اللہ جل مجدہ کا امتِ مسلمہ پر یہ کرم رہا ہے کہ حبیب خدا سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ظاہری زمانۂ حیات کے بعد اب تک اور اس کے بعد قیامت تک ایسے ’’رجالِ کار‘‘ کا سلسلہ جاری رہے گا جو ملتِ اسلامیہ کے علمی، فکری، اعتقادی اور اخلاقی و روحانی زوال و انحطاط کو ختم کرنے اور ملت کی عروقِ مردہ میں حیات ِ نو کے لیے مصروفِ عمل رہیں گے۔
ساتویں صدی ہجری میں ایک طرف تاتاری حملوں نے دنیائے اسلام کو تباہی سے دوچار کردیا تھا تو دوسری طرف فلسفہ، منطق اور علم کلام میں انہماک کی بنا پر مسلمانوں کی اعتقادی حیثیت متزلزل ہوچکی تھی۔ ایمان و ایقان میں پختگی کی جگہ پر شک اور مایوسی کا غلبہ تھا۔ کاہلی، تن آسانی اور جمود و تعطل اہلِ اسلام کا شعار بن چکا تھا۔ ان حالات میں قدرتِ خداوندی نے امتِ مسلمہ کے عروقِ مردہ میں حیاتِ نو کے لیے مولانا روم کا انتخاب کیا۔
سلطان العاشقین حضرت مولانا جلال الدین محمد رومی (604ھ) کی زندگی کے دو ادوار ہیں:
1۔ شاہ شمس تبریز سے ملاقات سے پہلے کا دور
2۔ شاہ شمس تبریز سے ملاقات کے بعدکا دور
پہلے دور میں آپ پر ظاہری علوم و فنون اور معقولات و منقولات کا اس قدر غلبہ تھا کہ آپ اپنے وقت کے سلطان العلماء اور امام الفقہاء تھے۔ دنیائے اسلام کے اطراف و اکناف سے علومِ اسلامیہ کی تحصیل اور افتاء کے لیے متلاشیانِ علم و تحقیق کے لیے آپ مرجع تھے ۔ فقہ و مذاہب کے علوم میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔
شاہ شمس تبریز سے ملاقات کے بعد آپ قال سے حال، ظاہر سے باطن اور شنید سے دید کی طرف منتقل ہوگئے۔ انسانی زندگی میں بعض دفعہ ایسے اسباب و واقعات آتے ہیں جو انقلاب کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
دمِ عارف نسیمِ صبحِ دم ہے اسی سے معنی ریشم میں نم ہے
اگر کوئی شعیب آئے میسر شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
شاہ شمس تبریز کی ملاقات اور صحبت نے جلال الدین محمد کو ’’مولوی‘‘ سے ’’مولائے روم‘‘ کی صورت میں ایسا موثر کردار عطا کیا جس کی حقیقت پر یہ اشعار بزبانِ خاص و عام دلالت کرتے ہیں:
ہیچ چیزی خود بخود چیزے نشد ہیچ آہن خود بخود تیغے نشد
ہیچ حلوائی نشداستاذِ کار تاکے شاگردِ شکر ریزے نشد
مولوی ہرگز نشد مولائے روم تاغلامِ شمس تبریزے نشد
مولانا کی زندگی کے اسی ’’انقلاب‘‘ سے مشہور زمانہ ’’مثنوی معنوی‘‘معرضِ وجود میں آئی جسے ہر دور میں خدائے ذوالجلال نے مقبولِ خواص و عوام بنادیا۔ تصوف و سلوک، اسرار و معارف اور شریعت و طریقت میں اپنی نوعیت کے اس منفرد کتاب کو اس قدر پذیرائی ملی کہ فارسی زبان کے معروف شاعر اور علومِ اسلامیہ کی کئی نصابی کتب کے مصنف مولانا عبدالرحمن جامی کو کہنا پڑا:
مثنوی مولوی معنوی ہست قرآن در زبانِ پہلوی
مولانا رومؒ نے مثنوی کے علاوہ 50 ہزار اشعار پر مشتمل ’’دیوانِ شمس تبریز‘‘ بھی لکھا۔ دونوں کتب کے اشعار کی تعداد کم و بیش 80 ہزار ہے۔
مولانا روم کے کارہائے نمایاں اور احوالِ زمانہ
