اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور محبوب بندوں میں سے ایک طبقہ صالحین کا ہے۔ صالحین کے نام سے ظاہر ہے کہ ان افراد کی زندگی اعمالِ صالحہ سے عبارت ہوتی ہے۔ وہ بطورِ عادت خواہشاتِ نفس کی بجائے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں۔ اس مضمون میں صالحین کی سیرت و کردار کے بنیادی اوصاف اور ان کے اثرات کا ذکر کیا جائے گا تاکہ اس سے جہاں ہمارے اندر صالحین کی صفات پیدا ہوں وہاں ان کے اقوال و اعمال کی اتباع اور صحبت سے بھی اپنے آپ کو فیضیاب کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔
ذیل میں قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں صالحین کے اوصاف کا ذکر درج کیا جارہا ہے:
1۔ خواہشاتِ نفسانیہ سے اجتناب
اولیاء و صلحاء کی بنیادی اور ابتدائی صفت یہ ہے کہ وہ خواہشاتِ نفسانی سے مکمل طور پر اجتناب کرتے ہیں۔ صالحین اپنی نفسانی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع کردیتے ہیں، اس لیے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ خواہشات نفس کی پیروی گویا انہیں معبود قرار دینا ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اَرَئَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـهَهٗ هَوٰهُ.
’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے‘۔
(الفرقان، 25: 43)
حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ خواہشاتِ نفس کو ترک کرنے کی علامت یوں بیان کرتے ہیں:
’ نفع و نقصان، دفعِ ضرر و شر، اسبابِ دنیوی اور جدوجہد کے تمام معاملات میں اپنی ذات پر بھروسہ کرنے کے بجائے ان امور کو کلی طو رپر اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا جائے اور اسی کو قاضی الحاجات سمجھا جائے۔ خدا کو مختارِ کل نہ سمجھ کر اپنے نفس پر اعتماد کرلینا ہی شرک ہے‘۔
اس کے بعد مزید فرماتے ہیں:
’خواہشاتِ نفسانی کی نفی سے اللہ تعالیٰ کا فعل تجھ پر جاری ہوگا اور افعالِ الہٰی کے نافذ ہوتے وقت تیرے اعضاء ساکن و غیر متحرک ہوں گے۔ قلب مطمئن ہوگا، سینہ فراخ و کشادہ ہوگا۔ چہرہ روشن و پرنور ہوگا اور تو تعلق باللہ کی روحانی توانائی پاکر کائنات کی تمام چیزوں سے بے نیاز ہوجائے گا‘۔
(فتوح الغیب: 15)
سو صالحین خواہشاتِ نفس کی پیروی سے مکمل اجتناب کرتے ہیں کیونکہ یہی خواہشات قتل، زنا، جھوٹی گواہی سمیت تمام گناہوں کی بنیاد ہیں۔
2۔ دعا و مناجات
اولیاء و صلحاء کا اللہ تعالیٰ کی ذات سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ وہ ہر قدم اورہر مرحلہ پر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے بندے تکبر سے خالی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کمتر اور اللہ تعالیٰ کو برتر اور اعلیٰ سمجھتے ہوئے اس سے دعا و مناجات کا رشتہ استوار کرتے ہیں۔ قرآن حکیم کے الفاظ یہ ہیں:
وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ.
’اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو (ہمہ وقت حضورِ باری تعالیٰ میں) عرض گزار رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! توہم سے دوزخ کا عذاب ہٹا لے‘۔
حضور سیدنا غوث لااعظم رضی اللہ عنہ (فتوح الغیب :113) فرماتے ہیں:
’یہ کبھی نہ کہہ میں اللہ سے سوال نہیں کروں گا کیونکہ سوال اگر معیوب و ممنوع ہے تو مخلوقات کے سامنے ہے، نہ کہ خالق و پروردگار کے سامنے۔ اللہ تعالیٰ سے اپنی تمام حاجات و ضروریات کے لیے سوال کرنا اور پے درپے سوال کرنا بندہ کے لیے موجبِ سعادت ہے اور توحید و ایمان کا واضح ثبوت ہے‘۔
3۔ اعلیٰ اخلاق کے حامل
صالحین کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ بلند اخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کی بعض اخلاقی اقدار کے بارے قرآن حکیم کے الفاظ یہ ہیں:
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ هَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا.
