شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے حوالے سے خصوصی خطاب
ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین
وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَO
(البقره، 2 : 124)
’’اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم ( علیہ السلام ) کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نے وہ پوری کر دیں، (اس پر) اللہ نے فرمایا : میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا، انہوں نے عرض کیا : (کیا) میری اولاد میں سے بھی؟ ارشاد ہوا (ہاں مگر) میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں اپنے اولی العزم اور بزرگ پیغمبر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا کرنے، ان سے کامیابی سے گزرنے اور پھر اس پر انعام کا تذکرہ فرمایا ہے۔
جو لوگ آزمائش سے بھاگ جاتے ہیں وہ پست رہتے ہیں اور جو لوگ آزمائش کو سینے سے لگاتے ہیں وہ عظیم ہوجاتے ہیں۔ آزمائش ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی، آزمائش میں ڈالا بھی اسی کو جاتا ہے جس سے اللہ کو پیار ہوتا ہے۔ وہ اپنے محبوب بندوں کو ہی آزمائش میں ڈالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پیار کیا اور اس پیار کے نتیجے میں انہیں آزمائش میں ڈلا اور وہ ہر آزمائش میں سرخرو رہے۔ سلسلۂ آزمائش جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پہ آکر ختم ہوا۔
اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آزمایا اور جب وہ ہر بات میں اور ہر آزمائش میں کامیاب ہوگئے تو ان سے انعام کے طور پر فرمایا :
اے ابراہیم! تو معیار پر پورا اترا ہے میری آزمائشوں میں کامیاب ہوا ہے لہذا اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ’’بے شک میں تجھے انسانیت کا امام بناؤں گا‘‘۔
انبیاء کے بہت سے سلسلے ہوئے مگر وہ سارے سلسلے اللہ تعالیٰ نے جدالابنیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع فرماکر ان کو منبع و سرچشمہ بنادیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا : باری تعالیٰ میری اولاد کو بھی امامت دے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ قَالَ لَایَنَالُ عَھْدِ الظَّالِمِیْن۔ ’’ابراہیم تیری ذریت (اولاد) کو بھی امامت دونگا مگر امامت ان کو ملے گی جو ظالم نہیں ہونگے‘‘۔ پس معلوم ہوا کہ ظالم کبھی امام نہیں ہوتا۔ امامت حق سے ملتی ہے۔ ۔ ۔ جو امام ہوتا ہے وہ حق پر ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اور وہی حق ہوتا ہے۔ ۔ ۔ جو لوگ سیدھی راہ پر ہوں وہ بھی حق پر ہیں۔ ۔ ۔ مگر امام تو خود حق ہوتا ہے۔ ۔ ۔ جو اس امام کی راہ پر چلتے ہیں وہ اہل حق کہلاتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے دو نعمتوں کا ذکر فرمایا :
- نعمت نبوت
- نعمت امامت
آپ نے دعا کی باری تعالیٰ تو نے دو نعمتوں نبوت اور امامت کا ذکر کیا ہے، امامت کی بات سمجھ میں آگئی کہ میری ذریت میں ہوگی، باہر نہیں جاسکتی۔ اب نبوت کا بھی کرم کردے کہ وہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن پر نبوت ختم ہوگی وہ بھی میری ذریت کو عطا فرمادے، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ.
