خالقِ ارض و سماء نے انسانیت کی ابدی فلاح اور نجات کے لئے انبیائے کرام اور رسل عظام کو مبعوث فرمایا۔ انسان کو راہ عمل کی صورت میں ایک واضح منشور اور نصب العین بھی عطا کردیا۔ لائحہ عمل کی صورت میں ضابطہ حیات بھی وضع فرمایا۔ اس کے بعد معاشرے میں عدل و انصاف کی عملی اقدار کی پاسداری کے لئے (Role Model) یعنی اعلیٰ کردار اور اوصاف سے متصف بزرگ و برتر ہستیاں بھی بھیج دیں۔ انسان کو شعور و آگہی کی حسین اقدار کا حامل بناکر اپنی بندگی کا شعور بھی عطا کیا، جس کا مقصد و مدعا عرفانِ خداوندی کی معرفت اور ادراک کا حصول ہے۔ انہی بلند ترین مقاصد اور ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے انبیاء و رسل، صلحا، صدیقین، اولیاء اور صوفیاء ہر دور میں انسان کو زندگی کے حقیقی تصورات اور مقاصد اصلیہ کی تکمیل کے حصول کی تلقین کرتے رہے۔ لفظ انسان کا ایک مادہ ’’نسیان‘‘ بھی ہے جس کا مفہوم صوفیاء یہ بیان کرتے ہیں کہ انسان نسیان سے ماخوذ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے معبود حقیقی کی یاد اور ذکر میں اس قدر مگن اور مستغرق ہوجائے کہ اس لذت اور سرور ابدی کی چاہت و محبت اسے ساری کائنات سے بے نیاز کردے اور وہ خدا کی یاد میں ہر مادی شے کی چاہت اور الفت کو بھلادے پھر وہ اس قدر اللہ تعالیٰ کے حسن کے جلوؤں میں گم ہوجائے کہ جس شے کا مشاہدہ کرے اسے اس میں خدا تعالیٰ کا حسن اور جلوہ دکھائی دے بقول شاعر۔
جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ انسان حق کی خاطر سب کچھ بھول جائے لیکن اپنی ذات، اپنے کردار اور قول و فعل پر محاسبانہ نگاہ رکھے کیونکہ اس کا ہر طرز عمل معاشرے کے دوسرے لوگوں کے لئے آئینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس حقیقت کی طرف علامہ اقبال نے یوں اشارہ کیا ہے کہ
میرے دیدار کی اک یہی ہے شرط
کہ تو پنہاں نہ ہو اپنی نظر میں
یعنی اپنے شب و روز اور سیرت و کردار کو ایسا متوازی اور مستحکم کرلو کہ کسی مخرب الاخلاق حرکت کا شائبہ تک نہ ہو باالفاظ دیگر:
The only condition for seeing me is, that you should not be hidden from your own sight.
(تصور و تصویر ماخوذ من ارمغان حجاز از علامہ محمداقبال)
اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم پیامبروں کو انسانیت کے شعور کو جلا بخشنے کا فریضہ سونپا۔ ہر نبی اور ہر رسول نے اپنے اپنے زمانے میں اس مقصد جلیلہ کو اپنے رب کی رضا کے عین مطابق نبھایا۔ ہر کسی کو الگ الگ مقام و مرتبہ عطا ہوا۔ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام میں سے 313 کو منصب رسالت عطا کیا گیا۔ ان 313 رسل عظام میں سے 5 کو اولوالعزم کا خطاب دیا گیا پھر ان 5 میں سے 4 کو آسمانی کتب عطا کی گئیں اور پھر ساری کائنات کے حسن، فضیلت، علم اور تمام فضائل و مراتب کا حتمی اور آخری تاج حضور خاتم الانبیاء والمرسلین جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کیا گیا جو ساری انسانیت کے لئے رہبر، رہنما اور انسانی حقوق کے عظیم داعی بن کر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور سیادت و قیادت نہ صرف مسلمانوں بلکہ جمیع عالم انسانیت کے لئے رہتی دنیا تک ایک روشن راہ عمل اور مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
مشہور مستشرق پروفیسر ہنری جونز (Henry Jones) اپنی شہرہ آفاق کتاب (The vision of Islam) میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت کے ضمن میں ایک باب رقم کرتے ہوئے (The leadership of Muhammad (SAW) کے تحت لکھتا ہے کہ
(Muhammad (SAW) was not only a commander of his companians but also leader of all the nations in the arab society)
’’یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف اپنے پیروکاروں کے قائد تھے بلکہ پورے عرب معاشرے کی اقوام کی سیادت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں تھی‘‘۔
