حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مَنْ اَحَبَّ لِقَاء اللّٰهِ اَحَبَّ اللّٰهُ لِقَاءَ ه وَمَنْ کَرِهَ لِقَاءَ اللّٰهِ کَرِهَ اللّٰهُ لِقَاءَ ه.
(اللؤ لؤ والمرجان، حديث نمبر : 1719)
’’جو اللہ سے وصال کو پسند کرتا ہے، اللہ بھی اس کے وصال کو پسند فرماتا ہے اور جو اللہ سے وصال کو پسند نہیں کرتا اللہ بھی اس سے ملنا نہیں چاہتا‘‘۔
شرح و تفصیل
موت کا خیال انسان کے جسم و جاں پر بڑی ہیبت اور سراسیمگی طاری کر دیتا ہے، وہ خوف سے لرزنے لگ جاتا ہے اور اگر یہ پتہ چل جائے کہ موت سر پر کھڑی ہے اور کسی بھی وقت اسے دبوچنے والی ہے تو دل ڈوبنے لگتا ہے اور اس کے ہوش و حواس مختل ہو جاتے ہیں لیکن محبت ایک ایسا خوشگوار نشہ اور حسین رشتہ ہے جو موت کا خوف اور خدشہ ہی دل سے نکال دیتا ہے، اس کی آمد یا قرب کے تصور سے نہ اس کا دل دھڑکتا ہے نہ اس پر کوئی ہول طاری ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کسی قسم کی گھبراہٹ اور بے چینی محسوس کرتا ہے۔
محبت ایک ایسے جذبہ صادق اور خود رفتہ کردینے والی کیفیت کا نام ہے جو انسان کو اپنی ذات سے بیگانہ اور محبوب کی ذات میں فنا کر دیتی ہے، اسے محبوب کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی کہیں دل لگتا ہے، وہ ہر وقت اسی تصور میں ڈوبا رہتا ہے کہ کسی طرح جدائی اور ہجر و فراق کے یہ اذیت ناک لمحات ختم ہوں اور اسے محبوب تک رسائی نصیب ہو۔ اگر اسے پتہ چل جائے کہ موت اسے محبوب سے ملاسکتی ہے تو وہ برضا و رغبت موت کو بھی گلے سے لگانے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور اس میں ایسی خوشی محسوس کرتا ہے جو کسی کو دنیا جہان کے زخارف اور خزانے پا کر بھی حاصل نہیں ہوتی۔
حقیقت شناس اور وفا شعار اہل ایمان کی محبت کا مرکز اللہ تعالیٰ، اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اولیاء کرام اور پرہیزگار نیک مومنین ہوتے ہیں، چاہنے والے ان اعلیٰ ہستیوں کے ساتھ ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں اور سب کچھ دے کر بھی انہیں حاصل کرنا چاہتے ہیں اگر کسی بھی عاشق صادق کو یہ پتہ چل جائے کہ موت کے وقت اس کی نگاہوں سے مادی حجابات اٹھ جائیں گے اور وہ لازوال حسن حقیقی کا مشاہدہ کرے گا، اسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوگی اور اولیاء کرام کی ارواح اس کی روح کے استقبال کے لئے آئیں گی اور وہ سب کا دیدار اور ’’انوار کے جِلَو میں ان سے ملاقات‘‘ کرے گا تو وہ موت کے تصور سے ہراساں نہیں ہوتا بلکہ یہ تصور اس کے لئے راحت رساں اور خوشی کا پیغام بن جاتا ہے اور وہ شوق کے عالم میں بڑی بے چینی کے ساتھ اس کا انتظار کرنے لگ جاتا ہے تاکہ موت آئے اور اس کی جدائی کے یہ کٹھن لمحات ختم ہوں۔
یہ بات کہ اہل محبت، موت سے خوف زدہ نہیں ہوتے بلکہ بڑے اشتیاق کے ساتھ اس کا انتظار کرتے ہیں اور جب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوں اور موت کا وقت آجائے تو اس کے لئے باقاعدہ تیاری کرتے ہیں اور خوشی سے جان دیتے ہیں۔ اس دعوے کی تائید کے لئے چند ایمان افروز مثالیں پیش ہیں :
عیادت کے لئے خاتون جنت کی آمد
٭ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں۔
دعا النبی صلی الله عليه وسلم فاطمة ابنته فی شکواه الذی قبض فيها، فسار ها بشئی فبکت، ثم دعاها فسارها فضحکت، قالت : فسا لتها عن ذالک، فقالت : سَارَّنی النبی فاخبرنی : انه يقبض فی وجعه الذی توفی فيه، فبکيت، ثم سارنی فاخبرنی : انی اول اهل بيته اتبعه، فضحکت.