رومی کا دور مسلمانوں کے لیے انتہائی ذلت اور زوال کا دور تھا۔ ایک طرف صلیبی جنگوں کا آغاز ہوچکا تھا جن کے باعث فلسطین اور اردگرد کا علاقہ یورپی فوجیوں کے ہاتھوں برباد ہوا۔ دوسری طرف منگولوں کے ظالمانہ حملوں سے تباہی کے خوفناک مناظر سامنے آئے۔ چنگیز خان نے 1219ء میں ان حملوں کا آغاز کیا۔ پھر 1256ء میں ہلاکو خان کےحملوں سے دوسری بار اکثر مسلمان خطے تباہ و برباد ہوئے۔ جس کے نتیجے میں 1258ء میں خلافتِ بغداد ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔ کچھ عرصے کے بعد 1266ء میں ہسپانیہ میں بھی مسلمانوں کی عظیم سلطنت ختم ہوگئی۔ ان خوفناک واقعات کے نتیجے میں بے شمار علماء قتل کردیئے گئے۔ بہت سے کتب خانے اور مدرسے ضائع ہوگئے لیکن سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسلمانوں کے ذہن میں اسلام کے حوالے سے مایوسی کے جذبات پیدا ہوگئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ساتویں صدی ہجری میں فرقہ باطنیہ کی دو سو سالہ مسلسل کوششوں سے مسلمانوں میں غیر اسلامی تصوف مقبول ہوگیا اور مسلمان نفی خودی اور ترکِ عمل سے دوچار ہوگئے۔
مولانا رومی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ایسے حالات میں اپنے عظیم علمی شاہکار مثنوی معنوی جو گنجینہ حکمت ہے اور جس کا ہر دفتر عشق اور جدوجہد کے پیغام سے آراستہ ہے، اس کے ذریعے تمام اسلامی افکار کے خلاف صدائے اعتراض بلند کی۔
مولانا رومی نے اپنے کلام کے ذریعے مسلمانوں کے درج ذیل غلط تصورات کی اصلاح کی:
1۔ تشکیک کی جگہ یقین اور یاس کی جگہ امید کا پیغام دیا۔
2۔ بے عملی کو سمِ قاتل قرار دیتے ہوئے جدوجہد کا سبق پڑھایا۔
3۔ انفس و آفاق کو مسخر کرنے کی دعوت دی۔
4۔ ظاہر پرستی کی بجائے معنی پرستی پر زور دیا۔ (یہی وجہ ہے کہ آپ کی مثنوی اپنی معنویت کی وجہ سے ’’مثنوی معنوی‘‘ کے نام سےمعروف و موسوم ہوگئی۔)
5۔ عقل اور عشق کے خوشگوار امتزاج کو مادی اور روحانی ترقی کے لیے شرط قرار دیا۔
6۔ انسان کے ’’مجبور محض‘‘ کے تصور کی یوں اصلاح کی کہ انسان بعض معاملات میں مجبور ہے تو بعض میں مختار۔ یعنی انسان کو اپنی زندگی کو بہتر اور فلاحِ دارین کے لیے مفید بنانے کا پورا اختیار ہے۔ اسی تصور پر تو جزا و سزا کا عقیدہ رہے۔
کلامِ رومی کی خصوصیات
مولانا روم کا کلام اپنے اندر بے پناہ خوبیوں اور خصوصیات کو سموئے ہوئے ہے۔ ذیل میں ان میں سے چند درج کی جارہی ہیں:
1۔ مولانا روم کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے دل میں دینِ اسلام کی محبت، اولیاء کرام کا عشق اور قومی اصلاح کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ان کے اشعار میں مذکور ان کے اقوال ایسے درست، مستند اور فیصلہ کن معلوم ہوتے ہیں جیسے قرآن و حدیث کے فرامین اپنی وضاحت میں منفرد ہیں۔
2۔ چھ دفاتر پر مشتمل مولانا روم کی ’’مثنوی‘‘اپنے اندر تمام ضروری اسلامی علوم سموئے ہوئے ہے۔ کوئی شعبۂ حیات یا علمِ موجودات ایسا نہیں جس پر آپ نے کلام نہ کیا ہو۔ ان موضوعات میں نفس، روح، عقل، اخلاق، الہٰیات، صفاتِ باری تعالیٰ، نبوت، وحی، جبر و قدر، شریعت و طریقت، فلسفہ، سائنس، تجاذبِ اجسام اور تجددِ امثال بالخصوص قابل ذکر ہیں۔
3۔ مولانا رومی کے کلام نے دلوں کو ایمان و ایقان کی نئی حرارت بخشی۔
4۔ آپؒ کا سارا کلام، خواہ کلیاتِ شمس تبریز کی صورت میں ہو یا مثنوی معنوی کی صورت میں، عشق کی تعریف و توصیف سے بھرا پڑا ہے۔
مولانا روم کے کلام میں ’’عشق‘‘ کا غلبہ