(البقره، 2 : 129)
’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کو بھی شرفِ قبولیت عطا فرمایا اور نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ہی کی ذریت میں سے تشریف لائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا جس پتھر پر کھڑے ہوکر مانگی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس پتھر نے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان کو محفوظ کرلیا۔ وہ پتھر مقام ابراہیم علیہ السلام کے نام سے آج بھی حرم کعبہ میں محفوظ ہے۔
چاہتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوام ہے
اس بات کو چار ہزار سال گزر گئے، سب پتھروں پر اگر نشان پڑے بھی تھے تو مٹ گئے۔ مگر چار ہزار سال میں اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کا نشان آج تک نہ مٹ سکا نہ مٹایا جاسکا۔ اس لئے نہیں مٹا کہ اس پتھر پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مانگا تھا حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اس وقت دنیا میں جسمانی طور پر تشریف نہ لائے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں کے نشان نہ مٹ سکے کیونکہ یہ نشان اس لمحے پڑے تھے جب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مانگا جارہا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاہا تھا اور اس چاہنے کی یہ علامت سامنے آئی کہ مقام ابراہیم کا نشان نہ مٹ سکا اور ادھر جب خود مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو چاہا تھا۔ ۔ ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو زبان اقدس چسائی۔ ۔ ۔ امام حسین کو کندھوں پر بٹھایا۔ ۔ ۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ کرتے تو امام حسین رضی اللہ عنہ کندھوں پر ہوتے۔ ۔ ۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھتے تو حسین گود میں ہوتے۔ پس جب آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا مانگی گئی اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاہا گیا تو پتھر پر پڑنے والے اس وقت کے نشانات کو بھی محفوظ کرلیا گیا، اب جب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین علیہ السلام کو چاہ رہے ہیں تو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لخت جگر حسین علیہ السلام کا ذکر کون مٹا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ایک بدبخت یزید کیا کروڑ بدبخت یزید بھی ہوجائیں تو ذکر امام حسین رضی اللہ عنہ نہ مٹا ہے اور نہ مٹے گا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کا اعلان
ایک سمندر ولایت و معرفت کا ہے اور ایک سمندر عصمت و طہارت کا ہے۔ معرفت و ولایت کا سمندر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عصمت و طہارت کا سمندر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ ۔ ۔ جو حضرت فاطمۃ الزاہرا رضی اللہ عنہا کی طہارت میں شک کرے اس کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں اور جو علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی امامت و ولایت میں شک کرے اس کا بھی ایمان سے کوئی واسطہ نہیں۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
عن البراء بن عازب رضی الله عنه، قال : کنا مع رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فی سفر، فنزلنا بغدير خم فنودی فينا الصلاة جامعة وکسح لرسول الله صلی الله عليه وآله وسلم تحت شجر تين فصلی الظهر و اخذ بيد علی، فقال : الستم تعلمون انی اولی بالمومنين من انفسهم؟ قالوا : بلی قال : الستم تعلمون اني اولی بکل مومن من نفسه؟ قالوا : بلی قال : فاخذ بيد علی، فقال : من کنت مولاه فعلی مولاه اللهم! وال من والاه وعاد من عاداه.
(احمد بن حنبل، المسند، 4 : 281)
’’براء بن عازب سے روایت ہے کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے (راستے میں) ہم نے غدیر خم میں قیام کیا۔ وہاں ندا دی گئی کہ نماز کھڑی ہوگئی ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دو درختوں کے نیچے صفائی کی گئی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ظہر ادا کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کی جان سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! راوی کہتا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! اسے تو دوست رکھ جو اسے (علی کو) دوست رکھے اور اس سے عداوت رکھ جو اس سے عداوت رکھے‘‘۔