(صحيح بخاری، حديث نمبر : 3511)
’’جس مرض میں سرکار نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا اس وقت کی بات ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو یاد فرمایا، جب وہ تشریف لے آئیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کان میں کوئی راز کی بات کہی۔ آپ رونے لگ گئیں، پھر سرکار نے دوبارہ ان کے کان میں کوئی بات کہی تو ہنسنے لگ گئیں‘‘۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے اس رونے اور ہنسنے کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا :
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی مرتبہ مجھے بتایا کہ اسی مرض میں آپ کا وصال ہوجائے گا۔ جدائی کے تصور سے میں رونے لگ گئی، پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یہ راز کی بات بتائی کہ اہل بیت میں سے، میں سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچوں گی۔ یہ خوشخبری پا کر میں ہنسنے لگ گئی اور خوش ہوگئی‘‘۔
کہنے کی بات یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ کو موت کی خبر دی کہ اہل بیت میں سب سے پہلے تمہاری موت واقع ہوگی، مگر سیدہ رضی اللہ عنہانے گھبرانے اور پریشان ہونے کی بجائے خوشی کا اظہار فرمایا اور ہنسنے لگیں۔ وجہ یہی تھی کہ یہ موت جدائی کے لمحات ختم کرنے والی اور وصال محبوب کا ذریعہ تھی۔ بعد کے واقعات شاہد ہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدہ رضی اللہ عنہا بے حد افسردہ اور غمگین رہیں، مگر یہ تصور ان کی ڈھارس بندھاتا تھا کہ اہل بیت کرام میں سب سے پہلے ان ہی کی باری ہے، اس لئے وہ موت ہی کے انتظار میں رہتی تھیں اور ایک ایک دن گن گن کر گزار رہی تھیں بمشکل چھ ماہ گزار سکیں، جوں جوں وقت قریب آتا گیا، آپ کی خوشی بڑھتی گئی اور ہمہ وقت وجد و کیف اور سرور و مستی کی کیفیت طاری رہنے لگی، آخر وہ روزِ سعید بھی آگیا جس کا شدت سے انتظار تھا۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے وصال کی شان
٭ حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا نے حضرت سیدہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا کے وصال کی تفصیلات اس طرح بیان فرمائی ہیں :
اشتکت فَاطمة سلام اللّٰه عليها شَکواها التي قُبِضَتْ فيهِ، فکنت اُمَرِّضها فاصبحَت يوما کامثل مارَاَيتها في شکواها تِلْکَ قالت وَخرج عَلِيٌّ لِبعْضِ حَاجته فقالت : يَا اُمّهْ، اُسْکبي لِي غُسْلًا، فسَکبت لها غُسْلًا فاغْتَسَلَتْ کَاَحْسَنِ مارايتها تَغْتَسِل، ثُمَّ قالت : يا اُمّهْ اَعْطِيْنِیْ ثِيَابِیْ الجُدُدَ فَاَعْطَيْتُها، فَلَبِسَتْها، ثم قالت : يَااُمَّهْ، قَدِّمِیْ لِیْ فِراشِیْ وَسط البيت، ففَعَلْتُ واضطَجَعَتْ وَاسْتَقْبَلَتِ الْقِبلَةَ، وَجَعلَتْ يدها تَحْتَ خَدِّها، ثُمَّ قَالَتْ : يا اُمَّهْ، اِنِّیْ مقبوضة الآن، وَقَدْ تَطَهَّرْتُ فلا يَکْشِفنِیْ احد، فَقُبِضَتْ مَکَانَها فَجاءَ عَلِیٌّ رضی الله عنه فَاَخْبَرَتْهُ.
