اللہ کا شکر ہے کہ ہم مجدد رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی 69 ویں سالگرہ منارہے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ وہ قائد تحریک منہاج القرآن کو صحت و تندرستی کیساتھ ہمارے سروں پر سلامت رکھے اور ان کی قیادت اور سرپرستی میں ہمیں مصطفوی انقلاب کے سورج کو طلوع ہوتا ہوا دیکھنا نصیب فرمائے۔
شیخ الاسلام کی فکری اور عملی کاوشیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اسلام کے حقیقی پیغام امن و محبت کی خوشبو پھیلارہی ہیں۔ جنہوں نے نفرتوں بھرے اس خونی منظر نامے کو پرامن معاشرے میں بدلنے کی ایک ایسی کوشش کی ہے جس کا عالمی سطح پر اعتراف کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ رشتہ عبدیت، اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رشتہ محبت و اطاعت، قرآن کی ابدی اور حتمی ہدایات کے ساتھ بنی نوعِ انسان کا تعلق، فروغِ تعلیم اور بیداریِ شعور اس پیغمبرانہ دعوت کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ماضی میں دینی، اصلاحی خدمات کا زیادہ تر انحصار خطابات اور مجلسی پند و نصائح تک محدود رہا جس کی وجہ سے اصلاحِ احوال و اصلاحِ معاشرہ اور حقوق و فرائض کا پیغام دیر پا قائم نہ رہ سکا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خدمتِ دین اور اصلاحِ معاشرہ کے باب میں انسانیت کو درپیش کم و بیش جملہ مسائل اور موضوعات کا بے مثال کتب کے ذریعے احاطہ کیا اور یہ علمی ذخیرہ موجودہ صدی کے ساتھ ساتھ آئندہ نسلوں کے لیے بھی فکری زادِ راہ کا سبب بنا رہے گا۔ آج کا چیلنج گذشتہ ادوار کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہمہ جہتی ہے، اس لئے جس مومنانہ فراست، حکمت و تدبر اور دور بینی کی ضرورت اب ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔ الحمدللہ! ہمارے قائد کو اللہ تعالیٰ نے یہ ساری خوبیاں عطا کررکھی ہیں۔
افریقہ سے لیکر مشرق بعید کے ممالک اور یورپ سے لیکر لاطینی امریکہ، اسٹریلیا، مشرقِ وسطی اور دنیائے انسانیت کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں آپ نے اسلام کا آفاقی پرامن پیغام نہ پہنچا یا ہو۔یورپ کی چکاچوند اور مادیت زدہ ماحول میں بھی لاکھوں نوجوان، مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو آپ نے صاحبِ گنبدِ خضراء کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے۔ ان کا جینا مرنا، شب و روز کی محنتوں اور مشقتوں کا حاصل اب مصطفوی تحریک ہے۔
تحریک منہاج القرآن کے کارکنان، وابستگان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شیخ الاسلام کی صورت میں ملنے والی نعمت پر سجدہ ہائے شکر بجا لاتے ہیں کہ اس نے ہمیں ایسی شخصیت کی سنگت عطا فرمائی ہے جو ’’یقین محکم، عملِ پیہم، محبت فاتح عالم‘‘ کی عملی تصویر ہے۔ ان کی قیادت اور علمی و فکری فیضان کی سعادت کے حصول پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔
اس تاریک دور میں مسلمان علمائ، سیاستدان اور حکمران بالعموم باہمی انتشار کا شکار اور خود غرضی کے حصارات میں مقیدنظر آتے ہیں۔ ایسے خود غرض اور منتشر ماحول میں ایک شخصیت ایسی بھی ہے جو اندھیری غار کے دوسرے کنارے پر امید کا نشان دکھائی دے رہی ہے۔ وہ اسلام کے روشن چہرے پر پڑ جانے والی اس گرد کو صاف کرنے اور اپنی خداداد علمی صلاحیت کے ذریعے پوری دنیا میں اسلام کے دفاع کے لئے فکری و نظریاتی اور علمی و عملی محاذوں پر مصروف عمل ہیں۔
شیخ الاسلام کی ان ہمہ جہت خدمات کو بغور دیکھا جائے تو یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے تصدق سے تن تنہا جھنگ کی سر زمین سے دعوت و عزیمت کی جن پرخطر اور سنگلاخ راہوں پر آغازِ سفر کیا تھا، آج ان کے دم قدم سے وہاں حد نظر تک گلستان آباد ہوچکے ہیں۔ ان کی 596 کتب اور ان کی زبانِ حق ترجمان سے نکلنے والے ہزارہا گہر ہائے تابدار اطراف واکناف عالم میں ایمان و عمل کی بہار افروز فصلیں اگارہے ہیں۔ ان کا فہمِ دین، محبت و امن اور علم کے گرد گھومتا ہے۔ اس لئے کہ ان کی دعوت، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت پر استوار ہے۔ وہ قرآن کو صحیفۂ امن قرار دیتے ہوئے پوری انسانیت تک اس آخری و حتمی پیغامِ الوہیت کو حقیقی روح کے ساتھ پہنچانے کا فریضہ ادا کررہے ہیں۔ قرآنیات، ایمانیات، فضائل نبوی، روحانیات، اعتقادیات، فروغِ محبت و ردِ تشدد اور 150 سے زائد مجموعہ ہائے احادیث نبوی کو آسان اور عام فہم انداز میں نئی تبویب و ترتیب کے ساتھ امت کے لیے پیش کیا جو یقینا صدیوں پر محیط علمی کاوشوں کا نچوڑ ہوگا۔
