دور ہا باید کہ تا یک مردِ حق پیدا شود
بایزید اندر خُراساں یا اویس اندر قرن
’’زمانے پر گردشوں کے کئی دور گُزر جاتے ہیں تب ایک ایسا مردِ حق پیدا ہوتا ہے جیسے خُراسان مین بایزید بُسطامی اور قرن میں اویسِ قرنی‘‘۔
جب زمین پانی کو ترستی ہے اور سبزہ ناپید ہوجاتا ہے۔۔۔ درختوں سے پتے جھڑ جاتے ہیں اور چشمے خشک ہوجاتے ہیں۔۔۔ کھیتیاں اور باغات ہریالی کھو بیٹھتے ہیں۔۔۔ ہنستی بستی مخلوق آبِ حیات کے قطرہ قطرہ سے محروم و مایوس ہوجاتی ہے۔۔۔ دھرتی پر بسنے والے آب و دانہ کی تلاش میں اپنے اوطان و مساکن کو خیر باد کہہ کر نامعلوم منزلوں کی طرف چل پڑتے ہیں۔۔۔ انسان ہی نہیں بحر و بر کے تمام باسی ابرِ رحمت کے نزول کی دعائیں مانگتے ہیں۔۔۔ پھر:
وَهُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْم بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَهٗ وَهُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ.
’’اور وہ ہی ہے جو بارش برساتا ہے اُن کے مایوس ہو جانے کے بعد اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے، اور وہ کارساز بڑی تعریفوں کے لائق ہے‘‘۔
(الشوریٰ، 42: 28)
جس طرح زمین کی ویرانی و زرخیزی کا یہ سلسلہ ہم دیکھتے ہیں اسی طرح زمین پر بسنے والے اہم ترین طبقہ حضرتِ انسان کا مسئلہ ہے۔ کبھی اس کی مخلصانہ مساعی سے شہر بستے ہیں، قومیں آسودہ حال اور پرامن زندگی بسر کرتی ہیں اور کبھی اس کی بداعمالیوں سے بستے شہر کھنڈر بنتے اور خوشحالی کے آثار بھی خزاں دیدہ پتوں کی طرح مٹتے جاتے ہیں:
وَاِنَّـکُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْهِمْ مُّصْبِحِیْن.
(الصافات، 37: 137)
تم صبح سفر پر نکلتے اور ان ویران بستیوں پر سے گذرتے ہو۔ وہ محل، قلعے، باغ، مینار دیکھتے ہو اور عبرت نہیں پکڑتے۔
فَتِلْکَ مَسٰکِنُھُمْ لَمْ تُسْکَنْ مِّنْم بَعْدِھِمْ.
یہ ہیں ان کے مسکن، جن میں ان کے بعد کوئی بسا نہیں اور عبرت کا نشان بن کر رہ گئے۔
(القصص، 28: 58)
کیسے کیسے کجکلاہ، حکمران کچھ ظالم کچھ عادل، رزقِ خاک ہوئے۔ اسی زمین پر کہیں خانہ بدوشوں کی جھونپڑیاں، کہیں تخت نشینوں کے عشرتکدے ہر ایک میں غور وفکر کا کوئی نہ کوئی زاویہ و پہلو ضرور موجود ہے۔
جسم و روح کے تقاضوں کی بجا آوری
انسان محض کھانے پینے اور سلسلہ توالد و تناسل قائم رکھنے والا حیوان ہی نہیں بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی ہے، جس کے تقاضے جسم کے تقاضوں سے یکسر جدا ہیں۔ ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قدرت نے الگ الگ ذرائع پیدا فرمائے ہیں جن کو سمجھنا اور پورا کرنا اور ان کو حدِ اعتدال پر رکھنا از حد ضروری ہے۔ روح کا تعلق چونکہ عالم بالا سے ہے، اس لیے اس کی تسکین اچھے عقائد، سچی سوچ، نیک نیتی اور اس کے نتیجہ میں اچھے اعمال سے ہے۔
صرف جسم کے تقاضے پورے کرنے والے راهِ فنا کے مسافر بنے جبکہ روح کے تقاضوں سے بھی عہدہ برآ ہونے والے راهِ بقا کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ اس لیے کہ روح کے تقاضے پورے کرتے ہوئے انسان جسمانی اور مادی تقاضوں کو بھی فراموش نہیں کرتا اور راهِ اعتدال پر چلتا ہے، جبکہ صرف جسم کے تقاضے پورے کرنے والے روح کے تقاضوں کو یکسر بھلا کر دنیا اور اس کی محبت کے اسیر ہوجاتے ہیں۔
دورِ حاضر میں ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں ایک ایسی شخصیت نظر آتی ہے کہ جن کی تعلیمات و عمل میں ہمیں اپنے روحانی و باطنی اور دنیاوی تقاضوں ہر دو کو پورا کرنے کے لیے مکمل راہنمائی میسر آتی ہے۔
شیخ الاسلام کی تجدیدی خدمات
قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ.
