1984ء کا زمانہ ہے، اقبال کے اشعار نے تلاشِ رہبر کا ذوق خوب کمال پر پہنچا دیا۔ والد صاحب (مرحوم) اولیائی صفات کے حامل تھے۔ اپنی کسبانہ اور کشفانہ نگاہ سے میرے ذوق کی تکمیل کے لیے چند ناموں کا انتخاب کیا اور مجھ سے ان کی صفاتِ قائدانہ کا ذکر کیا مگر اُن کے نقطہ تلاش کا آخری شاہکار نابغۂ عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری تھے جنھوں نے 80ء کی دہائی میں PTV کے پروگرام فہم القرآن کے ذریعے ساری دنیا کے لوگوں کو اپنا مسحور کرلیا تھا۔ والد صاحب (مرحوم) پاکستان ریلوے لاہور میں اعلیٰ ایگزیکٹو ذمہ داری ادا کررہے تھے۔ انھوں نے مجھے منہاج القرآن کے سپرد کرنے سے قبل اس نابغۂ عصر کو قربت و حضوری کی مجلس میں بہت سنا، دیکھا اور پرکھا اور پھر مجھ خام مال کو تراشنے اور قابلِ حیثیت و قابلِ شناخت بنانے کے لیے، میرا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ پھر مجھے اُن کے سپرد ایسے کردیا کہ نہ صرف میری تعلیم و تربیت اُن کے سپرد کی بلکہ میری زندگی کے عملی معاملات بھی اُن کے سپرد کردیے اور میری زندگی کی تنہائی کو اجتماعیت کا رنگ دینے کا آخری فیصلہ بھی انھوں نے کیا۔ میں نے نابغۂ عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو سب سے پہلے سننا شروع کیا، پھر ان سے پڑھنا شروع کیا، پھر ان کو پڑھنا شروع کیا اور جب میں انھیں بہت زیادہ سن اور پڑھ چکا تو پھر میں نے ان کے بارے میں بولنا اور لکھنا شروع کردیا۔ میں نے انھیں کیسے کیسے دیکھا اور پایا ہے؟ بس جیسے جیسے دیکھا ہے، اس کا کسی حد تک ذکر کیے دیتا ہوں:
1۔ معلمانہ حیثیت
مشاہدے، تجربے اور حصولِ علم کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عالمِ اسباب کی اس دنیا میں انسان کی شخصیت کی تعمیر کرنے والے سب سے پہلے معمار اس کے’’بیت‘‘ (گھر) اور درسگاہ ہیں۔ انسان جو کچھ سیکھتا ہے، سب سے پہلے اپنے والدین سے سیکھتا ہے اور پھر اس کے اساتذہ اس میں چھپی صلاحیتوں کے مطابق اس کی تعمیر کر دیتے ہیں۔ تعلیم کا زمانہ انسان کی تعمیر کا زمانہ ہے، اس کا معمار اوّل والدین ہیں اور پھر معلمین ہیں۔ ہر انسان زمانے میں جتنی بلندیوں پر پہنچتا ہے، اس کے پیچھے یہی مضبوط جڑیں ہوتی ہیں۔ جس قدر والدین عظیم، اسی قدر اولاد عظیم اور جس قدر معلم عظیم، اسی قدر طالب علم عظیم ہوتا ہے۔ یہ عظمت کا سفر عظمت والوں کی سنگت اور صحبت سے ہی میسر آتا ہے۔ ہر انسان کا ہر قول اور ہر فعل اپنا ایک اثر رکھتا ہے۔ انسان کی تعمیر اچھے اقوال اور بہترین و عمدہ افعال کو دیکھنے، سیکھنے اور کرنے سے ہوتی ہے۔ جس نے جتنا اچھا قول سنا ہوتا ہے، وہ اتنا ہی اچھا بولتا ہے اور جیسا عمدہ فعل اس نے مشاہدہ کیا ہوتا ہے پھر ویسا ہی بے مثل فعل معاشرے کے سامنے وہ پیش بھی کردیتا ہے۔