ان کے جاری کردہ تاریخی فتویٰ اور فروغِ امن نصاب نے پوری دنیا میں اسلام کا روشن چہرہ ایک مرتبہ پھر اجلا کرکے دکھادیا ہے جس سے ایک طرف ان لوگوں کی سازشیں خاک میں مل گئیں جو اسلام کو دہشت گردی اور خون خرابے کا مذہب ثابت کرنے کی ناکام کوششوں میں دن رات محو تھے اور دوسری طرف ان نادان عاقبت نااندیش رجحانات پر کاری ضرب لگائی ہے جو بدقسمتی سے ہمارے مخصوص مذہبی تعلیمی اداروں میں پروان چڑھ رہے ہیں۔
شیخ الاسلام دنیا میں احیائے اسلام اور اقامت دین کی وہ توانا آواز ہیں جس نے عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عملی تصوف اور اعتقادی و فکری اصلاح کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا ہے۔ یہ سہرا بھی شیخ الاسلام کے سر ہے کہ یہ سارے امور انتہائی معتدل طریقے سے دوسروں پر تنقید کئے بغیر پوری دنیا میں سرانجام پارہے ہیں۔
دینی امور میں جہاں انہوں نے اسلاف کے اجتہادی کام کو آگے بڑھایا وہاں انہوں نے سیاسی، سماجی امور میں بھی ایک ریفارمر کی حیثیت سے اپنا شاندار اور جاندار کردار ادا کیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے وطنِ عزیز میں ٹھہرے ہوئے متعفن سیاسی تالاب میں اصلاحات کا کنکر پھینکا اور ایک ایسا ارتعاش پیدا کیا کہ جس کی لہروں کو سیاست کا ہر شعبہ اور طبقہ محسوس کررہا ہے۔ 70 سالہ سٹیٹس کو کے سیاسی محاذ پر پہلی بار آپ نے آئینی الیکشن کمیشن کی تشکیل کا ویژن دیا اور محض اخبارات کے بیانات تک محدود نہ رہے بلکہ لاہور سے اسلام آباد تک ایک ایسا یادگار لانگ مارچ کیا جس میں روایتی، سیاسی کارکن شامل نہ تھے بلکہ وکلائ، ڈاکٹرز، کاشتکار، کلرک، مزدور، علمائ، مشائخ، خواتین، نوجوان الغرض تمام طبقات کی بھرپور نمائندگی تھی، اس لانگ مارچ نے جمہوریت کے جسد کو لاحق انجینئرڈ انتخابات اور رگنگ کے کینسر کی تشخیص کی۔ یہ موقف اور مطالبہ اس حد تک اصولی اور شفاف تھا کہ اس وقت کی حکومت نے اس موقف کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے تحریری معاہدہ کیا اور یقین دلایا کہ اس کینسر کا علاج کیا جائے گا۔ اسی طرح غیر جانبدار اور بلا تفریق احتساب کے لیے پہلی بار شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے عملی نفاذ کیلئے ملک گیر بیداری شعور مہم چلائی اور بالآخر انہی آرٹیکلز کے تحت روایتی کرپٹ اور لوٹ کھسوٹ کی سیاست پریقین رکھنے والی قوتوں کا محاسبہ ہوا۔ ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کا بطورِ ریفارمر کردار روایتی سیاسی قوتوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے ریاستی طاقت کے بے رحم استعمال کے ذریعے انہیں اور ان کے جانثارکارکنان کو ڈرانے، دھمکانے کی کوشش بھی کی، سانحہ ماڈل ٹائون اس کی ایک بدترین مثال ہے لیکن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ان کے کارکنان نے غاصب قوتوں کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک نڈر، باکردار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت ہیں جن کے سیاسی، سماجی، دینی ویژن نے دنیا بھر میں اپنے مداحین پیدا کیے، آج بھی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری اور ان کے کارکنان ظالم نظام اور طاغوتی قوتوں کے خلاف ایک توانا اور جرأت مند آواز ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ان کے 69 ویں پیدائش کے موقع پر محترم وفاقی وزیر ڈاکٹر نور الحق قادری، صوبائی وزراء میاں اسلم اقبال، چودھری ظہیر الدین خان، صاحبزادہ سید سعید الحسن شاہ، ہاشم جواں بخت، میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، سردار محسن لغاری، آشفہ ریاض فتیانہ، اعجاز عالم، میاں منظور احمد وٹو، میاں عمران مسعود، بیرسٹر عامر حسن، کامل علی آغا، جمشید چیمہ، اعجاز چودھری،مسرت جمشید چیمہ اور تنزیلہ عمران نے مبارکباد دی۔