دینِ محمدی ایک زندہ و متحرک دین ہے جو ابدی حقائق، عقل و منطق پر پورا اترنے والے عقائد، اپنی روشن خیال اور اعتدال پر مبنی تعلیمات، امن و سلامتی، اخوت و محبت، تحمل و بردباری، رواداری اور برداشت جیسی منفرد خوبیوں اور کمالات کا حامل دین ہے۔
تاریخِ انسانی گواہ ہے کہ اس دینِ محمدی نے ہر عہد کو ایسی نابغہ روزگار ہستیاں دی ہیں جنہوں نے دلوں کی مردہ کھیتیوں میں ایسی روح پھونکی کہ چمنستانِ حیات میں ہر طرف خلقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہاریں خوشبوئیں بکھیرنے لگیں۔ مسلمانوں کی سنہری تاریخ ان جگمگاتے ستاروں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ابتلاء و آزمائش کی گھڑی میں مسلمانوں کو روشنی عطا کی۔ انہی سر بر آوردہ رجال میں سے ایک شخصیت حضور غوث الاعظم شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے جنہوںنے پانچویں صدی ہجری میں اپنی مسیحا صفت اور روح پرور تعلیمات و افکار کے ذریعے امتِ مسلمہ کے عروقِ مردہ میں اس طرح حیاتِ نو کی روح پھونکی کہ اس وقت سے لے کر آج تک آپ کے جاری کردہ سلسلۂ قادریہ کے چشمۂ صافی کا فیض جاری و ساری ہے۔ دنیا کا کوئی ایسا خطہ یا کوئی ایسی علمی و فکری اور اصلاحی تحریک نہیں جس کی بنیادوں میں آپ کا فیض موجود نہیں۔
آپ نے محض گوشہ نشین ہوکر زندگی بسر نہیں کی بلکہ آپ فیضانِ محمدی کی وہ قندیل تھے کہ جس کے فیض سے ہر شعبۂ زندگی مستفیض ہوا۔ آپ کی نگاہِ کیمیاء کے اثر نے عراقی معاشرے کے گم کردہ راہ لوگوں کا علاج ایک حاذق حکیم کی طرح کیا۔ حالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماروں کے دکھوں کی نہ صرف تشخیص کی بلکہ ان کے اندر اتر کر انہیں حیاتِ تازہ سے سرفراز کیا۔ ابوالحسن علی ندوی حضور غوث الاعظم کے حوالے سے شیخ ابن تیمیہ کا بیان نقل کرتے ہیں کہ:
’’شیخ کی کرامات حدِ تواتر کو پہنچ گئی ہیں، ان میں سب سے بڑی کرامت مردہ دلوں کی مسیحائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب کی توجہ اور زبان کی تاثیر سے لاکھوں انسانوں کو نئی زندگی عطا فرمائی۔ آپ کا وجود عالمِ اسلام کے لیے ایک بادِ بہاری تھا جس نے دلوں کے قبرستان میں نئی جان ڈال دی اور عالمِ اسلام میں روحانیت کی ایک نئی لہر پیدا کردی۔ کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی تھی جس میں یہودی اور عیسائی اسلام قبول نہ کرتے ہوں اور خونی اور جرائم پیشہ توبہ سے مشرف نہ ہوتے ہوں اور فاسد الاعتقاد اپنے غلط عقائد سے توبہ نہ کرتے ہوں‘‘۔
(ندوی، ابوالحسن، سید، تاریخ دعوت و عزیمت)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زبان کی تاثیر سے مردہ دل زندہ ہوتے تو اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبہ پر مرتب ہونا شروع ہوئے۔ ایک عام آدمی سے لے کر امرائ، سلاطین اور حاکمانِ وقت تک آپ کی مجلسِ وعظ میں حاضر ہوتے۔ یہ نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیضان تھا کہ آپ اپنے مواعظِ حسنہ میں ہر طبقۂ زندگی کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں نصیحت کے جام پلاتے، جس کی تاثیر سے وہ اپنے احوال کی اصلاح کرتے ہوئے اپنی بقیہ زندگی اس طرح سے گزارتے کہ وہ دیگر افرادِ معاشرہ کے لیے خضرِ راہ ثابت ہوتے۔
