ہم میں سے ہر فرد اس حقیقت کو بخوبی جانتا ہے کہ اسلامیانِ ہند نے جان و مال اور عزت و آبرو کی اَن گنت قربانیاں دے کر یہ ملکِ پاکستان حاصل کیا تھا۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی فکری کاوشوں اور قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قائدانہ عملی جدوجہد سمیت برصغیر کے ہزاروں علماء، مشائخ، خواتین، طلباء اور عام لوگوں کی کئی عشروں پر مشتمل تحریک کے نتیجے میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں یہ خطۂ پاک عطا کیا تھا۔ مسلم کمیونٹی نے اپنی جائیدادیں، مال و اسباب اور جانیں جس عظیم مشن کو سامنے رکھ کر قربان کیں وہ یہ تھا کہ ہماری آئندہ نسلیں آزاد اور ترقی یافتہ فلاحی اسلامی معاشرے میں پرسکون زندگی گزار سکیں۔ لیکن افسوس ۔ ۔ ۔ کہ یہ خواب محض خواب ہی رہے۔ پاکستان کی صورت میں 1947ء میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں عالم اسلام کی سب سے بڑی آزاد ریاست کی نعمت سے نوازا مگر قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ناگہانی جدائی نے ان کے پاکستان کو جاگیرداروں، وڈیروں، لٹیروں، سرمایہ داروں، مفاد پرست سیاست دانوں اور فوجی ڈکٹیٹروں کے دستِ تسلط میں گروی رکھ دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا نظام مسلط ہوگیا جس کے تحت اسلامی جمہوری ریاست کے خدّوخال آغازِ سفر میں ہی دھندلا گئے۔ وہ لوگ عنانِ حکومت پر قابض ہو گئے جو اس ساری خون آشام جد و جہدِ آزادی میں شریک ہی نہیں تھے۔ چنانچہ اس ’’قبضہ گروپ‘‘ نے نوزائیدہ ملک کو نوچنا شروع کیا اور ٹھیک 25 سال بعد اسے دو لخت کر دیا۔ بچے کھچے پاکستان کو گزشتہ 35 برسوں سے باری باری اِسی ظالمانہ اور باطل پرست نظام کے زیر سایہ سیاسی طالع آزماؤں اور فوجی ڈکٹیٹروں نے تختہ مشق بنایا ہوا ہے۔ اِس دوران ان ہوس پرست طبقات میں عدلیہ اور اِنتظامیہ کی چند کالی بھیڑوں سمیت بعض موقع پرست سیاسی اور مذہبی قائدین بھی شامل اِقتدار ہوتے رہے۔ لیکن اس پورے عرصے میں جو طبقہ مکمل طور پر نظر انداز ہوا وہ اس ملک کے سفید 98 فیصد پوش اور غریب عوام تھے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام کب تک اس نظامِ جبر میں پستی رہے گی؟ کیا 60 سال بعد بھی ہم اسی نظام کا حصہ بن کر اپنی آئندہ نسلوں کے ساتھ بددیانتی کے مرتکب ہوتے رہیں گے؟ کیا پاکستانی قوم ترقی یافتہ اقوام کے درمیان اسی طرح معاشی، سیاسی، سماجی، قانونی اور تعلیمی طور پر پسماندہ قوم کے طور پر پہچانی جاتی رہے گی؟ کیا بھارتی اور مغربی دانشوروں کے بقول پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا جائے؟ کیا اسلامی تشخص کے قیام کے لئے خطۂ زمین کا حصول اِسلامیانِ ہند کی طرف سے ایک بے معنی مشق تھی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہر شخص کے ذہن میں ابھر رہے ہیں۔ لیکن ماحول پر چھائی ہوئی مایوسی، افسردگی اور خوف و ہراس کی وجہ سے کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ سب ایک دوسرے کو اپنے دکھ سناتے ہیں مگر علاج کوئی تجویز نہیں کرتا۔ ہر شخص حکمرانوں کو برائی کی جڑ تو سمجھتا ہے مگر ان سے نجات کی کوئی سبیل کسی کے ذہن میں نہیں آرہی۔ ملک میں گرانی، لاقانونیت اور کرپشن کا بڑھتا ہوا طوفان خطرناک حدوں کو عبور کر رہا ہے لیکن حکومتی اراکین اور افسر شاہی ’’سب اچھا‘‘ کی گردانیں الاپ رہی ہیں۔
