پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن پنجاب اور منہاج یونیورسٹی لاہور کے مشترکہ تعاون سے دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس 20 اور 21 اکتوبر 2018ء کو منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا موضوع ’’سماجی ذمہ داریوں میں مذاہبِ عالم کا کردار‘‘ تھا۔ کانفرنس کے روحِ رواں منہاج یونیورسٹی لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین قادری تھے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری تحریک منہاج القرآن کے صدر بھی ہیں۔ کانفرنس کے اختتامی سیشن میں ہائر ایجوکیشن کمیشن پنجاب کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر نظام الدین اور ڈاکٹر محمد شاہد سرویا نے بھی شرکت کی۔
اس کانفرنس میں آسٹریلیا، نائیجیریا، تھائی لینڈ، سری لنکا اور انڈیا سے سکالرز آئے اور انہوں نے کانفرنس میں ریسرچ پیپرز پیش کیے۔ آسٹریلیا سے مسٹر چارلس اینڈریو، بوم ہائی سن سونیم، نائیجیریا سے پروفیسر ڈاکٹر ایمونیل، ڈاکٹر ابراہیم اور ڈاکٹر صفیانو اسحاقو، سری لنکا سے ڈاکٹر شانتی کمار اور انڈیا سے مسٹر گواہر قادر وانی، ایف سی یونیورسٹی کے وائس ریکٹر پروفیسر جوزف سن، نائیجیریا کے ڈاکٹر ابراہیم، ڈاکٹر ہرمن ، ڈاکٹر ریان بریشر، مسٹر تجمل احمد شیخ نے شرکت کی اور مقالہ جات پیش کئے۔
اسی طرح پاکستان بھر کی مختلف یونیورسٹیز کے پروفیسرز اور ڈاکٹرز نے بھی موضوع کی مناسبت سے اپنے اپنے مقالہ جات پیش کیے۔ کانفرنس میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیز کی نمائندگی کرنے اور ریسرچ پیپرز پیش کرنے والوں میں مردان سے ڈاکٹر سید راشد علی، کراچی سے شفیق الرحمن، طاہرہ اکبر، سیالکوٹ سے ڈاکٹر شمائلہ مجید، گجرات سے ڈاکٹر رمضان شاہد، ایبٹ آباد سے انوار علی، مانسہرہ سے قائد علی، لاہور سے ڈاکٹر مصفیراح محفوظ، رضا نعیم، اقراء جٹول، حسنین علی، ڈاکٹر فرحت عزیز، صابر ناز، ڈاکٹر سعدیہ گلزار، ہادیہ ثاقب ہاشمی، ڈاکٹر نودیر بخت، سارہ احمد، حنا شہزادی، ڈاکٹر نعیم انور الازہری، جویریہ حسین، محمد زین العابدین، کوئٹہ سے ڈاکٹر حسن آرا مگسی، سرگودھا سے ڈاکٹر نبیل فلک، اسلام آباد سے لعل زمان، ملتان سے فرحت ظفر، آزاد کشمیر سے محمد حمزہ، میانوالی سے حفیظ ارشد ہاشمی شامل تھے۔
منہاج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم غوری نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ منہاج یونیورسٹی نجی شعبہ کا واحد اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہے جو انتہائی کم فیسوں کے ساتھ معیاری تعلیم کی فراہمی کے تقاضے پورے کررہا ہے۔ منہاج یونیورسٹی نجی شعبہ کی واحد یونیورسٹی ہے جو ہر سال مستحق بچوں میں کروڑوں روپے کے وظائف بھی تقسیم کرتی ہے اور انہی خدمات پر انہیں اس سال ملائیشیا میں گڈگورننس کے عالمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
اظہارِ خیال: ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
منہاج یونیورسٹی لاہور کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین نے اس دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے آخری سیشن میں ڈیکلریشن پیش کیا۔ ڈیکلریشن میں انہوں نے ایک نعرہ دیا کہ ’انسانیت کی فلاح ہی امن کی راہ ہے‘ (Path to Peace is a Commitment to other's Need)۔ اس عالمی کانفرنس کے شرکاء نے ایک موٹو کے طور پر اس سلوگن کی منظوری دی۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اپنے ڈیکلریشن میں امن اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے کردار کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:
