انسان زمین پر اللہ کا نائب ہے۔ جب بندہ فرش پر رہتے ہوئے اپنے خالق سے تعلقِ بندگی مضبوط کرلیتا ہے، یعنی جسم فرشی اور اس کی طبیعت عرشی ہوجائے، تو اللہ رب العزت اسے اپنی صفات کا رنگ عطا فرماتا ہے۔ جب اللہ اپنے بندے کو اپنی صفات میں سے ہدایت و راہنمائی اور تربیت کا رنگ عطاکرتا ہے تو بندہ کہیں والد کے روپ میں بچوں کی تربیت کرتا دکھائی دیتا ہے، کہیں استاد کے روپ میں علم کے نور سے جہالت کے اندھیرے دور کرکے ہدایت کا نور بانٹتا ہے، کہیں شیخ اور مربی کے روپ میں مریدین کی ظاہری و باطنی اور روحانی اصلاحِ کی جدوجہد کرتا دکھائی دیتا ہے توکہیں قائد، رہبر اور کہیں ہر صدی میں آنے والے مجدد کے روپ میں قوموں کی علمی، فکری، مذہبی، اخلاقی، روحانی اور معاشرتی اصلاحِ احوال کا فریضہ ادا کرتے دکھائی دیتا ہے۔
اگر ہم امتِ مسلمہ کے تابناک ماضی کو دیکھیں تو کہیں امام اعظم ابوحنیفہؒ علمی و فقہی اصلاح کرتے دکھائی دیتے ہیں، کہیں سید شیخ عبدالقادرجیلانیؒ امت کی علمی، فکری اور اخلاقی اصلاح کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر برصغیر کے معاشرے کو دیکھیں تو کہیں سیدنا علی بن عثمان الھجویریؒ، کہیں خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ علمی، فکری، اخلاقی و روحانی اصلاحِ احوال کرتے دکھائی دیتے ہیں، حتی کہ مجدّد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ خطۂ برصغیر سے سیاسی اصلاح احوال کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ہم دورِ حاضر میں خصوصاً خطۂ پاکستان اور بالعموم پوری دنیا میں اصلاح احوال کی جدوجہد کرنے والی ہستیوں کو دیکھیں تو ہمیں سر فہرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی شخصیت دکھائی دیتی ہے۔
حضورنبی اکرم ﷺ نے ہر صدی میں آنے والے مجدّدین کا دائرہ کار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ اللّٰهَ یَبْعَثُ لِهٰذِهِ الْاُمَّةِ عَلٰی رَأسِ کُلِّ مِأَةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَهَا دِیْنَهَا.
(سنن ابی داؤد، رقم: 149)
’’بے شک اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر صدی کے آغاز پر ایک ایسے شخص کو بھیجتا ہے جوان کے لیے ان کے دین کی تجدید کردیتا ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے ’’دِیْنَهَا‘‘ کے الفاظ فرمائے۔ دین؛ مذہب اور معاشرت کا مجموعہ ہے، دین زندگی کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے اور مجدد کی جدوجہد کا دائرہ کار بھی دین کے جملہ پہلوؤں پر محیط ہوتا ہے۔
اصلاحِ احوال کے جملہ پہلوؤں میں شیخ الاسلام کا کردار
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پندرھویں صدی ہجری کے مجدّد ہیں۔ آپ کو اللہ رب العزت نے دین کے جملہ پہلوؤں میں خدمت کی توفیق اور موقع عنایت فرمایا ہے۔ اگر ہم شیخ الاسلام کی خدمات کے بیسیوں پہلوؤں میں سے صرف ایک پہلو اصلاحِ احوال کولیں تو اس میدان میں اللہ رب العزت نے شیخ الاسلام کو حسبِ ذیل خدمات کی توفیق مرحمت فرمائی ہے:
1۔ اخلاقی و روحانی اصلاحِ احوال
2۔ فکری و نظریاتی اصلاحِ احوال