گویا مغربی مفکرین بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قائدانہ اور مدبرانہ اوصاف حمیدہ کے قائل نظر آتے ہیں۔ اس امر کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دعوت الی اللہ کی بنیاد اپنے بے مثل و بے مثال (Unchallengeable) کردار اور سیرت کو بنا کر پیش کیا۔ تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد و عادل ہیں کہ عرب کی جاہل اور اخلاقی اقدار سے نا آشنا قوم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردار کو ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک عظیم قانون دان، انسانی حقوق کا داعی، مساوات کا علمبردار، رواداری کا پیامبر مانتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیادت کی بنیاد اعلیٰ ترین کردار اور صاف شفاف شخصیت کو قرار دیا اور زندگی کے ہر شعبے میں قیادت کے فرائض انجام دیئے۔
معروف مغربی مفکر ڈاکٹر پیٹر سوفٹ (Peter swift) اپنی کتاب (The revolutionary leaders) کے تحت رقم کئے گئے باب (Muhammad and his way) میں لکھتا ہے کہ
According to my view there is a man who has presented the real political structure in the state of madina for equal based society is Muhammad (SAW)
’’یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے کی ریاست میں ایک عملی سیاسی نظام کی بنیاد رکھی جس میں ہر فرد کو مساویانہ حقوق حاصل تھے‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت میں پروان چڑھنے والی قیادت کی نرسری سے ہر میدان کے شہسوار تیار ہوکر نکلے جنہوں نے ہر میدان میں انسانیت کی فلاح کے لئے اپنی گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ آج بھی دنیا کے بڑے بڑے مفکرین، فلاسفرز، ادیب اور دانشور چاہے وہ کسی بھی مذہب یا گروہ یا علاقے سے تعلق رکھتے ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیار کردہ قیادت کے کارناموں کے معترف نظر آتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل فہم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر شخص کی طبیعت اور اس کی خوابیدہ صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے اُس میدان کا شہسوار بنایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں قیادت کے جمیع اوصاف مجتمع کردیئے۔۔۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں عدل و انصاف کی اقدار منتقل کردیں۔۔۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو حلیم و بردباری اور سخاوت کا آئینہ دار بنادیا۔۔۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ذات میں علوم و معارف، شجاعت و بہادری اور طریقت و امامت کے جوہر جمع کردیئے۔۔۔ اسی طرح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے حفظ قرآن کا فیض حاصل کیا۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حدیث و تفسیر کے فنون کی مہارت حاصل کی۔۔۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے تلوار کے جوہر اور فن سپہ گری حاصل کیا۔۔۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے فقر و غنا اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز حق بلند کرنے کی طاقت حاصل کی۔۔۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے غلامی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب سیکھے۔۔۔ الغرض کوئی بے ذر سے ابوذر رضی اللہ عنہ بن گیا۔۔۔ کوئی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے دائمی القابات سے نوازا گیا۔۔۔ کوئی حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی صورت میں سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پائے جانے والے جوہر شہادت کی تکمیل بنے۔۔۔ کوئی حمزہ، عمار اور حنظلہ رضی اللہ عنہم کی صورت میں اپنی جان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نچھاور کرتے نظر آئے۔۔۔ یعنی جس کی شخصیت میں جو جوہر نکھر کے سامنے آتا اسے اسی جوہر کی تکمیل کا فیض عطا کردیا۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیار کردہ قیادت کی لڑی نے دنیا کو امن، انصاف اور رواداری کے عملی نظام کے عظیم تصورات سے آشنا کیا۔
جرمنی کی میونخ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے سربراہ جان ایلیٹ (John Elate) نے اپنی کتاب (Revision of History) میں لکھا کہ
The practical example of justice and equality can be seen in the period of Umar (ra).