نابغۂ عصر شیخ الاسلام سے تعلیم و تربیت کے زمانے میں راقم نے ان کی شخصیت کی طرف اپنی توجہات کو اس قدر مرتکز کیا کہ ان کے ہر قول کو اچھی طرح سنا، بہت عمدگی سے جانا، ان سے بے انتہا سیکھا، ان کے ہر فعل کو خوب دیکھا، اچھی طرح سمجھا اور اس کی حکمت کو معلوم کیا۔ بالآخر ان کے قول اور فعل کے یہی انداز مجھے ان کا گرویدہ بناتے رہے اور میں ان سے علمی و فکری توانائی و جذبہ حاصل کرتا رہا۔ ان کے قول کو سننا اور اُن کے عمل کو دیکھنا، میرا محبوب مشغلہ بن گیا۔ ان کے قول کو اس قدر میں نے سنا کہ میرے نوٹس کے رجسٹرز اِن کے اقوال کی لکھائی سے بھرے پڑے ہوتے تھے، جن سے میں آج بھی استفادہ کرتا ہوں۔ میں نے اُن کے افعال کو اس قدر دیکھا کہ میں اُن افعال کو اپنی زندگی کا حصہ بناتا چلا گیا۔ جیسے وہ کرتے تھے، میں بھی اسی طرح کرتا جاتا تھا۔۔۔ جس انداز، اسلوب اور طریقے سے وہ کام کرتے تھے، میں بھی کام کو اسی طرح کرنے کو اپنی عادت بنانے لگا تھا۔ الغرض اُن کی شخصیت کا ہر رنگ میں اپنی زندگی کے ہر قول اور فعل میں اپنانے لگا تھا۔
میں نے اُن کو معلم کی حیثیت سے باکمال پایا۔ وہ معلمانہ حیثیت میں ایک بحرِ بیکراں محسوس ہوتے ہیں۔ جس موضوع پر بولتے ہیں، لاجواب بولتے ہیں۔ فقط ایک دلیل ہی دل کو فتح کرلیتی ہے مگر وہ تو دلائل کے انبار لگادیتے ہیں۔ جوں جوں اُن کے دلائل کا انبار بڑھتا ہے توں توں تسکینِ قلب اُن کے لیے محبت و چاہت کے انمٹ نقوش قائم کردیتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب نابغۂ عصر شیخ الاسلام نے 1987ء میں رسول اللہ ﷺ کے شمائل، خصائل اور فضائل پر علم سیرت کی انتہائی مستند کتاب ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ‘‘ کے دروس کا آغاز کیا تو یو ں لگتا کہ مصنف کتاب قاضی عیاض مالکیؒ کی روح ہمیں یہ کتاب خود پڑھا رہی ہے۔ ان دروس کے دوران لطیف علمی و عشقی نکات سے نہ صرف ہم متعجب ہوتے بلکہ ہمارے اساتذہ بھی حیرت زدہ ہوجاتے۔ آپ سیرت الرسول ﷺ کے وہ نکات بیان کرتے کہ ہماری عقل دنگ رہ جاتی کہ معانی و معارف اور اسرار و حکمت کے یہ راز کہاں سے آرہے ہیں۔
ان کے پڑھانے کے اسلوب و انداز سے کبھی ہمیں یوں احساس ہوتا کہ اس ’’کتاب الشفاء‘‘ کی شرح ’’نسیم الریاض‘‘ کو چار جلدوں میں لکھنے والے شارح علامہ احمد شہا ب الدین خفا جیؒ (متوفی 1069ھ) ہمیں درس الشفا دے رہے ہیں۔۔۔ کبھی ان کی علمی ثقاہت اورمضبوط طرزِ استدلال سے یوں محسوس ہوتا کہ اس کتاب الشفاء کے شارح ملا علی القاریؒ کی روح ہمارے سامنے بول رہی ہے۔۔۔ جب وہ اس کتاب کی احادیث پر علمی و فنی ابحاث کا تجزیہ کرتے تو ہمیں وہ امام جلال الدین سیوطیؒ کے روپ میں نظر آتے جن کی کتاب نے ’’مناہل الصفا‘‘ کے نام سے شہرت پائی ہے۔
