کسی بھی شخصیت کو جانچنے کے لیے اُس کی زندگی کے مختلف گوشوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں جن شخصیات نے نام کمایا ہے تو انہوں نے کوئی نہ کوئی ایسا کارنامہ ضرور سرانجام دیا جو انہیں صدیوں بعد بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت ہیں جنہوں نے ایک یا دو نہیں بلکہ ہر شعبۂ زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔آپ نے جب سیاست میں قدم رکھا تو پارلیمنٹ، ٹی وی چینلز اور عوامی سطح پر اپنے کیا بیگانوں سے بھی ایک ہی جملہ سننے کو ملتا ہے کہ اس نظامِ سیاست کے بارے میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے درست کہا تھا۔ گویا آپ نے ہمارے ملک کے درندہ صفت سیاسی و حکومتی نظام کے چہرے سے پردہ ہٹا کر اُس کی اصل شکل اربابِ عقل و دانش اور عوام الناس کو دکھائی اور وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے کہے ہوئے الفاظ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
جب علمی میدان میں آپ کی خدمات کو ملاحظہ کریں تو اس اندھی تقلید اور شخصیت پرستی کے دور میں جہاں مخالفین، قرآن و حدیث سے پیش کی ہوئی بات کو بھی ردّ کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے، آپ نے اس مفاد پرست دور میں امت کو مسالک و تفرقہ بازی اور مذہبی منافرت کی دلدل سے نکال کر اُن کا ناطہ قرآن و حدیث سے بھی جوڑ دیا اور علمِ تصوف کے چہرے پر مفادات کی پڑی گرد کو بھی دور کیا۔ آپ نے تصوف کو بے عملی اور محلات نما خانقاہوں سے نکال کر میدانِ عمل میں لا کھڑا کیا اور عوام الناس کے دلوں میں دین اسلام کے اہم جزء تصوف کے بارے میں پائی جانے والی نفرتوں کو محبتوں میں بدل دیا۔پابندیٔ شریعت یعنی ظاہر سنوارنے کے ساتھ ساتھ تزکیۂ نفس، تصفیۂ قلب اور اخلاقِ حمیدہ جیسی صفات کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ احیائے تصوف کے علمی و عملی دونوں پہلوؤں پر آپ کی کاوشیں ناقابلِ فراموش ہیں کیونکہ دینِ اسلام کے ان تینوں پہلوؤں (شریعت، طریقت اور حقیقت) پر عمل کے ذریعے ہی اُمت اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکتی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے باور کرایا کہ تصوف حدیثِ جبریل کے مطابق ’احسان ‘ کی عملی تفسیر کا نام ہے۔دنیا کی چکا چوند اور مادی آلودگی سے بچنا اور نفس و روح میں للہیت و اخلاص پیدا کرنا تعلیماتِ تصوف کا مقصود ہے۔ تصوف اسلام سے الگ یا اس کے مقابل کوئی چیز نہیں بلکہ شجرِ اسلام کے ثمرۂ روحی کا نام ہے۔ امتِ مسلمہ تعلیماتِ تصوف پر عمل پیرا ہو کر ہی دوبارہ کمال حاصل کر سکتی ہے۔
حدیثِ جبریل کی روشنی میں دین اسلام کے تین مدارج ہیں:
- اسلام
- ایمان
- احسان
اگر ہم ان تینوں کی حقیقت کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوگا کہ اسلام اعمال و کردارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عنوان ہے، ایمان بن دیکھے قولِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سچا ماننے کا نام ہے۔ گویا دینِ اسلام ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف پہلوؤں کا نام ہے۔ احسان دینِ اسلام کا وہ معیارِ کمال ہے جو بندگی کی حقیقی معراج ہے، جس کے متعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہٗ، فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ.