ہدایت کا طالب بن کر آج بھی جو شخص آپ کے مواعظ و ملفوظات کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ صدیاں بیت جانے کے باوجود فرامینِ غوثیہ میں تاثیر محسوس کرتا ہے۔ آئندہ سطور میں ہم مختلف پہلوئوں سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے افکارِ عالیہ آپ کی تصنیف ’’فتح الربانی‘‘ سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں، جن پر عمل پیرا ہوکر مادہ پرستی کے اس عہدِ سیاہ میں زندگی بسر کرنے والا انسان اپنے ظاہرو باطن کو نورِ ایمان سے منور کرسکتا ہے۔
1۔ علم اور عمل کی مطابقت
آج جس دور میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں، اسے علمی ترقی کا دور کہا جاتا ہے۔ سائنسی انکشافات، برقی ذرائع علم (انفارمیشن ٹیکنالوجی) نے قرب و بعد کے فاصلے سمیٹ دیئے ہیں۔ ڈگریوں کی صورت کاغذ کے پرزے اٹھائے ہر کوئی خواندگی کے گیت آلاپ رہا ہے مگر اس کے باوجود معاشرہ روز بروز تنزلی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ اس کا سبب علم و عمل کی دوئی ہے۔ آج علم برائے عمل حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ علم برائے معاش حاصل کیا جاتا ہے۔ علم و عمل کی اس دوئی نے تہذیب و اخلاق کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے حالانکہ دونوں کے اجتماع سے انسان اور معاشرے میں تہذیب پیدا ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے بے عمل عالم کو ایسے گدھے سے تشبیہہ دی ہے جس پر کتابیں لاد دی جائیں لیکن اس کے اخلاق و عمل میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
محبوب سبحانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’جس شخص کا علم زیادہ ہو اسے چاہئے کہ خوفِ خدا اور عبادت بھی زیادہ کرے۔ علم کے مدعی! خوفِ خدا سے تیرا رونا کہاں ہے۔۔۔؟ تیرا ڈر اور وہشت کہاں ہے۔۔۔؟ گناہوں کا اقرار کہاں۔۔۔؟ رات اور دن عبادت میں ایک کردینا کہاں۔۔۔؟ نفس کو باادب بنانا اور الحب للہ والبغض للہ کہاں۔۔۔؟ تمہاری ہمت جبہ و دستار، کھانا، نکاح، دکان، خلقت کی محفل اور ان کا انس ہے، اپنی ان تمام چیزوں سے خود کو الگ کر۔ یہ چیزیں اگر تمہارے نصیب میں ہیں تو اپنے وقت پر مل جائیں گی اور تمہارا دل انتظار کی کوفت سے آرام پائے گا‘‘۔
(فتح الربانی، صفحه: 82)
2۔ اخلاصِ عمل
دین اسلام کی بنیادی تعلیم ہے کہ انسان جو بھی عمل کرے وہ اخلاص کے ساتھ کرے۔ کوئی بھی بڑے سے بڑا عمل بارگاہ الہٰی میں درجہ قبولیت پانے سے محروم رہتا ہے، اگر وہ ریاکاری اور دنیا والوں کے دکھاوے کے لیے کیا جائے۔ جبکہ اخلاص سے کیا گیا کم تر عمل بھی حضورِ حق میں بڑی قدرو منزلت کا حامل ہوتا ہے۔ صوفیاء کرام کی حیاتِ طیبہ کا اہم ترین پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر عمل خالص اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں اور اپنے مریدین اور مخلصین کو بھی اس کی تلقین کرتے ہیں۔ اخلاصِ عمل کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے حضور سیدنا غوث الاعظم قدس سرہ فرماتے ہیں:
