بین الاقوامی صورت حال کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ پوری دنیا مسلم ورلڈ اور نان مسلم ورلڈ میں تقسیم ہوچکی ہے اور مسلم بلاک کے حق میں توازنِ طاقت بگڑ چکا ہے جس کی وجہ مسلم بلاک کے حکمرانوں کی اپنی مصلحتیں، باہمی اختلافات اور وابستگیاں بھی ہیں۔ حالات اس طرح کے بن چکے ہیں کہ کوئی مخلص قوت، قیادت یا ملک، ملت اسلامیہ کے جسد میں نئی روح پھونکنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ نان مسلم ورلڈ نے ایسی فکرو پروگرام رکھنے والوں کے خاتمہ کے لئے طویل منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
آج عالمی سطح پر خام وسائل، ٹیکنالوجی، میڈیا، اکانومی، کلچر، تعلیم اور گلوبلائزیشن کی جنگ ہے۔ اب دنیا علاقائی یونینز، عالمی اتحاد، سی ٹی بی ٹی، سی ڈبلیو سی، ڈبلیو سی، ڈبلیوٹی او، گلوبلائزیشن اور یو این او کی طرف بڑھ رہی ہے اور پوری دنیا فرقہ وارانہ، مذہبی، نسلی اور لسانی تعصبات، انتہا پسندی، دہشت گردی، جنونیت، بنیاد پرستی اور پسماندگی و جہالت کے خلاف صف آرا ہوچکی ہے۔ اب دنیا انسانی حقوق، امن، جمہوریت، ترقی پسندی، مذہبی رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قانون کی حکمرانی کے ایجنڈے پر اکٹھی ہو رہی ہے۔
قیام امن کے تقاضے
ان حالات میں ایک ایسی قیادت ہی مسلم امہ کو بحران سے نکال سکتی ہے جو امت مسلمہ کو متحد کرکے مسلم و نان مسلم ورلڈ میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں ایک پل کا کردار ادا کرسکے اور تمام امور کو جنگ و جدل کے بجائے مذاکرات و افہام و تفہیم سے حل کرانے کا ملکہ رکھے لہذا مسلم امہ کو آج ایسی مسلم سکالر شخصیت کی قیادت کی ضرورت ہے جو سکالر، قانون دان، معتدل، وسیع النظر، وسیع القلب، وسیع الذہن، مصلح اور پراگریسو ہو اور ایسی ہمہ جہت شخصیت ہو۔ ۔ ۔ جو مذہب، اخلاقیات، معاشیات، سیاسیات، قانون و روحانیات میں اپنا اہم مقام رکھتی ہو۔ ۔ ۔ جو آئینی، قانونی، سیاسی اور پرامن جدوجہد پر یقین رکھتی ہو۔ ۔ ۔ جس کی ملکی، قومی و بین الاقوامی حالات پر گہری نظر ہو۔ ۔ ۔ جو دین اسلام کے زریں اصول اجتہاد، اجماع اور شورائیت کو تسلیم کرے اور اسوہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رہنمائی حاصل کرنے کا خصوصی وصف رکھتی ہو کہ آج مسلم امہ دار ارقم، ہجرت مدینہ، صلح حدیبیہ یا میثاق مدینہ جیسے کسی مرحلہ پر کھڑی ہے۔ ۔ ۔ مسلم امہ کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو کہ انقلابی فکر رکھتی ہو اور ہر سطح پر نظام کی تبدیلی کی نہ صرف مطالبہ کرتی ہو بلکہ نفاذ کی اہل ہو۔
تبدیلی نظام کے تقاضے
اس مرحلہ پر ہمیں انقلاب یعنی تبدیلی نظام کے تصور کو سمجھنا ہوگا۔ ملکی سطح پر تبدیلی نظام سے یہ مراد ہے کہ قرآن و سنت کی حاکمیت پر مبنی آئین و قانون کی حکمرانی ہو۔ ۔ ۔ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہو۔ ۔ ۔ عدلیہ بالادست اور آزاد ہو۔ ۔ ۔ احتساب کا مربوط نظام تشکیل پائے اور نظام انتخاب اس طرح تبدیل ہو کہ اہل الرائے اور متوسط طبقات کی پارلیمنٹ میں موثر نمائندگی ہو تاکہ ہر شخص کے لئے اسلام کی انقلابی تعلیمات کے مطابق خوشحال زندگی بسر کرنا آسان اور ممکن ہوسکے۔