’’یعنی انصاف اور مساوات کی عملی مثال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں دیکھی جاسکتی ہے‘‘۔
الغرض امت مسلمہ میں ہر دور میں داعی اور مصلح آتے رہے اور انسانیت کو علوم و آگہی کا شعور دیتے رہے اور امت مسلمہ کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو ساحل مراد تک پہنچاتے رہے۔ ہر داعی نے اپنی بساط کے مطابق دنیا کو امن اور محبت کے عنوانات سے روشناس کیا اور اسلام کی اعلیٰ اخلاقی اقدار کو پروان چڑھایا۔ اللہ تعالیٰ سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو بحال کرنے کا فریضہ صوفیاء نے انجام دیا۔۔۔ دین اسلام کی احیاء اور اسے عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے مجدد دین نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔۔۔ اسلام کی فکری اور اخلاقی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے مسلمان مفکرین نے میدان عمل میں خدمات انجام دیں۔۔۔ اسلام کی سائنسی تعلیمات اور اساس کے تحفظ کے لئے مسلمان سائنسدانوں نے اپنا کردار ادا کیا۔۔۔ خلافت راشدہ کے دور میں اسلام کے نظام حکومت اور اس کی تعلیمات کو منہج نبوت پر گامزن رکھا گیا۔ کربلا کے میدان میں اسلامی نظام کی بقا اور احیاء کے لئے امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کرکے رہتی دنیا تک ظلم و جبر اور منافقت کے خلاف ڈٹ جانے کا عملی درس دیا۔۔۔ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے ایک مساویانہ نظام کی عملی شکل پیش کرکے قیامت تک ایک درخشندہ مثال قائم کردی۔۔۔ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے اسلامی قانون اور فقہ کو مدون کیا۔۔۔ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے عبادت کے حقیقی تصور کو واضح کیا۔۔۔ امام جلال الدین سیوطی رضی اللہ عنہ نے علم کو معرفت کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا۔۔۔ مولانا جلال الدین رومی رضی اللہ عنہ نے تصوف اور سلوک کا عملی نمونہ مثنوی کی صورت میں پیش کیا۔۔۔ امام غزالی رضی اللہ عنہ نے یونان کے فلسفے کو رد کرکے اسلامی فلسفے اور فکر کا تحفظ کیا۔۔۔ امام نبھانی، امام قسطلانی، امام آلوسی، امام سرخسی، امام نووی، امام مسلم، امام بخاری رحمہم اللہ جیسے محدثین نے امت مسلمہ کو علمی فیضان کے چشموں سے سیراب کیا۔۔۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے وقت کے جابر سلطان کے سامنے بھی اسلامی اصولوں کی بات کی اور قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔۔۔ حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے امت مسلمہ کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اسلام کی تعلیمات کو عملی طور پر اپنانے کا درس دیا۔۔۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رضی اللہ عنہ نے تعلیمی افکار اور نظریات کی اساس کی احیاء کا بیڑہ اٹھایا۔۔۔ حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ عنہ نے خالص توحید کے تصور کو اجاگر کیا۔۔۔ امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ نے امت مسلمہ کے دلوں میں محبت و عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ روشن کئے اور عظمت و ناموس مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ کا علم بلند کیا۔۔۔ علامہ اقبال نے امت مسلمہ کی عروق مردہ میں ایک ولولہ تازہ بھر دیا اور اپنے کلام کے ذریعے امت مسلمہ کو فکر اور تدبر کا شعور بخشا۔۔۔ پیر مہر علی شاہ رضی اللہ عنہ نے تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ کا علم تھاما۔
الغرض ہر دور میں اپنے اپنے میدان کے شہسوار آتے رہے اور مسیحائی کا حق ادا کرتے رہے۔ ہر دور میں امت کسی ایک میدان میں کمزور ہوتی تو وقت کا امام، مجدد یا مفکر اس پہلو پر امت کی تشنگی بجھادیتا اور احیائے دین کا فریضہ انجام دیتا۔