’’تجھ پر افسوس! تو مشرک، منافق، بے دین، مرتد ہے۔ تجھ پر افسوس! ملمع کس کو دکھاتا ہے، جو آنکھوں کی خیانت اور سینے کے رازوں سے واقف ہے۔ تجھ پر افسوس! نماز میں کھڑا ہوکر اللہ اکبر کہتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے۔ تیرے دل میں مخلوق، اللہ سے بڑی ہے۔ اللہ کے سامنے توبہ کر۔ نیک عمل غیر کے لیے نہ کر اور نہ دنیا اور نہ آخرت کے لیے کر بلکہ خاص اللہ کی ذات کا ارادہ رکھ۔ ربانی پرورش کا حق ادا کر۔ تعریف اور صفتِ عطا اور بے عطا کے لیے عمل نہ کر۔ تجھ پر افسوس! تیرا رزق کم زیادہ نہ ہوگا، نیکی اور بدی کا تجھ پر حکم لگ چکا ہے، وہ ضرور آئے گی۔ جس چیز میں فراغت ہے، اس میں مشغول نہ ہو۔ اس کی عبادت میں لگا رہ، حرص کم، امید کو تاہ اور موت آنکھوں کے سامنے رکھ، ضرور نجات حاصل کرے گا۔ تمام احوال میں شریعت کی پابندی کر‘‘۔
(فتح الربانی، صفحه: 167)
اخلاص کے دواخانے
نفاق، ریاکاری، غرور و تکبر، حسد بغض، کینہ ایسے باطنی امراض ہیں کہ جو بڑے سے بڑے عمل کو بھی خاکستر کردیتے ہیں لیکن یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ جب تک انسان ان سے نجات نہیں پاتا، اس وقت تک نہ وہ روحانی مقام حاصل کرسکتا ہے اور نہ اس میں ترقی و کمال حاصل کرسکتا ہے۔ اگرچہ یہ باطنی بیماریاں ہیں مگر ان کے تباہ کن اثرات انسان کی ظاہری شخصیت پر بھی پڑتے ہیں اور یوں وہ ظاہری اور باطنی ہر دو اعتبار سے ایک قابلِ رحم مریض کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔ مگر حکیمِ حاذق جو ان روحانی امراض کا ماہر معالج ہو اس کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔ وہ شیخِ کامل اور مردِ خدا ہوتا ہے جو اپنی نگاہِ کیمیا ساز سے باطن کی بیماریوں کا علاج کرکے مریض کو روحانی حیاتِ نو سے بہرہ یاب کردیتا ہے۔ وہ معالج کون اور کہاں سے دستیاب ہوتے ہیں؟ سیدی شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز ان کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ریا کار! تجھ پر افسوس، اللہ کو دھوکہ نہ دے، عمل کرکے ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کے لیے ہے حالانکہ مخلوق کے لیے ہے۔ ان کو دکھاتا ہے اور ان سے نفاق کرکے چاپلوسی کرتا ہے اور اپنے رب کو بھلادیتا ہے۔ تو عنقریب دنیا سے مفلس ہوکر نکلے گا۔ باطن کے بیمار! اس مرض کا علاج کر، اس کی دوا اللہ کے بندوں، صالحین کے سوا اور کہیں نہ ملے گی۔ ان سے دوا لے کر استعمال کرے گا تو ہمیشہ کے لیے تندرستی اور صحتِ ابدی حاصل ہوگی۔ تیرا دل، باطن اور خلوت اللہ کے ساتھ ہوجائے گی۔ تیرے دل کی آنکھیں کھلیں گی اور تو اپنے رب کو دیکھے گا۔ تیرا شمار محبین میں ہوگا جو اس کے دروازے پر کھڑے ہیں اور اللہ کے سوا غیر کو نہیں دیکھتے ہیں۔ تیرا دل تو بدعت سے پُر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا دیدار کس طرح کرسکتا ہے؟‘‘
(فتح الربانی، صفحه: 253)
3۔ شکوہ نہ کر!