مولانا روم ’’عشق‘‘ کو ایک آفاقی احساس سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی کائنات و آفاق سے ہم آہنگی کا جذبہ۔ آپ کے نزدیک عشق اس کائنات کی حرکی قوت ہے۔ رومی ’’عقل‘‘ کی خدمات کے معترف تو ہیں لیکن جملہ امراض و علل کا طبیب ’’عشق‘‘ ہی کو ٹھہراتے ہیں۔ جس مقام پر فلسفہ و استدلال بے دست و پا ہوجاتے ہیں۔ وہاں عشق بے خوف و خطر جان کی بازی لگادینے کے لیے کمر بستہ ہوجاتا ہے۔ رومی کے نظامِ فکر میں عشق ایک بنیادی نکتہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ مشہور ماہر رومیات خلیفہ عبدالحکیم، مثنوی اور تصورِ عشق کے حوالہ سے رقمطراز ہیں:
’’عشق؛ مثنوی کا اہم ترین موضوع ہے جو اس کے ہر دیگر مضمون پر چھایا ہوا ہے۔ مولانا روم ہزار طرح سے اس کی تفسیر کرتے ہیں اور وجد و مستی میں نغمہ ریز ہوتے ہیں لیکن ان کو تسلی نہیں ہوتی۔ نہ وہ خود عشق کی گونا گوں کیفیات سے سیر ہوتے ہیں اور نہ اس کے بیان سے ان کو تسلی و تشفی ہوتی ہے۔‘‘
مثنوی معنوی از اول تا آخر ’’عشق‘‘ کا ترانہ ہے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق عشق ہی انسان کی عبادات و اعمال کا سرچشمہ ہے۔ آپ کے نزدیک عشق وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ۔ (البقرہ: 165) کی ایک منظم حقیقت ہے۔ایمان کی افادیت اسی وقت ہوسکتی ہے جب اس کی جڑیں عشق کی زمین میں پیوست ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کریم ﷺ کا عشق مغزِ قرآن، جانِ ایمان اور قلب و روح کی غذا ہے۔ عشق اخلاقی امراض و علل کا علاج ہے۔ چنانچہ مولانا مثنوی کے آغاز ہی میں عشق کا نغمہ یوں الاپتے ہیں:
شادباش اے عشقِ خوش سودائے ما اے طبیبِ جملہ علّت ہائے ما
اے دوائے نخوت و ناموسِ ما اے تو افلاطون و جالینوس ما
ہر کرا جامہ ز عشقے چاک شد او زِ حرص و آزِ کلی پاک شد
’’خوش رہ، اے ہمارے اچھے جنون والے عشق! اے ہماری تمام بیماریوں کے طبیب! اے ہمارے تکبر اور عزت طلبی کی بیماریوں کی دوا! تو ہمارا افلاطون بھی ہے اور جالینوس بھی۔ جس شخص کا جامہ عشق کی وجہ سے چاک ہوگیا، وہ ہر طرح کے حرص اور عیب سے پاک ہوگیا۔‘‘
کوئی شخص دریائے عشق میں جس قدر زیادہ غوطہ زن ہوگا، اسی قدر منشاء الہٰی کے زیادہ قریب ہوگا۔ آپ کے نزدیک عشق ایک ’’اصطرلاب‘‘ ہے۔ جس سے معرفت کے بھید معلوم ہوتے ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
علتِ عاشق زعلت ھا جداست عشق اصطرلاب اسرارِ خداست
رومی تصوف میں ڈوبا ہوا ہے چونکہ تصوف نے ہمیشہ عقل کو عرفان کے راستے میں ایک سنگِ گراں سمجھا ہے، اس لیے رومی اس ’’عقل‘‘ کو گردن زنی قرار دیتا ہے۔
فکرِ رومی اور اقبال
مشرق کے عظیم فلسفی شاعر ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے مولانا رومی کو اپنا مرشد اور امام قرار دیا ہے۔ کلام اقبال میں بھی جابجا عقل و عشق کے موازنہ میں عشق کو رہبر بنانے کا پیغام ملتا ہے۔ اقبال، کہیں تو ’’آتشِ نمرود‘‘میں بے خطر کود پڑنے کا محرک ’’عشق‘‘ قرار دیتے ہیں تو کہیں اسے عقل و دل و نگاہ کا ’’مرشد اولین‘‘ قرار دیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
من بندۂ آزادم، عشق است امامِ من
عشق است امامِ من، عقل است غلامِ من