ریاستِ مدینہ انسانی حقوق کے احترام اور بین المذاہب بھائی چارہ کے مظاہرہ کی عملی تصویر تھی۔مدینہ کی ریاست کا قیام مواخات کی بنیاد پر عمل میں آیا۔ پیغمبرانِ خدا نے انسانیت کی فلاح اور انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 12 سال اہلِ مکہ کا ظلم سہا مگر امن، محبت اور برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ وہ رحمۃ للعالمین کے لقب سے پکارے گئے اور انہوں نے اپنی ظاہری حیات میں آخری سانس تک دنیا پر ثابت کیا کہ وہ حقیقتاً ہر ایک کیلئے پیکرِ امن و رحمت ہیں۔ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبر اور برداشت سے اسلام کا بول بالا کیا۔
ڈاکٹر حسین محی الدین نے کہا کہ خدا کے نام لیواؤں نے انسانی حقوق کے تحفظ کو آخری سانس تک یقینی بنایا۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں انسانی حقوق اور انسانیت کا احترام سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔ ہر دور میں روحانیت کے اساتذہ نے مشکلات و مصائب کا سامنا کیا، آج بھی ہم وہی مصائب اپنے گرد وپیش میں محسوس کر رہے ہیں۔ صوفیائے کرام نے برابری کی بات کی اور طبقاتی تفریق کو قبول نہیں کیا۔
ڈاکٹر حسین محی الدین نے مزید کہا کہ 75 ہزار سے زائد پاکستانی دہشت گردی کا نشانہ بنے مگر افسوس نوجوانوںکو انتہا پسندی اور کاؤنٹر ٹیررازم کی تعلیم سے محروم رکھا گیا۔ بانی و سرپرست تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے نہ صرف قوم کو واضح نظریہ دیا بلکہ اسلامی نصاب بھی مرتب کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ منہاج یونیورسٹی لاہور پرائیویٹ سیکٹر کی واحد چارٹرڈ یونیورسٹی ہے جس نے سکول آف ریلیجنز اینڈ فلاسفی قائم کر کے نوجوانوں کو بین المذاہب رواداری اور امن کا درس دیا اور اس کے لیے ایچ ای سی کی منظور شدہ ایم فل کی ڈگری کا اجراء کیا۔
ڈاکٹر حسین محی الدین نے کہا کہ سوسائٹی کو پرامن معتدل بنانے کیلئے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اپنا تعلیمی، اصلاحی اور اخلاقی کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں دوسرے مذاہب کے بارے میں جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں وہ ان کی بنیادی تعلیمات اور عقیدے کی مکمل عکاسی نہیں کرتیں جس کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے بارے میں عام طور پر غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے منہاج یونیورسٹی نے سکول آف ریلیجنز اینڈ فلاسفی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس میں طلبہ کو اپنے مذہب کے بارے میں گہرائی سے جاننے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے عقیدے اور عمل کے بارے میں حقیقی شعور سے آگاہی دی جاتی ہے۔ دوسرے مذاہب کو پڑھانے کا مقصد صرف ان کی حکمت اور تعلیم کو جاننا ہی نہیں بلکہ مذہبی غلط فہمیاں اور تعصب کو بھی کم کرنا ہے تاکہ پاکستان میں عوامی سطح پر امن، رواداری اور برداشت پیدا ہو سکے۔ اس تعلیمی پروگرام کے اختتام پر طالب علم حکومتی اور سفارتی سطح پر نہ صرف بطور کنسلٹنٹس کام کر سکیں گے بلکہ مختلف اداروں میں اس اہم موضوع پر تعلیمی اور تدریسی خلاء کو بھی پر کر سکیں گے۔ سکول آف ریلیجنز کا ہیڈ ایک آسٹریلین نژاد کرسچین ڈاکٹر ہرمن روبوک کو بنایا گیا ہے تاکہ کسی کو کسی قسم کے تعصب کا شائبہ بھی نہ ہو سکے۔ سکول آف ریلیجنز اینڈ فلاسفی میں ہندو مذہب کی تعلیمات ہندو سکالرز دیتے ہیں، سکھ مذہب کی تعلیم سکھ سکالرز دیتے ہیں، اسی طرح بدھ ازم کے بارے میں بدھسٹ سکالرز پڑھاتے ہیں۔