’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں‘۔
(الفرقان، 25: 63)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَالَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَلا وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا.
’اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو کذب اور باطل کاموں میں (قولاً اور عملاً دونوں صورتوں میں) حاضر نہیں ہوتے اور جب بیہودہ کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو (دامن بچاتے ہوئے) نہایت وقار اور متانت کے ساتھ گزر جاتے ہیں‘۔
(الفرقان، 25: 73)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ کے بندے تکبر و رعونت والے نہیں ہوتے بلکہ منکسرالمزاج ہوتے ہیں۔ اس کا اظہار ان کے چلنے کے انداز سے ہوتا ہے۔ ایک اور صفت یہ ہے کہ وہ جاہلوں سے نہیں الجھتے بلکہ جاہلوں کے الجھنے کی صورت میں بھی وہ ان کا جواب نہیں دیتے بلکہ ان کے لیے سلامتی کی دعا کرتے ہوئے ان سے کنارہ کشی کرتے ہیں۔ اسی طرح باطل اور جھوٹی مجالس سے احتراز کرتے ہیں اور جب بے ہودہ اور لغو کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو دامن بچاتے ہوئے نہایت وقار و متانت سے گزر جاتے ہیں۔
حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ تکبر کی بابت فرماتے ہیں:
’تیرا اپنی نیکیوں پر اترانا، ان نیکیوں کو اپنے نفس سے منسوب کرنا اور خلقِ خدا میں اپنی راست بازی پر فخر کرتے پھرنا صریحاً شرک اور گمراہی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے اور نیکیوں کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی کی تائید و توفیق اور فضل و کرم سے ہے‘۔
(فتوح الغیب: 120)
معلوم ہوا کہ صالحین منکسرالمزاج ہوتے ہیں اور ان کے جملہ اقوال و افعال تکبر سے محفوظ ہوتے ہیں۔
4۔ استقامت
اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کی ایک صفت استقامت ہے۔ اس کو قرآن حکیم ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اﷲُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓئِکَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا.
’بے شک جِن لوگوں نے کہا ہمارا رب اﷲ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو‘۔
(حٰم السجدة، 41: 30)
اس آیت میں استقامت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے کہ موافق و مخالف حالات میں کسی کام پر ڈٹ جانا استقامت کہلاتا ہے۔ حدیث پاک میں دائمی عمل کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔
امام بخاری رضی اللہ عنہ احب الدین الی اللہ ادومہ کے باب کے تحت ایک حدیث بیان فرماتے ہیں:
و ماکان احب الدین الیه مادام علیه صاحبه.
’اور اللہ کے ہاں دین میں پسندیدہ تر وہ عمل ہے جس کا کرنے والا اس کو دائمی طور پر کرے‘۔
(بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الایمان، 1: 11)
کتاب و سنت سے معلوم ہوا کہ استقامت کو دین میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ انبیاء کرام میں استقامت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ اسی طرح اولیائے کرام میں بھی صفتِ استقامت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشکلات و مصائب ان ہستیوں کے پائے استقامت میں لغزش پیدا نہیں کرتے۔ راهِ حق میں ایسی استقامت ان کے بلند کردار کی دلیل ہوتی ہے۔ تصوف میں استقامت کو کرامت سے بڑھ کر تسلیم کیا جاتا ہے۔ صوفیاء کے ہاں اس ضابطے کو الاستقامۃ فوق الکرامۃ (استقامت کرامت پر فوقیت رکھتی ہے) کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
5۔ تقویٰ
سورہ یونس میں اولیاء اللہ کی بنیادی صفت تقویٰ کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اﷲِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ. الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ. لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِط لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اﷲِط ذٰلِکَ هُوَ الفَوْزُ الْعَظِیْمُ.