اس اعلان غدیر کے بعد آج تک جس کا علی، ولی ہے اسی کا نبی ولی ہے۔ ۔ ۔ اسی کا ولی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور اس کا ولی خدا ہے۔ ۔ ۔ اور جو علی رضی اللہ عنہ کو ولی نہیں جانتا نہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا ولی ہے اور نہ خدا اس کا ولی ہے۔ ۔ ۔ اعلان کردیا کہ میری بعثت کے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اب میرے بعد کوئی نبی رسول نہیں آئے گا اور میری امت میں نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہے۔ اب میری نبوت و رسالت کا روحانی فیض میرے بعد میری آل کے ذریعے سلسلہ امامت و ولایت سے چلے گا اور ہاتھ کھڑا کرکے اعلان کردیا کہ مجھ پر نبوت ختم اور علی سے ولایت شروع۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم باب نبوت ہوئے، نبوت کا دروازہ بند کردیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ فاتح باب ولایت ہوئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ولایت کا دروازہ کھول دیا اور سیدنا امام مھدی رضی اللہ عنہ خاتم باب ولایت ہونگے۔
ولایت اور شہادت
قرآن مجید میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَO
(البقره، 2 : 151)
’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے‘‘۔
بعثت رسالت کے بیان کے بعد اپنے ذکر کی تلقین کرتے ہوئے اس مقام پر شہادت کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد فرمایا :
وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَO
(البقره، 2 : 154)
’’اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مُردہ ہیں، (وہ مُردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں‘‘۔
ذکر رسالت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ذکر شہادت کیا ہے اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ خون شہادت کے ذریعے ہمیشہ کائنات میں امامت کا فیض جاری و ساری رہے گا اور امامت کا فیض خون شہادت کے ذریعے ہی فروغ پائے گا۔ یہی وجہ ہے شہادتیں تو بہت ہوئیں اور طبعی اموات بھی بہت ہوئیں مگر باب ولایت کا فاتح یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ ۔ ۔ ولی ثانی امام ثانی حسن مجتبیٰ بھی شہید ہوئے۔ ۔ ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ ۔ ۔ سلسلہ امامت میں اکثر آئمہ اطہار نے بھی جام شہادت نوش کیا ہے۔ قرآن پاک کی اس آیت سے امامت و شہادت کے تعلق کی تفسیری تائید حاصل ہوئی کہ شہادت و امامت کا آپس میں ایک تعلق ہے۔ ۔ ۔ کیوں۔ ۔ ۔ اس لئے کہ امامت کبھی باطل سے سمجھوتہ نہیں کرتی اور نتیجتاً شہادت اس کا مقدر بنتی ہے۔
نامِ حسین رضی اللہ عنہ۔ ۔ ۔ عطائے الہٰی
حدیث مبارکہ ہے کہ
عن علی رضی الله عنه قال : لما ولد حسن سماه حمزة، فلما ولد حسين سماه بإسم عمه جعفر. قال : فدعاني رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم و قال : إني اُمرت أن أغير إسم هذين. فقلت : أﷲ و رسوله أعلم، فسماهما حسنا و حسيناً.
(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 159)
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حسن پیدا ہوا تو اس کا نام حمزہ رکھا اور جب حسین پیدا ہوا تو اس کا نام اس کے چچا کے نام پر جعفر رکھا۔ (حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلا کر فرمایا : مجھے ان کے یہ نام تبدیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) میں نے عرض کیا : اﷲ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے نام حسن و حسین رکھے۔‘‘
حدیث مبارکہ میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مجھے حکم آیا ہے کہ میں دونوں نام بدل دوں‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ولادت کے ساتھ ہی امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کا معاملہ زمینی نہ رہا۔ نام تک بھی زمینی رکھنے کی اجازت نہ ہوئی بلکہ نام بھی آسمان سے بھیجے گئے۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کو دنیا کے پیمانوں پر تولنے والو حسین رضی اللہ عنہ کا نام بھی دنیا سے نہیں آیا بلکہ آسمانوں سے بھیجا گیا اور حدیث پاک میں ہے کہ
عن عمران بن سليمان قال : الحسن و الحسين اسمان من أسماء أهل الجنة لم يکونا في الجاهلية.
(ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه : 192)
’’عمران بن سلیمان سے روایت ہے کہ حسن اور حسین اہل جنت کے ناموں میں سے دو نام ہیں جو کہ دورِ جاہلیت میں پہلے کبھی نہیں رکھے گئے تھے۔‘‘
پانچ سو سال کے پورے عرصہ میں کسی بچے کا نام حسن و حسین نہیں رکھا گیا کسی اور کا نام نہیں ہوا۔ ۔ ۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی خاطر اللہ تعالیٰ کو یہ گوارا نہیں ہوا جو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب ہونے والے ہیں ان کا نام بھی کسی اور کا رکھا گیا ہو۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ نام اہل جنت کے نام ہیں تو جنت میں حوریں بھی رہتی تھیں، غلمان بھی ہیں، فرشتے بھی ہیں۔ اگر جنت کے ناموں میں سے ہیں تو کیا اہل جنت میں پہلے کسی کا نام حسن اور حسین تھا؟
فرمایا :
عن المفضل قال : إن اﷲ حجب اسم الحسن والحسين حتي سمي بهما النبي صلی الله عليه وآله وسلم ابنيه الحسن والحسين.