’ ’تو اللہ تعالیٰ کی بندگی یوں کر کہ گویااُس کا دیدار کر رہا ہے اور اگر تو اُسے نہیں دیکھ سکتا تو یہ تصور کر لے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔
احسان کی اسی حالتِ مشاہدہ و مراقبہ کا دوسرا نام تصوف و روحانیت ہے۔ تصوف اور روحانیت کی تعریف اگر صوفیاء سے پوچھی جائے تو ان کے نزدیک تصوف حسنِ اخلاق کا نام ہے۔ سیدنا علی بن عثمان الہجویریؒ کشف المحجوب میں تصوف کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ تصوف حسنِ اخلاق کا نام ہے‘‘۔ اگر تصوف حسنِ اخلاق کا نام ہے تو اخلاق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراجِ تصوف و احسان ہے، کیونکہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم
’’اور آپ بے شک خلق عظیم پر فائز ہیں‘‘۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری کے بعد صوفیاء نے نہ صرف اپنے اخلاق کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق سے روشن کیا بلکہ اس کے نور سے زمانے کو بھی منور کیا۔ فاتحین کی فتوحات نے اسلام کو اتنی جغرافیائی وسعت نہیں دی جتنی قلبی وسعت صوفیاء کے کردار نے اسلام کو عطا کی ہے۔ اسلام کی 14 سو سالہ تاریخ صوفیاء کے کردار سے روشن ہے۔
تصوف کی موجودہ صورتحال
حقیقت یہ ہے کہ تصوفِ اسلامی نے ہی فروغِ اسلام میں بنیادی و تاریخی کردار ادا کیا۔ ایسے مشکل وقت میں کہ جب اسلامی سلطنت کی وسعت کے ساتھ مسلمان عمل کے بجائے دنیا کی طرف زیادہ راغب ہو رہے تھے، ایسے میں صوفیاء نے عشقِ الہٰی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع فروزاں رکھی مگر گزشتہ چند صدیوں سے امتِ مسلمہ پر زوال کے سائے گہرے ہوتے چلے گئے اور اس ہمہ گیر زوال میں تمام شعبوں کی طرح تصوف اور روحانیت بھی زوال پذیر ہوتی چلی گئی۔ اسی طرح مسلم معاشرے سے ایثار، قربانی، سخاوت اور تکریمِ انسانیت جیسی قدریں مٹتی چلی گئیں، تصوف اور روحانیت کے علمبردار (الا ماشاء اللہ) خود قابلِ اصلاح ہوگئے،روحانی خانقاہیں جو کبھی اخلاقی و روحانی تربیت کے مراکز ہوا کرتے تھے وہ مادیت کے اڈے اور امراء کے محلات میں بدل گئیں، علمِ تصوف صرف کرامات کے بیان کرنے تک محدود ہوگیا جبکہ عملی تصوف تقویٰ، رضاء الہٰی کا حصول، اخلاق اور پابندیٔ شریعت کے نور سے عاری ہوگیا۔ عملیات، تعویذ، شعبدہ بازی اور جادو ٹونے کے اعمال نے تصوف کی جگہ لے لی، علم و آگہی کے مراکز جاہلانہ رسومات کی آماجگاہ بن گئے اور اعراس نے میلوں اور سرکسوں کی شکل اختیار کرلی۔
تصوف کا علمی احیاء اور شیخ الاسلام کی خدمات
جس دور میں جعلی پیروں کا کردار دیکھ کر کئی مذہبی طبقات نے تصوف کے وجود کا انکار کردیا تھا اس دور میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے تصوف کے علمی و عملی احیاء کا بیڑہ اٹھایا اور اصلاحِ احوالِ امت کے لئے تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی۔ جب دین پر عمل خود ایک مسئلہ بن چکا ہے تحریک منہاج القرآن نے شیخ الاسلام کی سرپرستی میں تصوف کے علمی اور عملی احیاء میں وہ خدمات سرانجام دیں جنہوں نے تصوف کو موجودہ سائنسی دور میں بھی ایک زندہ حقیقت ثابت کردیا۔
شیخ الاسلام نے تصوف کے علمی اور عملی دونوں پہلوؤں کے احیاء کے لئے جدوجہد کا آغاز فرمایا۔ شادمان سے دروسِ تصوف کا آغاز فرمایا اور پھر سالہا سال تک تصوف کے مختلف پہلوؤں پر سیکڑوں دروس دے کر تصوف کی علمی حیثیت کو ایسا واضح کیا کہ منکرینِ تصوف کو اپنا موقف بدلنا پڑا۔ اس کے ساتھ ساتھ تصوف کی عملی اقدار کی بحالی کے لئے منہاج العمل، شب بیداریوں، محافلِ ذکر، تربیتی کیمپوں، دروس قرآن، روحانی اجتماعات، مسنون اجتماعی اعتکاف، گوشہ درود اور دیگرمضبوط ذرائع سے بالخصوص کارکنان تحریک اور بالعموم امت مسلمہ کے اجتماعی اصلاحِ احوال کے عمل کو آگے بڑھایا۔