اظہارِ خیال: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 20 اکتوبر کی رات بین الاقوامی سکالرز، تعلیمی ماہرین اور منہاج یونیورسٹی لاہور کی مختلف فیکلٹیز کے سربراہان کے اعزاز میں ڈنر دیا۔انہوں نے اہم موضوع پر علمی کانفرنس کے انعقاد پر منتظمین کو مبارکباد دی اور بین الاقوامی سکالرز کو فروغ علم کیلئے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے پاکستان آنے پر مبارکباد دی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
اسلام بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کا دین ہے۔ بدقسمتی سے مذاہب کی تعلیمات کی بجائے شخصیات کے اظہار خیال کے ذریعے مذہب کو جاننے اور پہچاننے کی روش کی وجہ سے اصل تعلیمات پس منظر میں چلی گئی ہیں حالانکہ دنیا کا کوئی مذہب انسانیت کے خلاف جرم کی اجازت نہیں دیتا۔مذاہب امن، احترامِ انسانیت، احترامِ قانون کا درس دیتے ہیں۔ دنیا بھر کے دانشوروں اور مذاہبِ عالم کے نمائندوں کو وسیع تر مکالمے کی بنیاد رکھنی چاہیے اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنا چاہیے۔ تحریک منہاج ا لقرآن بین المذاہب مکالمے اورروایات کی تحریک ہے جو اسلام کا پر امن پیغام دنیا کے چپے چپے تک پھیلا رہی ہے۔ تحریک منہاج القرآن کا مرکزی سیکرٹریٹ ہر مذہب کے ماننے والوں کیلئے دار الامن ہے۔یہاں مختلف مذاہب کے پیروکار تواتر کے ساتھ آتے رہتے ہیں، انہیں یہاں تحفظ اور اپنائیت ملتی ہے، یہی تعلیمات پیغمبرِ امن حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی ہیں اور ہم انہی کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں‘‘۔
اظہارِ خیال: مہمانانِ گرامی
1۔ ’’سماجی ذمہ داریوں میں مذاہب عالم کا کردار‘‘ کے موضوع پر منعقدہ عالمی کانفرنس کے پہلے روز کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری تھے۔ انہوں نے ابتدائی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا: امن پاکستان کی ضرورت ہے اور آج کی کانفرنس کا ایجنڈا اورانعقاد کی غرض و غایت بھی یہی ہے۔ حکومتِ پاکستان اس کانفرنس کے ایجنڈے سے سو فی صد متفق ہے۔ حکومت بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے تمام مذاہب اور مسالک کو ساتھ لے کر چل رہی ہے۔یہ پاکستان کسی ایک فرقے، مذہب یا طبقے کا نہیں بلکہ پاکستان اس ملک میں بسنے والے ہر شہری کا ہے۔ پاکستان کو ظلم سے پاک کریں گے، جنہوں نے اس ملک کو نقصان پہنچایا، ملکی وسائل کو لوٹا، بے گناہوں کے جان و مال سے کھیلے وہ سب اسکا حساب دیں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا قائم کردہ اعلیٰ تعلیمی ادارہ منہاج یونیورسٹی کے نام سے فروغِ امن اور احترامِ انسانیت کیلئے گرانقدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ نوجوانوں کی کردار سازی، علم اور امن کے شعبے میں منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کی خدمات لائقِ صد تحسین ہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے صدیوں کی علمی پیاس بجھائی اور ان کا یہ کام آئندہ صدیوں کی نسلوں تک کیلئے ہے۔ میں اور میرا خاندان شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان سے سیکھتے ہیں۔