طوالت کا خوف اس نابغۂ عصر کے دراسات القرآن، دراسات الحدیث، دراسات الفقہ و التصوف اور قرآنی فلسفہ انقلاب کے دروس کے احوال چھوڑنے پر مجبور کررہا ہے وگرنہ اِن علمی مجالس کے احوال کے ذکر کے لیے ایک عمر درکار ہے۔
2۔ مربیانہ صفات
نابغۂ عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت کے فیض کا اصل مصدر اور اصل منبع ذاتِ رسول اللہ ﷺ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی شخصیت میں ویزکیہم کا چشمہ صافی و مزکی بھی جاری ہے۔ اگر تشنگانِ علم طلبِ صادق رکھتے ہوں اور معرفت کے کچھ راز جاننے کے سچے طالب بھی ہوں اور کامل سوالی بھی ہوں تو ایسے لوگوں کو کیسے محروم رکھا جاسکتا ہے۔ نابغۂ عصر اپنی مربیانہ صفات کے ذریعے طلبہ کو راہِ سلوک کا سچا طالب و سالک بناتے ہیں۔ اُن کے روح و قلب کا تزکیہ کرتے تھے۔۔۔ اُن کے اخلاق و اعمال اور ذات و شخصیت کا جامع تصفیہ کرتے تھے۔۔۔ منزلِ حق کے لیے سب سے پہلے آداب بجا لانے کی طرف متوجہ کرتے تھے۔۔۔ ہر وقت باوضو رہنے کی نصیحت کرتے تھے۔۔۔ زبان کو ہمیشہ ذاکر رکھنے کی تلقین کرتے تھے۔۔۔ دل کو ہر لمحہ یاد الہٰی میں مسحور کرنے کی تعلیم دیتے تھے۔۔۔ شہواتِ نفسانی اور شہوات ِ شیطانی کے زور کو توڑنے کے لیے ایام بیض کے روزوں کے ذریعے مجاہدہ کے عمل سے گزارتے تھے۔ اس لیے کہ یہی شہوات انسان کو رشکِ ملائک نہیں بننے دیتیں۔ اس وقت بھی اور آج بھی ایام بیض کے روزے کالج آف شریعہ اور منھاج کالج فار ویمن کے طلبہ و طالبات کے لیے لازمی ہیں۔
نابغۂ عصر نے اپنے تعلیمی اور تحریکی ہر دو طرح کے طلبہ و طالبات کے اخلاق کو سنوارنے کی خصوصی تربیت دی ہے اور رسول اللہ ﷺ کے اخلاقِ کریمانہ ان پر آفتاب کی مانند روزِ روشن کی طرح عیاں کیے ہیں۔ آپ نے اپنی ذات کو سیرت مصطفوی کے سانچے میں ڈھال کر اپنے زیرِ تربیت افراد کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا ہے۔۔۔ زبانوں کی تلخی اور ترشی کو نرمی اور خوش گفتاری میں بدلنے کی ترغیب اور عملی تشویق دی ہے۔۔۔ عمل کو اخلاص کے قالب میں ڈھالنے کی تعلیم دی ہے۔۔۔ ائمہ و صلحاء کے اخلاق و کردار کا نقشہ ہر کسی کو دکھایا ہے۔۔۔ شب بیداریوں کے ذریعے تعلق باللہ، وابستگی رسالت، غمخواری دین اور بلندی اسلام کی تربیت دی ہے۔