تصوف کے احیاء کے سلسلہ میں شیخ الاسلام کی خدمات درج ذیل ہیں:
1۔ تصوف کا قرآن و سنت سے اثبات
تصوف پر سب سے بڑا اعتراض یہ وارد کیا گیا کہ اس کی اصل قرآن و سنت اور وحیِ الہٰی کے براہِ راست مخاطبین یعنی صحابہ کرامl، تابعین اور تبع تابعین کے ادوار میں نہیں ملتی ، بلکہ تصوف کو تو قرآن و حدیث کے متوازی قرار دیا گیا اور صوفیاء کی تعلیمات کو مسلمانوں کے لیے مایوسی اور بے عملی کا پیش خیمہ کہا جانے لگا۔
ایسے حالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تصوف پر لکھی گئی تصنیفات اور سیکڑوں خطابات کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ تصوف کا قرآن وحدیث کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہے اور تصوف اپنی تعلیمات کے کسی بھی پہلو کے اعتبار سے اور اپنے معمولات کے کسی بھی گوشے میں شریعتِ محمدی کی مخالفت گوارا نہیں کر سکتا۔ تصوف کا وجود شریعتِ اسلامیہ، احکامِ قرآن و حدیث اور تعلیماتِ کتاب و سنت کی مخالفت میں ممکن نہیںہو سکتا۔ آپ نے تصوف کی اصل قرآن و حدیث سے دلائل کے ساتھ نہ صرف ثابت کی بلکہ حدیثِ جبریل کی روشنی میں تصوف کو دین کا تیسرا اور اہم جزء قرار دیا۔ آپ نے قرونِ اولیٰ میں لفظِ صوفی اور صوفیاء کے وجود کو دلائل و براہین کے ساتھ ثابت کیا اور ساتھ ہی ساتھ متقدم صوفیائے کرام کے علمی مقام و مرتبہ اور علمِ حدیث میں اُن کی خدمات اور اجل ائمہ حدیث کا اُن سے اکتسابِ علمِ حدیث کرنا اور اُن سے حدیث روایت کرنا ثابت کر کے معترضین کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ آپ نے تصوف کی اصلی اور حقیقی تعلیمات صرف اُن کو قرار دیا جو ہمارے اسلاف کی کتب میں مذکور ہیں اور قرآن و حدیث سے مطابقت رکھتی ہیں۔
تصوف کی اصل قرآن و حدیث سے جوڑنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی تعلیمات کو قرونِ اولیٰ ثلاثہ میں ثابت کیا جائے، کیونکہ متفق علیہ حدیث کے مطابق یہ تین ادوار ’خیر القرون‘ کہلاتے ہیں اور اگر کوئی چیز خیر القرون سے ثابت ہو جائے تو بالاتفاق اسے شریعت میں معتمد، معتبر،متحقق اور مسلَّم سمجھا جاتا ہے اور اس پر اُمّت کا اجماع ہے کہ جو چیز اِن اعلیٰ و افضل زمانوں سے ثابت ہو جائے اس پر اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی۔ لہٰذا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جہاں تعلیماتِ تصوف کی اصل قرآن و سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت کی وہاں تصوف کے لغوی اشتقاق اور معنوی استحقاق پر تین سو سے زائد صفحات کی کتاب لکھ کر یہ ثابت کیا کہ کہ تصوف اپنے کسی بھی اشتقاقی معنی کے اعتبار سے قرآن و حدیث سے خارج نہیں۔ اس طرح تصوف کی روح اور بیخ و بُن (Roots)کو صحابہ کرامl، تابعین اور اتباع التابعین کے ادوار اور زندگیوں سے ثابت کر کے آخر میں تصوف کے قرآن و سنت کے ساتھ علمی تعلق پر موازنہ پیش کیا ہے۔
تصوف اور اتباعِ شریعت
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ تصوف و شریعت میں مطابقت نہ ہونے کا ایک بڑا مغالطہ وہ جاہل مدعیانِ تصوف ہیں جن کے متعلق علمائ، صوفیاء اور اولیاء نے یہاں تک لکھا ہے کہ یہ لوگ اصل صوفیاء نہیں بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو صوفیاء کی جماعت کی طرف منسوب کیا تاکہ انہیں صوفی سمجھ لیاجائے۔ ان سے کچھ خوارق معاملات سرزد ہوئے، جنہیں لوگوں نے کرامت جان کر انہیں صوفی سمجھ لیا، حالانکہ وہ اس مذہب و طریقہ پر نہیں تھے۔ ایسے لوگ پہلے زمانوں میں بھی اور آج کے دور میں بھی کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں، جن کے علم ، عمل، سلوک اور حال کا تصوف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ معرفت نامی کسی چیز سے واقف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ حقیقت میں صاحبانِ طریقت و صاحبانِ حقیقت و شریعت نہیں، بلکہ وہ تو تصوف و صوفیاء کے جھوٹے مدعی ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تصوف کا لبادہ اوڑھ کر تصوف اور صوفیاء کے نام پر مال کمانے کا کاروبار بنا رکھا ہے۔