’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔ (وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقویٰ شعار رہے۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی/یا دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی حُسنِ مطلق کے جلوے اور دیدار)، اللہ کے فرمان بدلا نہیں کرتے، یہی وہ عظیم کامیابی ہے‘۔
(یونس، 10: 62-64)
اس آیت میں اولیاء اللہ کی دو بنیادی صفات ایمان اور تقویٰ کا ذکر ہے۔ کانوا یتقون گرائمر کے اعتبار سے ماضی استمراری (گزشتہ زمانے میں کسی کام کا لگا تار پایا جانا) ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ان کی پوری زندگی تقویٰ سے عبارت ہوتی ہے۔ کسی عمل کے لگاتار اور تسلسل کے ساتھ ہونے کو ہی سیرت و کردار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ وگرنہ نمود و نمائش کے لیے کبھی کبھی کوئی تقویٰ والا عمل کرلینا اور عمومی زندگی میں خلافِ تقویٰ اعمال کرنا قرآن مجید کے مقصد کو پورا نہیں کرتا۔ علاوہ ازیں تقویٰ میں کفرو شرک، کبائر و صغائر اور مشکوک امور سے اجتناب بھی شامل ہے۔ ایسے تمام امور سے بچتے ہوئے زندگی گزارنا ولایت کے لیے بنیادی شرط ٹھہرتی ہے۔
حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ تقویٰ کی بابت فرماتے ہیں:
’راہِ سلوک میں پہلا قدم ’تقویٰ‘ ہے اور دوسرا قدم ’حالتِ ولایت‘ ہے اور جب تک مکمل تقویٰ اختیار نہ کیا جائے، درجہ ولایت کی تحصیل ناممکن ہے‘۔
(فتوح الغیب: 40)
حضرت بایزید بسطامی کے نزدیک ولایت کا معیار تو سراسر اتباعِ شریعت، اوامر و نواہی کی پابندی، حدودِ الہٰی کی محافظت اور اتباع سنت ہے۔
المختصر یہ کہ خواہشاتِ نفسانیہ سے اجتناب، عبادت و ریاضت، میانہ روی، غورو فکر، دعا و مناجات، اعلیٰ اخلاق، استقامت اور تقویٰ جیسی صفات سے صالحین کا کردار تشکیل پاتا ہے۔
اوصافِ حمیدہ کے شخصیت پر اثرات
مذکورہ اوصاف کے حامل افراد کی شخصیت پر ان اوصاف کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں اور ان کی اِن صفات کے باعث افرادِ معاشرہ بھی فیضیاب ہوتے ہیں۔ سو انسانیت کی راہنمائی و ہدایت کے لیے ان کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ذیل میں صالحین کی سیرت و کردار کے اثرات کو بیان کیا جارہا ہے:
1۔ قوائے حواس میں اضافہ
اولیاء و صالحین عبادت، ریاضت اور تقویٰ و ورع کے سبب اس مرتبہ و مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ ان کے حواس کی قوتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن چیزوں کے ذریعے بندہ مجھ سے نزدیک ہوتا ہے ان میں سب سے زیادہ محبوب چیز میرے نزدیک فرائض ہیں اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میری طرف ہمیشہ قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں۔ اس کے بعد فرمایا:
فاذا احببته فکنت سمعه الذی یسمع به وبصره الذی یبصربه ویده التی یبطش بها ورجله التی یمشی بها.
’سو جب میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کے پائوں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے‘۔
(بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الرقاق، 2: 963)
امام فخرالدین رازی رضی اللہ عنہ اس حدیثِ قدسی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے جلال کا نور اس کی سمع ہوجاتا ہے تو وہ دور و نزدیک کی آوازوں کو سن لیتا ہے اور جب یہی نور اس کا بصر ہوگیا تو وہ دور و نزدیک کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے اور جب یہی نورِ جلال اس کا ہاتھ ہوجائے تو یہ بندہ مشکل اور آسان، دور اور نزدیک چیزوں میں تصرف کرنے پر قادر ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ صاحبانِ تقویٰ کو خصوصی فہم و فراست سے نوازتا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا ﷲَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَاناً.
’اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لیے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا‘۔
(الانفال، 8: 29)
حدیث پاک میں مومن کی فراست کا ذکر یوں ہے:
اتقوا فراسة المومن فانه ینظر بنورالله.
’تم مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘۔
(ترمذی، الجامع، ابواب التفسیر، 2: 145)
گذشتہ بحث سے معلوم ہوا کہ صالحین کے کان، آنکھ، ہاتھ اور پائوں کی قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ان کی فراست و بصیرت میں اضافہ ہوتاہے۔ اس کی وجہ سے ان کو حق و باطل میں فرق کرنے کی قوت اور دیگر معاملات میں فیصلہ کن بصیرت مل جاتی ہے۔
2۔ مستجاب الدعوات
اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو یہ مقام عطا فرماتا ہے کہ وہ جو بھی دعا کریں قبول کی جاتی ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان من عبادالله لو اقسم علی الله لا بره.
’بلاشبہ اللہ کے بندوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم اٹھا کر کوئی بات کردیں تو اللہ اسے ضرور پورا کرتا ہے‘۔
(بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الصلح، 1: 372)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
رب اشعث مدفوع بالابواب لو اقسم علی الله لا بره.
’بہت سے بکھرے بالوں والے جن کو دروازوں سے دھکے دیئے جاتے ہیں اگر وہ اللہ کی قسم اٹھا کر کوئی بات کریں تو اللہ اسے ضرور پورا کرتا ہے‘۔
(مسلم، الجامع الصحیح، کتاب البر، 2: 329)
گویا ایسے لوگ بھی ہیں جن کی ظاہری حالت دیکھ کر انہیں دروازوں سے دھکے دے کر نکال دیا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا مقام و مرتبہ اس قدر بلند ہوتا ہے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر کوئی بات کردیں تو اللہ تعالیٰ ان کے قول کی لاج رکھتے ہوئے اسے ضرور پورا کرتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ قدسی کے آخر میں یہ الفاظ ہیں:
وان سالنی لاعطینه وان استعاذی لاعیذ به.
’اور اگر وہ مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگ کر کسی بری چیز سے بچنا چاہے تو میں ضرور اسے بچاتا ہوں‘۔
(بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الرقاق، 2: 963)
شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ ذاتِ باری تعالیٰ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:
’اے فرزندِ آدم! میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، میں جس چیز کو حکم دیتا ہوں: ’ہوجا‘، وہ یقینا ہوجاتی ہے۔ پس تو میری اطاعت اختیار کر، پھر میں تجھے بھی ایسا ہی بنادوں گا کہ تو جس چیز کو حکم دے گا کہ ’ہوجا‘ وہ ہوجائے گی اور اذنِ الہٰی سے عالمِ وجود میں آئے گی اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیائ، صدیقین، اولیاء اور خواص بنی آدم کو ایسی ہی روحانی قوتوں کا حامل بنایا ہے‘۔
(فتوح الغیب: 36)
سو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی صفت ’کن فیکون‘ کا فیض عطا کرتا ہے اور اس کے بندے جب کسی چیز کے بارے کہتے ہیں کہ ’ہوجا‘ تو وہ چیز اللہ کے اذن سے ’ہوجاتی‘ ہے۔ اس بحث سے ثابت ہوا کہ اولیاء و صالحین کی دعائوں کو اللہ تعالیٰ شرفِ قبولیت عطا فرماتا ہے۔ گویا ان کو ’مستجاب الدعوات‘ کا رتبہ مل جاتا ہے۔
3۔ فیضِ صحبت
اولیاء و صالحین کی شخصیات اس قدر مؤثر ہوتی ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والے افراد بہت سی روحانی نعمتوں سے مالا مال ہوجاتے ہیں اور یوں ان کی صحبت میں بیٹھنے والے اپنی بدبختیوں کو خوش بختیوں میں بدل لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صادقین کی معیت کا حکم دیا ہے۔ قرآن حکیم کے الفاظ یہ ہیں:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا ﷲَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ.
’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو‘۔
(التوبة، 9: 119)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں اولیاء و صلحاء کے ہم نشین افراد کو ملنے والے فیض کے بارے میں یوں بیان کیا گیا ہے:
هم الجلساء لا یشقی جلیسهم.
’وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والے بدبخت نہیں رہتے‘۔
(بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الدعوات، 2: 948)
اس حدیث پاک میں صالحین کی صحبت کے فیوضات کو بیان کیا گیا ہے کہ ان کے پاس بیٹھنے والے بدبخت نہیں رہتے اور ان کے وہ اعمال جو قبولیت کے اہل نہ تھے، قبول کرلیے جاتے ہیں۔
ایک اور حدیث پاک میں ’الجلیس الصالح‘ نیک ساتھی کی صحبت کے فیضان کو خوشبو اور عطر بیچنے والے کی مثال دے کر سمجھایا گیا کہ جیسے خوشبو والے کے پاس بیٹھنے والا اس سے خوشبو نہ بھی خریدے تب بھی اس کی خوشبو سے فیضیاب ہوتا ہے مگر اس صورت میں خوشبو عارضی ہوتی ہے اور اس سے خریدنے کی صورت میں مستقل طور پر خوشبو سے فیضیاب ہونے کے مواقع میسر آتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی صالحین کی صحبت میں بیٹھنے والے اگر ان کی اقتداء کرتے ہوئے نیک اعمال کرنا شروع کردیں اور برے اعمال ترک کردیں تو وہ مستقل طور پر صحبت سے فیض حاصل کرنے والے بن جائیں گے اور اگر کوئی شخص اس فیض سے بہرہ ور نہ ہوسکے تو وہ صالحین کی صحبت کے اوقات میں برے اعمال سے محفوظ رہے گا اور اسے اصلاحی گفتگو سننے کا موقع بھی میسر آئے گا۔ مؤخرالذکر صورت صحبتِ صالحین سے عارضی اور وقتی فیضان کی ہے۔ تاہم یہ امید ہوتی ہے کہ یہ عارضی فیضان مستقل فیضان میں تبدیل ہوجائے گا۔
4۔ کشف و کرامات کا ظہور
اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو اسرار اور باطنی علوم سے نوازتا ہے۔ اسی طرح خلافِ عادت واقعات کو ظہور میں لانے کی قوت و صلاحیت بھی عطا فرماتا ہے جسے عرف میں کرامت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اولیاء اللہ سے کرامات کاظہورحق ہے۔ کتب عقائد میں ہے:
کرامات الاولیاء حق.
’اولیاء کی کرامات حق ہیں‘۔
(شرح عقائد نسفی: 450)
کرامات اولیاء کتاب و سنت، آثار صحابہ اور اجماع سے ثابت ہیں۔ صوفیاء کی کرامات پر علماء نے مستقل کتب بھی تحریر کی ہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کشف اور کرامات کے ظہور کی وجہ خواہشاتِ نفس سے اجتناب کو قرار دینے کے بعد فرماتے ہیں:
’اس وقت علوم لدنیہ اور اسرارِ الہٰی تجھ پر منکشف کیے جائیں گے اور تجھے حریمِ کبریا کا غلام بنایا جائے گا اور پھر اس مرتبہ ولایت پر تکوین یعنی عجائب و غرائب اشیاء کو ظہور میں لانے اور خرقِ عادات کی قوت و صلاحیت تجھے عطا فرمائی جائے گی۔ اس رتبہ ولایت پر تو محسوس کرے گا کہ گویا تو ایک معنوی اور روحانی و باطنی موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا گیا ہے اور تیرا کل وجود قدرتِ الہٰیہ کا مظہر بن چکا ہے‘۔
(فتوح الغیب: 73)
شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کشف کے مقصد کو یوں بیان فرماتے ہیں:
’بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے کسی ولی اور برگزیدہ بندے کو بعض فاسق و فاجر لوگوں کے ظاہری و باطنی عیوب سے آگاہ فرماتا ہے اور اس کشف کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ بزرگ ان گمراہ و بدکردار لوگوں کو امورِ شریعت کے حفظ و احترام کی تلقین و تبلیغ کرے اور کلام اللہ کی روشنی میں حق و باطل کا فرق ان پر واضح کرے‘۔
(فتوح الغیب: 125)