’’فرما دیجیے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں‘‘۔
(الزمر، 39: 9)
علم روشنی ہے، جہالت اندھیرا ہے۔۔۔ علم زندگی ہے جہالت موت ہے۔۔۔ علم حقیقی ہو، ظن و تخمین سے پاک ہو تو باادب ہوتا ہے۔۔۔ علم سطحی ہو، ظاہر تک رسائی ہو، باطن سے بے خبر ہو تو ایسا انسان غرور و تکبر کا پتلا اور بد نصیب ہے۔ بقول علامہ:
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اللہ تعالیٰ نے اس دور کے لیے ہی نہیں بلکہ ہمیں یقین ہے کہ آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت اور رہنمائی کے لیے بھی منتخب فرمالیا ہے۔ قدرت جس پر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالتی، اسے اٹھانے کے لیے اسے صلاحیت و ہمت و جرأت بھی عطا کرتی ہے۔ آپ کو اللہ نے علم راسخ، ملکۂ بیان اور ظاہری و باطنی محاسن سے مالا مال کیا ہے۔ آپ نے تقریر و تحریر کے میدانوں میں جس طرح جھنڈے گاڑے۔۔۔ یورپ و امریکہ تک ہر مذہب و مسلک بلکہ مذہب سے بیزار طبقات سے علمی و تحقیقی دلائل سے مبرہن گفتگو کی۔۔۔ لیکچرز اور خطابات میں سنجیدہ، باوقار اور سلجھی ہوئی گفتگو سے دینِ اسلام کا دفاع کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔
عقیدۂ توحید کی واضحیت، عظمت و ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحفظ، فتنۂ خوارج اور دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف مبسوط فتویٰ، نصابِ امن کی تشکیل، قرآنی انسائیکلو پیڈیا اور اس جیسے سیکڑوں علمی، فکری اور تحقیقی امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ تنظیمی، انتظامی اور اداراتی امور کے ضمن میں سکولز و کالجز کا نیٹ ورک، ملکی و بین الاقوامی سطح پر تنظیمی نیٹ ورک، گوشہ و حلقہ ہائے درود، الغرض عقائد، معاشیات، سیاسیات، طبیعات، اخلاق، سلوک و تصوف، تفسیر، اصولِ تفسیر، حدیث، فقہ، اصولِ فقہ، مابعدالطبیعات، تاریخ، سائنس، مقامِ توحید، مقامِ رسالت، ولایت، فرقہ واریت کا خاتمہ، ختمِ نبوت، مسئلۂ علم غیب، مسئلہ شفاعت، مسئلۂ وسیلہ، سنت و بدعت، حیات و ممات، علاماتِ قیامت، مقامِ امام اعظمؒ، فضائلِ صحابہ و اہل بیت اور دیگر کئی موضوعات پر امت مسلمہ کو آپ نے علمی و فکری سرمایہ مہیا فرمایا۔ جس سے عوام و خواص آنے والے ادوار میں بھی فوائد حاصل کرتے رہیں گے۔
ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کی تعلیم و تربیت کا عظیم شاہکار
کہا جاتا ہے کہ ماحول کا شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہ حقیقت ہے اور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مگر قدرت کے ڈھنگ نرالے ہیں۔ یونان، مصر، عراق، شام، فلسطین قدیم تہذیب و تمدن کے مراکز ہیں۔ ہر میدان کے مرد ان علاقوں میں پیدا ہوئے۔ انبیائے کرام، فلاسفہ، مناطقہ، اشراقی، مشائی، سائنسدان اور ریاضی دان، جبکہ دوسری طرف عرب کے لوگ تو صدیوں سے جہالت کے اندھیروں میں بھٹکنے والے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر خون کی ندیاں بہانے والے اور متمدن دنیا سے الگ تھلگ لیکن اس سب کے باوجود اللہ کی قدرت کہ دنیا کی سب سے بڑی علمی وعملی شخصیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اسی معاشرے میں مبعوث فرمایا۔
دیکھا جائے تو جھنگ کا علاقہ علم، صنعت، زراعت اور دیگر کئی حوالوں سے نسبتاً پسماندہ ہے، رہی سہی کسر جاگیرداری نے نکال دی ہے۔ کسی غریب کا بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکے، یہ جاگیردار کے لئے چیلنج ہے لیکن اللہ کی قدرت کہ اسی سرزمین میں بڑے بڑے علماء، فضلاء، صوفیاء اور اہل درد و سوز نے جنم لیا۔
بیسویں صدی کے اوائل میں اسی سر زمین پر محترم خدا بخشؒ کے گھر 1918ء میں رئیس الاطباء زبدۃ العلماء علامہ ڈاکٹر محمد فریدالدین قادریؒ نے جنم لیا۔ آپ کے آبائو اجداد پر نگاہ کریں تو مردانِ حق آگاہ، اولاد کی طرف دیکھیں تو چندے آفتاب و ماہتاب۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
مَثَـلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُهَا فِی السَّمَآءِ.
