امام نبھانیؒ اپنی کتاب سعادۃ الدارین میں فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر درود پڑھنا فرشتوں کا ذکر ہے جو جنت کے ارد گرد رہتے ہیں اور حضور ﷺ پر درود پڑھنے کی ایک برکت یہ ہے کہ جب بھی فرشتے یہ ذکر کرتے ہیں جنت کی وسعت بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے نہ تو فرشتے آپ ﷺ کے ذکر سے جدا ہوتے ہیں اور نہ جنت بڑھنے سے رکتی ہے یعنی وہ اپنے پیچھے جنت کو کھینچتے چلے جا تے ہیں اور جنت ان ملائکہ کے تسبیح کی طرف منتقل ہونے تک بڑھتی جائے گی۔
میں نے شیخ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ تسبیح اور دوسرے اذکار کے بجائے جنت درود شریف سے کیوں بڑھنے لگی؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس لیے کہ جنت در اصل نبی کریم ﷺ کے نور سے بنی ہے۔ پس اسے حضور ﷺ سے ایسے ہی محبت ہے جیسے بچے کو باپ سے ہوتی ہے اور جب وہ آپ ﷺ کا ذکر سنتی ہے تو اس میں چستی آ جا تی ہے اور وہ اڑ کر آپ کے پاس آنا چا ہتی ہے کیونکہ آپ سے اس کو سیرابی حاصل ہو تی ہے۔
پھر آپ نے چوپائے کی مثال دی جسے اپنی غذا، چارہ اور جو کا اشتیاق ہو اور وہ سخت بھوکا ہو، پھر اس کے پاس جَو لائے جائیں ، جب وہ ان کو سونگھے گا تو قریب ہو گا ،جب اس سے دور کیا جائے گا تو وہ بھی پیچھے پیچھے چلتا جائے گا یہاں تک کہ ہم اس کو پکڑ لیں گے۔ یہی حال ان فر شتو ں کا ہے جو جنت کے ارد گرد اور اس کے دروازوں پر حضور ﷺ کے ذکر اور درود میں مشغول ہوتے ہیں، پس اس کا شوق پیدا ہو تا ہے اور وہ ان کی طرف چل پڑتی ہے اور چو نکہ وہ اس کے چاروں طرف ہوتے ہیں لہذا جنت بھی چاروں طرف سے بڑھتی ہے۔
شیخ رضی اللہ عنہ نے فر مایا: اگر اللہ اس کے روکنے کا ارادہ نہ فرماتا تووہ حضور ﷺ کی ظاہری زندگی میں ہی دنیا میں ظاہر ہوجاتی اور جہاں آپ ﷺ تشریف لے جاتے وہ بھی آپ ﷺ کے ساتھ جاتی اور جہاں آپ ﷺ رہتے وہ بھی رہتی لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے آپ ﷺ کے ساتھ نکل آنے سے روک دیا تاکہ لوگوں کا آپ ﷺ پر ایمان با لغیب رہے۔
حضور ﷺ پر صلوٰۃ و سلام کا حکم مطلق ہے
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ سے عرض کیا:
یَا رَسُولَ اللّٰہِ، إِنِّی أُکْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَیْکَ فَکَمْ أَجْعَلُ لَکَ مِنْ صَلَوتِی؟ فقَالَ: مَا شِئْتَ، قُلْتُ: الرُّبُعُ؟ قَال: مَا شِئْتَ، وَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَیْرٌ لَکَ، قُلْت: النِّصْفُ؟ قَال: مَا شِئْتَ وَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَیْرٌ لَکَ قَالَ: الثُّلُثَیْنِ؟ قَالَ: مَا شِئْتَ وَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَیْرٌ، قَال: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، أَجْعَلُهَا کُلَّهَا لَکَ؟ قَالَ: إِذًا تُکْفَی هَمَّکَ، وَیُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ.
’’یارسول اللہ میں آپ پر درود پڑھتا ہوں تو کتنا وقت درود کے لیے مقرر کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا چاہو۔ میں نے عرض کیا: چوتھا حصہ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا چاہو، اگر درود کا وقت بڑھا دو تو تمہارے لیے بہتر ہے۔ میں نے کیا: آدھا وقت؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا چاہو، اگر درود کا وقت بڑھا دو تو تمہارے لیے بہتر ہے۔ میں نے کیا: دو تہائی وقت؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا چاہو لیکن اگر درود کا وقت بڑھا دو تو تمہارے لیے بہتر ہے۔ میں نے کہا: میں سارا وقت درود ہی پڑھوں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تب تو تمہارے غموں کے لیے کافی ہے اور تمہارے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔
(ترمذی، السنن، 4: 636، الرقم: 2457، کتاب صفة القیامة والرقائق والورع، باب ما جاء فی صفة أوانی الحوض)
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ خوش خوش تشریف لائے۔ فرمایا: جبریل میرے پاس تشریف لائے اور کہا: آپ (ﷺ) کا رب فرماتا ہے:
أَمَا یُرْضِیکَ یَا مُحَمَّدُ أَنَّهُ لَا یُصَلِّیَ عَلَیْکَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِکَ، إِلَّا صَلَّیْتُ عَلَیْهِ عَشْرًا، وَلَا یُسَلِّمَ عَلَیْکَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِکَ، إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَیْهِ عَشْرًا.