3۔ اعتقادی اصلاحِ احوال
4۔ علمی و تعلیمی اصلاحِ احوال
5۔ تنظیمی و انتظامی اصلاحِ احوال
6۔ معاشرتی اصلاحِ احوال
زیرِ نظر مضمون میں ہم شیخ الاسلام کی مذہبی اور معاشرتی میدانوں میں اصلاحِ احوال کی خدمات کا جائزہ لیں گے:
(1) مذہبی اصلاحِ احوال میں کردار
عقائد اور عبادات کا مجموعہ مذہب کہلاتا ہے۔ اگر ہم 4 عشرے قبل اپنے معاشرے کی مذہبی صورت حال کا جائزہ لیں تو ہمیں جو ماحول دکھائی دیتا ہے اس کا نقشہ کچھ یوں دکھائی دیتا ہے:
- عقائد میں اعتدال و توازن کی بجائے انتہا پسندی اور نفرت و کدورت عام ہوچکی تھی۔
- عقیدۂ توحید کے نام پر بارگاهِ رسالتِ مآب ﷺ سے تعلق کو کمزور کیا جارہا تھا۔
- فتنۂ خوارج ہر طرف تنگ نظری اور انتہا پسندی کے ذریعے دہشت گردی کے بیج بورہا تھا۔
- عقائد اور عبادات کے ہر پہلو پر دلیل قرآن و حدیث کی بجائے قصے کہانیاں اور اشعار رہ گئے تھے۔
- عبادات؛ رسم و رواج بن چکی تھیں اور عبادت کی روح یعنی خدمتِ انسانیت کو فراموش کیا جاچکا تھا۔
ایسے ماحول میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1980ء میں ادارہ منہاج القرآن کی بنیاد رکھی اور سب سے پہلے مذہبی میدان میں اصلاحِ احوال کی جدوجہد کا آغاز کیا۔آپ نے عقائد کی اصلاح کرتے ہوئے کم و بیش 100 سے زائد کتب تحریر فرمائیں۔ ان کتب میں عقیدے کے جملہ موضوعات کو پوری تفصیل سے واضح کیا۔ آپ نے اپنی دلیل کی بنیاد قرآن و حدیث پر رکھی۔ دعوت و تبلیغ میں گالم گلوچ اور کفر کے فتوؤں کاکلچر عام ہوچکا تھا۔آپ کی 42 سالہ محنت کا ثمر یہ ہے کہ آج کفرو شرک کے فتوے تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ آج مناظرانہ کلچر کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ 42 سال قبل عقائد میں فرق کے باعث قتل و غارت گری کا ماحول تھا جبکہ آج شیخ الاسلام کی کاوشوں کے باعث امن، محبت اور رواداری کا کلچر فروغ پاچکا ہے۔الغرض پاکستان کا مذہبی کلچر آج جس پرامن ماحول میں ہے، اس کی اصلاح میں غیر معمولی کردار شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ہے۔
(2) اخلاقی و روحانی اصلاحِ احوال میں کردار
جب ہم 40 سال قبل اپنے معاشرے کے ماحول کو دیکھیں تو معاشرتی اعتبار سے اخلاقی قدریں پامال ہورہی تھیں۔ عامۃ الناس توکجا لوگوں کی اخلاقی و روحانی اصلاحِ احوال کا فریضہ سرانجام دینے والی ہستیاں بھی اخلاقی و روحانی کردار سے عاری ہوچکی تھیں، اخلاق و کردار سنوارنے والے مراکز اور میخانے ویران ہوچکے تھے۔ ایسے ماحول میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نہ صرف اپنے بلند کردار اور اخلاق کا نمونہ پیش کیا بلکہ افرادِ معاشرہ اور دنیا بھر میں پھیلی امتِ مسلمہ کے اخلاقی معیار کو بلند کرنے میں کردار اداکیا۔اخلاقی و روحانی اصلاحِ احوال میں آپ کی نمایاں خدمات حسبِ ذیل ہیں:
1۔ شیخ الاسلام نے دنیا بھر میں اخلاق اور کردار کو اعلیٰ سطح پر رکھا۔ انھوں نے اپنی 42 سالہ دعوتی و تبلیغی زندگی کو نفرت و کدورت اور فتویٰ بازی سے مکمل پاک رکھا۔