عقل عیار ہے، سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلّا ہے، نہ زاہد، نہ حکیم
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عشق اول، عشق آخر، عشق کل
عشق شاخ و عشق نخل و عشق گل
دورِ حاضر میں مولانا رومی کے پیغام کو سمجھنے سمجھانے اور پھیلانے میں اقبال کا سب سے اہم کردار ہے۔ اقبال نے مشرقی و مغربی فلسفے اور اسلامی و غیر اسلامی افکار کے گہرے مطالعہ کے بعد قرآن کو اپنا رہبر، پیغمبر اسلام کو اپنا محبوب اور مولانا روم کو اپنا مرشد قرار دیا۔ افکارِ رومی کی بنیاد پر اپنے فلسفۂ خودی کی شاندار عمارت قائم کی۔ اقبال؛ رومی کا خلیفہ ہے، وہ اپنی ہر کتاب میں (علم الاقتصاد کے علاوہ) مولانا روم کی رہنمائی کا ذکر کرتا ہےا ور انہیں مختلف القابات سے یاد کرتا ہے۔ کثرت الاسماء تدل علی کثرت المعانی کے مصداق علامہ اقبال نے مولانا روم کے لیے درج ذیل القابات استعمال کیے ہیں:
1۔ مرشدِ روم
2۔ پیرِ روم
3۔ مرشدِ رومی
4۔ پیرِ عجم
5۔ پیرِ حق سرشت
6۔ پیرِ یزدانی
7۔ مردِ خبیر
8۔ امام راستان
علامہ اقبال راہِ عشق کے مسافروں کو تلقین کرتے ہیں کہ رومی کو اپنا رفیق بنائیں:
پیرِ رومی را رفیق راہ ساز تاخدا بخشد ترا سوز وگداز
اپنے دور کے فرنگی زدہ نوجوان کا علاج تجویز کرتے ہیں:
علاج آتشِ رومی کے سوز میں ہے ترا
تیری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
ملتِ اسلامیہ کی بیداری کے فلسفہ کی پیش کش میں علامہ اقبال؛ مولانا جلال الدین کے افکار سے بہت متاثر رہے۔ اقبال نے دور حاضر کی مقتضیات اور ضروریات کے مطابق اپنی شاعری کے ذریعے، تصوف اور فلسفے کا نیا چراغ روشن کیا اور اسلام کی نئی تعبیر متعارف کروائی۔ علامہ محمد اقبال نے عہدِ رومی کے الم ناک واقعات کا موازنہ اپنے دور کے واقعات سے کیا تو انہیں ایک حیرت ناک مماثلت نظر آئی۔ اقبال کے دور میں بھی برصغیر کے مسلمان مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد اپنے دین کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہوچکے تھے۔ اسی مماثلت کے پیش نظر اقبال ارمغان حجاز (1938ء) میں فرماتے ہیں:
چوں رومی در حرم دادم اذانِ من از و آموختم اسرارِ جانِ
من
بہ دور فتنۂ عصر کہن اُو بہ دورِ فتنہ عصرِ روانِ من
عصرِ حاضر اور اسلام کو درپیش چیلنجز
عصرِ حاضر مادہ پرستی، الحاد و بے راہروی، فکری و اعتقادی تزلزل، فرقہ پرستی اور دہشت گردی سے دوچار ہے۔ امتِ مسلمہ کے عقائد کو متزلزل کیا جارہا ہے۔ اسلام جو امن و محبت اور رواداری کا دین ہے، ایک سازش کے تحت اسے دہشت گردی و تشدد سے ملایا جارہا تھا۔ مغرب میں مسلمانوں پر انتہا پسند اور دہشت گرد ہونے کا الزام عام تھا۔ مسلم قیادتیں اپنے اپنے حصار میں اپنے مزعومہ مفادات کے لیے مصروفِ کار تھیں۔ ان حالات میں اللہ رب العزت نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا انتخاب کیا۔ جنہوں نے ہر فتنہ کا ڈٹ کا مقابلہ کیا۔