’’اے محمد ﷺ ! کیا آپ اس پر راضی نہیں کہ آپ کی امت میں سے جو کوئی آپ پر درود بھیجے میں اُس پر دس رحمتیں نازل کروں اور جو کوئی آپ پر سلام بھیجے میں اس پر دس سلام نازل کروں۔‘‘
(النسائی، السنن، باب الفضل فی الصلاۃ علی النبی، 3 :50، الرقم: 1295)
درود و سلام کے بغیر دعا قبول نہیں
حضرت فضالہ بن عبیدکہتے ہیں کہ نبی علیہ السلام تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا، نماز پڑھی اور دعا مانگی:
اَلّهُمَّ اغْفِرْلِیْ وَار حَمْنِیْ.
الہٰی مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اَعْجِلْتَ اَیُّهَا الُمصَلِّیْ
نمازی تو نے جلدی کی:
اِذَا صَلَّیْتَ فَقَعَدْتَّ فَاَحْمَدِ اللهَ بِمَا هُوَ أهْلُہ وَصَلِّ عَلَیَّ ثُمَّ ادْعُه.
جب نماز پڑھ لے تو بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان اس کی حمدو ثنا بیان کر، پھر مجھ پر درود بھیج۔ پھر اس سے دعا مانگ۔
کہتے ہیں کہ پھر ایک اور صاحب آئے، نماز پڑھی، اللہ کی حمد بیان کی اور نبی کریم ﷺ پر درود بھیجا۔ نبی علیہ السلام نے اس سے فرمایا:
اَیُّهَا الْمُصَلِّیْ اُدْعُ تُجَبْ.
(ترمذی، السنن، باب جامع الدعوات عن النبی، 5: 516، الرقم: 3476)
اے نمازی دعا مانگ! قبول ہو گی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اِنَّ الدُّعَآءَ مَوْقُوْف بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ لَا یَصْعَدُ مِنْهَا شَیْیٌ حَتیّٰ تُصَلِّیَ عَلیَ نَبِیِّک.
جب تک تم اپنے نبی کریم ﷺ پر درود نہ بھیجو بلاشبہ تمہاری دعا زمین وآسمان کے درمیان معلق رہتی ہے اور ذرہ بھر اوپر نہیں جا سکتی (قبول نہیں ہوتی)۔
(ترمذی، السنن، کتاب أبواب الصلاة باب ما جاء فی فضل الصلاة علی النبی، 2: 356، الرقم: 486)
ادائیگی قرض کے بعد سب سے بڑی عبادت
حضرت عبدالوہاب متقیؒ نے شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کو مدینہ طیبہ کی زیارت کے لیے روانگی کے وقت الوواع کرتے ہوئے فرمایا:
یہ بات ذہن میں رکھو اور آگاہ رہو کہ اس راہ میں ادائے فرض کے بعد کوئی عبادت حضور سیدِ کائنات ﷺ پر درود شریف پڑھنے کے برابر نہیں ہے، تمہیں چاہیے کہ اپنا سارا وقت اس میں صَرف کرو، کسی اور کام میں مشغول نہ ہو۔ عرض کیا گیا: اس کے لیے کوئی معین تعداد بھی ہے؟ فرمایا: یہاں عدد معین کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس قدر پڑھو کہ ہر وقت اسی سے رطب اللسان رہو حتیٰ کہ ان ہی کے رنگ میں رنگے جائو اور اس میں مستغرق رہو۔
آقائے دو جہاں ﷺ نے اس شخص کو بخیل قرار دیا جس کے سامنے آپ ﷺ کا تذکرہ ہو اور وہ آپ ﷺ پر درود شریف نہ پڑھے۔ ارشاد فرمایا:
اَلْبَخِیْلُ الَّذِیْ مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَه فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیّ.
بڑا کنجوس وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور اس نے مجھ پر درود نہ پڑھا۔
(ترمذی، السنن، کتاب الدعوات عن رسول الله باب فی دعاء النبی، 5: 551، الرقم: 5346)