اختتامِ سال پر دعائیہ نظم
خالقِ روز و شب مالکِ انس و جاں
میرے مشکل کُشا
رزق کیڑے کو پتھر میں بھی دینے والے خدا
میری آواز سُن!
اس گزرتے ہوئے سال کی آخری ساعتوں میں
تیرے محبوب کا ایک ادنیٰ سا شاعر
اپنی ناکامیوں کے کفن میں بدن کو سجائے ہوئے
اپنے اندر کے انساں سے نظریں چرائے ہوئے
اپنے بچوں سے آنسو چھپائے ہوئے
ڈوبتی ساعتوں کو گلے سے لگائے ہوئے
اپنے بچوں کی محرومیاں گن رہا ہے
اپنے خوابوں کے ریزے سرِ رہگذر چن رہا ہے
اس گزرتے ہوئے سال کی آخری ساعتوں میں
تیرے محبوب کا ایک ادنیٰ سا شاعر
اس اداسی کے جنگل میں تنہا کھڑا ہے
جیسے امید ٹوٹے ستاروں کے ملبے کے نیچے ابھی سو رہی ہے
مگر ان گزرتے ہوئے سال میں بھی
فصیلِ شعور و قلم پر ثنائے نبی کے علم کھُل رہے ہیں
فصیلِ شعور و قلم اُن کی دہلیز پر جھک رہی ہے
مجھے اپنی ناکامیوں کا کوئی دکھ نہیں ہے
خالقِ روز و شب مالکِ انس و جاں
میرے مشکل کشا ہے یہی التجا
پھول ہونٹوں پہ اگلے برس بھی ثنا کے مہکتے رہیں
میری سانسو ںمیں اسمِ نبی سے چراغاں رہے
گنبدِ سبز دن رات اشکوں میں یوں ہی چھلکتا رہے
خالقِ روز و شب مالکِ انس و جاں
میرے مشکل کشا یا خدا، یا خدا
(ریاض حسین چودھری)
آمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرحبا مرحبا
نگاہوں میں مری روضے کا ہو منظر دمِ آخر
زباں پر ہو درود اُن پر سلام اُن پر دمِ آخر
تلاوت ہو رہی ہو سورۂ یٰسیں کی محفل میں
رسولِ پاک کے در پر رکھا ہو سر دمِ آخر
وہاں پر پھر سجاؤں مَیں درود و نعت کی محفل
کوئی ایسا مدینے میں ہو میرا گھر دمِ آخر
رہوں قدمین میں مَیں محوِ گریہ شرمساری میں
رہے دامانِ دل، آنکھیں بھی میری تر دمِ آخر
پلا دینا مجھے جی بھر کے عشقِ مصطفی ساقی
پلا دینا زیارت کا کوئی ساغر دمِ آخر
نشے میں جھومتا چلنے لگوں مَیں قبر کی جانب
وہاں جاکر کروں گل پاشیاں اُن پر دمِ آخر
اتر جاؤں مَیں اپنی قبر میں صلِّ علیٰ پڑھتے
درِ اقدس کا لے کر لمس ماتھے پر دمِ آخر
عزیز آنکھوں میں یہ منظر لیے آخر مَیں سو جاؤں
ہوں بیٹھا اُن کے قدموں میں سرِ محشر دمِ آخر
(شیخ عبدالعزیز دباغ)