آج اکیسویں صدی میں جب عالم اسلام ہر محاذ پر شکست خوردہ نظر آتا ہے۔۔۔ شرق تا غرب یاس و قنوطیت کے گہرے بادل نظر آتے ہیں۔۔۔ کشمیر کی آہ و بکا سے لے کر فلسطین کے بہتے لہو کے دریا تک۔۔۔ سقوط کابل سے لے کر بغداد میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی تک۔۔۔ بوسنیا میں معصوم مسلمانوں کی اجتماعی قبروں سے لے کر سوڈان کے افلاس زدہ مسلمانوں کی پکار تک۔۔۔ ہر طرف آہوں اور سسکیوں کے درد ناک مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ فحاشی و عریانی نوجوان نسل کے دلوں سے اخلاقی و روحانی اقدار کو مٹاچکی ہے۔ جدت پسندی اور روشن خیالی کے نظریات اسلامی شعائر سے دوری کا باعث بن رہے ہیں۔ امت مسلمہ یا تو صرف مذہبی علوم تک مقید ہے یا صرف جدید علوم کی حامل نظر آتی ہے۔ گویا عالم اسلام انفرادی سے لے کر اجتماعی سطح تک زوال اور انحطاط کی عمیق گہرائیوں میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ عالمی طاغوتی اور استعماری طاقتیں توہین قرآن سے لے کر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت تک ہر محاذ پر اسلامی افکار اور شعائر کو نشانہ بنارہی ہیں۔ ائمہ کرام کے روضوں پر بمباری ہو یا ابو غریب جیل میں نہتے مسلمانوں پر تشدد کے وحشت ناک مناظر، جہاد کو دہشت گردی کا ٹائٹل دینا ہو یا مسلمانوں کے تیل کے ذخائر پر قبضہ عالم کفر ہر محاذ پر جارح اور پر تشدد دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت عالم اسلام کی نام نہاد قیادت صہیونیت کی آلہ کار نظر آتی ہے لیکن پھر بھی اس ساری صورت حال میں اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
اقبال جیسے مسیحا نے امت مسلمہ کو پہلے ہی تمام خطرات سے آگاہ کرکے ان سے نمٹنے کا طریقہ بتادیا تھا۔ اقبال نے کہا تھا کہ
تہران ہو اگر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
آج پھر ایک مسیحا کی تلاش ہے جو امت مسلمہ کو ہر محاذ پر فتح یاب کرسکے۔۔۔ علمی، فکری، اخلاقی اور سائنسی علوم پر دسترس کے ساتھ ساتھ عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والا ہو۔۔۔ قانون جانتا ہو تاکہ عالم اسلام کا کیس عالمی سطح پر لڑسکتا ہو، جو مسیحائی کا حق ادا کرتے ہوئے امت مسلمہ کو سوئے منزل لے چلے۔
اس وقت ایک مسیحا موجود ہے جو عالم اسلام کو عروج و تمکنت اور وقار و عزت دلا سکتا ہے۔ اس مسیحا کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے اور ہر پہلو سے امت کا حقیقی رہنما نظر آتا ہے۔ اس شخصیت کے بارے میں شاعر کی زبان میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ
جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہوں
وہی چہرہ میرے شہر میں مجھ کو لادے
یہ شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہے جو بلاشک و شبہ اور بلا مبالغہ امت مسلمہ کا حقیقی مسیحا ہیں۔
مسیحا کسے کہتے ہیں۔۔۔؟ مسیحا اسے کہتے ہیں جو۔۔۔ کسی قوم، ملک یا ملت کو مشکلات کے بھنور سے نکال کر ساحل مراد تک پہنچادے۔۔۔ امت کی انفرادی سے لے کر اجتماعی سوچ اور فکر کی تجدید نوکرے۔۔۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اس عظیم عالمی تحریک کے بانی ہیں جس تحریک نے اتحاد امت اور امن عالم کی نقابت کا عملی طور پر حق ادا کیا۔ جس کا واضح ثبوت دنیا کے 80 سے زائد ممالک میں تحریک منہاج القرآن کا منظم نیٹ ورک ہے، جہاں سینکڑوں اسلامک سینٹرز میں اسلامی تعلیمات کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے پیش کیا جاتا ہے اور وہ نوجوان جو رقص و سرور اور شباب و کباب کا دلدادہ تھا اسے میخانہ محبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شراب کی لذتوں سے آشنا کردیا۔