امت مسلمہ کی سطح پر تبدیلی نظام سے مراد یہ ہے کہ اسلامی سربراہی کانفرنس ایک مضبوط اور مقتدر ادارہ کی صورت سامنے آئے، ایک متحدہ اسلامی بلاک معرض وجود میں آئے تاکہ دنیا میں امن عالم کے لئے طاقت کا توازن پیدا ہو، مسلم ممالک کو حقیقی آزادی میسر آئے اور دنیا میں مذہبی ہم آہنگی پیدا ہو۔
بین الاقوامی سطح پر تبدیلی نظام سے مراد ہے کہ مملکتیں اپنے معائدات کا احترام کریں۔ ۔ ۔ عالمی سطح پر پسماندگی اور جہالت کے خلاف مشترکہ جدوجہد ہو۔ ۔ ۔ UN کا چارٹر اور جنرل اسمبلی سپریم ہو۔ ۔ ۔ اور عالمی عدالت انصاف کا بول بالا ہو جو اسلام کے اصولوں کے تحت امن عالم، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی ضمانت فراہم کرے۔
جدید طریقہ ہائے انقلاب
جدید طریقہ ہائے انقلاب خونی نہیں بلکہ یہ شعوری و فکری سطح کا انقلاب ہے جس کے لئے ملکی سطح پر عوامی حمایت درکار ہوتی ہے۔ ۔ ۔ عالمی سطح پر سفارتی حمایت درکار ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اقتصادی و میڈیا کے محاذوں پر برتری درکار ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اب ریاستوں اور دنیا نے اداروں کے استحکام، امن و سلامتی اور حقوق انسانی کے تصورات کے ذریعے Rule of law کا نظام قائم کرنا ہے کیونکہ اب دنیا میں نظام اقتصادیات، میڈیا، ٹیکنالوجی، کلچر اور سفارتی جنگ کا دور ہے اور دنیا گلوبلائزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے۔
قیام امن کے لئے سفیر امن کی کاوشیں
ان حالات میں سفیر امن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مسلم امہ میں واحد شخصیت ہیں جو امت مسلمہ کو متحد کرکے مسلم و نان مسلم ورلڈ میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں ایک پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ۔ ۔ اور صحیح معنوں میں تمام امور کو جنگ و جدل کے بجائے مذاکرات و افہام و تفہیم سے حل کرانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے افکار میں اسلام کا وہ حقیقی تصور موجود ہے جس سے مغربی دنیا میں اسلام کو Good will ملے گی۔ ۔ ۔ مغربی اور اسلامی دنیا میں کھچاؤ ختم ہوگا کیونکہ آپ عالمی امن، حقوق انسانی اور مذہبی رواداری کے داعی ہیں۔
سفیر امن شیخ الاسلام مسلم امہ میں وہ منفرد قیادت ہیں جو مسلم امہ کو قرآن و سنت۔ ۔ ۔ بین الاقوامی مذہبی رواداری۔ ۔ ۔ انسانی حقوق اور عالمی امن کے تقاضوں پر متفق کرسکتے ہیں۔ ۔ ۔ نان مسلم ورلڈ کو عالمی امن۔ ۔ ۔ مذہبی رواداری۔ ۔ ۔ حقوق انسانی اور جمہوری تقاضوں کے مطابق پالیسی وضع کرنے پر قائل کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جہاں مسلم امہ کے لئے اسلامی دولت مشترکہ کے قیام کے علمبردار ہیں وہاں، عالمی سطح پر امن و سلامتی پر مبنی بین الاقوامی معاشرہ کی تشکیل کے بھی داعی ہیں۔
انسداد دہشت گرد ی پر خصوصی خطابات
سفیر امن شیخ الاسلام نے قیام امن اور انسداد دہشت گردی کی جدوجہد پر مبنی موضوعات پر متعدد خصوصی لیکچرز دیئے ہیں۔ جن میں سے چند ایک بطور مثال پیش نظر ہیں:
- جمہوری معاشرہ اور وسعت ظرف
- مساجد کے نام پر تفرقہ و تخریب کے مراکز
- اتحاد امت میں حائل مشکلات اور ان کا حل
- عالمی امن اور انسانی حقوق
- دہشت گردی اور عالمی امن
- دہشت گردی کے اسباب اور ان کا سد باب
- دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔ (بین الاقوامی استنبول کانفرنس)
- Does Islam teach terrorism (Canada)
- Renonesing Terror Regaining Peace (Birminghim)