ایسے لوگ جن کا عمل طریقت، تصوف اور حقیقت کے مطابق نہیں ہوتا، وہ اپنے حلقۂ مریدین و متوسلین کو مطمئن کرنے کے لیے جہالت و گمراہی کی وجہ سے یہ بات عام کردیتے ہیں کہ تصوف و معرفت میں ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں شریعت، کتاب و سنت اور قرآن و حدیث کی پابندی (معاذ اللہ) نہیں رہتی۔ ظاہری علوم کی پابندی فقط چھوٹے درجے کے علماء پر ہوتی ہے۔ ایسے جھوٹے مدعیانِ تصوف دعویٰ (claim) کرتے ہیں کہ ہم ان طبقات سے خروج کر کے ترقی کرتے ہوئے صاحبانِ معرفت ہوگئے ہیں۔ اب ہم براہِ راست فیوضات لینے والے ہیں، لہٰذا اب ہم اوامر و نواہیِ شریعت اور احکامِ کتاب و سنت کی تعلیمات اور فرائض و واجبات کے (معاذ اللہ) پابند نہیں ہیں۔ کتاب و سنت کی پابندی سے بری ہونے کا دعویٰ کرنا، ایسا کہنا، تصور کرنا، عقیدہ رکھنا کفر اور صریح گمراہی ہے۔ صرف یہی نہیں کہ یہ سب تصوف کے خلاف ہے بلکہ عین (حقیقتِ) دین کے بھی خلاف ہے۔ لہٰذا وہ لوگ جو اپنے نفس کی طمع اور اپنی جھوٹی منفعت کو برقرار رکھنے کے لیے اور اپنی خلافِ شریعت زندگی پر پردہ ڈالنے کے لیے تصوف کو جھوٹا نام دے کر بدنام کرتے ہیں، شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے ان پرواضح کردیا کہ ایسا عقیدہ رکھنا کفر اور سراسر گمراہی ہے۔
حضرت حارث المحاسبی کے ایک قول جسے امام عبدالرحمن السلمی نے ’طبقات الصوفیاء ‘ میں ذکر کیا ہے، کی تشریح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
جس شخص نے اپنے باطنی حال کو سنوارنے کے لیے حصولِ اخلاص میں مجاہدہ کیا، یعنی زہد، اللہ پر یقین، ،توکل، اللہ کی رضا جوئی، صبرو شکر، خشوع وخضوع، اِنابت اور اِجابت الی اللہ میں اعلیٰ نیت اور صدقِ دل کے ساتھ مجاہدہ کیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے باطنی معاملے کی برکت سے اس کے ظاہری معاملے میں بہتری کا وارث بنا دیتا ہے۔جس شخص کا اپنے باطن کے ساتھ مجاہدہ کے ذریعے ظاہری معاملہ اچھا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت کا وارث بنا دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا.
’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیںاپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں‘‘۔
(العنکبوت، 29: 69)
تصوف کو بے عملی اور سہل پسندی سے عمل اور اتباعِ شریعت کی طرف لے جانے کے لیے آپ نے سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی کا قول نقل کر کے بے عمل نام نہاد متصوفہ کا پول کھول دیا اور سلوک و تصوف میں اتباعِ شریعت کو سب سے بڑا مجاہدہ قرار دیا۔ ابو یزید بسطامی فرماتے ہیں کہ میں نے مجاہدہ میں تیس سال صرف کیے اور (ان تیس سالوں میں) میںنے قرآن و سنت کے علم اور اس کے مطابق عمل کرنے سے زیادہ سخت مجاہدہ کوئی نہیں دیکھا۔