آج کے معاشرہ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ الوہی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کے بجائے بالعموم شکوہ کناں رہتے ہیں، جس کے باعث لوگ بہت سی نعمتوں سے محروم رہتے ہیں۔ سیدی شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ فرماتے ہیں:
’’خالق کا شکوہ مخلوق سے نہ کر بلکہ خالق ہی سے کر، اسی نے سب اندازے لگائے ہیں، دوسرے نے نہیں‘‘۔
(فتح الربانی، صفحه: 839)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’غیر اللہ کے پاس گلہ اور شکایت نہ کرو کیونکہ اس سے تم پر اور بلا بڑھے گی بلکہ خاموش اور ساکن اور گم ہو رہو۔ اس کے سامنے ثابت قدم رہو اور دیکھو کہ وہ تمہارے ساتھ اور تمہارے درمیان کیا کرتا ہے اور اس کے تصرفات پر اظہارِ خوشی کرو۔ اگر تم اس کے ساتھ اس طرح پیش آئو گے تو ضرور وحشت کو انسیت سے اور رنج و تنہائی کو خوشی سے بدل دے گا‘‘۔
(فتح الربانی، صفحه: 66)
مزید فرماتے ہیں:
’’خلقت کی شکایت کرنے سے اپنی زبان کو روک۔ رضائے الہٰی کے لیے اپنے نفس اور مخلوق کا دشمن بن جا۔ اس کی تابع فرمانی کا حکم کر اور گناہ سے روک۔ ان کو گمراہی و بدعت، حرص اور موافقتِ نفس سے باز رکھ۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تابع فرمانی کا حکم کر‘‘۔
(فتوح الغیب، صفحه: 133)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا اندازِ تربیت یہ تھا کہ آپ نے اپنے مواعظِ حسنہ میں نہ صرف روحانی امراض کی نشاندہی کی بلکہ ان بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے نسخہ بھی تجویز کیا اور علاج بھی بتایا کہ کس طرح ان سے خلاصی پاکر قربِ الہٰی حاصل کیا جاسکتا ہے؟
4۔ کسبِ حلال اور توکل
روحانی مقامات کی ترقی و کمال میں رزقِ حلال کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی پرورش حرام کے مال سے ہوئی ہوگی۔ پس جس پیٹ میں حرام کا لقمہ ہے، اس کے منہ سے نکلنے والی دعا کب قبول ہوسکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلامی آداب و اخلاق کے اندر کسبِ حلال پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے افکار کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے مواعظِ حسنہ میں کسبِ حلال کی اہمیت کو نہ صرف واضح کیا ہے بلکہ اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ بارگاہِ الہٰی کے قرب کے لیے پیٹ میں جانے والے ہر لقمے کا حلال اور پاکیزہ ہونا بھی شرط ہے۔ بصورتِ دیگر اس راہ کا مسافر منزلِ مراد تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں:
’’نیک کمائی اور سبب سے تعلق لازم کرو یہاں تک کہ ایمان قوی ہوجائے، پھر سبب کو چھوڑ کر مسبب کی طرف چلا آ۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اپنے ابتدائی احوال میں کسب کرتے، قرض لیتے اور پابندِ اسباب رہتے ہیں اور آخر میں توکل کرتے ہیں۔ کسب اور توکل کو شروع اور اخیر میں شریعۃً اور حقیقۃً جمع کرلیتے ہیں۔ بیٹا! نفس کو خواہشوں اور لذتوں سے روکو، اس کو پاک روزی کھلائو، نجس نہ بنو، پاک حلال ہے اور حرام نجس ہے۔ نفس کو غذائے حلال دو تاکہ اترائے نہیں اور ناک منہ چڑھا کر گستاخ نہ بنے‘‘۔
(فتح الربانی، صفحه: 165)
دل کی زندگی اور موت
دل کی زندگی اور موت کی وضاحت میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
بیٹا! حرام کی روزی سے تیرا دل مرتا ہے اور حلال کی روزی سے زندہ ہوتا ہے۔ ایک لقمہ تیرے دل کو منور کرتا ہے اور ایک لقمہ سیاہ کرتا ہے۔ ایک لقمہ دنیا میں اور ایک لقمہ آخرت میں مشغول کرتا ہے۔ ایک لقمہ دونوں سے بے رغبت کرتا ہے اور ایک لقمہ خالق میں مشغول کرتا ہے۔ حرام کی روزی دنیا میں مشغول کراتی ہے اور گناہوں سے پیار کراتی ہے۔ حلال طعام آخرت میں لگاتا ہے، اطاعتِ الہٰی سے محبت کراتا ہے اور دل کو مولیٰ سے قریب کرتا ہے۔ کیا تو نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں سنا:
من لم یبال من این مطعمه ومشربه لم یبال اللہ من ای باب من ابواب النار ادخله.