نابغۂ عصر نے اپنی مربیانہ صفات سے اپنے سے متعلق ہر شخص کو انسانی صفات کا ایک مرقع اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا ایک پیکرِ مجسم بننے کا درسِ حیات دیا ہے۔ اُن کی تربیت ہی انسانی نفوس میں ایک بہت بڑی تبدیلی اور انقلاب لے کر آئی ہے۔ یوں وہ اپنے سے جڑنے والے افراد میں انقلابِ ذات لائے ہیں جبکہ مصطفوی معاشرے کی تشکیل کے لیے اُن کی جدوجہد آج بھی جاری ہے۔ یہ جدوجہد اور عملی کاوش مختلف ظروف و احوال کے مطابق مختلف النوع اور متفرق اسماء کے ساتھ اپنا ایک عنوان اور ٹائٹل رکھتی رہی ہے۔ ان کی قومی و انقلابی جدوجہد کے باب میں کم فہم شخص کو مغالطہ ہوتا رہا ہے جبکہ صائب الفہم شخص کو کبھی کوئی دشواری نہیں ہوئی ہے۔ تربیت کے حوالے سے اُن کا بڑا واضح نقطۂ نظر ہے کہ تربیت فرد اور معاشرے کو آہستہ آہستہ عروج و کمال کی طرف لے جاتی ہے۔
3۔ داعیانہ کردار
نابغۂ عصر کی شخصیت کا تیسرا پہلو جس کو راقم مسلسل دیکھتا رہا ہے وہ داعیانہ اور مبلغانہ پہلو ہے۔ داعی و مبلغ کی شخصیت اپنے اندر دو پہلو رکھتی ہے: ایک روپ اس کا لینے والا ہوتا ہے اور دوسرا روپ اس کا دینے والا ہوتا ہےشیخ الاسلام نے دعوت و تبلیغِ دین کا پہلو لیا بھی باکمال ہے اور آگے لوگوں کو دیا بھی بے مثال ہے۔ انھوں نے اپنے اس کردار کو مستقل مزاجی اور مسلسل تند دہی کے ساتھ ہر زمانے میں جاری رکھا ہے۔ اس کردار کا ایک پہلو دعوت بالتقریر ہے، اس کا نقطہ عروج آپ کی عملی زندگی میں ابتداء ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ جس کی مثال پاکستان ٹیلی ویژن کا مقبول ترین پروگرام فہم القرآن تھا۔ فہم القرآن کے پروگرام نے آپ کو قوم کے سامنے متعارف کرادیا۔ آپ کے علمی و فکری قد کاٹھ کو قوم کے سامنے رکھ دیا، قوم نے فہمِ دین اسلام اور فہمِ قرآن میں نابغۂ عصر کو بے مثال پایا تو انھیں قومی بلندی اور شہرت کی مقبولیت کی اعلیٰ ترین منزل اور منصب پر فائز کردیا۔ ساری قوم ان کے آواز کی اسیر ہوگئی، اس لیے کہ اس آواز میں علم کی ثقاہت، تحقیق کی صلابت اوردینِ اسلام کی اصل دعوت کی حقیقت تھی۔ قوم نے اپنی دینی حاجت کا ادراک کرلیا، ان کو اپنا مسیحا جانا اور نابغۂ عصر کا لقب دیا۔ آج یہ مبلغانہ اور داعیانہ آواز دنیا بھر میں ہزاروں خطابات و لیکچرز کی صورت میں سنی جارہی ہے۔ دعوت بالتقریر کے اس شعبے کو اپنے کمال پر پہنچانے کے بعد انھوں نے دعوت بالتحریر کی طرف توجہ کی۔
4۔ تصنیفی و تحریری کردار
نابغۂ عصر کی شخصیت کا وہ پہلو جو انھیں دوسری شخصیات سے ممتاز اور منفرد کرتا ہے کہ وہ ان کا اپنے زمانے کا بے مثال و بے نظیر مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ عدیم النظیر محرر و ادیب ہونا بھی ہے۔ تقریر کی طرح آپ کی تحریر بھی انتہائی مؤثر اور جاذبِ نظر اور دلکش ہے، جو اس کو پڑھتا ہے وہ پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اس تحریر کی چاشنی، اس کا منطقی ربط اور اس کی علمی پختگی اپنے قاری کو خوب قائل کرلیتی ہے۔ ان کی سیکڑوں کتابوں کا تحریری اسلوب اپنی دلیل آپ ہے۔ آپ نے ہر موضوع پر لکھا ہے اور جو لکھا ہے، خوب لکھا ہے۔ نابغہ عصر کا نام اور ان کی تحریر لکھنے والوں کے لیے بذاتِ خود ایک مستند حوالہ بن چکی ہے۔ ان کا اپنا اسلوب یہ ہے کہ کبھی کوئی بات حوالے کے بغیر نہ بولتے ہیں اور نہ لکھتے ہیں۔ اُن کے اسی اسلوب نے پورے زمانے میں نہ صرف ان کی یہ ثقہ پہچان کرائی ہے بلکہ سارے زمانے سے اپنے آپ کو منوا بھی لیا ہے۔