قیام امن پر خصوصی تصانیف
سفیر امن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قیام امن اور انسداد دہشت گردی کی جدوجہد پر مبنی موضوعات پر خصوصی تصانیف مرتب کی ہیں۔ جن میں سے چند ایک بطور مثال پیش نظر ہیں:
- فرقہ واریت کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟
- میثاق مدینہ کی آئینی خصوصیات
- الحقوق الانسانیۃ فی الاسلام
- بنیادی انسانی حقوق
- غیر مسلموں کے حقوق
- انسانی حقوق کا عالمی چارٹر۔ خطبہ حجۃ الوداع
- انسانی حقوق کی تاریخی دستاویز۔ میثاق مدینہ
- حقوق نسواں
- مقدمہ سیرت الرسول
- Human Rights in Islam
کئی کئی گھنٹوں پر محیط درج بالا خصوصی لیکچرز اور کتب عالمی امن کے قیام، بین المذاہب ہم آہنگی و رواداری اور انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے شیخ الاسلام کی مثبت، حقیقی اور عملی سوچ کی عکاس ہیں جن سے راہنمائی لیتے ہوئے دنیا دہشت گردی کے آسیب سے نجات پاکر اس معاشرے کو امن و آشتی کا گہوارہ بناسکتی ہے۔
عملی کاوشیں
شیخ الاسلام نے عالمی دہشت گردی و قیام امن کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف اپنی زبان اور قلم کے ذریعے عالمی برادری کو واضح اور مثبت لائحہ عمل دیا بلکہ عملی طور پر بھی کئی ایسے اقدامات کئے جن سے نہ صرف بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں قابل قدر اضافہ ہوا بلکہ اسلام کی حقیقی اور واضح تعلیمات بھی نکھر کر سامنے آئیں۔ آیئے ان کاوشوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم (MCDF) کا قیام
سفیر امن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مسلم اور مسیحی راہنماؤں پر مشتمل مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم تشکیل دیا جس کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی اور مکالمہ کا فروغ قرار پایا۔ یہ فورم سفیر امن کی چیئرمین شپ اور ملک کے نامور بشپ کی رفاقت میں قیام امن کی کوششوں میں ایک دہائی سے سرگرم عمل ہے۔
کرسمس تقاریب کا خصوصی اہتمام
MCDF کے تحت کرسمس تقاریب تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر منعقد ہوتی ہیں جس میں پاکستان کی مسیحی برادری کے سرکردہ راہنما اور بشپ صاحبان شرکت فرماتے ہیں۔ اس موقع پر امن کی شمع روشن کی جاتی ہے۔
مسجد میں مسیحی وفد کی عبادت
سفیر امن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مسلم مسیحی برادری کی ایک تقریب کے دوران مسیحی برادری کو ان کی عبادت کا وقت آنے پر مرکزی سیکرٹریٹ کی مسجد منہاج القرآن میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نجران کے مسیحی وفد کی مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت کی سنت پر عمل کرتے ہوئے عبادت کی اجازت دی۔ جس سے اسلام کی اعلیٰ ظرفی کے پیغام کا حقیقی ابلاغ ہوا۔
بیرون ممالک مراکز امن
بین المذاہب ہم آہنگی اور قیام امن کے فروغ کے لئے دنیا بھر میں موجود منہاج القرآن اسلامک سنٹرز شب و روز سرگرداں ہیں جہاں مقامی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداران قیام امن اور بین المذاہب ہم آہنگی و رواداری کے فروغ میں منہاج القرآن کے کردار کا اعتراف کرتے اور انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں۔
عالمی راہنماؤں کے نام خصوصی مراسلہ
