انسانی نفسیات کا یہ جزولاینفک ہے کہ وہ رفتہ رفتہ روایات کا اسیر ہوجاتا ہے۔ معاشروں میں رونما ہونے والی بتدریج تبدیلیاں روایات کا روپ دھار لیتی ہیں۔ یہ روایات تیل مہندی سے لے کر سیاسی اور معاشی نظام تک اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے سے لے کر غلاموں کی منڈیوں تک زندگی کے وسیع پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں۔
معاشروں میں پنپنے والی استحصالی روایات کے خلاف جدوجہد کرکے ان کا رخ موڑنا انسانی جدوجہد کا سب سے مشکل باب ہے۔ ایسی روایت کی بیخ کنی کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ طاقتور مفاد پرست طبقات رائج الوقت سیاسی، معاشی اور سماجی نظام پر اپنی اجارہ داری اور استبداد قائم کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ monopolistic evolution جاری رہتا ہے اور عوام کی اکثریت لاشعوری طور پر جبرو استبداد پر مبنی نظام کو قبول کرتی چلی جاتی ہے۔ استعماری طاقتیں باہمی گٹھ جوڑ سے سارے وسائل پر قابض ہوکر عوام کی اکثریت کو اپنا غلام بنالیتی ہیں اور عوام معمولی شکوہ شکایت کے ساتھ اس غلامی سے مطمئن رہنا سیکھ جاتے ہیں اور وہ مزاحمت کے بجائے مصلحت کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔
ایسے حالات کو پلٹنے کے لیے افکارِ تازہ کے حامل ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے جس کی بولی روایت شکن ہوتی ہے۔ مگر روایات کی اسیر قوم ایسے لیڈر کو جلدی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ ایسے لیڈر کو افراط و تفریط کا شکار ہونے والے ہر طبقۂ فکر کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر اپنی فکر اور نظریات پر استقامت اس کا سب سے بڑاہتھیار ہوتا ہے۔ وہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اسی ہتھیار سے جہانِ تازہ کی بنیادیں مضبوط کرتا چلا جاتا ہے۔
دنیا میں گذشتہ کئی صدیوں سے مختلف isms میں شدید ترین مخاصمت کا ماحول جاری رہا بالآخر capitalism باقی سارے isms کو شکست فاش دیتا ہوا آج world system بن چکا ہے۔ اسے عالمی استعماری قوتوں کی مکمل پاسداری اور پشت پناہی حاصل ہے۔ انسانیت کا استحصال capitalism کا بنیادی عنصر ہے جس میں سرمایہ چند ہاتھوں میں سکڑ کر رہ جاتا ہے۔ آج دنیا کو ایک نئے نظام کی ضرورت ہے جو عوام میں وسائل کے مساوی تقسیم کو یقینی بناسکے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجوں میں جکڑی ہوئی انسانیت کے لیے اسلام کا سیاسی اور معاشی نظام ایک مسیحائی نظام ثابت ہوسکتا ہے۔ قبل ازیں دنیا کے نقشہ پر اس کے کامیاب نفاذ سے مختلف ادوار میں مختلف خطوں پر کئی مثالی معاشرے قائم ہوچکے ہیں۔
آج اسلام کے سیاسی و معاشی نظام کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ ایسا عظیم کام ایک عظیم شخصیت ہی کرسکتی ہے۔ آج کے دور میں یہ نابغہ اور عظیم شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے جن کے شخصی اور فکری ارتقاء کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ ’’فطرت خودبخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی‘‘ کے مصداق اپنے زمانہ طالب علمی کے بالکل ابتدائی دور میں ہی دنیا کے تمام نظام، ماضی قریب و بعید میں آنے والے تمام انقلابات اور دنیا کے بیشتر انقلابی و فکری راہنماؤں کی حیات و فکری رجحانات تفصیلاً پڑھ چکے ہیں۔
وہ اپنے زمانہ طالب علمی سے ہی دنیا کو ایک نیا نظام دینے کا عزم رکھتے دکھائی دیتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت سے ہی ملک میں جاری سیاسی وانتخابی اور معاشی نظام پر مخصوص طاقتور طبقات کی اجارہ داری قائم ہوچکی تھی اور عوام رفتہ رفتہ اس نظام کے اسیر بن کے رہ گئے ہیں۔ وہ اپنے حقوق کی پہچان بھول چکے ہیں۔ اس استحصالی نظام کے خلاف دلائل و براہین سے مزین طاقتور آواز سب سے پہلے ڈاکٹر طاہرالقادری نے اٹھائی جنہوں نے اپنی تحریک اور سیاسی جدوجہد کا آغاز ہی ’’تبدیلی نظام‘‘ کے نعرے سے کیا۔ انھوں نے اپنی ساری سیاسی جدوجہد کے دوران اپنی تحاریر و تقاریر میں ہمیشہ نظام تبدیل کرنے پر زور دیا۔
- شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جب 1989ء میں اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک کی بنیاد رکھی تو انھوں نے برملا اعلان کیا کہ ان کی جنگ کسی فردِ واحد یا کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ اس استحصالی نظام کے خلاف ہے۔ انھوں نے منزل ایک رکھی مگر حصولِ منزل کے لیے حکمتِ عملی (Strategy) بدلتے رہے۔ انھوں نے دعوتی اور تربیتی سرگرمیوں میں کبھی انقطاع نہیں آنے دیا۔ انھوں نے PAT کے پلیٹ فارم سے پورے پاکستان میں نمائندگان کھڑے کرکے دو مرتبہ انتخابی سیاست میں حصہ لیا۔ آپ NA-127 لاہور سے قومی اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔
کچھ عرصہ قومی اسمبلی کا حصہ رہے اور پارلیمانی نظام کو بڑے قریب سے دیکھا، پرکھا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس استحصالی نظام کے تحت کبھی عوام کا مقدر نہیں بدل سکتا۔ یہاں عوام کی فلاح و بہبود کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں بلکہ یہاں صرف مفادات کی جنگ ہے۔ یہاں صرف اشرافیہ کے حق میں ہی منصوبہ سازی اور قانون سازی ہوتی ہے۔ عوام کے دکھ درد اور مصائب کسی کے ایجنڈا پر نہیں ہیں۔ لہذا آپ 100 صفحات پر مشتمل اپنے تحفظات کا اظہار کرکے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے کر انتخابی سیاست سے باہر آگئے۔
بعد ازاں آپ نے پریس کانفرنس میں اپنے مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر انتہائی پراعتماد لب و لہجہ میں یہ تاریخی بیانیہ جاری کیا:
’’اس نظام کے تحت اگر 100 الیکشن بھی کروالیں تب بھی تبدیلی نہیں آسکتی۔ یہ نظام تبدیلی کے لیے بنایا ہی نہیں گیا۔ یہ مخصوص اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔‘‘
افسوس! شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اس بصیرت افروز فکر تک کسی کی رسائی نہ ہوسکی۔ ملک میں اسی نظام کے تحت متعدد بار الیکشن ہوچکے ہیں مگر ملک کے معاشی اور سیاسی حالات بد سے بدترین ہوتے جارہے ہیں اور وقت نے ثابت کردیا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا بیانیہ ہی حرفِ آخر ہے۔ اس استحصالی نظام کے تحت طاقتور حلقوں کی مفاد پرستی کی جنگ نے اب ملک کی سالمیت کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔
- ریاست کی سالمیت کو درپیش خطرات کو بھاپنتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایک اور تاریخی بیانیہ جاری کیا کہ:
’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘
اس تاریخی سلوگن کے تحت آپ نے 23 دسمبر 2012ء کو مینار پاکستان پر پاکستان کی تاریخ کا پہلا ملین پلس سیاسی اجتماع منعقد کرکے سب کو حیران کردیا اور اپنے تاریخی خطاب کے ذریعے استحصال زدہ طبقات کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنا مقدمہ بڑے مدلل انداز میں دنیا کے سامنے رکھ دیا جسے تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
پاکستان میں یہ غلط تصور روایت پاچکا ہے کہ عوام پانچ سال بعد انتخابی عمل کو ہی کل جمہوریت، سیاست یا آئین سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنی تقاریر میں پہلی دفعہ عوام کو آئین پڑھایا اور آئینِ پاکستان کی روشنی میں عوام کو ان کے حقوق کا شعور دیا۔ آپ نے بڑے مدلل انداز میں قوم کو بتایا کہ انتخابات تو جمہوریت کا چھوٹا سا حصہ ہیں۔ اصل جمہوریت تو الیکشن کے بعد شروع ہوتی ہے جمہوریت کا اصل مقصود بڑے پیمانے پر عوام کو roots levelپر شریکِ اقتدار اور شریکِ وسائل کرنا ہے۔ آپ نے اپنی تقریر میں آئین پاکستان کی وہ شقیں پڑھ کر سنائیں جو عوام کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بناتی ہیں۔