ہم نے اُن کو ہمیشہ مصروفِ تقریر وتحریر دیکھا ہے اور غوروفکر میں مستغرق پایا ہے اور کبھی فراغت نہیں دیکھی۔ زندگی کے کسی محاذ پر بھی ان سے بولنے اور لکھنے کا عمل ترک نہیں ہوا۔ انھوں نے اپنے آفس اور گھر میں بھی لکھا ہے اور اپنے سفر کے دوران بھی لکھا ہے۔۔۔ جلسوں میں جاتے ہوئے اور دھرنوں میں بیٹھ کر بھی لکھا ہے۔۔۔ ان کا قلم ان کی مصروفیات کا بہت زیادہ وقت لے لیتا ہے اور اتنی سرعت سے لکھتا ہے کہ مسودات کے انبار کے انبار لگتے جارہے ہیں۔ جن میں سے کچھ فوری طباعت کے عمل سے گزر رہے ہیں اور کچھ منتظرِ طباعت ہیں۔ ان کی تحریروں کو ادیبوں نے بھی مانا ہے اور خطیبوں نے بھی ان کی تحریر کو اپنی تقریر بنایا ہے اور اپنی کتابوں کا اور اپنی تقریروں کا حوالہ بنایا ہے۔ اس نابغۂ عصر نے اسلامی تعلیمات کے جملہ موضوعات؛ تفسیر، حدیث، فقہ، قانون، سیاست، معیشت، اخلاق، اصلاحِ اعمال، تعمیرِ شخصیت، قیادت سازی، فروغِ امن، انسدادِ دہشت گردی، الغرض ہر اُس پہلو پر لکھا ہے جس کی زمانے کو اسلام کی تعلیمات کی عملیت اور اسلام کے آفاقی دین ہونے کے حوالے سے ضرورت تھی۔ اس لیے کہ نابغۂ عصر کی پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ اس کی ذات اور خدمات معاشرے کے ہر فرد اور طبقہ کے لیے ایک مستند حوالہ ہوتی ہے۔
5۔ قیادت سازی
نابغۂ عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے امتِ مسلمہ کو عصرِ حاضر میں دینِ اسلام کی تجدید و احیاء، اصلاحِ احوال اور تعلیماتِ اسلام کی ترویج و اشاعت کا ایک مشن دیا ہے اور اس مشن پر اپنی زندگی کو دوسروں کے لیے قابلِ عمل مثال بنایا ہے۔ اس مشن کے دوام و تسلسل کے لیے ہر علاقے میں قابل افراد کی شدید ضرورت تھی۔ اس ضرورت کو انھوں نے رسمی اور غیر رسمی طریق سے پورا کیا ہے۔ رسمی طریق کے مطابق انھوں نے سب سے پہلے 1982ء میں جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کو قائم کیا ہے اور اس میں سات سالہ نصابِ تعلیم کے ذریعے اس مشن کو سنبھالنے والے علمی و فنی افراد تیار کیے ہیں۔ ان افراد کی تیار شدہ پہلی کھیپ 1992ء میں میسر آئی ہے۔ اب تسلسل کے ساتھ ہر سال تحریک کے عظیم مشن کے لیے افراد میسر آرہے ہیں۔ اسی رسمی طریق کے تحت 1993ء میں عوامی تعلیمی مراکز کا قیام عمل میں آیا جن کے تحت ہر علاقے میں بڑی تعداد میں یہ مراکز قائم کیے گئے۔ پھر ان ہی مراکز کو منہاج پرائمری، مڈل، ہائیر سکینڈری اور کالجز میں تبدیل کردیا گیا۔ پھر اسی طریق کو اپنے کمال کی طرف بڑھاتے ہوئے 2005ء میں منہاج یونیورسٹی لاہور کی شکل میں ڈھال دیا گیا۔
غیر رسمی طور پر اس نابغہ عصر نے لاکھوں افراد کو اپنے مشن کا کارکن اور عہدیدار بنایا ہے۔ اُن کو اپنے مشن کی رفاقت دے کر اپنی مصاحبت و قربت سے نوازا ہے اور اُن کو اپنی فکر کا امین بناکر معاشرے میں ایک امن پرور، محبت آمیز اور اتحاد و اخوت سے لبریز کردار کا حامل بنایا ہے۔
اپنے اس عظیم مشن سے وابستگی کے دروازے انہوں نے تمام افرادِ معاشرہ پر اُن کی نفسیات اور طبیعت کے مطابق کھولے ہیں۔انھوں نے معاشرے کے نوجوانوں کو منہاج القرآن یوتھ لیگ۔۔۔ طلبہ و طالبات کو مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ۔۔۔ خواتین کو منہاج القرآن ویمن لیگ۔۔۔ عام افرادِ معاشرہ کو تحریک منہاج القرآن۔۔۔ سیاسی ذہن کے حامل افراد کو PAT۔۔۔ عالمانہ وضع و شان رکھنے والوں کو علماء کونسل۔۔۔ اور قانونی شناخت رکھنے والوں کو PALM جیسے خوبصورت عنوانوں میں جڑ کر اپنے مشنری وجود کا حصہ بنایا ہے۔ ان میں سے ہر ہر شعبے کے افراد کو ایک امتیازی اور مثالی کردار کے لیے تیار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تربیت یافتہ افراد اس عظیم نابغۂ عصر کا نام لیے بغیر بھی اپنے کردار سے اُن کے نام سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ ایک بے مثل رہبر و راہنما کے تیار کردہ افراد یوں ہی معاشرے میں اپنی پہچان مستحکم کرتے ہیں۔
گویا یہ نابغۂ عصر اپنے عظیم مشن کے لیے براہ راست تربیت یافتہ اور بالواسطہ تربیت یافتہ اپنے تلامذہ تیار کررہے ہیں جو آج ہر جگہ اپنے کردار کی خوشبو کی وجہ سے ان کے نام سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔
6۔ مفکرانہ و قائدانہ کردار
کسی قوم کی ترقی کا انحصار اس کی فکر پر منحصر ہے۔ فکر؛ عمل کی ترجمان اور عمل کی روح ہوتی ہے۔ فکری پختگی قوم کو عروج دیتی ہے اور فکری اضمحلال قوم کو تباہ کرتا ہے۔ نابغۂ عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قوم کی بھرپور فکری راہنمائی بھی کی ہے۔ قوم کے احوالِ حیات کو سنوارنے کے لیے آپ نے سب سے پہلے قوم کی مذہبی راہنمائی کی۔ فہم القرآن، خطباتِ جمعہ کے ہفتہ وار پروگرامز، شب بیداری کی روحانی مجالس، چاروں صوبوں کے ہیڈ کوارٹر پر ماہانہ دروس قرآن، قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف سیمینارز، پروگرامز، کانفرنسز اور قومی اور بین الاقوامی فورمز پر ان کے لیکچرز نے قوم و امت کی صحیح سمت میں راہنمائی کی ہے۔