گزشتہ پارلیمنٹ جسے صدر محترم اپنا تاریخی کارنامہ قرار دے رہے ہیں، اس پر اُٹھنے والے اربوں روپے کے اخراجات تو تاریخی تھے لیکن اس پارلیمنٹ کے ذریعے ملک اور عوام کو کیا فائدہ ہوا؟ اس پر ہم نے گذشتہ اداریے میں قدرے تفصیل سے گوش گزار کردیا تھا۔ آئیے اس کا ایک سرسری سا جائزہ دوبارہ لیتے ہیں۔ پوری پانچ سالہ مدت میں پاکستان کو درپیش حقیقی مسائل مثلاً معیشت، معاشرت، تعلیم، صحت کے اداروں کی بہتری، کرپشن، لوٹ مار، طبقاتی تقسیم، صوبائی لسانی اور مذہبی منافرت جیسے بنیادی مسائل کو ختم کرنے کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ایک ممبر پارلیمنٹ پر اُٹھنے والے سرکاری اَخراجات کا تخمینہ تقریباً تین کروڑ بیس لاکھ روپے سالانہ ہے۔ جب کہ پانچ سال میں یہ رقم سولہ کروڑ بن جاتی ہے۔ اِس طرح ایم۔ این۔ ایز، رکنِ سینٹ، صوبائی اسمبلیوں اور وفاقی و صوبائی کابینہ کے اَرکان پر اُٹھنے والے اِضافی اَخراجات کا تخمینہ تقریباً 90 ارب روپے ہے۔ اتنے مہنگے وزراء، مشیر اور اسمبلی اراکین اس ملک کی تقدیر پر مسلط ہیں، جس کی 98 فیصد آبادی روز مرہ ضروریات کو ترستی ہے اور 12 کروڑ سے زائد لوگ خط غربت کے نیچے سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ قوم پر قبل ازیں غیر ملکی مالیاتی اداروں کا قرض 32 ارب ڈالر تھا اب وہ بڑھ کر 40 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ مہنگائی جو کئی سو گنا بڑھ گئی ہے اس کی روک تھام کے لئے نہ صرف کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا بلکہ پارلیمنٹ اور کابینہ کے فاضل ممبران براہِ راست چینی، آٹے، چاول، گھی، پٹرول اور آلو، پیاز جیسے بحرانوں کا سبب بنتے رہے۔ اسی ’’جمہوری‘‘ حکومت کے دوران پاکستان کی سرحدوں پر غیر ملکی مداخلت بڑھی، کشمیر اور افغانستان پالیسی میں یوٹرن لیا گیا۔ صوبائیت اور برادری اِزم کے منفی جراثیم میں اضافہ ہوا، 5 سال کے 1825 دنوں میں اسمبلی ممبران کے اجلاس 378 دن جاری رہے۔ وقفہ ہائے سوالات میں 45,000 سوالات پوچھے گئے جن میں 9,600 جوابات دیئے گئے جو ادھورے اور غیر تسلی بخش تھے۔ تقریباً 73 صدارتی آرڈیننس جاری کئے گئے جن پر اسمبلی نے توثیق کی، ان میں سر فہرست ’’حقوقِ نسواں‘‘ ایکٹ تھا جو قرآن و حدیث کی واضح تعلیمات کے خلاف اور آئین سے بغاوت کا شاخسانہ تھا۔ اسی طرح سترھویں آئینی ترمیم کے ذریعے اسی اسمبلی نے ایک شخص کو بیک وقت آرمی چیف، صدر اور چیف ایگزیکٹو بننے کی اجازت دی جس نے بعد ازاں عدلیہ، میڈیا اور دیگر قومی اداروں کو مفلوج بنا کر رکھ دیا ہے۔
انہی ناگفتہ بہ حالات کے پیش نظر وطن عزیز کی بعض جماعتوں اور ان کے قائدین نے آئندہ الیکشن سے بائیکاٹ بھی کیا ہے جبکہ دو سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بھی ان دنوں ایک چارٹر آف ڈیمانڈ کے ذریعے الیکشن کو شفاف بنانے کے لئے حکومت وقت سے مختلف مطالبات کر چکے ہیں۔ بہر حال الیکشن میں غیر مشروط حصہ لینے والی حکومت نواز شخصیات اور ان کی جماعتیں ہوں اس عمل میں احتجاجاً شریک والی جماعتیں ہوں یا وہ حضرات جنہوں نے اس انتخابی عمل کو لاحاصل مشق قرار دیا ہے، سب گروپوں میں سے کسی نے ایسا لائحہ عمل قوم کے سامنے نہیں رکھا جس میں نظام کی تبدیلی کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ پاکستان کی موجودہ مصلحت آمیز سیاسی قیادت کے مقابلے میں عمران خان نے بھی کاغذات نامزدگی پھاڑ کر اس نظام انتخاب اور آمریت کی کوکھ سے نکلنے والی بدترین ایمرجنسی کے خلاف احتجاج ضرور کیا مگر قوم کو درپیش حقیقی مسائل کا حل کس نوعیت کی جمہوریت میں ہے؟ اِس پر انہوں نے بھی غور نہیں کیا۔ PCO اور ایمرجنسی کا خاتمہ بھی ہوگیا ہے فرض کریں ججز بھی بحال ہو جاتے ہیں تو کیا اس صورت میں ہونے والے انتخابات ہمارے قومی مسائل کو حل کر لیں گے؟ ہرگز نہیں۔ ہاں تحریک منہاج القرآن کے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ایک آواز ایسی اٹھی ہے جس نے احتجاج اور الیکشن سے علیحدگی کے ساتھ ساتھ متبادل جمہوری نظام کا خاکہ بھی دیا ہے۔ یہ خاکہ کس قدر قابل عمل ہے اور اسے دنیا میں موجود نظامہائے ریاست میں سے کسی کی تائید بھی حاصل ہے یا نہیں؟ انہوں نے اس پر بھی سیر حاصل تحقیق کر رکھی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی شخصیت اور ہمہ جہت علمی، فکری، تعلیمی اور سیاسی و فلاحی اقدامات کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ کی رکنیت سے اس وقت مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا جب بدنام زمانہ 17 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اپوزیشن کی ناک کے نیچے (بلکہ درپردہ حمایت سے) جنرل مشرف کے باوردی صدر بننے کا بل پاس کیا گیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اور اس کے قومی اداروں پر جتنی پراگندگی اور آمریت کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ان کی براہ راست ذمہ داری انہی مفاد پرست عناصر کے سر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ریاستی اداروں پر بالادست قوتوں کا اثر و رسوخ قائم ہے اس وقت تک پاکستانی حکومتیں اور افسر شاہی عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے ان قوتوں کو خوش کرنے میں ہی جتے رہیں گے۔ ان حالات میں اسلام کی طرح جمہوریت کو بھی محض نعروں کے طور پر استعمال کیا جاتا رہے گا۔ اس ظالمانہ اور مفادپرستانہ نظام انتخابات کو تبدیل کئے بغیر کوئی بھی جمہوری کاوش خوشگوار سیاسی تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔ آئندہ انتخابات ایک پتلی تماشا ہے کوئی بھی باکردار شخص اس ’’تماشے‘‘ کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں۔ جہاں تک پاکستانی معاشرے کو درپیش سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی مسائل کے حل کی کاوشوں کا تعلق ہے پاکستان عوامی تحریک اور اس کی بے لوث قیادت نے پوری دیانتداری، اخلاص اور دن رات محنت کرتے ہوئے پورے تیرہ سال اس نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن دو بار بھرپور الیکشن میں شمولیت اور قومی اسمبلی میں جا کر ذاتی طور پر مشاہدہ کیا ہے کہ اصل خرابی کی جڑ اس ملک میں جاری استحصالی نظام انتخابات ہے جو حقیقی جمہوری معاشرے کے قیام میں رکاوٹ ہے (جس کی تفصیل آئندہ صفحات میں آرہی ہے)۔
ساٹھ سال ایک طویل عرصہ ہے۔ اگر ہم ساٹھ سالوں میں اِس نظام کے تحت بہتری کی طرف نہیں بڑھ سکے تو آئندہ ہمارے پاس خوش حالی کا دروازہ کھولنے کی کون سی چابی ہاتھ آئے گی؟ لہٰذا یہ موقع ہے کہ قوم اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔ہم نے 1993ء میں بھی اس نظام کے خلاف آواز بلند کی تھی اور متناسب نمائندگی کا شورائی جمہوری نظام متعارف کرایا تھا جو بڑی کامیابی کے ساتھ دنیا کے بیشتر ممالک میں چل رہا ہے۔ لیکن ہمارے سیاسی کھلاڑی اور قوتِ مقتدرہ چونکہ باہر سے موصولہ ہدایات پر عمل زیادہ کرتی ہے اس لیے انہوں نے اُس وقت ہماری اس تجویز کو در خورِ اِعتنا نہیں سمجھا۔ آئندہ ماہ پھر الیکشن کا کھیل کھیلا جائے گا۔ متوقع نتائج کی روشنی میں ابھی سے حکومت سازی کے لئے متعلقہ ’’کرداروں‘‘ کی ذہن سازی کی جارہی ہے۔ اس سارے کھیل کو بیرونی طاقتیں براہ راست اپنی نگرانی میں جاری رکھے ہوئے ہے۔ قومی اداروں کی تباہی سے لیکر عوامی بدحالی تک کی موجودہ صورتحال کسی بڑے طوفان کی اطلاع دے رہی ہے۔ ہمارے شمالی علاقہ جات کے پرامن اسلام پسند محنت کش عوام سخت سردی کے عالم میں شدت پسندوں اور پاک فوج کی باہمی لڑائی میں مارے جارہے ہیں۔ ایسے ہی عدالتیں بھی موجودہ غیر آئینی حکومتی اقدامات سے متاثر ہوچکی ہیں، وکلاء اور PCO کے تحت حلف نہ اٹھانے والے عظیم المرتبت ججز اس لاقانونیت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ پاکستانی قوم آئندہ انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان کی بقاء اور سلامتی کو پیش نظر رکھے ورنہ صرف وہ اگلے پانچ سال مزید پریشانی رہے گی بلکہ اقوام عالم میں اس کی بدنامی بھی بڑھے گی اور آئندہ نسلیں بھی ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ اللہ تعالیٰ وطن عزیز کو اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھے۔