آپ دراصل حضرت امام غزالی، مولانا روم، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان اور حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمھم اللہ تعالیٰ جیسے مصلحین و مجدّدین کا تسلسل ہیں۔ آپ نے موجودہ دور کے چیلنجز کا خداداد بصیرت و حکمت سے مقابلہ کیا۔ پہلے ادوار میں زوال شعبہ جاتی ہوتا تھا۔ آج کل زوال و انحطاط ہمہ گیر ہے جس کے لیے ہمہ گیر اصلاح و تجدید کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ نے اپنے تجدیدی و اصلاحی کام کے لیے تحریک منہاج القرآن قائم کی۔ آپ اپنوں کی نادانیوں اور پرایوں کی مخالفتوں کی شدت کے باوجود دین کی مٹتی ہوئی اخلاقی و روحانی قدروں کو زندہ کررہے ہیں۔ آپ دنیائے انسانیت میں محبت و مؤدت، امن و سلامتی اور برداشت و رواداری کے علم بردار ہیں۔ آپ دنیا بھر میں اپنے متوسلین میں یہ جذبہ بیدار کررہے ہیں:
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے تو اس مشکل کو آسان کرکے چھوڑوں گا
فکرِ رومی اور شیخ الاسلام
تحریک منہاج القرآن آج کے دور زوال و انحطاط میں احیاء اسلام اور غلبہ دینِ حق کی بحالی کے لیے اپنے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی مدبرانہ قیادت میں اپنی منزل کی جانب گامزن ہے۔ یہ تحریک مولانا روم کے فیضان سے مستفیض و مستنیر ہے۔تحریک منہاج القرآن کے عناصرِ خمسہ میں تعلق باللہ ایک اہم عنصر ہے۔ اس تعلق کی بحالی کے لیے تصوف کے افکار کی ضرورت ہے۔ لہذا شیخ الاسلام نے 1980ء میں جب تحریک منہاج القرآن کی دعوت کا آغاز کیا تو اوائل دور ہی سے مسجد رحمانیہ شادمان کالونی لاہور میں جہاں درسِ قرآن کی سلسلہ وار نشستوں کا انعقاد ہوتا تھا، وہاں دروسِ تصوف کے سلسلہ کا بھی اجراء کردیا تھا۔
شیخ الاسلام نے اپنے والد گرامی فرید ملت حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کی آغوشِ تربیت میں مولانا روم کی صحبت اور مثنوی کا فیض بھی پایا۔شیخ الاسلام نے اپنی کئی مجالس میں اپنے والد گرامی کے آخری ایام کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والد گرامی پچھلی رات کو اٹھتے اور دیگر اورادو وظائف کے ساتھ مثنوی معنوی بھی مخصوص لَے میں پڑھتے اور اشکبار ہوجاتے۔
حضرت فرید ملتؒ کو مثنوی معنوی سے بے پناہ محبت تھی۔ یہ محبت شیخ الاسلام کو ورثہ میں ملی۔ آپ تحریک منہاج القرآن کے رفقاء کی تربیت، شب بیداریوں، حلقہ ہائے ذکر اور بالخصوص اعتکاف کے اجتماعات میں مثنوی کے درس دیتے رہتے ہیں۔ راقم الحروف نے 1986ء میں جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن ماڈل ٹاؤن لاہور میں داخلہ لیا۔ اس وقت سے لے کر 1994ء کے سال فراغت اور پھر اعتکاف کی کئی نشستوں میں دروسِ مثنوی سے اکتسابِ فیض کرنے کا موقع ملتا رہا۔ یوں تو اکثر و بیشتر اعتکاف کے دروس میں تربیت و سلوک میں مثنوی کا درس شامل ہوتا ہے لیکن 2018ء کے اعتکاف کے تمام دروس کا موضوع ’’مثنوی معنوی‘‘ ہی رہا۔ اس سال آپ کے دروسِ مثنوی کے موضوعات کچھ اس طرح تھے:
1۔ تعارف مثنوی و صاحب مثنوی
2۔ بیداری روح اور طلبِ عشقِ الہٰی
3۔ انسانی زندگی پر عقل و عشق کے اثرات
4۔ عشق خودی کی نفی اور وصلِ الہٰی کا ذریعہ ہے
5۔ عاشقانِ الہٰی کے احوال
6۔ قربِ الہٰی کا ذریعہ تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن
7۔ روحانی ترقی کے مراحل اور ادب کی اہمیت
شیخ الاسلام ان دروس میں سے ایک درس میں فرماتے ہیں کہ:
’’بندہ جب عشق کے مقام پر پہنچتا ہے تو اپنی چاہت اور طلب کو قربان کردیتا ہے۔ اس کیفیت میں وہ یہ چاہتا ہے کہ میں کچھ نہ چاہوں اور فقط وہ چاہوں جو میرا مولا، میرا محبوب حقیقی چاہے، میری چاہت اس کی چاہت میں ضم ہوجائے۔ نہ میں رہوں، نہ میری چاہت۔ جب یہ حدیں ٹوٹ جاتی ہیں تب عشق اپنے کمال کو پہنچتا ہے۔‘‘