’’جو شخص اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کا کھانا پینا کہاں سے ہے؟ تو اللہ تعالیٰ بھی پرواہ نہیں کرتا کہ دوزخ کے دروازوں میں سے اس کو کس دروازے میں سے داخل کرے‘‘۔
(فتح الربانی، صفحه: 232)
5۔ برداشت پیدا کرو!
آج عدمِ برداشت کے کلچر نے پوری دنیائے اسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے انسانی کا امن خاک میں ملا دیا ہے۔ دہشت گردی کا فروغ اسی کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔ اسلام اخوت و محبت، تحمل و بردباری کا علمبردار دین ہے مگر آج کچھ نادان دوستوں کی غلط کاریوں اور خود تراشیدہ تصورات کی وجہ سے ادیانِ عالم میں محبتوں کے امین اس دین کو دہشتگرد اور امن دشمن قرار دیا جارہا ہے۔ صوفیائے کرام کی تعلیمات کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں مذہب کے نام پر انسانوں میں دوریاں پیدا نہیں کیں بلکہ مخلوقِ خدا ہونے کی بنیاد پر ہر ایک کے ساتھ رواداری اور حسنِ سلوک کا معاملہ کیا۔ چنانچہ ان کے اس طرزِ عمل سے گلشنِ اسلام میں بہار آئی اور لوگ ایسے مخلص مبلغینِ اسلام کے طرزِ عمل، سیرت و کردار سے متاثر ہوکر دامنِ اسلام میں پناہ لینے لگے اور اس طرح اسلام انسانیت کے خیر خواہ ہونے کے باعث ایک آفاقی دین بن گیا اور چہار دانگ عالم میں دینِ محمدی کا پھریرا لہرانے لگا۔ برداشت کا درس دیتے ہوئے حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’بیٹا! برداشت کو اپنے اوپر لازم پکڑ اور شر کو دور کر۔ کلموں کے بہت سے ساتھی ہیں۔ جب تم سے کسی نے ایک کلمہ شرارت کا کہا اور تم نے اس کا جواب دیا تو اس کلمۂ بد کے اور شریر ساتھی آجائیں گے حتی کہ تم دونوں کلام کرنے والوں کے درمیان شرارت قائم ہوجائے گی‘‘۔
(فتح الربانی، صفحه: 109)
ارشاداتِ غوثیہ سے استفادہ کیونکر ممکن ہے؟
تعلیماتِ غوثیہ میں اخلاص کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اخلاص کے بغیر کوئی عمل عنداللہ مقبول نہیں ہوتا۔ اس لیے معاشرتی اصلاح کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہر فرد جو بھی نیکی کا عمل کرے وہ صرف اور صرف اخلاص اور للہیت سے اللہ کی خوشنودی کے لیے سرانجام دے۔
غوث اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تعلیمات میں دہشت گردی و انتہا پسندی کی شدید مذمت کی ہے۔ حضور غوث الاعظم سے عقیدت و محبت کا تقاضا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد آپس میں اخوت و محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرح زندگی بسر کریں کہ ہر طرف ایثار و قربانی کے پھول کھلتے نظر آئیں اور محبت کی مہکار معاشرے کے ہر فرد کے مشامِ جاں کو معطر کررہی ہو۔