اس قول کی تشریح میں آپ فرماتے ہیں کہ شریعت نام ہے، عبادت کے التزام اور اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بننے کا، جب کہ طریقت عبادت میں ہمیشگی اور دوام کا نام ہے۔جب نماز کا وقت ہوگیا، توسارے کام چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریزہونا شریعت ہے، جبکہ ہر حال، ہر وقت، ہر لمحہ اور ہر کیفیت میں ظاہر و باطن کا اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبودیت سے سرشار رہنا، عبادت و عبودیت کا قلب وباطن پر طاری ہونا طریقت ہے اور حقیقت، مشاہدۂ حق یعنی ربوبیت کے انوار و تجلیات اور اس کے انعامات و ثمرات کے مشاہدے اور ان نعمتوں کی لذتوں کی چاشنی میں ذاتِ حق کی طرف کھنچے چلے جانے کا نام ہے۔
تصوف اور اتباعِ شریعت میں مزید فرماتے ہیں کہ:
شریعت ابتدا، طریقت وسط اور حقیقت کمال پر پہنچ جانے والوں کا علم و عمل ہے۔ شریعت اوامر کی بجا آوری اور نواہی سے اجتناب کی صورت میں ظاہر کی اصلاح کرتی ہے۔ گویا شریعت ظاہر کا حسن ہے۔ طریقت اخلاقِ رذیلہ سے بچنے اور مکارمِ اخلاق کو اپنانے کا نام ہے۔ گویا طریقت، باطن کے حسن کا نام ہوا کہ نفس و قلب بری عادات و رجحانات سے پاک ہوجائیں۔ اسی طرح حقیقت، تہذیبِ ارواح اور اللہ کے حضور حاضری کے ادب کا نام ہے۔ روح کی ایسی اصلاح ہوجائے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جلوس و معیت نصیب ہوجائے۔
بندے کا سفر شریعت سے طریقت کی طرف اس وقت تک شروع نہیں ہوسکتا جب تک اسے شریعت میں کمال، تحقق اور استقامت نصیب نہ ہوجائے، اسی طرح کوئی شخص طریقت سے آگے نکل کر مرتبۂ حقیقت میں داخل نہیں ہوسکتا، جب تک اس کی زندگی میں احوالِ طریقت پختہ نہ ہوجائیں۔ گویا شریعت میں پختگی کے بغیر طریقت میں داخل ہونا ناممکن ہے اور طریقت میں پختگی کے بغیر حقیقت میں داخل ہونا ناممکن۔
3۔ تصوف اور استشراق
شیخ الاسلام نے مستشرقین کی طرف سے تصوف پر ہونے والے اعتراضات کا علمی و تحقیقی جواب بھی پیش کیا ہے جس پر آپ کی کتاب استفادہ کے لیے موجود ہے۔ تصوف کے موضوع پر مستشرقین کی غلط اور بربنائے تعصب تحقیق اور غلط فہمیوں نے بعض مسلمانوں کے ذہن کو مسلسل پراگندہ کیا ہے اور تصوفِ اسلامی کے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ تصوف کے مختلف پہلوؤں سے متعلق بہت سے سوالات پائے جاتے ہیں جو آج کے دور میں تصوف کو پڑھنے اور سمجھنے والے کے ذہن کو مسموم کرتے ہیں۔ اس کتاب میں ایسے اعتراضات کے تحقیقی، تنقیدی اور تجزیاتی جوابات دیے گئے ہیںکہ تصوفِ اسلامی پر پڑی ہوئی تشکیک و ارتیاب کی دبیز تہوں کو چھانٹ کر اس کے خوبصورت چہرے کو واضح کیا گیا ہے۔ بالخصوص آج کی نوجوان نسل کو مستشرقین کی تحقیق کے پس پردہ اصل حقائق و محرکات اور مکروفریب سے روشناس کیا گیا ہے۔
تاریخِ تصوف پر لکھنے والے مستشرقین نے برصغیر پاک و ہند کے اہلِ قلم کوبالخصوص اور عالمِ اسلام کے چند علما اور اہلِ دانش کو بالعموم متأثر کیا۔ کچھ مومنانہ فراست اور حکیمانہ دانش کے حامل مصلحین نے واقعتاً تصوف کے نام پر در آنے والی بدعات و خرافات کی نشاندہی کی مگر کچھ سطحی علم رکھنے والے لوگ اس کی تشکیل غیر اسلامی عناصر کے ذریعے اور خارج از اسلام تسلیم کرنے لگے۔اِن لکھنے والوں نے تصوف کی اساس، اس کی تشکیل کی حقیقی بنیاد اورتاریخِ تصوف کی حقیقی تشریح و تعبیر قرآن مجید، رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور سنتِ مبارکہ سے، صحابۂ کرام، اصحابِ صفہ، خلفائے راشدین اور تابعین و تبع تابعین (جو خیر القرون ہیں) کی حیات و تعلیمات سے اخذ کرنے اور سمجھنے کے بجائے اس کی نشوونما کا سہرا ایران، ہند، یونان اور مسیحی فلسفے کے سر کر دیااور اس بات پر یقین پختہ کر لیا کہ تصوف کی فکر(Mystic Thought) نے کُلی طور پر ایران، ہند، چین، یونان اور مسیحی فلسفے سے جنم لیا ہے اور ان تہذیبوں کی ماحولیات، معاشرت، نظریات اور افکار و فلسفے سے پرورش پائی ہے اوراِس پر ہندی، بدھ مت، مسیحی اور یونانی فلسفے اور عقائد کے اثرات ہیں۔ان کے نزدیک تصوف کی نشوونما خارجی عناصر کے تحت ہوتی رہی۔