کچھ عرصہ قبل توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر پوری دنیا کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی جس کا پاکستان سمیت پوری دنیا میں شدید رد عمل دیکھنے میں آیا۔ اس موقع پر سفیر امن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے احتجاج کا پر امن طریقہ اپنایا اور اس سلسلے کی ایک خصوصی کاوش یہ کی گئی کہ عالمی رہنماؤں کے نام ایک خصوصی مراسلہ بھیجا جس کا عنوان تھا ’’دنیا کو تہذیبی تصادم سے بچایا جائے‘‘ ( A Call to prevent a clash of civilisations)۔ اس موقع پر دس لاکھ افراد کے دستخط کے فلوٹ کے ساتھ یہ مراسلہ اقوام متحدہ کو بھی ارسال کیا گیا۔ اس طرح تلخ حالات میں بھی پرامن احتجاج کی روایت پیدا کی گئی۔
احیاء تصوف اور سفیر امن
دنیا میں قیام امن اور بھائی چارہ کے فروغ کے لئے صوفیاء کا کردار کسی سے بھی پوشیدہ نہیں، اولیاء و صوفیاء کی حقیقی تعلیمات اور ان کے حسن کردار و اخلاق سے امت مسلمہ اور عالمی برادری کو باور کرانے کے لئے شیخ الاسلام نے دروس تصوف کا آغاز کیا اور آپ کی بے شمار کتب اورخطابات اس حوالے سے معاشرے میں اپنا اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
فرقہ واریت کے خاتمہ کی جدوجہد
سفیر امن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی تحریک کے آغاز سے ہی مسلم معاشرے میں قیام امن کے لئے اتحاد امت کے لئے جدوجہد شروع کی اس پر آپ کے لاتعداد خطابات اور تصانیف موجود ہیں جن میں ’’فرقہ واریت کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے‘‘ قابل ذکر ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو مسلم امہ میں یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ آپ نے برصغیر میں جاری سنی شیعہ فسادات کو کافی حد تک ختم کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔
سیاسی جدوجہد
سفیر امن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ملک میں قیام امن کے لئے عوامی حقوق کی جدوجہد پر مبنی سیاسی پارٹی ’’پاکستان عوامی تحریک‘‘ تشکیل دی اور عوامی حقوق پر مبنی منشور ’’عوام سب سے پہلے‘‘ (Putting people first) پیش کیا۔ سفیر امن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بطور قانون دان، آئینی، عدالتی، قانونی، انتخابی، اقتصادی اور سماجی ریفارمز کے کئی پیکجز پیش کئے جو ریکارڈ پر ہیں۔
امن پسند کارکنان
سفیر امن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی تحریک کے آغاز سے ہی تحریک کا لائحہ عمل اتحاد امت اور قیام امن تشکیل دیا جس کی بدولت تحریکی کارکنان میں Democratic, Broader, Balanced, Progressive, Moderate اور Tolerance پر مبنی Vision تشکیل پایا۔ یہی وجہ ہے کہ سفیر امن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے کارکنان Fundamentalist, Fanatic, Extremist یا Terrorist نہیں ہیں بلکہ اپنی سیرت و کردار کے ذریعے ان برائیوں کے خلاف ہر سطح پر محاذ آراء ہیں۔
شیخ الاسلام کی خصوصی خدمات