گویا کشف اور کرامت کا مقصد عوام الناس کو رہنمائی کے لیے متوجہ کرنا ہے۔ کشف کا ظہور اولیاء کی ذات سے متعلق ہے مگر کرامت کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے، جن کے بارے کشف ہو ان کو بتانے سے آگہی ہوتی ہے مگر کرامت کے ظہور کے وقت موجود لوگ نہ صرف خود دیکھتے ہیں بلکہ اس کے گواہ اور راوی بن جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں لوگوں نے کرامات کو ہی معیارِ ولایت سمجھ لیا ہے حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ کرامت ولایت کی ایک علامت اور درجہ ہے۔ خواجہ نظام الدین اولیاء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’بعض مشائخ نے سلوک کے سو (100) مرتبے مقرر کئے ہیں اور ان میں سے سترہواں (17) درجہ کشف و کرامت کو قرار دیا ہے۔ اسی طرح بعض اولیاء کشف و کرامات کو ’حجابِ راہ‘ قرار دیتے ہیں‘۔
(سیرالاولیاء: 311، 262)
گویا اولیاء اسے غرور و تکبر کا سبب سمجھتے ہیں۔ ان حالات میں کرامات حجابِ راہ بنتی ہیں مگر ضروری نہیں کہ اولیاء کو کرامات پر تکبر ہی ہو بلکہ انکساری اور شکر گزاری کے جذبات بھی ہوتے ہیں۔
5۔ رؤیائے صالحہ (مبشرات)
اللہ تعالیٰ اپنے صالح بندوں کی رہنمائی کے لیے نیک خوابوں سے نوازتا ہے۔ سورۃ یونس کی آیت نمبر10 لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا (ان کے لیے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے) کی تفسیر میں ہے کہ
هی الرؤیا الصالحة یراها الرجل الصالح لو تری له.
’یہ اچھے خواب ہیں جسے نیک آدمی دیکھے اگرچہ اس کے متعلق کوئی دیکھے‘۔
(الموطا، کتاب الرویا: 794)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الرؤیا الحسنة من الرجل الصالح جزء من ستة و اربعین جزء من النبوة.
’نیک اور مرد صالح کے اچھے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے‘۔
(الموطا، کتاب الرویاء: 792)
ان روایات سے معلوم ہوا کہ تزکیہ نفس کرنے والے صالحین و اولیاء کو فیضانِ نبوت میں سے یہ حصہ عطا کیا گیا ہے کہ ان کو اچھے خوابوں کے ذریعے اطمینانِ قلب اور رہنمائی میسر آتی ہے۔
6۔ اشاعتِ اسلام
صالحین اور اولیاء کے کردار کے اثرات میں سے ایک اہم اثر یہ ہے کہ ان کی تعلیمات سے متاثر ہوکر لاتعداد لوگوں کے اعمال و کردار کی اصلاح ہوتی ہے اور دین اسلام کو مدد و نصرت ملتی ہے۔ صوفیاء کی تبلیغ میں تاثیر کی بنیادی وجہ تبلیغِ دین کے اصولوں پر عملدرآمد ہے۔ صوفیاء و اولیاء کے قول و فعل میں یکسانیت و ہم آہنگی، حسنِ اخلاق، اندازِ تربیت، نرم گفتاری، رواداری، بصیرت و فراست اور حکمت و دانائی کے باعث لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
گذشتہ بحث سے ثابت ہوا کہ صالحین کے کردار سے قوائے حواس میں اضافہ، مستجاب الدعوات، فیضِ صحبت، کشف و کرامت کا ظہور، رویائے صالحہ اور اشاعتِ اسلام جیسے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی اصلاح، روحانی اقدار کی ترویج اور اسلامی تعلیمات کی اشاعت میں صالحین کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور اسی کردار کے حامل افراد کو ہی صالحین کے گروہ میں شمار کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقی صالحین سے تعلق استوار کرنے اور ان کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم اپنی روحانی اقدار کو بہتر بناسکیں اور اسلام کی حقیقی روح کے مطابق عمل کرکے زندگی بسر کرسکیں۔