اِس سارے نقطۂ نظر کا مبدأ و مصدر مستشرقین کی وہ معاندانہ تحقیق تھی جو آج سے تقریباً چار سو سال قبل سولہویں صدی عیسوی یعنی صلیبی جنگ کے نتیجے میں شروع ہوئی۔ گویا مستشرقین کی تحقیق کا ایک خاص زاویۂ نگاہ اور مخصوص تناظرِ حالات اور خطے میں ہونا ہی اس کی جانبداری کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اس طرح اُن کی اس جانبدارانہ تحقیق سے پردہ ہٹا کر شیخ الاسلام نے آج کے فکرِ مستشرقین سے متاثر نوجوان کو بچایا ہے۔
اس بھرپور عوامی جدوجہد کے ساتھ ساتھ علمی و فکری میدان میں بھی تحریک منہاج القرآن نے تجدیدی خدمات سرانجام دی ہیں۔ جس دور میں تصوف کے وجود ہی کا انکار ہوچکا تھا۔ اس دور میں اسلام کے اس عظیم نظامِ تربیت کا علمی و فکری دفاع کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ شیخ الاسلام نے تصوف اور روحانیت کے موضوع پر چالیس سے زائد کتب تحریر کرکے تصوف اور روحانیت کی تجدید و احیاء کے سلسلہ میں ایسا عظیم باب رقم کیا جس کی مثال ماضی قریب میں کہیں نظر نہیں آتی۔
4۔ شب بیداریاں
عوامی سطح پر افرادِ معاشرہ میں نیکی، ایمان، حیاء اور اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کے لئے تحریک منہاج القرآن نے ابتداء میں تحریک کے مرکز پر ماہانہ شب بیداری کا آغاز کیا اور پھر دنیا بھر میں اپنی تنظیمات کے ذریعے ہر ہر تحصیل اور شہر میں محافل، شب بیداریوں، تربیتی نشستوں اور دروسِ قرآن کا جال بچھادیا۔ ان شب بیداریوں میں بندگانِ خدا کا اللہ کی ذات سے تعلق مضبوط کیا اور توبہ و استغفار اور گریہ و زاری کے ذریعے ان کے ظاہر و باطن کو پاکیزہ کرنے کی جدوجہد کی۔
5۔ وعظ و نصیحت
اس جدوجہد کے ساتھ ساتھ تحریک منہاج القرآن کے رفقاء دنیا بھر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اخلاقی و روحانی خطابات کو ویڈیو پروگرام کی شکل دے کر افرادِ معاشرہ کو علم و معرفت اور اخلاقِ حسنہ کی دولت سے سرفراز کررہے ہیں۔ دنیا بھر میں شیخ الاسلام کے خطابات نفرتیں مٹاکر دلوں میں محبتیں پیدا کررہے ہیں۔ ان دروس کے ذریعے دنیا بھر میں امت کے احوال و عقائد کی اصلاح کا کام تیزی سے جاری ہے۔
6۔ سالانہ اعتکاف
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے عامۃ الناس کی خصوصی روحانی و اخلاقی تربیت کے لئے سالانہ مسنون اجتماعی اعتکاف کا تربیتی نظام متعارف کرایا ہے جو گذشتہ اٹھائیس سالوں سے تحریک منہاج القرآن کے مرکز پر حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا 10 روزہ اجتماعی اعتکاف کا ایسا تربیتی کیمپ ہوتاہے جس کی مثال کہیں بھی میسر نہیں آتی۔ ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ 10 دنوں کے لئے ذکرِ الہٰی کی لذتیں اور شیخ الاسلام کی صحبت سے فیض لینے کے لئے ان کے ہمراہ اعتکاف کرتے ہیں۔ ان دس دنوں میں 24 گھنٹے عبادت، بندگی، قیام اللیل، روزہ، نوافل، تلاوتِ قرآن اور اوراد و وظائف کے ذریعے قلب و روح کو پاکیزگی اور کردار و عمل کو طہارت دی جاتی ہے۔
یہ اسی تربیت کا ثمر ہے کہ آج ہر ایک تحریک منہاج القرآن کے کارکن کے صبر و برداشت، تحمل اور خوش اخلاقی کا معترف ہے۔یاد رہے اس دوران دو مرتبہ اعتکاف کی اس اجتماعی تربیتی نشست کو منسوخ بھی کیا گیا اور اس کی وجہ ایک بار سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں متاثرین کی مدد کرنا اور ایک بار قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے نظام کی تبدیلی کے لیے لانگ مارج کی وجہ سے منسوخ کیا گیا۔ اس سے بتانا یہ مقصود تھا کہ شیخ اسلام نے رہبانیت، گوشہ نشینی یا معاشرے کی اصلاح سے کٹ کر مسجد میں معتکف ہونے والا تصورِ تصوف نہیں دیا بلکہ جہاں عملی اقدامات کی ضرورت تھی وہاں اُن کو ترجیح دی گئی اور یہی دینِ اسلام کا تقاضا ہے۔