(نووي، تهذيب الاسماء، 1 : 162، رقم : 118)
’’مفضل سے روایت ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو حجاب میں رکھا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بیٹوں کا نام حسن اور حسین رکھا۔‘‘
نام دونوں جنت میں سے ہیں، جنت کے ہیں مگر ان شہزادوں کی ولادت سے قبل اللہ نے جنت میں بھی ان کے ناموں کو اپنے پردوں میں چھپا رکھا تھا۔ جب ان کی ولادت کا وقت آیا، اپنی جنت کے پردوں میں سے دونوں نام نکالے اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجے اور یہ نام شہزادوں کو عطا کر دیئے۔
خدا کے پردۂ حُسن میں چھپے دو نام
یہاں ایک خاص نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ جب کائنات میں کچھ بھی نہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
کنت کنزا مخفيا فاحببت ان اعرف
’’میں چھپا ہوا خزانہ تھا مجھے محبت ہوئی کہ میں جانا جاؤں‘‘۔
وہ خزانہ کس شے کا تھا؟۔ ۔ ۔ وہ مخفی حسن کا خزانہ تھا۔ ۔ ۔ فخلقت خلقا پہلی خلق جس نے حسن خدا کی معرفت لی اور وہ اس کے امر ’’کن‘‘ کا نقش اول بنا اور اس کی توجہ کا پہلا مرکز بنا، وہ خلق اول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔
اللہ کی چاہت کا پہلا مرکز مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوئے، پس جب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کی حمد کی تو خدا محمود ہوگیا۔ ۔ ۔ اس محمود کو حمد کرنے والا اتنا پیارا لگا، اتنا محبوب ہوا کہ اس نے پھر اس کی حمد کی۔ ۔ ۔ یعنی خالق نے اپنی زبان سے مخلوق کی حمد کی تو یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوئے۔ فرمایا :
پردہ حمد کا ہے۔ ۔ ۔ میں محمود ہوں۔ ۔ ۔ اور تیرے نام کو اپنے نام محمود سے نکالا۔ ۔ ۔ پس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام خدا کی حمد کے پردے میں تھا۔ جب وہ محمود ہوا تو اس محمود نے محمود سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نکالا۔ اسی طرح حسن اور حسین دو نام خدا نے اپنے حُسن کے پردے میں چھپا رکھے تھے۔ محمد کا مادہ ’’حمد‘‘ ہے اور حسن و حسین کا مادہ ’’حُسن‘‘ ہے۔ محمد ’’حمد‘‘ سے ہے اور حسن اور حسین دونوں ’’حُسن‘‘ سے ہیں۔ ۔ ۔ حمد بھی اسی کا پردہ تھا، حُسن بھی اسی کا پردہ تھا۔ ۔ ۔ جب محمد کی حمد ہوئی تو وہ محمد ہوا، جب اس نے حمد کی تو یہ احمد ہوا۔ ۔ ۔ اور قیامت کے دن، عرش پر اللہ تعالیٰ دائیں جانب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرسی بچھائیں گے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں تشریف فرما ہوں گے۔ لوگ پوچھیں گے کہ یہ مقام کیا ہے؟ تو فرمایا جائے گا : احمد بھی پہلے سے تھا۔ ۔ ۔ محمد بھی پہلے سے تھا۔ ۔ ۔ آج مقام محمود بھی عطا کردیا ہے۔
پس خدا کی چاہت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو اس نے اپنی چاہت کو حمد کے پردے سے نکالا اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چاہت حسن و حسین ہیں چونکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چاہت ہیں۔ جو خدا کی چاہت کو اذیت دے وہ کافر ہوجاتا ہے اور حسین تو خد اکی دوہری چاہت ہیں۔ ۔ ۔
جنت کی زینت۔ ۔ ۔ حسن و حسین رضی اللہ عنہما
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کی چاہت اور حسین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چاہت۔ ۔ ۔ جو حسین کو اذیت دے وہ مسلمان کیسے رہ سکتا ہے۔ ۔ ۔ اس لئے نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نے حمد کے پردے سے نکالا۔ ۔ ۔ اور نام حسن و حسین کو اس نے حُسن کے پردوں سے نکالا۔ ۔ ۔ یہی وجہ ہے امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما صرف حُسن کے پردوں سے نہیں آئے بلکہ جنت کو بھی انہی کے ناموں سے سجایا جائے گا کیونکہ حدیث پاک سے پتہ چلتا ہے قیامت کے بعد جب جنت سجے گی خدا کی عزت کی قسم اس وقت جنت کا حسن بھی حسن و حسین ہونگے۔ حسن اور حسین جنت کے دو ستون ہیں۔
عن عقبة بن عامر رضی الله عنه، أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قال : الحسن و الحسين شنفا العرش و ليسا بمعلقين، و إن النبي صلی الله عليه وآله وسلم قال : إذا استقر أهل الجنة في الجنة، قالت الجنة : يا رب! وعدتني أن تزينني برکنين من أرکانک! قال : أولم أزينک بالحسن و الحسين؟
(طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 108، رقم : 337)
’’عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین عرش کے دو ستون ہیں لیکن وہ لٹکے ہوئے نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب اہل جنت، جنت میں مقیم ہو جائیں گے تو جنت عرض کرے گی : اے پروردگار! تو نے مجھے اپنے ستونوں میں سے دو ستونوں سے مزین کرنے کا وعدہ فرمایا تھا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں نے تجھے حسن اور حسین کی موجودگی کے ذریعے مزین نہیں کردیا؟ (یہی تو میرے دو ستون ہیں)۔‘‘
ایک اور حدیث پاک میں آتا ہے کہ
عن أنس رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : فخرت الجنة علي النار فقالت : أنا خير منک، فقالت النار : بل أنا خير منک، فقالت لها الجنة إستفهاما : و ممه؟ قالت : لأن في الجبابرة و نمرود و فرعون فأسکتت، فأوحي اﷲ اليها : لا تخضعين، لأزينن رکنيک بالحسن و الحسين، فماست کما تميس العروس في خدرها.
(طبراني، المعجم الاسط، 7 : 148، رقم : 7120)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک مرتبہ جنت نے دوزخ پر فخر کیا اور کہا میں تم سے بہتر ہوں، دوزخ نے کہا : میں تم سے بہتر ہوں۔ جنت نے دوزخ سے پوچھا کس وجہ سے؟ دوزخ نے کہا : اس لئے کہ مجھ میں بڑے بڑے جابر حکمران فرعون اور نمرود ہیں۔ اس پر جنت خاموش ہو گئی، اﷲ تعالیٰ نے جنت کی طرف وحی کی اور فرمایا : تو عاجز و لاجواب نہ ہو، میں تیرے دو ستونوں کو حسن اور حسین کے ذریعے مزین کر دوں گا۔ پس جنت خوشی اور سرور سے ایسے شرما گئی جیسے دلہن شرماتی ہے۔‘‘
جنت، حسن و حسین کے نام پر فخر کرتی ہے اور دوزخ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اے دوزخ حسن و حسین میرے پاس ہیں اس لئے میں بہتر ہوں۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہ کو اپنا محبوب بنایا لہذا ان کو وہ شرف عطا کیا جو کائنات میں کسی اور کو نصیب نہ ہوا۔
تاجدارِ کائنات کی بارگاہ میں حسنین کریمین کا مقام محبوبیت
٭ امام طبرانی، المعجم الکبیر جلد 3، صفحہ 50 پر حدیث نمبر 2656 کے تحت بیان کرتے ہیں کہ
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ (سفر میں) نکلے، ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن و حسین علیہما السلام کی آواز سنی دونوں رو رہے تھے اور دونوں اپنی والدہ ماجدہ (سیدہ فاطمہ) کے پاس ہی تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے پاس تیزی سے پہنچے۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے یہ فرماتے ہوئے سنا : میرے بیٹوں کو کیا ہوا؟ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے بتایا انہیں سخت پیاس لگی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی لینے کے لئے مشکیزے کی طرف بڑھے۔ ان دنوں پانی کی سخت قلت تھی اور لوگوں کو پانی کی شدید ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو آواز دی : کیا کسی کے پاس پانی ہے؟ ہر ایک نے کجاؤوں سے لٹکتے ہوئے مشکیزوں میں پانی دیکھا مگر ان کو قطرہ تک نہ ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے فرمایا : ایک بچہ مجھے دیں اُنہوں نے ایک کو پردے کے نیچے سے دے دیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا مگر وہ سخت پیاس کی وجہ سے مسلسل رو رہا تھا اور خاموش نہیں ہو رہا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کے منہ میں اپنی زبان مبارک ڈال دی وہ اُسے چوسنے لگا حتی کہ سیرابی کی وجہ سے سکون میں آ گیا میں نے دوبارہ اُس کے رونے کی آواز نہ سنی، جب کہ دوسرا بھی اُسی طرح (مسلسل رو رہا تھا) پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دوسرا بھی مجھے دے دیں تو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے دوسرے کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی وہی معاملہ کیا (یعنی زبان مبارک اس کے منہ میں ڈالی) سو وہ دونوں ایسے خاموش ہوئے کہ میں نے دوبارہ اُن کے رونے کی آواز نہ سنی۔‘‘
٭ تاجدار کائنات کی بارگاہ میں حسنین کریمین کی محبوبیت کا مقام کیا ہے۔ درج ذیل حدیث مبارکہ سے یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : کنا نصلي مع رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم العشاء، فإذا سجد وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه اخذاً رفيقا و يضعهما علي الأرض، فإذا عاد، عادا حتي قضي صلاته، أقعدهما علي فخذيه.
(احمد بن حنبل، المسند، 2 : 513، رقم : 10669)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نماز عشاء ادا کر رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں گئے تو حسن اور حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدے سے سر اٹھایا تو ان دونوں کو اپنے پیچھے سے نرمی کے ساتھ پکڑ کر زمین پر بٹھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ سجدے میں گئے تو شہزادگان نے دوبارہ ایسے ہی کیا (یہ سلسلہ چلتا رہا) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز مکمل کر لی اس کے بعد دونوں کو اپنی مبارک رانوں پر بٹھا لیا۔‘‘
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی نماز ہورہی ہے یا حسن و حسین رضی اللہ عنہ کو بہلایا جارہا ہے۔ خدا کی عبادت میں حسین رضی اللہ عنہ کو بہلایا جارہا ہے۔
فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : میرے باپ حسنین پر قربان
حضرت زر بن حیش رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ’’ہم نے ایک روز دیکھا سجدے میں شہزادے آپ کے کندھوں پر چڑھ جاتے۔ ۔ ۔ پھر آپ کی پشت مبارک سے آرام سے اتر آتے۔ ۔ ۔ ساری نماز میں یہ کیفیت رہی۔ ۔ ۔ کچھ لوگ جنہیں معلوم نہ تھا کہ شہزادے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر روزانہ چڑھتے تھے۔ انہوں نے اشارہ سے شہزادوں کو روکنا چاہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری نماز کے دوران میرے سجدوں میں حسن و حسین میرے کندھوں پر چڑھیں یا میری گود میں بیٹھیں انہیں کوئی منع نہ کرے۔ دعوہما بابی وامی ’’انہیں چھوڑ دو (یعنی سوار ہونے دو) میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں‘‘۔
(بیہقی، السنن الکبریٰ، 2 : 263، رقم : 3237)
٭ حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عمر فاروق سے روایت کرتے ہیں کہ خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں ہماری جان ہے۔ ہم نے اپنے کانوں سے سنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزاہرا رضی اللہ عنہ سے مخاطب تھے۔ وہ نبی جسے ہر کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کہہ کر پکارتا ہے، خدا کی قسم ہم نے سنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے بات کی تو فرمایا :
’’میری فاطمہ میرے ماں باپ تجھ پر قربان‘‘
اور آج فرما رہے ہیں حسن و حسین میرے ماں باپ تجھ پر قربان۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں، نماز میں آئیں تو شہزادوں کو کندھوں پر بٹھالیں۔ خدا جانے اس محبت کا عالم کیا ہے کہ جن کے قدم چومنے کو عرش ترستا ہے، جن کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے قدسیان فلک ترستے ہیں۔ ۔ ۔ جو شب معراج براق چھوڑ کر اوپر جاتے ہیں تو نور حق رف رف بن کر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لینے آتا ہے۔ ۔ ۔ مقام قاب قوسین پر جب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنچتے ہیں تو حکم آتا ہے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رک جائیے یہاں تک آپ چل کے آئے ہیں آگے میں چل کے آتا ہوں۔ ۔ ۔ جن کا استقبال رحمت خداوندی قاب قوسین پر کرے۔ ۔ ۔ وہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر نکلتے ہیں تو حسن و حسین رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہوتے ہیں۔
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : رأيت الحسن والحسين عليهما السلام علي عاتقي النبي صلی الله عليه وآله وسلم، فقلت : نعم الفرس تحتکما. قال : و نعم الفارسان هما.
(بزار، المسند، 1 : 418)
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حسن و حسین علیہما السلام کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر (سوار) دیکھا تو حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ آپ کے نیچے کتنی اچھی سواری ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا : ذرا یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنے اچھے ہیں۔‘‘
پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور چاہت سے محبت کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حبِّ اہل بیت و حسنین کریمین رضی اللہ عنہما میں استقامت عطا فرمائے۔ آمین