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تجدید دین کا علمی و فکری کام کرنا ہے۔ ۔ ۔ اسلام کی حقیقی روح کو مغربی دنیا میں متعارف کروانا ہے۔ ۔ ۔ اور امت مسلمہ کو متحد کرکے مسلم و نان مسلم ورلڈ میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں ایک پل کا کردار ادا کرنا ہے۔ اس ضمن میں آپ نے صدیوں اورنسلوں کا اثاثہ تیار کردیا ہے جس میں 80 ممالک میں تحریک کا نیٹ ورک اور تعلیمی ادارے۔ ۔ ۔ منہاج انٹرنیشنل یونیورسٹی۔ ۔ ۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن۔ ۔ ۔ منہاجین سکالرز۔ ۔ ۔ گوشہ درود۔ ۔ ۔ 572 ماڈل سکولز و پبلک سکولز۔ ۔ ۔ اعتکاف گاہ۔ ۔ ۔ 1300 علمی کتب و مسودات۔ ۔ ۔ 5000 موضوعات پر آڈیو و ویڈیو کیسٹس۔ ۔ ۔ ہزاروں لائبریریاں۔ ۔ ۔ دعوت و تربیت کا نظام۔ ۔ ۔ انٹرنیٹ ویب سائٹس۔ ۔ ۔ تبدیلی نظام کا تصور انقلاب۔ ۔ ۔ تعلیمی انقلاب و سماجی بہبود کے منصوبہ جات، عرفان القرآن، مجموعہ احادیث (منہاج السوی، جامع السنہ) و سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قابل ذکر ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر اعتراف
سفیر امن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو دنیا بھر میں ایک عظیم سکالر اور اتحاد امت کے داعی، بہبود انسانیت، رواداری، بیدار شعور، انسانی آزادی اور عالمی امن کے سفیر اور پیامبر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ آپ کی علمی، فکری اور سماجی خدمات کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔ امریکی بائیو گرافیکل انسٹیٹیوٹ نے آپ کو ’’بیسویں صدی کی نمایاں ترین شخصیت‘‘ (Outstanding Man of 20th Century) قرار دیا ہے اور دنیا کے سرکردہ دانشور و مفکر کے طور پر آپ کا نام میلینئیم بائیو گرافیکل ڈکشنری میں شامل کیا ہے۔ ۔ ۔ نیز آپ کو تحقیق و تصنیف اور انسانی بہبود کے لئے کاوشوں پر دوسرے میلینئیم کے خاتمہ پر پانچ سو موثر ترین رہنماؤں میں شامل کیا ہے۔ ۔ ۔ آپ کی تعلیمی و سماجی خدمات پر انٹرنیشنل بائیو گرافیکل سنٹر کیمبرج نے آپ کو سال 99 - 1998 کی شخصیت (Man of the Year 1998-99) قرار دیا ہے۔ ۔ ۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی دہشت گردی کے خاتمہ اور قیام امن کے لئے کوششوں کا عالمی اعتراف برطانوی دارالعوام (House of Commons) کی چھٹی رپورٹ آف سیشن 03 - 2002 میں کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ بشپ آف ملتان ڈاکٹر اینڈ ریو فرانسس نے کیتھولک چرچ کی طرف سے قیام امن اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کی خدمات کے اعتراف میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو امن ایوارڈ 2006 (Peace Award) پیش کیا۔ ۔ ۔ سفیر امن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحریک کے مقاصد میں اتحاد، امن، رواداری اور وسعت نظری کو نمایاں کردار عطا کیا ہے۔ یہ مقاصد تحریک کے ممبر شپ فارم پر بھی درج ہیں۔ سفیر امن اور ان کی تحریک منہاج القرآن کی ان خدمات کے اعتراف کے طور پر ملک پاکستان کی متعدد جماعتوں کے مرکزی قائدین بھی تحریک منہاج القرآن کی لائف ممبر شپ حاصل کرتے ہوئے بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ اور فرقہ واریت و دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کے لئے تحریک سے اظہار یکجہتی کے الفاظ ممبر شپ فارم پر اپنے قلم سے تحریر کرچکے ہیں۔ آپ کی قائم کردہ تحریک منہاج القرآن کا نیٹ ورک آج دنیا کے 80 سے زائد ممالک میں قائم ہے آپ نے پاکستان میں عوامی تعلیمی منصوبہ کی بنیاد رکھی جو غیر سرکاری سطح پر دنیا بھر کا سب سے بڑا تعلیمی منصوبہ ہے۔ قائد تحریک کا یہ عزم ہے کہ سر سید نے قوم کو ایک علی گڑھ دیا تھا ہم قوم کو سو علی گڑھ دیں گے۔