شیخ الاسلام ان دروسِ مثنوی میں یہ نکتہ تاکیداً بیان کرتے ہیں کہ’’ عشق کا طریق ’’خودی‘‘ سے ’’بے خود‘‘ ہوجانا ہے اور ’’میں‘‘ کے ہوش سے بے ہوش ہوجانا ہے۔ ’’میں‘‘ علم سے مرتی ہے نہ زہد وورع سےاورنہ خالی اعمال صالحہ سے۔ یہ اس وقت مرتی ہے جب من میں ’’عشق‘‘ کا بھانبھڑ مچتا ہے۔ اس لیے مولانا روم بار بار فرماتے ہیں کہ ’’عشق‘‘ نخوت و ناموس جیسی بیماریوں کا علاج ہے۔‘‘
تحریک منہاج القرآن ’’عشق‘‘ کی قوت سے بندہ مومن کے قلب و باطن میں تعلق باللہ اور ربطِ رسالت کو مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ تحریک منہاج القرآن کی فکر دراصل مولانا روم اور ڈاکٹر محمد اقبال کی فکر کا تسلسل ہے۔ شیخ الاسلام کے دور میں ملت اسلامیہ فرقہ پرستی، فکری غلامی، دین و دنیا میں ثنویت، اخلاقی زوال و انحطاط اور مایوسی و بے یقینی سے دوچار ہوچکی ہے۔ 1980ء اور 90ء کی دہائی میں جب تحریک منہاج القرآن دعوتی و تنظیمی مراحل کو تیزی سے عبور کرتی جارہی تھی، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اس وقت کے خطابات کو ملاحظہ کیا جائے تو آپ اپنے خطابات میں ’’عشق‘‘ کا کثرت اور شدو مد سے ذکر کرتے ہیں۔ آپ اپنی کتاب ’’عشق رسول ﷺ وقت کی اہم ضرورت‘‘ (ص: 6) میں اس کی وضاحت کرتے ہیں:
’’عشق کی اصطلاح قدیم ہے یا جدید؟ ان مباحث میں الجھے بغیر سوال یہ ہے کہ عشق کے پس منظر میں جو تصور کافرفرما ہے اور عشق جن کیفیات سے عبارت ہے، ان کا قرآن و سنت کی تعلیمات کے ساتھ کس حد تک تعلق ہے؟ اسلام کی تعلیمات پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ ان کی روح عشق سے لبریز ہے۔‘‘
عشق کے مضمون اور کیفیات کی وضاحت کرتے ہوئے آپ مزید (ص: 11) لکھتے ہیں:
’’جب محبت کی کیفیات زندگی کے ایک ایک لمحے کو یوں محیط ہوجائیں کہ انسان کی طبیعت غیرِ محبوب سے بے نیاز ہوجائے۔۔۔ دل رضائے محبوب کے لیے سراپا انتظار رہے۔۔۔آنکھیں ہر لمحہ مشتاق دیدار رہیں۔۔۔ زبان ہر گھڑی محو ذکر رہے۔۔۔ پہلو بستر سے جدا ہوں، راتوں کی نیند خیر باد کہہ دے۔۔۔ اور صبح و شام ایک ہی یاد غالب رہے۔۔۔ تو اس کیفیت کو ’’عشق‘‘ کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔‘‘
شیخ الاسلام اپنی ایک اور کتاب ’’ایمان پر باطل کا سہ جہتی حملہ اور اس کا تدارک‘‘ (ص: 108) میں حضور نبی اکرم ﷺ سے تعلقِ عشق کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’محبت جب ایک حد میں رہتی ہے تو اس درجہ میں عقل کا تھوڑا بہت دخل رہتا ہے مگر جب یہی محبت حدیں پھلانگ کر عشق کے قالب میں ڈھل جاتی ہے تو وہ عقل کو دھتکار کر بیک قلم اس سے بیگانہ ہوجاتی ہے اور اس کی مداخلت برداشت نہیں کرتی۔ یہ مقام عشق کا مقام ہے جہاں بقول اقبال:
بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
یہ منزل تب آتی ہے جب عشق اس درجہ کو پہنچ جائے تو پھر عقل فارغ ہوکر ایک گوشہ میں بیٹھ جاتی ہے۔‘‘