دوسری طرف قوم کی سیاسی فکر میں بلوغت پیدا کرنے کے لیے آپ نے قرآنی فلسفہ انقلاب کے ذریعے اپنے لیکچرز کا آغاز کیا اور اپنے انقلابی خیالات کو معاشرے میں ایک حقیقت بنانے کے لیے اُن کی عملی تشکیل بھی کی ہے۔ آپ نے سیاسی افق پر بڑے جاندار اور شاندار اسلوب میں ساری قوم کو آئین پاکستان پڑھایا ہے۔ سب کو اُن کے بنیادی حقوق کا شعور دیا ہے اور قوم کو یہ سمجھایا اور شعور دیا ہے کہ ان کے حقوق کا استحصال موجودہ ظالمانہ نظام کررہا ہے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ وہ افراد اس قوم کے دشمن ہیں جو اس ظالمانہ نظام کو تحفظ دیئے ہوئے ہیں۔
آپ نے ہر شخص کو اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے اس ظالمانہ نظام کے خلاف برسرِ پیکار ہونے کا بے پناہ ولولہ اور بے حساب جذبہ دیا ہے۔ آپ نے پوری قوم پر اس حقیقت کو عیاں کردیا ہے کہ پاکستان کی پستی اور تنزلی کا سب سے بڑا ذمہ دار اور سب سے بڑا مجرم یہ سیاسی اور معاشی ظالمانہ نظام ہے۔ یہ سومنات کے مندر کی طرح ہے، اس کو پاش پاش کرنا وقت کا جہادِ اعظم ہے۔ یہ نظام اُن کافروں کے بتوں کی طرح ہے جو دنیا کے سب سے پہلے مرکز توحید میں 360 کی تعداد میں موجود تھے۔
نابغۂ عصر شیخ الاسلام نے اپنی انقلابی فکر اور مفکرانہ کردار کے ذریعے واضح کردیا ہے کہ حقیقت میں پاکستان میں رائج فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام اسے دنیا میں معاشی اور سیاسی غلام اور دوسروں کا ہمیں دست نگر بنا چکا ہے۔ اس نظام کی موجودگی میں قوم کی ترقی معکوس جاری ہے اور ہمارا ہر آنے والا دن بدتر ہے۔۔۔ ہماری معیشت آئی ایم ایف کی کنیز ہے۔۔۔ ہماری سیاست عالمی طاقتوں کا کھلواڑ ہے۔۔۔ہماری غیرت دوست نما دشمنوں کے پاس گروی ہے۔۔۔ ہماری اخلاقیات مسلسل روبہ زوال ہیں۔۔۔ ہم نہ اپنی مرضی سے سوچ سکتے ہیں اور نہ اپنی مرضی سے کوئی کام کرسکتے ہیں۔۔۔ ہم ملک کے مفاد میں دوسرے ملکوں سے آزادانہ معاہدے نہیں کرسکتے ہیں۔۔۔ ہم اپنے ہمسایوں سے سستا تیل اور گیس اور اجناس تک نہیں لے سکتے۔۔۔ ہم کہنے کو آزاد ہیں مگر تاریخ کے بدترین غلام ہیں۔
اس نابغۂ عصر نے قوم کو اس ظالمانہ نظام کے ان بھیانک پہلوؤں سے آگاہ کیا ہے مگر یہ قوم خوابِ غفلت کی لمبی نیند میں سوئی ہوئی ہے۔۔۔ یہ بیداری کے ہر لہر کو نظر انداز کررہی ہے۔۔۔ یہ قوم اپنے موج میلے میں خوش ہے۔۔۔ اپنے آج پر ہر روز کڑھتی ہے اور آنے والے کل کے بارے میں فکر مند ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی ماضی سے کچھ سیکھتی ہے۔۔۔ جو فرد اس کے لیے بھیڑیا ہے، وہی اس کا رکھوالا ہے۔۔۔ جو اس کا شکاری ہے وہی اس کا محافظ ہے۔۔۔ جس نے اس کو لوٹنا ہے وہی اس کا پاسباں ہے۔۔۔ یہ جس کو اپنا راہنما سمجھتی ہے وہی اس کا رہزن ہے۔۔۔ جس کو خزانے کا نگران بناتی ہے، وہی خزانے کو لوٹ لیتا ہے۔۔۔ یہاں چور کی عزت محفوظ ہے صاحبِ کردارکی عزت غیر محفوظ ہے۔۔۔ یہاں ڈاکو راج کرتے ہیں اور ملک کے ڈاکٹرز دھکے کھاتے ہیں۔۔۔ یہاں قابلیت کے حامل نااھل کے ماتحت ہیں۔۔۔ اس ظالمانہ نظام میں انصاف ہوتا نہیں ہے بلکہ انصاف بکتا ہے۔۔۔ خون پر عدل نہیں ملتا ہے بلکہ مزید خون بہتا ہے۔۔۔ یہاں نوجوان مایوس اور عورتیں بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔۔۔ قدرت کی طرف سے قدرتی ماحول اور معدنیات کے ذخائر سے لبریز ہونے کے باوجود توانائی کا بحران ہے۔ الغرض یہاں مسائل درمسائل نے پاکستان کو مسائلستان بنادیا ہے۔ آج قومی افق پر اہل قیادت کو کوئی آگے نہیں آنے دیتا ہے۔ اس لیے کہ ظالمانہ نظام نااہل کی مسلسل حفاظت کرتا ہے اور اہل کو کنارے کرتا ہے۔
نابغۂ عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ہزاروں فکری لیکچرز قوم کو آج بھی جگا رہے ہیں۔ قوم وقتی اثر لیتی ہے مگر پھر خوابِ غفلت کا شکار ہوجاتی ہے۔ آپ کی انقلابی فکر کی حامل کتاب، قرآنی فلسفہ انقلاب کا ایک ایک حرف قوم کو مسلسل جگارہا ہے اور اسی موضوع پر آپ کے لیکچرز قوم کو مستقل بیدا رکررہے ہیں کہ ہمیں پاکستان میں رائج ظالمانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تبھی پاکستان دنیا کے نقشے پر عزت و عظمت کا مقام حاصل کرسکتا ہے۔
نابغۂ عصر نے پوری قوم کو یہ سوچ دی ہے کہ ہر شخص قوم کے لیے اور پاکستان کے لیے اٹھے اور اپنا تعمیری کردار اد ا کرے۔ ہر ایک پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اور اس ظالمانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے یہ حلف دے:
خونِ دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
نابغۂ عصر شیخ الاسلام کا مقصد اور منزل یہ ہے کہ پاکستانی قوم ساری دنیا کے مسلمانوں کی راہنمائی اور رہبری کرنے والی قوم ہو۔ وہ پاکستان کو ان مقاصد کی تکمیل کی طرف آگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں جس کے لیے یہ معرضِ وجود میں آیا تھا۔ آپ اس ارضِ پاک پر فصلِ گل کی ہمیشہ بہار دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ آپ یہاں کے ہر پھول کو کھِلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ آپ اس سرزمین کو ہر ہر شعبے میں ترقی یافتہ اور خوشحال دیکھنے کے خواہاں ہیں۔۔۔ آپ یہاں بسنے والوں کو پُرسکون، خوش و خرم اور اپنی زندگی اور اپنی ہستی پر فخر کرنے والا دیکھنا چاہتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کی زبان میں نابغۂ عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت اس ارض وطن اور یہاں کے باسیوں کے لیے یہ احساسات اورجذبات رکھتی ہے:
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو