ہم ہر چند سال بعد ملکی عدم استحکام کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کیا ہم قوم کو ایسے مایوسی کا شکار ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں گے؟ نہیں۔۔۔ ہر گز نہیں ہمیں جو بھی حالات ہوں، آگے بڑھتے رہنا ہے اور عوام کے مستقبل کو بہتر بنانے کے عمل کو ہر حالت میں اختیار کرنا ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اپنے وسیع تر مفادات پر نگاہیں گاڑ دینا چاہیے۔ موجودہ حالات عارضی ہیں حالات پھر ایک نیا پلٹہ کھائیں گے اور نئی قیادت ابھر کر سامنے آئے گی۔ ہمارے جیسے ممالک کا یہ ہی المیہ ہے کہ ہم بلا جواز بحرانوں میں مبتلا ہوکر عوام کی حقیقی ترقی اور بہتری کے عمل کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
ہمیں جمہوریت چاہئے لیکن کس مقصد کے لئے؟
ہمیں آزادی اظہار رائے چاہئے لیکن کس مقصد کے لئے؟
ہمیں آزاد میڈیا چاہئے لیکن کس مقصد کے لئے؟
ہمیں اور بھی بہت کچھ چاہئے لیکن ان کے مقاصد کا تعین ضرور ہونا چاہئے۔ اگر ہم اپنے قومی مقاصد کا تعین کئے بغیر بے ہنگم انداز میں آگے بڑھتے رہے تو عوام کے مستقبل کو کسی صورت محفوظ نہیں بنایا جاسکتا جس کا واضح نتیجہ نکلے گا کہ ہم بے عملی کا شکار ہوجائیں گے۔ قومی ترقی اور بہبود کے بنیادی نکات کا تعین کرنا ازحد ضروری ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ قومی ترقی، بہبود اور عوام کا محفوظ مستقبل کیسے حاصل ہوسکتا ہے اس کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ خاص سے لے کر عام لوگوں تک تمام خواب غفلت سے بیدار ہوں اور اپنے فکرو عمل سے اپنے وطن کی تقدیر بدلنے کے لئے کمر بستہ ہوجائیں۔
ہم کب تک اس گورکھ دھندے میں پڑے رہیں گے کہ یہ حکومت گئی وہ آئی۔۔۔ حکومتیں آتی جاری رہتی ہیں لیکن قومی ترقی اور بہتری کے تقاضے تبدیل نہیں ہوتے۔۔۔ آخر ہمیں ان مشکل ترین حالات اور تباہی کا انتظار کیوں ہے جو مستقبل میں ہمارے سامنے کھڑی ہے۔۔۔ ہم اس بحث میں کب تک وقت کو ضائع کرتے رہیں گے کہ جمہوریت کا دور مناسب ہے یا غیر جمہوریت کا دور مناسب ہے۔۔۔ جو بھی دور ہو ہمیں اپنی قومی ترجیحات کو طے کرکے آگے بڑھنا ہوگا اگر جمہوریت ہو تو بسم اللہ اگر نہ ہو تو پھر بھی تو ہمیں آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ آگے بڑھنے میں حال ہی نہیں اصل میں مستقبل شناسی سے کام لینا ہوگا۔ ہمارا مستقبل شناسی کا رویہ اور مستقبل کے مسائل کا احاطہ کرکے ان مسائل کے حل کے لئے اپنی قوت عمل کو بروئے کار لانا نہ صرف پاکستان بلکہ تمام ساؤتھ ایشیاء کے لئے رہنمائی کا باعث ہوگا بلکہ تیسری دنیا کے زیادہ تر ممالک بھی اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ آج ہم جس موڑ پر کھڑے ہیں اس میں ایک رستہ یہ ہے کہ ہم جس ناقص فکر و عمل کے دھارے میں بہے جارہے ہیں اسی میں بہتے جائیں اور دوسرا رستہ یہ ہے کہ ہم اپنے حال اور مستقبل کے مسائل کا ادراک کرکے فکر نو کو اپناکر ان مسائل کے حل پر کمر بستہ ہوجائیں۔ کسی قوم کی آنے والی نسلوں کی بنیاد پہلی نسلیں ہی رکھتی ہیں۔ اگر پہلی نسلیں ہی خواب غفلت میں مبتلا ہوں تو آنے والی نسلوں کا خدا ہی حافظ ہے۔ آج سیاسی جماعتیں مختلف ایشوز کو لے کر اسے ہی مکمل تباہی کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں۔ ہمارا درد سر کوئی فرد یا کسی کا اقتدار نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمارے درد سر ہمارے حقیقی مسائل ہونے چاہئیں۔