شیخ الاسلام کے خطابات اور تحریریں امت مسلمہ کے عروقِ مردہ کو اسی عشقِ الہٰی اور عشقِ رسالتمآب ﷺ کی حرارت سے حیاتِ نو کی کیفیات سے بہرہ ور کررہی ہیں۔ اسی ’’عشق‘‘ کے سبق کو مولانا روم اور پھر علامہ محمد اقبال نے اپنے کلام کے ذریعے عام کیا۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ آج مغرب میں تاریخِ اسلام کی چند نامور اعلیٰ شخصیات پر تحقیق ہورہی ہے۔ ان میں حجۃ الاسلام امام محمد غزالی، الشیخ الاکبر محی الدین ابن العربی اور حضرت مولانا جلال الدین رومؒی شامل ہیں۔
مغرب میں اسلام کی پیشکش اور فکرِ رومی و طاہر
عصرِ حاضر میں اسلام کی دعوت و پیشکش کے کیا تقاضے ہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے مولانائے روم کی ’’مثنوی معنوی‘‘ کے دفتر پنجم کی ایک حکایت ملاحظہ فرمائیں اور پھر اس کے نتیجہ و پیغام کے طور پر قائد تحریک منہاج القرآن کے دعوتی اسلوب کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ فکرِ رومی کے تسلسل و ارتقاء میں شیخ الاسلام کس انداز سے اسلام کا آفاقی پیغام عالمِ مغرب کے سامنے پیش فرمارہے ہیں:
مولانا روم نے دفتر پنجم میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک مؤذن کی آواز انتہائی کریہہ و بھدی تھی۔ اسے اذان کا بہت شوق تھا رات بھر اپنی بھدی آوازی میں مناجات و ذکر کے ذریعے لوگوں کو جگاتا رہتا۔ عوام و خواص اس کی آواز سے عذاب میں تھے۔ انھوں نے چھٹکارا پانے کے لیے اس کے لیے چندہ جمع کیا اور ایک قافلہ کے ساتھ حج کے لیے بھیج دیا۔ راستہ میں ایک مقام پر قافلہ نے پڑاؤ کیا۔ اس نے قافلہ والوں کے منع کرنے کے باوجود اپنے شوق و جذبہ کے پیشِ نظر کفرستان میں اذان دے دی۔ جس پر ایک کافر کچھ تحائف لے کر آگیا۔ لوگوں کے تحفہ کی وجہ پوچھنے پر کافر نے جواب دیا کہ میری ایک خوبصورت بیٹی اسلام کی طرف مائل ہوگئی تھی۔ ہمارے سمجھانے پر باز نہ آئی، اس مؤذن کی آواز سن کر اسلام سے برگشتہ ہوگئی۔ آج آپ کے اس قافلہ والوں میں سے کسی نے آذان دی تو اس نے آذان کی آواز سننے پر پوچھا: میں نے ساری عمر مندر اور بت خانہ میں ایسی بھدی آواز کبھی نہیں سنی۔یہ کیا ہے؟اس لڑکی کی بہن نے اس سے کہا کہ یہ اذان کی آواز ہے، یہ مسلمانوں کی عبادت کا اعلان اور ان کا مذہبی شعار ہے۔جب لڑکی کو یقین ہوگیا کہ واقعی یہ اسلام کی منادی ہے تو وہ اس مذہب سے برگشتہ ہوگئی۔ کافر شخص نے کہا کہ موذن کی آواز نے مجھے راحت پہنچائی ہے۔ اس لیے اس کے شکریہ اور احسان مندی کے طور پر یہ تحائف لایا ہوں۔
مولانا روم اس حکایت کے آخر میں نام نہاد داعیین و مبلغینِ اسلام کو جھنجھوڑتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہست ایمانِ شمار زرق و مجاز راہزن ہمچوں کہ آں بانگ نماز
’’تمھارا ایمان بھی مکر اور مجاز ہے۔ یہ اسی طرح کا ڈاکو ہے جس طرح کہ وہ اذان (یعنی تم اس مؤذن کی طرح انسانوں کو ایمان سے بھگانے والے ہو)۔‘‘
مذکورہ حکایت کے ذریعے مولانا روم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات اور ضابطے بے شک حسین ہیں لیکن ان کو پیش کرنے کے انداز (Presentation) میں بھی حسن اور دلکشی ہونی چاہیے۔ آواز اور اسلوب میں مٹھاس ہو تاکہ مخاطب اس دعوت کو قبول کرنے کی طرف راغب ہو۔ مسلمانوں کو اپنا طرزِ عمل بھی بہتر بنانا چاہیے۔اسی لیے قرآن حکیم میں دین کی دعوت و تبلیغ کے متعلق ارشاد ہوا:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ.
(النحل: 125)
’’ (اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے۔‘‘
آج کل کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ محض نام کے مسلمان ہیں۔ ان کی اخلاقی اور عملی حالت نہایت ابتر ہے۔ اگر کوئی غیر مسلم اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کرے اور پھر اسے مسلمانوں کی عملی زندگی پر انطباق کرے تو اس کے دل میں اسلام کی کوئی وقعت پیدا نہیں ہوگی۔ بعض دفعہ نو مسلم، مسلمانوں کا عمل دیکھ کر اسلام سے برگشتہ ہونے لگتے ہیں۔ جیسے اذان سے ایک لڑکی ایمان لاتے لاتے برگشتہ ہوگئی۔
ایک دفعہ یورپ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مسلم سوسائٹی کے ایک اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
’’ مغربی معاشرہ میں اسلام کی دعوت و فروغ میں دو موانع ہیں:
1۔ Miss understanding
2۔ miss presentation
یعنی غیر مسلموں کو اسلام کے سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی اور مسلمانوں نے اسلام کو پیش کرنے کے انداز اور طریقہ کار میں غلطی کی۔ اگر اسلام کو حقیقی تصورات کے ساتھ پیش کیا جائے تو اس کے وسیع اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
مذکورہ حکایت میں جہاں تک اذان کا تعلق ہے یہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی، شہادت توحید و رسالت اور صلاح و فلاح کی دعوت کا نام ہے لیکن کرخت اور بھدی آواز سے مراد اس دعوت کی پیشکش کا طریقہ ہے۔ پیشکش میں بھی حسن ہونا چاہیے اور دعوت میں مٹھاس، شیرینی اور دلکشی ہونی چاہیے۔ مسلمانوں کا عمل بھی دعوت ہونا چاہیے۔ اگر کوئی اسلام کوپریکٹیکل صورت میں دیکھنا چاہے تو مسلمان کا طرز عمل اس کا نمونہ ہونا چاہیے۔ مگر افسوس آج بقول اقبال، عالم یہ ہے:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
شیخ الاسلام مدظلہ ’’لٹھ مار تبلیغ‘‘ کے مخالف ہیں۔ آپ کے طریقۂ دعوت و تبلیغ میں مٹھاس، دلکشی اور شیرینی ہے جس کی بدولت مشرق و مغرب میں نوجوانوں کی کثیر تعداد دولتِ ایمان و اسلام سے مالا مال ہوچکی ہے۔ آپ کے نزدیک دل ’’تصوف‘‘ سے بدلتے ہیں، ’’تشدد‘‘ سے نہیں۔ آپ نے عالم مغرب کے سامنے اسلام کا جو چہرہ پیش کیا وہ ہر طرح کے تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گردی سے پاک ہے۔
آپ نے چند سال قبل لندن کے’’ویمبلے ہال‘‘ میں مختلف مذاہب کے سرکردہ قائدین کو جمع کیا اور ان کے سامنے اسلام کے عالمگیر پیغام محبت اور انسان دوستی کو پیش کیا۔ یہ وہی انسان دوستی کا پیغام ہے جو مولانا روم نے ساتویں صدی ہجری میں دیا۔ مولانا روم ہی کیا ہر صوفی امن پسند اور انسان دوست ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام اس وقت دنیا بھر میں تصوف اور انسان دوستی کے سب سے بڑے وکیل اور پیغامبر ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے نفرت زدہ ماحول میں آپ کے افکارِ محبت کو عام کیا جائے۔ مجددِ عصر کو پہچانیں اور منہاج القرآن کی صورت میں آپ کی تجدیدی تحریک کے دست و بازو بن کر نفرت زدہ معاشرہ کو محبت و رحمت اور امن و آشتی کا گہوارہ بنادیں:
شراب کہن پھر پلاساقیا وہی جام گردش میں لا ساقیا
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دلِ مرتضیٰ سوزِ صدیق دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر تمنا کو سینوں میں بیدار کر
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے میرا عشق، میری نظر بخش دے