2۔ آسٹریلین سکالر دانشور ڈاکٹر چارلس اینڈریو کا ریسرچ پیپر بطور خاص توجہ کا مرکز بنا۔ ڈاکٹر چارلس اینڈریو نے اپناریسرچ پیپر پیش کرتے ہوئے کہا: جدید تحقیق بتاتی ہے کہ انسان 70 ہزار طریقوں سے سوچتا ہے، سوچنے کی سمت مثبت ہو گی تو اس کے بیرونی اثرات بھی مثبت ہونگے اور اگر سوچ کا دھارا منفی ہو گا تو اس کے اثرات بھی منفی ہونگے، بیرونی تبدیلی کے لیے سب سے پہلے اپنے اندر کو تبدیل کرنا ہوگا۔ دنیا امن کے فروغ کے لیے اتنا پیسہ اور بجٹ خرچ نہیں کررہی جتنا پیسہ اسلحہ کی خریداری پر صرف ہورہا ہے۔ احساس برتری، احساس کمتری، تعصب اور لالچ تمام برائیوں کی جڑ ہیں۔ مذہب اور روحانیت کا انسان کے باطن سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ جب انسان اپنی شناخت کر لیتا ہے تو وہ ہر قسم کے منفی احساسات سے بالاتر ہو جاتا ہے۔ جس انسان کے دل و دماغ میں انتشار ہو گا اس کے اثرات سوسائٹی پر بھی انتشار کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔ دوسروں کو بدلنے کے عمل کا آغاز خود کو بدلنے سے ہوتا ہے، کوئی انسان اپنی ذات کے حصار سے باہر نکلے گا تو دوسرے کا احساس کر سکے گا۔ صوفیائے کرام کی محنت ذات کی تبدیلی سے متعلق تھی، انہوں نے خود کو پہچانا تو ان کے اندر امن آگیا اور یہی امن انہوں نے باہر بانٹا۔ انسان جب تک اپنے اندر کو پاک اور صاف نہیں کرے گا، امن جگہ نہیں بنا پائے گا۔
3۔ اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سری لنکا کولمبو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر شانتی کمار نے کہا: میں نے اسلام کے انسانیت سے محبت پر مبنی پیغام کو عظیم صوفی جلال الدین رومی کی تحریروں سے سمجھا۔ اسلام کی تعلیمات میں آفاقیت ہے، انسان جتنی بھی ترقی کر لے مگر انسانیت کی پناہ مذہب میں ہے۔ مذہب اخلاقیات اور حلال و حرام کی تمیز سکھاتا ہے، کسی بھی مذہب کا سچا پیروکار امن اور انسانیت کیلئے خطرہ نہیں بن سکتا۔ دنیا کو پیسے کی غربت سے نہیں روحانی غربت سے خطرہ ہے۔ کوئی نیو ورلڈ آرڈر کسی فرد کو اسکے مذہبی عقائد اور مذہبی وابستگی سے جدا نہیں کرسکتا۔ آخر میں سارے ورلڈ آرڈر مذہب کی پناہ میں آئینگے۔
4۔ نائجیریا کے سکالر ڈاکٹر صفیانو نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: فرد کی جان کا تحفظ آج کی جدید دنیا کا بڑا چیلنج بنا ہوا ہے جبکہ آج سے 14سو سال قبل اسلام نے ایک بے گناہ انسان کی موت کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا تھا اور اسلام نے بے گناہ انسان کے قاتل کیلئے سزائے موت مقرر کی ہے۔جان کے بدلے جان کا بدلہ رکھا ہے۔ بے گناہ شہریوں کی اموات حکومت کی گورننس کے محاذ پر ناکامی ہوتی ہے اور مذہب کے نام پر ہونیوالی اموات کا تعلق غلط فہمیوں اور جہالت سے ہے۔ اس امر کی از حد ضرورت ہے کہ بالخصوص اسلامک سکالرز انسانی جان کے تحفظ اور تقدس کے بارے میں اسلامی تعلیمات کو عام کریں۔
5۔ تھائی لینڈ سے آئے ہوئے سکالر ڈاکٹر امتیاز نے بدھ ازم کے اوپر اپنے دئیے گئے ریسرچ پیپر میں کہا: بدھ ازم اس خطے میں 17سو سال سے ہے۔ سندھ میں اسلام اور بدھ ازم کے مابین پر امن تعلقات کی تاریخ موجود ہے۔ میانمار، سری لنکا اور تھائی لینڈ میں بدھ ازم اور مسلمانوں کے درمیان ایک تنازع ہے، تاریخ کے اوراق اور موجودہ تنازع کو ملا کر دیکھنا ہو گا آیا یہ جھگڑا مذہبی تعلیمات کا ہے یا ریاست کی طرف سے مس ہینڈلنگ کا۔ اس تصادم کے نتیجے میں ہونیوالے جانی نقصان کے تدارک اور ازالہ کیلئے ڈائیلاگ اور اقدامات کی ضرورت ہے۔
