقسیم کی وہ صوفیائے کرام اور اولیاء اﷲ کہلاتے ہیں۔
سوال: کیا کوئی صوفی بزرگ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے مبرا ہو سکتا ہے؟
جواب: شریعت کے بغیر معرفت نہیں ہو سکتی اور بغیر شریعت کے معرفت کا دعوی کرنے والا شخص جھوٹا ہوتا ہے۔
کوئی بھی کامل ولی، صوفی بزرگ تارکِ نماز نہیں ہو سکتا۔ جو تارکِ نماز ہو یا شریعت پر عمل پیرا نہ ہو یا ارکانِ اسلام پر عمل پیرا نہ ہو، تو وہ شخص ولی اور صوفی نہیں ہو سکتا۔ایسا شخص جھوٹا ہے اور لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ اور اگر کوئی شریعت کی مخالفت کر رہا ہے تو وہ شیطان ہے۔ یعنی ولایت اور تصوف کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہیں نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ گناہوں سے پاک ہیں، نہ اسلام کے بنیادی اراکین پر پابندی کی کوئی ضرورت نہیں، تو ایسے لوگ شیطان کے دوست ہیں۔ شیطان کی پیروی اور اتباع کرنے والے ہیں۔ اللہ کے ولی نہیں ہو سکتے۔
اسلام کے اندر کوئی بھی ایسا شخص نہیں کہ وہ اس مقام پر فائز ہو کہ اس پر نماز پڑھنا فرض نہ ہو یا شریعت پر عمل کرنا فرض نہ ہو۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز معاف نہیں ہوئی تو پھر کسی امتی پر نماز کیسے معاف ہو سکتی ہے؟ ایسا کہنے والے کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ اسلام اور تصوف کو بدنام کرنے والے ہیں۔ اولیا اور صوفیائے کرام کے اوصاف اور خصوصیات قرآن وحدیث سے ثابت ہیں کہ ایسے لوگ ہر وقت یادِ الہی میں مصروف رہتے ہیں۔
سوال: کیا شریعت کے بغیر محض طریقت پر عمل کرنا کافی ہے؟
جواب: نہیں ہرگز نہیں! شریعت کے بغیر طریقت کی راہ پر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ دین میں ملحد و زندیق ہیں۔ ایسا عقیدہ رکھنے والا اگر کوئی جھوٹا مبلغ، صوفی یا جعلی پیر نہ صرف خود جہنمی ہے بلکہ دوسروں کو بھی جہنم میں لے جا رہا ہے۔ ایسے آدمی کی صحبت سے بچنا چاہیے کیونکہ شریعت اور اسلام میں کسی شخص کے لئے کوئی استثنیٰ اور چھوٹ نہیں۔ علمِ باطن وہی قابلِ قبول ہے جو شرعی علم ظاہر کا پابند ہو۔ ظاہر و باطن لازم و ملزوم ہیں۔ مثلاً: جب کوئی چوری کرتا ہے تو وہ گناہ ایک سیاہ نقطے کی طرح اس کے قلب پر لگ جاتا ہے اور اس کا جو نقش انسان کے دل اور روح پر ثبت ہوتا ہے اور جو کیفیات اس کے اندر مرتب ہوتی ہیں اسے باطن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ باطن ظاہر سے نکلا ہے۔ اسی طرح جب ہم نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، حج اور عمرہ ادا کرتے ہیں۔ الغرض جو بھی نیک عمل کرتے ہیں اس کا اثر قلب و روح پر ہوتا ہے اور اس کا عمل ایک نور بن جاتا ہے، جس سے اس کا دل منور ہو جاتا ہے۔ یہی اس عمل کا باطن ہے، اس سے ظاہر اور باطن کے تعلق کا پتا چلتا ہے اگرظاہر ہی نہ ہو تو باطن کہاں سے آئے گا۔
اس نکتے کو پھلوں کی مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ مثلاً: کیلے کے اوپر چھلکا ہوتا ہے وہ اس پھل کا ظاہر ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ میں تو ظاہر کو مانتا ہی نہیں اور چھلکے کے بغیر کیلے خریدوں گا تو اس کا پھل جلد ضائع اور خراب ہوجائے گا کیونکہ اب اس پھل پر ظاہر کی حفاظت کا خول نہیں رہا۔ لہٰذا جس باطن پر ظاہر کی حفاظت نہ رہے وہ خراب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جو شریعت کے ظاہری احکام و امور کی اتباع سے ہٹ گیا تو یوں سمجھئے کہ اس کا باطن بگاڑ کا شکار ہو گیا۔ جب تک کوئی راہِ تصوف و طریقت میں ظاہر یعنی شریعت کا ظاہری اتباع پوری پابندی سے ملحوظ نہ رکھے، اس وقت تک اس کا باطن پاک و صاف اور نورانی ہو ہی نہیں سکتا۔