’’پاکیزہ بات اس پاکیزہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑ (زمین میں) مضبوط ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں‘‘۔
(ابراھیم، 14: 24)
یہ حقیقت ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ استاذ اپنے شاگردوں سے، مرشد اپنے مسترشدین سے، کاریگر اپنی صناعی سے، کاتب اپنے خط سے، مصور اپنی تصویر سے، مصنف اپنی تصنیف سے، مولف اپنی تالیف سے۔ عالیشان عمارتوں کا استحکام اور نقش و نگار نظر آنے والی عمارت کا کمال دکھائی دیتا ہے مگر اہلِ فہم و فراست جانتے ہیںکہ اس تمام رونق کے پیچھے وہ مضبوط و مستحکم بنیادیں ہیں، جو ظاہر بینوں کی نگاہوں سے اوجھل ہیں، جن کے بغیر یہ تمام رونقیں وہم و گمان بن جاتی ہیں۔
ہم نے ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کو نہیں دیکھا مگر ان کے پروردہ عابد، زاہد، شب زندہ دار بیٹے کو دیکھا ہے۔۔۔ ہم نے ان کے علم کو نہیں دیکھا لیکن ان کی تعلیم سے آراستہ ان کے ’’شیخ الاسلام‘‘ بیٹے کو دیکھا ہے۔۔۔ ہم نے ان کی راتوں کی مناجاتیں، دعائیں، التجائیں، آہ و زاریاں نہیں دیکھیں مگر ان کے تربیت یافتہ گلِ سرسبد کو دیکھا ہے۔۔۔ ہم نے ان کے سوز و درد کی چنگاریاں نہیں دیکھیں مگر ان کے بیٹے کی آہ و زاریاں اور آتشِ شوق کی شعلہ باریاں دیکھی ہیں۔
- قبلہ ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ نے جو چراغ روشن کیا، آج ایک زمانہ اس سے منور ہورہا ہے۔ تصنیف و تالیف کا کام خود تو زیادہ نہیں کرسکے لیکن امام اعظمg کی سنت کو اپناتے ہوئے اہلِ اسلام کو تصنیف و تالیف کی کمپیوٹرائزڈ مشین دے گئے۔ جس کی سرعتِ تحریر کی مثال ملنا مشکل ہے۔
- کوئی دارالعلوم تو قائم نہ کرسکے مگر ایسا مفسر قرآن ، محدث دوراں اور مفکر اسلام فرزند ہمیں دے گئے جو اپنی ذات میں عظیم ادارہ، عظیم تنظیم اور ہزاروں قابل رشک تعلیمی اداروں اور تربیتی مراکز کے جال پھیلانے والے ہیں۔
- بڑے بزرگوں کی زبان سے تو مسائلِ تصوف سنا کرتے تھے، بچوں اور نوجوانوں کی شب بیداریوں کے مناظر دیکھنے کو آنکھیں ترس رہی تھیں، ان حالات میں شیخ الاسلام کے حسنِ تدبر نے اصلی خانقاہی نظام کو پھر سے زندہ کر دکھایا۔ سینمائوں، تھیٹروں اور چوراہوں میں بدمست نوجوانوں کی ٹولیاں تو خرمستیاں کرتی نظر آتی تھیں مگر دن کو روزہ، رات کو شب بیداریاں کرتے نوجوان نظر نہیں آتے تھے۔۔۔ فحش گانوں اور گالی گلوچ کی آوازیں سن سن کر کان پک گئے تھے، مگر ذکرِ خدا و مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نغموں کو کان ترستے تھے، سریلے وعظ سن سن کر دل پتھر ہوئے جاتے تھے ۔۔۔ مساجد میں شور غل، بے مغز دھواں دھار تقریریں تو سنتے تھے مگر دل سے نکلی ہوئی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔
الحمدللہ! اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی کرن پھوٹی۔ منہاج القرآن کے نام سے روشنی اٹھی اور تیزی سے بڑھتے بڑھتے بڑھتی ہی چلی گئی اور آج دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ اس سے محروم ہو۔ ہر طرف حمدو نعت کی آوازیں ہیں۔۔۔ تلاوت و درود و سلام کی صدائیں ہیں۔۔۔ بے مقصد زندگی کے خوگر علم وعمل کے میدان میں اتر رہے ہیں۔۔۔ گانوں کی جگہ زبانیں ذکر و درود و سلام سے تر ہورہی ہیں۔۔۔ دلوں کا رخ قدرت نے گمراہی سے موڑ کر سوئے گنبدِ خضریٰ کردیا ہے۔۔۔ علم وعمل کی ایک تحریک اٹھی ہے، جس نے بے عملی، بدعملی اور سستی و کاہلی کا جمود توڑ کر رکھ دیا ہے۔۔۔ بے مقصدوں کو نہ صرف مقصد دیا بلکہ مقصد کی محبت و شعور دیا۔۔۔ بے روزگاروں کو باعزت روزگار کے ہزاروں مواقع فراہم کئے۔۔۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے ذریعے نورِ علم کے چراغ روشن کیے۔۔۔ منہاج ویلفیئر فائونڈیشن کے ذریعے تعلیم، صحت اور فلاح عامہ کے درجنوں منصوبے مخلوقِ خدا کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔۔۔ ملکی و بین الاقوامی سطح پر اسلامک سنٹرز، تعلیمی ادارے اور تنظیمی نیٹ ورک ہدایت و فلاح کے راستے دکھانے میں مصروف عمل ہیں۔
تحریک منہاج القرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمان کو جو شان و شوکت، نظم و استحکام اور ترقی و عروج بخشا ہے اس سب میں ڈاکٹر علامہ فریدالدینؒ کی ذہانت وقابلیت، سوزو درد، دعوات، توجہات، نیک تمنائوں، اعلیٰ مقاصد، پرخلوص خواہشات اور تعلیم و تربیت کا اہم کردار ہے۔
قدوۃ الاولیاء کا احسانِ عظیم
حضور قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علائوالدین القادری الگیلانیؓ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں جن سے ہم جیسوں نے بھی بھرپور فیض پایا۔ آپ فیضانِ غوثیتِ مآب کے اس دور میں سب سے بڑے امین وقسیم تھے اور ہیں۔ آپ کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں لیکن میرے نزدیک آپ کی سب سے بڑی کرامت اور اہل پاکستان ہی نہیں اہل اسلام پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ہمیں مفکر اسلام، مفسر قرآن، مجدد دوراں، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم القدسیہ جیسا نابغۂ عصر چراغ عطا فرمایا جس سے نہ صرف دورِ حاضر بلکہ آئندہ نسلیں بھی صدیوں تک فیض پاتی رہیں گی۔۔۔ جو دور حاضر میں اسلام کے بے مثل مبلغ، امت کے مصلح اور دین کے عظیم مجاہد اور حضور قدوۃ الاولیاء کے قابل صد افتخار روحانی فرزند ہیں۔۔۔ جن کی نگاهِ کیمیا کے اثر سے لاکھوں انسانوں کے دل خوفِ خدا و عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی سے منور ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں۔۔۔ جو بیک وقت صاحبِ حال صوفی، صاحبِ طرز ادیب، لاثانی خطیب، جلیل القدر مفسر و محدث، بے مثال مرشد و رہبر، متعدد زبانوں میں شرق سے غرب تک اسلام کا پیغام عوام میں ہی نہیں خواص بلکہ اخص والخواص تک پہنچانے والے عظیم مبلغ بھی ہیں اور جن کی صدائے حق دنیا کے کونے کونے میں سنی جاتی ہے۔
- شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی یہ تمام کامیابیاں رب العالمین کا فضل و رحمت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کرم، والد گرامی کی تعلیم و تربیت، مرشد کامل قدوۃ الاولیائؒ کی دعائوں و توجہات، ان کی اپنی جدوجہد، ریاضت و مجاہدہ اور ان کے رفقائے کار کے خلوص کا ثمر ہیں۔ اے خد ایں فیض را دائم بدار!۔ آمین
اللہ تعالیٰ نے ان قابل رشک والدین، اساتذہ اور مرشد پاک علیھم الرحمہ والرضوان کی ارواحِ مقدسہ کو کتنا سکون دیا ہوگا اور یہ مقدس ہستیاں کس قدر خوش ہوں گی اور ان کے نامہ اعمال میں کتنی نیکیاں لمحہ بہ لمحہ درج ہوتی ہوں گی جن کا اس گلستان کی آبیاری میں حصہ ہے۔ دعا ہے کہ:
پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
جن آنکھوں پر حسد و تعصب کی پٹی بندھی ہے ان کو مشرق و مغرب کی طرف سے دولت نظر آتی ہے اور جن کو خصوصی بصیرت سے نوازا گیا ہے، انہیں یہ سب کچھ مکینِ گنبدِ خضریٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضانِ بے پایاں کا دھارا نظر آتا ہے۔