6۔ نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر ایمانویل نے اپنے ریسرچ پیپر میں کہا: مذہب کی آڑ میں خواتین پر مردوں کو فوقیت دی جاتی ہے اور مذہب کواستعمال کیا جاتاہے جبکہ اسکا تعلق کلچر اور روایات سے ہے۔
7۔ انڈیا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر گواہر نے کہا: اسلام انصاف کی فراہمی پر زور دیتا ہے۔ ہر جرم بے انصافی سے جنم لیتا ہے۔اسلام اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انسانی زندگی کے ہر شعبے میں انصاف کے نظام کو وضع کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن کا نظامِ انصاف ہر قسم کی مذہبی، گروہی، طبقاتی تفریق سے بالاتر ہے۔ اسلام نے انصاف کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا ہے۔
8۔ روبینہ سعدیہ نے اپنے ریسرچ پیپر میں کہا:سماجی ذمہ داریوں میں مذہب کا بہت بڑا کردار ہے، آج کی دنیا آبادی میں اضافے کی وجہ سے مسائل سے دوچار ہے۔ دنیا کا ہر مذہب کچھ شرائط کے ساتھ برتھ کنٹرول کی حمایت میں ہے۔ اس حوالے سے میڈیا کا استعمال کر کے آئندہ نسلوں کو اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔ مذاہب کے پاس کم و بیش ہر سماجی مسئلے کا حل موجود ہے۔
9۔ ڈاکٹرسعدیو گینز نے اپنے ریسرچ پیپر میں کہا: اسلام خواتین کو اقتصادی سرگرمیوں میں بھر پور کردار ادا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام حق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے۔ پاکستان میں خواتین کی آبادی 50فی صد کے لگ بھگ ہے مگر اقتصادی سرگرمیوںمیں خواتین کا وہ کردار نظر نہیں آتا جسکی ضرورت ہے۔ ویمن امپاورمنٹ پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا آغاز اقتصادی سرگرمیوں سے ہونا چاہیے۔
10۔ ڈاکٹر حسن آراء مگسی نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام خواتین پر پابندیاں عائد کرتا ہے جبکہ یہ تصور درست نہیں ہے۔ خواتین تعلیم کا حق رکھتی ہیں، انہیں وراثت میں حق دیا گیا، انہیں طلاق لینے کا حق دیا گیا ہے۔ ، بچوں کی حفاظتی تحویل اور ملازمت کا حق دیا گیا ہے، خاتون اسلامی نقطہ نظر سے ماں، سکالر، ڈاکٹر، بزنس مین، سیاستدان کے طورپر اپنا آزادانہ کردار ادا کر سکتی ہے۔یونائیٹڈ نیشن کا 1948ء کا انسانی حقوق کا چارٹر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع کی مکمل توثیق کرتا ہے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے عالمی کانفرنس کے اختتام پر ڈیکلیریشن پیش کیا جسکا لب لباب’’ انسانیت کی فلاح ہی امن کی راہ ہے‘‘ تھا۔ انہوں نے جملہ بین الاقوامی سکالرز اور مہمانوں کا کانفرنس میں شرکت پر شکریہ ادا کیا اور کہاکہ منہاج یونیورسٹی لاہور قومی اور بین الاقوامی ایشوز پر گریٹ ڈبیٹ کیلئے بطور میزبان خدمت انجام دینے کو ہمیشہ اپنا اعزاز سمجھتی ہے اور مستقبل میں بھی اہم موضوعات پر بحث و تمحیص کی میزبانی کا فریضہ انجام دیتی رہے گی۔
اس دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں لاہور اور مضافات کی یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس کانفرنس کی خاص بات طلبہ و طالبات کے ساتھ عالمی سکالرز کے سوال و جواب کی شکل میں مکالمہ کا اہتمام تھا۔سوال و جواب کے اس سیشن سے طلبہ و طالبات کو مذاہب عالم کے حوالے سے جدید تحقیق اور دانشوروں کے خیالات سے آگاہی کا موقع ملا۔