7۔ لیلۃ القدر کا روحانی اجتماع
اصلاحِ احوال کی اس جدوجہد کے ساتھ ساتھ ایک اور امتیاز جوکہ تحریک منہاج القرآن کو حاصل ہے وہ اس کا عوامی سطح پر لیلۃ القدر کے موقع پر عالمی روحانی اجتماع ہے۔ ملک بھر سے لاکھوں افراد اکٹھے ہوکر جب عشاء سے فجر تک گریہ و زاری کے ساتھ اپنی بخشش کے لیے مولا کو پکارتے ہیں تو لوگوں کو رحمت اترتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب لاکھوں افراد برستی آنکھوں سے اپنے مولا سے فریاد کررہے ہوتے ہیں تو اس لمحے اس سارے منظر اور ماحول پر اسلاف اور مشاہیر کے انداز و طرزِ تربیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ اس عالمی روحانی اجتماع میں 28 سال سے لاکھوں افراد گناہوں سے توبہ کرکے اپنی زندگیوں کو بدل چکے ہیں۔ اب اس اجتماع کا عالم یہ ہے کہ صرف ملک بھر میں چند لاکھ افراد ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں کروڑوں افراد مختلف ٹی وی چینلز کے ذریعے اس عظیم روحانی و تربیتی اجتماع سے منسلک ہو چکے ہیں اور رقت آمیز دعا میں شریک ہوکر مغفرت کے آنسوؤں سے اپنے دامن کو تر کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ ساری جدوجہد صرف ملکِ پاکستان کی ہر ہر تحصیل اور یونین کونسل میں ہی جاری نہیں بلکہ پوری دنیا میں تربیتی کیمپوں اور شب بیداریوں کے ذریعے امتِ مسلمہ کی نئی نسل کے افکار و خیالات کو سوئے حرم روانہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کردار و عمل کو اسوۂ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے روشن کیا جارہا ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے جاری برطانیہ(لندن) اور یورپ میں سالانہ سہ روزہ الہدایہ کیمپس عالمِ مغرب میں امت کی نشاۃِ ثانیہ کی بنیادِ سحر ہے۔ ان کیمپوں میں دنیا بھر کے نوجوانوں کی علمی و فکری اور اخلاقی و روحانی تربیت کی جاتی ہے۔
8۔ گوشۂ درود و فکر کا قیام
شیخ الاسلام نے جہاں قرآن و حدیث سے امت کا ٹوٹا ہوا تعلق بحال کیا وہاں کائنات کے مرکز و محور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ عالی شان کے ساتھ عشق و محبت پیدا کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر، آپ کی آل اور اصحاب پر درود و سلام کا باقاعدہ سلسلہ قائم کیا اور مرکز منہاج القرآن پر گوشۂ درود و فکر قائم کر کے پوری دنیا میں وابستگانِ تحریک منہاج القرآن کو اس سے منسلک کر دیا۔ اس وقت عشق و مستی میں سرشار عاشقانِ رسول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر اربوں نہیں کھربوں کی تعداد میں درود و سلام کے تحفے پیش کرتے ہیں۔ گویا شیخ الاسلام کے پیش کردہ تصوف کا محور و مرکز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع و فرمانبرداری ہے۔
9۔ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کا قیام
تحریک منہاج القرآن کے نظامِ تربیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ شیخ الاسلام نے جہاں عوام الناس اور کارکنوں کی عملی تربیت کا اہتمام کیا ہے وہاں تربیت یافتہ افراد کی ایک جماعت بھی تیار کی ہے۔ آپ نے امتِ مسلمہ کو اعلیٰ اخلاقی و روحانی کردار کی حامل جماعت کا تحفہ دینے کے لئے جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں آج منہاج یونیورسٹی کے نام سے ایک چارٹرڈ یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ اس عظیم درسگاہ سے ہزاروں طلبہ علمی و عملی تربیت لے کر پوری دنیا میں اصلاحِ احوال کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہیں۔ یہ شیخ الاسلام کی تربیت کا اثر ہے کہ ان کی تیار کردہ جماعت ’’منہاجینز‘‘ مادیت کے اس دور میں رضائے الہٰی کی خاطر تبلیغِ دین کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن سے شیخ الاسلام کے ان تربیت یافتہ افراد کی ایک خوبصورت مثال مرکزی نظامتِ دعوت ہے جس نے ملک بھر اور بیرونِ ملک میں جاری دروسِ عرفان القرآن کے ذریعے ادْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃَِ کا نبوی جھنڈا بلند کر رکھا ہے اور ساتھ ہی نظامتِ تربیت وابستگان و محبانِ تحریک کے لیے مختلف تربیتی و علمی کورسز کا اہتمام کرتے ہیں۔
10۔ احیائے تصوف میں شیخ الاسلام کا ذاتی عملی کردار
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اللہ تعالیٰ نے جہاں علمی و تحقیقی ذوق اور فکری و نظریاتی خالصیت سے نوازا وہاں اخلاقی و روحانی عظمتوں سے بھی سرفراز کیا۔آپ کی زندگی اُن تمام تر اخلاقی و روحانی صفات سے متصف ہے جو ایک مربی کے لیے ضروری ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپ مخلوقِ خدا کو ان روحانی صفات سے فیض یاب بھی کرتے ہیں۔ آپ نے نہ صرف قرونِ اولیٰ کے صوفیائے کرام کی تعلیماتِ تصوف کو اجاگر کیا بلکہ خود اُن تعلیمات کی عملی تصویر بن کر اپنے آپ کو رول ماڈل کے طورپر پیش کیا۔
تحریک منہاج القرآن کے نظامِ تربیت کا سب سے خوبصورت پہلو بانی تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ذاتی کردار و عمل ہے۔ کسی نے سوال کیا کہ 23 سال کی مختصر مدت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیسے دنیا کو انسانیت کے اعلیٰ ترین معاشرے میں بدل دیا؟ جواب دیا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف فکر اور فلسفہ نہیں دیا بلکہ اپنے کردار و عمل سے نمونہ بھی فراہم کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے تبلیغ سے بڑھ کر اپنے کردار و عمل کا نمونہ پیش کیا۔ آپ کی کرامات سے پتھروں سے چشمے تو نہیں نکلے لیکن خشک آنکھوں سے اللہ کی خشیت کے آنسو ضرور نکلے ہیں۔ آپ کی کرامتوں سے مردے تو زندہ نہیں ہوئے لیکن دنیا بھر میں لاکھوں مردہ دل حیات آشنا ہوچکے ہیں۔ سالانہ روحانی اجتماع کے موقع پر آپ کی رقت آمیز دعاؤں سے لاکھوں لوگ گندگی اور گناہ کی دلدل سے نکل کر ایمان کی راہ پر چل چکے ہیں۔ بیعت نہیں فرماتے مگر ہر سال ہزاروں افراد کو اپنے ہمراہ اعتکاف میں جملہ تربیتی عمل سے گزارتے ہیں۔
یہ آپ کی عظیم تربیتی جدوجہد کا ہی ثمر ہے کہ تحریک منہاج القرآن دنیا بھر میں 90 سے زائد ممالک میں تنظیم کا نیٹ ورک رکھنے، ملک بھر میں ہر ہر تحصیل اور یونین کونسل سطح پر انتظامی ڈھانچہ قائم ہونے اور دنیا بھر میں لاکھوں وابستگان رکھنے کے ساتھ ساتھ دنیا کی سب سے پرامن اور موثر جماعت کی حیثیت رکھتی ہے۔ وقت گزرنے اور مرکزِ نبوت سے دور ہونے کے باعث دین کے جس جس پہلو میں خلا واقع ہوا یا دین کے کسی شعبے کا چہرہ گرد آلود ہوا تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلینِ پاک کے تصدق سے اُس گرد کو ہٹا کر دین کا اصل چہرہ امت کے سامنے پیش کیا۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آپ نے نہ صرف احیائے تصوف پر کام کیا بلکہ آپ کی کاوشیں احیاء و تجدیدِ دین کے لیے ہیں۔گویا آپ نے دینِ اسلام کے ہر شعبہ کو وقت کے تقاضوں اور بدلتے حالات کے مطابق پیش کر کے نہ صرف اُسے قابلِ عمل بنایا بلکہ آنے والی صدیوں کی نسلوں کے لیے رہنمائی بھی مہیا کی۔ بارگاہِ ربِ ذوالجلال میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کے علمی و روحانی اور تجدیدی فیوضات سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو ہمیشہ اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