- آپ نے عوام کو ان کے حقوق اور اپنے بیانیہ کا شعور دینے کی تحریک جاری رکھی۔ ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ جیسے تاریخی بیانیہ کو اگلے مرحلے میں داخل کرتے ہوئے 13 جنوری 2013ء سے 17 جنوری 2014ء تک ایک ایسا تاریخی لانگ مارچ کیا اور دھرنا دیا جس کی عصرِ حاضر میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اپنے جائز مطالبات کے لیے لاکھوں افراد کے ایسے پرامن احتجاج کی مثال ترقی یافتہ اقوام میں بھی ملنا مشکل ہے۔ آپ کے تربیت یافتہ کارکنان نے دنیا میں احتجاج کرنے کا ایک نیا trend سیٹ کردیا۔ تیسری دنیا بالخصوص پاکستا ن میں چند درجن لوگ اکٹھے ہوجائیں تو اس کا نتیجہ توڑ پھوڑ اور گھیراؤ جلاؤ کی صورت میں نکلتا ہے لیکن وہاں ایسا منظم، پرامن اور بامقصد احتجاج کرکے ایک نئی تاریخ رقم کردی گئی۔ یہ بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے Smart political movement تھی۔
- آپ نے عوام کے لاشعور سے status quo کے سحر کو توڑنے اور سیاست کی سالمیت کو درپیش خطرات سے عوام کو آگاہ کرنے کی یہ تحریک جاری رکھی ا ور اگلے سال PTI کے ساتھ مل کر ایک اور لانگ مارچ کیا اور ڈی چوک پر اپنے ہزاروں جانثار کارکنان کے ساتھ ڈی چوک پر 70 دن لگاتار دھرنا دیا۔ اس دوران ڈاکٹر طاہرالقادری کی documented تقریروں نے عوام کو شعور دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا اور عوام کے ایک بڑے طبقے کو سٹیٹس کو کے خلاف کھڑا کردیا۔ پاکستان عوامی تحریک کا یہ طویل دھرنا کارکنان کی استقامت، حوصلہ افزائی اور بے مثال تربیت کے انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔
شیخ الاسلام نے اپنی بساط سے بڑھ کر جان، مال اور وقت کی قربانیاں دے کر اپنا بیانیہ قوم کے سامنے رکھ دیا ہے کہ وہ ایسا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جہاں علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر اور قائداعظم کے تصورات کی تکمیل ہوسکے۔۔۔ جو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی جمہوری ریاست ہو۔۔۔ جہاں علم، عمل، اخلاق، کردار، ہنر اور انصاف کی قدر ہو۔۔۔ جہاں دہشت گردی کا خوف ختم ہو اور ہر طرف امن و سلامتی کا بول بالا ہو۔۔۔ اور جہاں دولت چند ہاتھوں میں سمٹنے کی بجائے عوام کی اکثریت تک پہنچے۔
انھوں نے واضح کردیا کہ ان کی جدوجہد کا مقصد عوام کو ان کے حقوق کا شعور دلانا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ محنت کرنے والے ہاتھ کمائی کریں اور سرمایہ دار، غنڈہ گرد، بدمعاش، غریبوں کا خون پسینہ چوسنے والے اور اقتدار کے مزے لوٹنے والے رسہ گیر، ٹیکس چور؛ غریب مزدور اور کسان کی کمائی سے فائدہ اٹھائیں۔ غریب محنت کرکے بھی اجرت سے محروم رہیں اور ٹیکس چور عیاشیاں کریں، ایسا نظام قبول نہیں۔ آئین پاکستان میں ایسے نظام کی کوئی گنجائش نہیں اور ایسے نظام میں جمہوریت کا کوئی وجود نہیں۔
ہم ملک میں ایسی جمہوریت لانا چاہتے ہیں جس میں جمہورکا اقتدار ہو اور جس میں عوام کا راج ہو۔ ہم معاشرے میں ایسی انقلابی تبدیلیاں لانے کی جدوجہد جاری رکھیں گے مگر مصطفوی معاشرے کی تشکیل چند افراد کی محنت سے نہیں ہوتی بلکہ پوری قوم کو سوچنا ہوگا اور جدوجہد کرنا ہوگی۔ ریاست بچانے کے لیے اور اپنے حقوق کے لیے پوری قوم کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
نہ فریب دے سکے گی ہمیں اب کسی کی چاہت
کہ رلا چکی ہیں ہم کو تیری کم سخن نگاہیں
کوئی پل کی بات ہے یہ کوئی دم کی رات ہے یہ
نہ رہے گا کوئی قاتل نہ رہیں گی قتل گاہیں