2۔ آپ نے ہر مسلک، مذہب اور ان کے راہنماؤں کا احترام کیا۔ حتی کہ آپ نے بیسیوں ٹی وی پروگرامز میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داران اور قاتلوں کا نام بھی کبھی محترم اور صاحب کے بغیر نہیں لیا۔
3۔ پوری دنیا میں دوستوں اور دشمنوں نے مخالفت کے طعنے دیئے، مختلف پراپیگنڈے کیے مگر آپ نے 42 سالوں میں کبھی کسی کا جواب نہیں دیا۔
4۔ آپ نے اپنے کارکنان کی جس اعلیٰ اخلاقی معیار پر تربیت کی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ گذشتہ 42 سالوں میں ملک بھرمیں تحریک کے لاکھوں کارکنان نے کسی تحریک یا جماعت سے بداخلاقی نہیں کی۔
5۔ یورپ کے متعدد ممالک میں مقیم مسلمانوں کی اخلاقی و روحانی تربیت کے لیے سیکڑوں الھدایہ کیمپس، ورکشاپس اور نشستوں کا انعقادکیا گیا، جس کے نتیجے میں الحمدللہ یورپ کے مسلمان ملٹی کلچرل سوسائٹی میں عزت و وقار سے زندگی گزار رہے ہیں۔
6۔ افرادِ معاشرہ کی اخلاقی و روحانی تربیت کے لیے سالانہ مسنون اعتکاف، ماہانہ شب بیداریوں، ماہانہ مجلسِ ختم الصلوٰۃ، محافلِ ذکر، سالانہ روحانی اجتماع، گوشہ درود، ہزاروں حلقاتِ درود و فکر اور تربیتی نشستوں کی صورت میں گذشتہ 42 سالوں سے سرگرمیاں جاری ہیں۔
7۔ تصوف اور تعلیماتِ صوفیاء کے فروغ کے لیے آپ نے ہزاروں لیکچرز دیئے۔ متعدد ٹی وی چینلز کے ذریعے دنیا بھر میں ان لیکچرز کے نشر ہونے کے بعد دنیا بھر میں نہ صرف تصوف اور تعلیماتِ صوفیاء کو فروغ ملا بلکہ دنیا بھر میں امت مسلمہ میں اصلاحِ احوال کی جدوجہد کو فروغ ملا۔
(3) معاشرتی اصلاح میں کردار
افراد سے مل کر خاندان بنتا ہے اور خاندانوں سے مل کر معاشرہ بنتا ہے۔ خاندان؛ معاشرے کی حقیقی اکائی ہے۔ اگر خاندان کی اصلاح ہوجائے تو معاشرہ سنور جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے شیخ الاسلام سے محبت کرنے والے لاکھوں وابستگان آپ سے اصلاح اور تربیت پانے کے بعد ایک خاندان کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کے عائلی نظام کو بہتر اور مضبوط کرنے کے لیے اصلاح کا جو فریضہ سرانجام دیا ہے اس کے اہم پہلو حسب ذیل ہیں:
1۔ دورِ حاضر میں mail dominant سوسائٹی میں بہت سی NGO’s، جماعتیں اور مفکرین جب عورت کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو عورت کو مرد کے مقابلے پر لا کھڑا کردیتے ہیں اور بعض اس کے حقوق کا شعور دلاکر مرد سے حقوق چھیننے کی بات کرتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے انہیں مرد کے مقابلے میں کھڑا کرنے کے بجائے مردوں کو عورتوں کے احترام کا درس دیا۔ عورت بحیثیت بیوی بقیہ تینوں حیثیتوں (ماں، بہن اور بیٹی) سے زیادہ مظلوم تھی۔ لہذا آپ نے معاشرے کے مردوں اور خصوصاً اپنے سے محبت کرنے والوں کو تلقین کی کہ وہ خواتین کے حقوق کا خیال رکھیں۔
2۔ آپ نے منہاج القرآن ویمن لیگ کی صورت میں دنیا بھر میں لاکھوں خواتین کو منظّم تحریک میں بدل کر انھیں معاشرہ میں ایک عالمگیر کردار کا حامل بنایا۔