عالمی حالات کا پس منظر اکیسویں صدی میں قطعی طور پر تبدیل ہوجائے گا۔ آئندہ دہائیوں میں اس کی صورت گری واضح ہونا شروع ہوجائے گی۔ ہمیں بحیثیت پاکستانی معلوم ہونا چاہئے کہ آنے والے وقت میں دنیا کون سے مسائل کی لپیٹ میں آسکتی ہے اگر ہمارے عام افراد کو اس بارے میں آگہی نہ ہو تو کم از کم اہل علم اور ذمہ دار افراد کو تو اس بارے میں آگاہی ہونی چاہئے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ بڑھتی آبادی کا دباؤ تمام دنیا پر آئندہ پڑنے والا ہے۔۔۔ نیچرل ریسورسز (قدرتی وسائل) جو پہلے ہی محدود ہیں آبادی کے دباؤ کی وجہ سے مزید سکڑتے جائیں گے، جیسے آبادی بڑھے گی، نیچرل ریسورسز کم ہوتے جائیں گے اور ویسے ویسے مہنگائی کا دور دورہ ہوتا جائے گا۔ خصوصاً ہمارے جیسے ممالک جہاں آبادی تیزی سے بڑھ رہی اور ذرائع آمدن صرف نیچرل ریسورسز سے حاصل ہوتے ہیں وہاں حالات بری طرح بگڑتے جائیں گے۔ ہمارے جیسے ممالک ساؤتھ ایشیاء سمیت طرح طرح کے مسائل کا شکار ہوتے جائیں گے نہ صرف یہ کہ خوراک، آبی وسائل اور انرجی سیکٹر میں شدید مشکلات اور کمی پیدا ہوجائے گی بلکہ آبادی میں اضافہ روزگار کے مسائل کو بھی شدید تر کردے گا اور زیادہ آبادی کے لئے رہائشی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہوجائے گا۔ نیچرل ریسورسز کے دن بدن کم ہوتے ہوئے ذخائر ہر قسم کے نیچرل ریسورسز کی قیمتوں کو تیزی سے بڑھاتے جائیں گے جو قیمتیں پندرہ بیس سال بعد ماضی میں زیادہ بڑھتی تھیں وہ قیمتیں آئندہ سالوں میں صرف چند سالوں میں بڑھتی جائیں گی۔
ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم ایسی آنے والی صورتحال میں کہاں کھڑے ہوئے ہیں۔۔۔ کیا ہمارے اہل اقتدار اور ذمہ دار افراد ان آنے والے حالات کے بارے میں کچھ غور فکر کرتے ہیں یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے ماضی میں وقت گزر گیا ہے آنے والے دنوں میں بھی ایسے وقت گزرتا جائے گا۔۔۔ اگر وہ ایسا سوچتے ہیں تو وہ بہت بڑی غلطی کررہے ہیں تمام ساؤتھ ایشیاء اکیسویں صدی میں ایک بہت بڑے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے جس سے نکلنے کا راستہ کافی پہلے سے تلاش کیا جانا چاہیے تھا لیکن ساؤتھ ایشیاء کے اہل علم اور ذمہ دار افراد نے اس بارے میں اپنی معمولی سی ذمہ داری بھی نہیں نبھائی ہے جس کی وجہ ہے کہ آج ہم عین ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ تیز رفتار علمی، فکری، سماجی اور علمی تبدیلیوں کو اختیار کئے بغیر ہم آنے والی ممکنہ تباہی سے بچ نہیں سکتے۔ کیا ہم آئندہ نسلوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد جاہل اور خود غرض تھے۔ اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوجائیں تو ہم ذمہ دار قوموں میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر سیاستدان اور اہل قیادت سرے سے حقیقی مسائل سے نابلد ہیں۔ ایسے میں ان میں مستقبل شناسی کا کوئی تصور پیدا ہونا قرین قیاس نہیں ہے۔ ہمارے اہل قیادت خصوصاً منتخب نمائندے عوام کے قریب ہوتے ہیں اور انہیں خوب علم ہونا چاہئے کہ عوام کے حقیقی مسائل کیا ہیں اور مستقبل میں ان مسائل کی صورت گری کیا ہوگی؟ لیکن صد افسوس کہ منتخب نمائندے عوام کے حقیقی مسائل اور مستقبل کے مسائل پر ذرا بھر بھی متوجہ نہیں ہوتے۔ سیاسی جماعتیں عوام کے مستقبل پر کسی تشویش کا اظہار نہیں کررہی ہیں اگر ہم صرف عالمی سطح پر تیل کی بڑھتی قیمتوں پر نظر ڈالیں تو آئندہ دہائیوں میں جو صورتحال پیدا ہوگی اس کا تصور کسی سیاسی جماعت کی فکر سے ظاہر نہیں ہوتا۔
ہمارے منتخب نمائندے اور سیاست دان کیا سوچ کر عوام سے ووٹ مانگتے ہیں اگر انہیں عوام سے وابستگی کی طریقہ صرف یہ ہی آتا ہے کہ کسی طرح سے عوام کی سیڑھی کو استعمال کرکے اقتدار کی سیڑھیاں چڑھتے جائیں تو پھر عوام کے مسائل کون حل کرے گا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے کہ ان میں کوئی سٹڈی سرکل قائم نہیں ہے جو عوام کے مشکل ترین مستقبل پر گہرا غوروفکر کرکے اسے عوام کے سامنے پیش کرے۔ کوئی لیفٹ کی سیاست کرتا ہے یا رائیٹ کی لیکن عوام کے مسائل تو سب کی توجہ کے طالب ہونے چاہئے۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ ہم ماضی کی باتوں سے کب تک عوام کا دل بہلاتے رہیں گے۔ قدرت نے ہمیں جس عہد میں پیدا کیا ہے، ہمیں اسی میں جینا ہے اور اس کے حالات سے نبرد آزما ہونا ہے۔ آج ہم اپنے حال اور مستقبل سے بیگانہ ہیں، نظریات خواہ کتنے بھی اہم ہوں ان سے وابستہ رہ کر کچھ نہیں کرسکتے۔ ملک میں انتہا پسند طبقہ اپنی جگہ اور سول سوسائٹی کے مہذب حلقے بھی اپنے حال اور مستقبل کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ایسے خواب غفلت میں سوئے ہیں کہ وہ اپنے عوام کے بارے حال مستقبل کے پس منظر میں نہ قلم اٹھارہے ہیں نہ لب کشائی کررہے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود آگے بڑھیں اور حقیقی قیادت کو پہچانیں کہ اس وقت بالعموم عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کی قیادت کرنے کا صحیح حقدار کون ہے؟۔۔۔ وہ کون سی قیادت ہے جس کے پاس قابل عمل اور مسائل کے حل والے فارمولے موجود ہیں۔ ہمارے اہل قیادت محض اقتدار کے لئے سوچتے ہیں۔۔۔ عوام کے بڑھتے ہوئے مسائل جو عالمی پس منظر میں آئندہ تیزی سے بڑھتے جائیں گے کا احساس کسی دل میں پیدا نہیں ہورہا۔ روایتی سیاستدان عوام کو خالی نعروں سے اپنے پیچھے نہ لگائیں بلکہ عوام کے حقیقی حال اور مستقبل کے مسائل کے حل کے لئے عوام کو درست پیغام دیں۔ آج ہم میں سے ہر ایک کو بیدار ہونا ہوگا اور اپنے مستقبل کی بہتری کی نوید سنانے والی حقیقی قیادت کے نعرہ ہائے مستانہ پر لبیک کہنا ہوگا۔