(اللؤ لؤ والمرجان، حديث نمبر : 1593)
’’جس مرض میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا وصال ہوا اس مرض میں، میں ہی ان کی تیمار داری کیا کرتی تھی ایک دن میں نے ان کو بڑی ہی شاندار اور بہترین حالت میں پایا، اس دن حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے کسی کام کے لئے باہر چلے گئے تھے، حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا نے مجھے فرمایا : امی جان! میرے لئے غسل کا پانی تیار کردیں، چنانچہ ان کی خواہش اور ہدایت کے مطابق میں نے غسل کا پانی تیار کردیا۔ انہوں نے بڑے اہتمام سے غسل فرمایا : پھر مجھے حکم دیا، اے امی جان! میرے نئے کپڑے مجھے دے دیں۔ میں نے حکم کے مطابق نئے کپڑے دے دیئے، انہوں نے زیب تن فرمالئے۔ پھر حکم دیا : امی جان! میرا بستر گھر کے درمیان کردیں۔ میں نے تعمیل کی۔ آپ رضی اللہ عنہا لیٹ گئیں اور رخ مبارک قبلہ کی طرف پھیر لیا اور اپنا ہاتھ مبارک رخسار مبارک کے نیچے رکھ لیا۔ پھر فرمایا : اے امی جان! میں اب اس دنیا سے رخصت ہورہی ہوں، میں نے غسل آخرت کرلیا ہے اس لئے مجھے کوئی نہ کھولے چنانچہ اسی جگہ آپ کی روح مبارک پرواز کرگئی۔ جب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے ان کو ساری تفصیل بتا دی‘‘۔
حضرت سیدہ خاتون جنت نے شاداں، فرحاں، عالم وجد و شوق میں ہنستے مسکراتے جان شیریں، جان آفرین کے سپرد کی۔ کیونکہ پتہ تھا محبوب ابا جان نبی الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جارہی ہیں، اس لئے موت انہیں محبوب اور بے حد عزیز تھی۔
ازواج پاک کا محبت بھرا سوال
٭ محبوب کی خاطر موت کے ساتھ محبت کی، ’’اسی واقعہ سے ملتی جلتی‘‘ ایک مثال اور بھی ہے۔
معلوم ایسا ہوتا ہے کہ سرکار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ نسبت و تعلق رکھنے والے تمام اہل محبت کے جذبات ایک جیسے تھے اور ان کے دل یکساں انداز میں دھڑکتے تھے تاآنکہ سوچ کے زاویئے بھی ملتے جلتے تھے، ایک نجی محفل میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں ایک ایسا پیارا سوال کیا جو ان کے پیار و محبت اور سرکار کے ساتھ قلبی وابستگی اور ان کے بے قرار جذبات کا بھی آئینہ دار تھا اور اس بات کی مضبوط دلیل تھا کہ اگر عاشق کو پتہ چل جائے کہ موت اسے محبوب تک پہنچاسکتی ہے تو وہ بڑے شوق سے مرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے بلکہ بے قراری کے عالم میں اس کا انتظار کرتا ہے تاکہ وہ آئے اور اسے محبوب کا قرب و دیدار نصیب ہو۔
اس محفل محبت و عقیدت میں ازواج پاک نے جو عجیب سوال کیا اس کی تفصیل بیان فرمانے والی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں : فرماتی ہیں :
اِنَّ بَعْضَ اَزْوَاجِ النّبیِّ صلی الله عليه وآله وسلم قُلْنَ لِلنَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم : اَيُّنَا اَسْرَعُ بِکَ لُحُوْقًا؟ قَالَ : اَطْوَلُکُنَّ يَدًا.
(اللؤ لؤ والمرجان : نمبر 1595)
’’ازواج پاک نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : آقا : جب آپ کا وصال مبارک ہوجائے گا تو سب سے پہلے ہم میں سے کون آپ کے پاس پہنچے گی؟ فرمایا : جس کا ہاتھ سب سے لمبا ہے‘‘۔
سوال کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ پوچھنا چاہتی تھیں کس کی موت پہلے واقع ہوگی تاکہ اسے پتہ چل جائے تو وہ خوشی منائے اور بے قراری سے موت کا انتظار کرے، سب کی خواہش تھی کہ پہلی خاتون وہی ہو اور سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے۔ اس سوال سے ظاہر ہوا، محبوب سے ملانے والی موت بھی محبوب ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ’’کانا‘‘ (تنکا) لے کر بیٹھ گئیں اور ایک دوسرے کے بازو ناپنے لگیں، تاکہ معلوم کرسکیں کس کا ہاتھ لمبا ہے بعد کو یہ راز فاش ہوا کہ لمبے ہاتھ سے مراد زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والی خاتون تھی۔ چنانچہ یہ اعزاز حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو نصیب ہوا۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی محبت
٭ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی دنیاوی زندگی کے آخری لمحات تھے، دیگر رشتہ داروں کے ساتھ ان کی زوجہ بھی وہاں بیٹھی ہوئی تھیں، جب پیارے شوہر کو جان کنی کے عالم میں دیکھا تو جدائی کے تصور سے نڈھال ہوگئیں اور اپنے غم و اندوہ کا اظہار اس طرح کیا :
وَاحُزْنَاہ! ’’آج میرے غم اور حزن و ملال کا کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا، بہت ہی غمگین ہوں‘‘۔
اس کا یہ دکھ بھرا جملہ سن کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اس کے اظہارِ غم کے برعکس، اپنی خوشی اور مسرت کا اس طرح اظہار فرمایا :
وَاطَرَبَاه! وَاطَرَبَاه! غَدًا اَلْقَی الْاَحِبَّهْ محمدًا وَّصَحَبَه.
’’آج میں کتنا خوش ہوں! میری خوشی کا کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا کیونکہ کل میں اپنے آقا و مولا جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ کے صحابہ کرام اور اپنے دوست احباب سے ملاقات کروں گا‘‘۔
گویا آپ نے اعلان فرمایا کہ جس موت سے پیاروں کا وصال نصیب ہو، وہ موت بھی محبوب ہوتی ہے۔