3۔ شیخ الاسلام نے معاشرے کی اکائی خاندان کو مضبوط کرنے کے لیے پوری دنیا میں رفقاء تحریک پر مشتمل ایک ایسا خاندان تشکیل دیا جس کی مثال دینا مشکل امر ہے۔ لاکھوں لوگوں کو ایک خاندان کی لڑی میں پرودیا ہے۔ 42 سالوں سے تحریک کی ہر سرگرمی؛ خواہ وہ اعتکاف ہو یا ربیع الاول کے ایام، احتجاج اور دھرنے ہوں یا تربیتی نشستیں ہر ہر موقع پر ایثار و قربانی، نظم و ضبط اور باہمی اخوت، منہاج القرآن کے رفقاء کا کردار تمام جماعتوں اور اداروں کے لیے ہر حوالے سے ایک بہترین نمونہ ہے۔
معاشرتی رسومات کی اصلاح
مسلمانوں کا غیر مسلموں سے حسنِ سلوک مسلمانوں کے طاقتور کلچرکا حصہ تھا، 14 سو سالہ تاریخ میں مسلمانوں نے کبھی ناحق غیر مسلموں کو قتل نہیں کیا، کبھی ان کے خلاف نفرت و کدورت کا ماحول پیدا نہیں کیا بلکہ ماضی قریب کے 100 سال نکال دیں تو گذشتہ 13 صدیوں میں غیر مسلموں کو جتنی عزت و وقار مسلم معاشرے میں میسر تھی، انھیں اتنی عزت و وقار اپنے عیسائی معاشرے میں میسر نہ تھی۔ آج صورت حال اس سے یکسر الٹ ہوچکی ہے۔ اسلام کی وہ اقدار جو غیر مسلموں کے لیے تھیں، وہ تمام کی تمام ناپید ہوچکی ہیں۔
امتِ مسلمہ اور خصوصاً مسلمانانِ پاکستان زوال کے اس دور میں اسلامک کلچر اور رسوم و رواج کو بھول چکے ہیں اور ترقی اور مقابلے کی دوڑ اور گلوبل ویلج کے تصور نے مسلمانوں سے ان کی شناخت چھین لی ہے۔ دنیا بھر میں انڈیا، چائنا اور یورپ کا کلچر کئی تہذیبوں، ثقافتوں اور کلچر پر غالب آچکے ہیں۔ اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ صدیوں تک ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ مل کر رہنے سے جہاں کروڑوں لوگوں نے کلمہ پڑھا اور اسلام فروغ پایا وہاں ہم نے ہندوؤں اور سکھوں کے کلچر کے بہت سے پہلو بھی اپنالیے ہیں۔
شادی بیاہ کی تقریبات، ان میں استعمال ہونے والا لباس، گھروں کا طرزِ تعمیر، فیشن شوز اور بہت سے امور ایسے ہیں جن پر پڑوسی ممالک کے کلچرکا پورا رنگ چڑھ چکا ہے۔ اسی طرح ٹی وی ڈراموں اور پروگراموں کے ذریعے بھی غیر ملکی کلچر گھر گھر داخل ہوچکا ہے۔
ایسے ماحول میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی 42 سالہ جدوجہد میں نہ صرف معاشرے میں پھیلتی غلط رسومات کا خاتمہ کیا بلکہ اسلام کے امن و سلامتی اور رواداری پر مشتمل کلچر کو فروغ دیا۔ آپ کی خدمات کے نتیجہ میں جہاں مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح کا کام جاری ہے وہاں امت اپنے کلچر کی طرف پلٹ رہی ہے۔ ذیل میں ہم ان کی خدمات میں سے چند اہم گوشوں کی وضاحت کرتے ہیں:
1۔ شادی بیاہ اور دیگر خوشی کی تقریبات میں فحاشی و عریانی، فضول خرچی اور دکھلاوے کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے آپ نے اپنے تمام بیٹوں، بیٹیوں اور ان کی اولادوں کی شادیاں بھی نہایت پروقار لیکن سادگی سے کیں۔
2۔ دنیا بھر میں لاکھوں کارکنان اپنی اور اپنی اولادوں کی شادیوں کے موقع پر مایوں، تیل، مہندی اور دیگر تمام رسومات کو چھوڑ کر الحمدللہ محافلِ نعت کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔
3۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ادوارِ فتن میں فحاشی و عریانی اور غیر ملکی کلچر کے خاتمے کے سلسلہ وار دروس دیئے اور مسلمان خواتین کو فحاشی و عریانی سے بچنے اور لباس میں حیاء اور تقویٰ کی تلقین کی۔ الحمدللہ منہاج القرآن ویمن لیگ کی خواتین کی صورت میں دنیا بھر کی لاکھوں خواتین نے معاشرے کی اصلاح کی عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ لباس میں اسلامی کلچر اور ثقافت کو بحال کیا۔
4۔ ماضی کے اسلامی معاشرے میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس سے تعلق کے اظہار کے بہت سے طریقے اور اقدار و روایات ہمارے کلچر میں شامل تھے جیسے محافلِ نعت، ضیافتِ میلاد، درود و سلام۔ دورِ زوال میں ان تمام اقدار کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 4 دھائیوں کی جدوجہد میں دنیا بھر میں امتِ مسلمہ میں حضور ﷺ کے ذکر کو کلچر بنادیا ہے۔ محافلِ میلاد، محافلِ نعت، میلاد فیسٹیول، عالمی سطح پر محافلِ گوشہ درود، دنیا بھر میں حلقاتِ درود، بچوںمیں کڈز میلاد فیسٹیول اور دیگر بیسیوں ذرائع سے امت میں آپ نے محبتِ رسول ﷺ کو پھر سے کلچر بنادیا۔ پھر ان مواقع پر سخاوت کرنا اور وسیع ضیافت کا اہتمام کرنے کے کلچر کو پاکستان میں منہاج القرآن نے بحال کیا ہے۔
در حقیقت جب تک مثبت سوچ اور تعمیری کلچر کو پوری طاقت اور اہتمام سے فروغ نہیں دیں گے۔ تب تک منفی سوچ اور تخریبی کلچر افرادِ معاشرہ کو جکڑے رکھیں گی۔
5۔ غیر مسلموں سے حسنِ سلوک اسلام کا وہ طرۂ امتیاز رہا ہے کہ ہمیں اس پر فخر ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے اس کلچر کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ کبھی جوزف بستی کو نذرِ آتش کیا جاتا ہے تو کبھی فیصل آباد اور دیگر شہروں میں مسیحیوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں مسلم کرسچین ڈائیلاگ فورم کا قیام، مسیحیوں کو کرسمس کی مبارکباد دینا، ان کو اپنی مساجد میں عبادت کا موقع فراہم کرنا، عالمی محفلِ میلاد میں ان کو حضور ﷺ کے ذکر کا موقع دینا اور منہاج یونیورسٹی میں انٹرفیتھ ریلیجنز شعبہ کا آغاز کرنا ، الغرض یہ وہ سرگرمیاں ہیں جن کے ذریعے شیخ الاسلام نے اسلام کے رخِ روشن کو دنیا کے سامنے عیاں کیا ہے۔
الحمدللہ اصلاحِ احوال کے حوالے سے شیخ الاسلام کی ان ہمہ جہتی خدمات کی وجہ سے اب پاکستان میں ایسا کلچر فروغ پاچکا ہے کہ ذکرِ رسول ﷺ صرف مسلمانوں کا نہیں ساری انسانیت کا کلچر بن رہا ہے۔ گذشتہ 4 سالوں سے ملک بھر کے کئی مندروں، اور گرجا گھروں میں محافلِ میلاد مصطفیٰ ﷺ کے اجتماعات تسلسل سے ہورہے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں ’’عظیم مصلح‘‘ نے فتنہ و فساد، قتل و غارت، نفرت اور بے حیائی کے طوفان کے سامنے محبت، امن، رواداری اور احترام باہمی کی اقدار کو بایں طور دوبارہ زندہ کیا کہ امتِ مسلمہ اپنی کھوئی ہوئی قدریں بحال کرتی جارہی ہے۔ اگر مسلم معاشرے کی فضائیں محبتِ رسول ﷺ کے نغموں سے روشن ہورہی ہیں۔۔۔ اگر تنگ نظری اور انتہا پسندی میں کمی اور اعتدال و توازن فروغ پارہا ہے۔۔۔ اگر خاندانی اکائی بکھرنے کی بجائے آہستہ آہستہ متحد اور طاقتور ہو رہی ہے تو امتِ مسلمہ میں اس اصلاح کے پیچھے سب سے بڑھ کر مصلح عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کردار ہے۔