اس وقت بیرون دنیا میں منہاج القرآن کے تربیت یافتہ سکالرز اسلام کی علمی، فکری اور سائنسی تعلیمات دے رہے ہیں۔ پورے ملک میں نوجوان نسل کے دلوں سے حرص و ہوس نکال کر عشق و محبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ روشن کررہے ہیں۔ وہ نوجوان جو کل ایک ناکارہ انسان کے روپ میں سستی اور بددلی کا شکار تھے وہ آج ایک صحافی، مدبر، دانشور اور ادیب کے روپ میں ملک و ملت کی خدمت کرتے دکھائی دیتے ہیں اور مستقبل کی قیادت کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انگلش، اردو اور عربی میں سینکڑوں تصانیف رقم کرکے اسلامی تعلیمات کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے امت مسلمہ کو اسلام کی اصل روح سے آشنا کیا۔۔۔ آپ نے قرآنی فلسفہ انقلاب لکھ کر فکر غزالی و رومی کے تسلسل اور تجدید کی عملی شکل پیش کی۔۔۔ آپ نے شاہ ولی اللہ اور سر سید کے تعلیمی افکار کی رو سے تعلیم اور عمل اور جدید و قدیم تعلیم کے امتزاج کا عملی تصور دیا۔۔۔ امام احمدرضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ کے عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصور کواپناتے ہوئے اپنے ہزاروں خطابات کے ذریعے محبت و عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فروغ اور ناموس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کیا۔۔۔ تحفظ ختم نبوت کے لئے علمی اور فکری کام کیا۔۔۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 12 جلدیں رقم کرکے اسے جدید علمی اور سائنسی انداز میں پیش کیا۔۔۔ اخلاقی اور روحانی اقدار کے فروغ کے لئے اسلامی تربیتی نصاب اور منہاج الافکار رقم کیں۔۔۔ الغرض مسئلہ تحدید ملکیت ہو یا تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ ویمبلے ہال امن کانفرنس ہو یا تقریر و تحریر ہر میدان میں مسیحا ہونے کا عملی ثبوت دیا۔۔۔ پوری دنیا میں تنظیمی نیٹ ورک کے ذریعے اسلام کو دین امن کے طور پر متعارف کروایا۔۔۔ عرفان القرآن کی صورت میں جدید علمی اور فکری اسلوب میں قرآن مجید کا منفرد ترجمہ پیش کیا۔۔۔ منہاج السوی کی صورت میں عقائد کا تحفظ کیا۔۔۔ اسلام اور جدید سائنس لکھ کر سائنس کے جدید تصورات کو قرآن و حدیث سے ثابت کیا۔۔۔ وفاقی شرعی عدالت میں مسلسل 3 دن دلائل دے کر یہ ثابت کیا کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزا صرف موت ہے اور اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی جو کہ اس وقت قانون بن چکا ہے۔۔۔ عظیم تعلیمی نیٹ ورک اور ویلفیئر کے پراجیکٹ کی صورت میں دکھی اور تشنہ انسانیت کو علم اور وسائل مہیا کئے۔۔۔ تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھ کر امت مسلمہ کی ہر محاذ پر خدمت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔۔۔ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد ایک علمی اور فکری مراسلہ تمام سفارت خانوں اور یو این او کے دفاتر میں بھیجا جس میں عالم مغرب کو بتایا گیا کہ ان کے اپنے قوانین کی رو سے کسی بھی مذہب کے پیشوا کی اہانت قانونی جرم ہے تو عالم مغرب کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہئے۔ اس وقت مختلف موضوعات پر آپ کی کتابیں زیر طبع ہیں اور تفسیر قرآن تکمیل کے مراحل میں ہے۔۔۔
آپ نے امت مسلمہ کے لئے ایک صدی کے لئے علمی، فکری اور اخلاقی بنیاد فراہم کرکے ایک عظیم کام کردیا ہے۔ اس وقت ملک اور بیرون لاکھوں لوگ آپ کے مشن سے وابستہ ہوکر اسلام کو عصر حاضر میں دین امن کے طور پر متعارف کروارہے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عظیم قائد کا دست و بازو بن کر امت مسلمہ کو عروج و تمکنت سے ہمکنار کیا جائے وگرنہ یہ موقع شاید آخری موقع ہو۔ قیادت موجود ہے اور علمی کام بھی موجود ہے وسیع تر تنظیمی نیٹ ورک موجود ہے۔۔۔ ضرورت صرف عزم اور ارادے کی ہے اور یہی صورت حال ہے کہ
اک مبصر کا تبصرہ سن کر
ذہن ہر لمحہ ارتعاش میں ہے
امت قیادت کی تلاش میں تھی
قیادت اب امت کی تلاش میں ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم مسیحا کا دست و بازو بن کرمصطفوی انقلاب کے قافلے کا تیز رو سالار بنادے تاکہ دنیا پھر سے ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ کے ادوار کے مسیحاؤں کی جھلک دیکھ سکے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ اس عزم اور نعرے کے ساتھ کہ
جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
یہاں کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا