ڈاکٹر ظہور احمد اظہر
زیر نظر مضمون عرب دنیا کے ایک ممتاز عالم استاد محمد فتحی عثمان کی عربی زبان میں تصنیف ’’الدین للواقع‘‘ (دین برائے حقیقت) کے ایک باب کی تلخیص ہے۔ قرآن و سنت کی جملہ تعلیمات رحمتوں کی آئینہ دار اور پیامبر ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’’رسولِ رحمت‘‘ کی حیثیت سے جو بھی نظام انسانیت کو عطا فرمائے اُن تمام میں رحمت، آسانی اور محبت ہی کارفرما ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عطا کردہ نظامِ اخلاق بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت مبارکہ ہی سے جنم لیتا ہے۔ اس لئے کہ ’’اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْم‘‘ کا تاج، رب کائنات نے آپ کے سر سجایا۔ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِن مبارکہ لمحات میں ’’اسلامی نظام اخلاق‘‘ کی صورت میں موجود رحمت کی طرف بھی متوجہ ہونا ہوگا۔
کیا اسلام میں بھی اخلاق کوئی خواب و خیال کی دنیا ہے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ اسلام میں تو اخلاق کی حیثیت متعین کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے فرمایا تھا :
اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق.
’’مجھے تو بھیجا ہی اسی لئے گیا ہے کہ بلند اخلاق کی تکمیل کردوں‘‘۔
دین اسلام میں اخلاق کی بنیاد بھی ایک حقیقت پسندانہ عملی اساس پر قائم ہے۔
انسانی فطرت کے مطابق اخلاق
دین اسلام خیر اور بھلائی کو ’’معروف‘‘ کا نام دیتا ہے اور شر و بدی کو ’’منکر‘‘ قرار دیتا ہے۔ اسلام کے اخلاق کی تعریف میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کیونکہ یہ اخلاق عام انسانوں کی فطرت سے ماخوذ ہیں۔ وہ فطرتِ انسانی جسے کتاب کا نازل کرنے والا جانتا ہے اور عملی زندگی میں انسان اس فطرت کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے۔ اسلامی اخلاق کوئی ایسی نظریاتی شے نہیں جو انسانی ضروریات اور معاشرے کے مطابق نہ ہوں۔ ارشاد نبوی ہے :
البر حسن الخلق والاثم ماحاک فی صدرک وکرهت ان يطلع عليه الناس.
’’نیکی تو حسن اخلاق کا نام ہے۔ گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں چبھے اور تو ناپسند کرے کہ لوگ اس پر آگاہی حاصل کریں‘‘۔
پھر فرمایا : ’’نیکی وہ ہے جس سے نفس کو سکون اور دلی اطمینان نصیب ہو۔ بدی وہ ہے جس سے نہ تو نفس کو تسکین ملے اور نہ قلب کو اطمینان حاصل ہو، خواہ تجھے مفتی لوگ فتویٰ ہی کیوں نہ دیں‘‘۔
دینی اخلاق کا اصل مفہوم
دینی اخلاق کی معروف صورت جو لوگوں کے ذہنوں میں عام پائی جاتی ہے، حقیقت میں وہ ہی سب کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک تاریک صورت ہے جس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ ’’دینی اخلاق‘‘ فقط ادائے نماز و روزہ اور شراب و جوئے وغیرہ سے اجتناب کا نام ہے۔ دینی اخلاق کی اس صورت نے ایک سائنس دان کو بیزار کرکے یہ کہنے پر مجبور کردیا تھا کہ صرف دینی اخلاق کافی نہیں بلکہ شاید وہ (دینی اخلاق) مطلقاً کوئی اصلاحی قوت ہی نہ رکھتے ہوں کہ اشخاص کو جانچنے اور انہیں سنوارنے کا کام دے سکیں۔
بلاشبہ شعائر کی ادائیگی، جوئے اور شراب سے پرہیز دین اسلام کے احکام میں شامل ہے لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ اس قسم کے اوامر اور نواہی بجائے خود دینی اخلاق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ایک شخص حسب عادت نماز پڑھ لیتا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ شراب سے اس لئے بچتا ہو کہ اسے اس کا ذائقہ ہی گوارا نہیں۔۔۔! یا یہ کہ اس سے اس کی صحت کو نقصان پہنچتا ہے اور ہوسکتا ہے۔۔۔ جوئے سے اپنے پیسے اور شہرت کی خاطر بچتا ہو۔۔۔ تو کیا ان سب باتوں کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص خوش اخلاق ہے۔۔۔؟ نہیں۔۔۔! اس انسان کی شخصیت کے بہت سے پہلو روشنی میں لائے جانے کے قابل ہیں۔ یہ ضروری ہوگا کہ اس کے انداز فکر کو جانچا جائے کہ اخلاقی اقدار کی اہمیت اس کے دل میں کتنی ہے؟ زندگی کے دیگر شعبوں میں اس کے کردار اور برتائو کو دیکھ کر ہی اس کے خوش اخلاق ہونے کے متعلق کوئی فیصلہ کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا دستور یہ تھا کہ جب کوئی آدمی کسی کی صفائی میں گواہی دیتا تو اس کے لئے اقامتِ شعائر اسلام کے بارے میں سطحی معلومات کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ گہری واقفیت، وسیع لین دین اور برتائو کی صورتوں کو معیار بناتے تھے جس سے انسان کے اندر چھپی ہوئی تمام باتیں منظر عام پر آجایا کرتی ہیں۔ اس لئے جو لوگ دینی اخلاق محض ظاہری معمولات تک محدود سمجھ بیٹھے ہیں وہ دین اسلام کے اخلاقی ضوابط کی حقیقت کے سلسلے میں غلطی اور خلط مبحث کا شکار ہیں۔
حقیقت پسندانہ اخلاق
اسلامی اخلاق، حقیقت پسندانہ ہیں کیونکہ ان میں انسانوں کے لئے یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ کمال کے لئے کوشاں رہیں نہ یہ کہ وہ کمال مطلق تک پہنچ کر فرشتہ بن جائیں۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
رفع عن امتی الخطاء والنسيان وما اسکر هو عليه.
’’خطا نسیان اور مجبور کرکے گناہ کروانا میری امت کو معاف کردیا گیا ہے‘‘۔
اسی طرح فرمایا :
کل بنی آدم خطاء و خير الخطائين التوابون.
’’ہر ابن آدم خطا کا پتلا ہے خطاکاروں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہوتے ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک جگہ متقین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ان کی ایک قسم یہ بھی بتائی ہے کہ جو غلطی کرتے ہیں پھر توبہ کرلیتے ہیں، نہ کہ یہ ان کی زندگی بالکل گناہوں سے خالی ہے۔
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ.
’’اور وہ لوگ کہ اگر برائی کر بیٹھتے ہیں یا خود پر کوئی زیادتی کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں‘‘۔
(آل عمران : 135)
اسلامی اخلاق اور محبت
اسلامی اخلاق محبت و پیار کی دعوت دیتے وقت بھی حقیقت پسندی سے کام لیتے ہیں اس لئے کراہت و ناپسندیدگی سے چشم پوشی نہیں کرتے۔ اسلامی معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ وہ افراد اور جماعت کا خیال کرے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اسلامی معاشرہ عمداً ارتکاب جرم کی ذمہ داری والے شخص کا حساب چکائے، جہاں تک جرم کے سبب کا تعلق ہے تو اس کی جانچ پڑتال اور حیثیت کا تعین عملی طور پر ممکن حدود کے اندر رہ کر کیا جا سکتا ہے۔
دین اسلام کی اخلاقیات میں محبت کو اہمیت دی گئی ہے۔ جیسے ارشاد نبوی ہے :
لا يومن احدکم حتی يحب لاخيه ما يحب لنفسه.
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی بات پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے‘‘۔
اسلامی اخلاق اور قوانین
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً.
’’اے ایمان والو! مکمل طور پر سلامتی کے دائرے میں داخل ہوجاؤ‘‘۔
(البقره : 208)
مگر اس کے ساتھ ہی اسلام نے سلامتی میں داخل ہونے والے کے لئے سزا کا قانون بھی بنادیا اور سلامتی کے دائرے سے نکلنے والے کے لئے جنگ کا قانون بھی مقرر کردیا ہے۔
وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ.
(النور : 2)
’’زانی اور زانیہ کو سزا دیتے وقت تمہیں نرمی دکھانی چاہئے اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ.
’’تمہارے لئے خون کا بدلہ لینے میں زندگی ہے‘‘۔
دین اسلام ایسے اخلاق کو برا قرار دیتا ہے جو دھونس اور دھاندلی کے قانون کو جائز قرار دیتے ہیں۔ جنگ کے بارے میں اسلام کی جو وصیتیں ہیں انہیں سب جانتے ہیں۔ یہاں پر چند باتوں کی طرف اشارہ ہی کافی ہوگا۔ دین اسلام ایفائے عہد کا حکم دیتا ہے۔۔۔ عورتوں، بوڑھوں، بچوں اور دینی پیشوائوں پر تعدی کرنے سے منع کرتا ہے۔۔۔ تمام غیر جنگجو لوگوں سے تعرض کرنے سے روکتا ہے۔۔۔ اور انتہائی جنگی ضروریات کے بغیر فساد و اتلاف سے بھی اسلام سختی سے منع کرتا ہے۔
اسلامی اخلاق ۔۔ دین و دنیا کا امتزاج
اسلامی اخلاق اس لئے بھی حقیقت پسندانہ ہیں کہ دین اور دنیا کے باہمی تصادم پر منتج نہیں ہوتے۔
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالْطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُواْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
(الاعراف : 32)
’’کہہ دیجئے کہ اللہ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لئے تیار کی ہے اور پاکیزہ رزق کو کس نے حرام بنایا ہے؟ کہہ دیجئے کہ یہ دنیاوی زندگی اللہ کے مومن بندوں کے لئے بھی ہے اور آخرت میں تو ہے ہی ان کے لئے‘‘۔
انسان اپنی ذاتی ملکیت بھی بناسکتا ہے بشرطیکہ اس کی یہ ملکیت اسلام کی اس اقتصادی سیاست سے متعارض نہ ہو جو اسلامی حکومت عملاً نافذ کئے ہوئے ہے اور اس کے بنائے ہوئے قوانین سے بھی متصادم نہیں ہوتی، بشرطیکہ وہ انسان معاشرے اور ریاست کے عائد کردہ مالی حقوق ولوازمات ادا کرتا رہے۔
دین اسلام میں زہد و تقویٰ فقط عزلت گزینی اور گوشہ گیری کا نام نہیں بلکہ روئے زمین پر سعی و کوشش، پیداوار میں اضافے اور دولت کو ہاتھ میں لانے اور پھر یہ سب کچھ معاشرے اور ریاست کے تصرف میں دے دینے کا نام زہد و تقویٰ ہے۔ یہ اسلامی زہد اصل میں فرد کی اپنی ملکیت سے بے نیازی کا نام ہے، دولت کمانے سے عجز و بے بسی کا نام زہد نہیں ہے۔
اسلامی اخلاق اس لئے بھی حقیقت پسندانہ ہیں کہ یہ کبائر اور صغائر کے درمیان تفریق کرتے ہیں :
الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ.
’’وہ لوگ جو کبیرہ گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں مگر یوں ہی غیر ارادی طور پر‘‘۔
(النجم : 32)
یہ اخلاق، پردہ داری اور برسر عام ارتکاب میں بھی فرق کرتے ہیں۔ ارشاد نبوی ہے :
’’میری تمام امت کے لوگ قابل معافی ہیں سوائے مجاہرین یعنی برسر عام بدی کے مرتکبین کے، یہ بھی برسر عام بدی کرنا ہے کہ کوئی شخص رات کو برا کام کر بیٹھے تو پھر صبح ہو تو اللہ کی طرف سے پردہ داری کے باوجود لوگوں سے کہتا پھرے، میں نے آج رات یہ کیا اور یوں کیا اور اس طرح وہ اللہ عزوجل کے دیئے ہوئے پردے کو فاش کرنے کا مرتکب ہو‘‘۔
اسلامی اخلاق اور مختلف طبائع و ماحول کا فرق
اسی طرح اسلام میں انسان کی حالت کے پیشِ نظر بعض اخلاق میں بھی فرق ہے۔ اب ہوسکتا ہے کہ ایک مومن بزدل ہو یا بخیل مگر وہ جھوٹا نہ ہو :
إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللّهِ وَأُوْلـئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ.
(النحل : 105)
’’جھوٹ تو وہ لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے، یہی لوگ جھوٹے ہیں‘‘۔
اسلامی اخلاق کی ایک حقیقت پسندی یہ بھی ہے کہ ان میں اکراہ اور فتنے کی حالت کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے :
إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ.
’’ہاں مگر جو مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو‘‘۔
(النحل : 106)
الا ان تتقوا منهم تقاة.
’’مگر یہ کہ تم ان سے جان بچانا چاہو‘‘۔
مگر اسلام میں تقیہ کی اجازت انتہائی شدید اور غیر معمولی حالات میں ہے۔ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں برسبیل حصر ان مواقع کی تحدید کردی گئی ہے جن میں جھوٹ کی اجازت ہے اور وہ مواقع ہیں :
- جنگ
- اپنی بیوی سے بات کرنا
- دو جھگڑنے والوں کے درمیان صلح کرانا
کیا اس سے بڑھ کر حقیقت پسندی ہوسکتی ہے؟ ایک دین ہے جو مکارم اخلاق پر قائم ہے مگر وہ تنگ دائرے کی استثنائی صورتوں سے چشم پوشی نہیں کرتا۔ ایسے دائرے جن میں بلند ترین اور زیادہ مفید باتوں کا لحاظ مقصود ہے اور جہاں ایک اخلاقی خوبی دوسری اخلاقی خوبی کے مقابلے میں ترجیح بن جاتی ہے۔
مثلاً جنگ باہم لڑنے والوں کے باہمی اعتماد کے خاتمے کے اعلان کا نام ہے۔ اب جنگ میں جھوٹ سے کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ جنگ تو خود ہی دھوکا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنگ میں تمام اخلاقی اقدار و فضائل معطل ہوجائیں اس لئے کہ یہاں بھی شجاعت جیسی اخلاقی قدر کی ضرورت ہے۔ رحمت ومہربانی بھی اپنی جگہ باقی رہے گی چنانچہ بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جائے گا۔۔۔ زخمی پر وار نہیں کیا جائے گا۔۔۔ بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو کوئی گزند نہیں پہنچائی جائے گی۔۔۔
میاں بیوی کی گفتگو میں سے اگر کچھ دیر کے لئے صدق غائب ہوجائے تو ایثار و قربانی توہمیشہ قائم ہی رہتی ہے۔ اس لئے کہ شوہر اگر بیوی سے اپنی محبت کی بات کرتا ہے جب کہ فی الحقیقت وہ محبت نہیں کرتا تو حقیقت میں وہ اپنی ذات پر ناپسندیدگی کا اظہار کررہا ہوتا ہے اور اتفاق و محبت کے لئے اپنے جذبات کو قربان کررہا ہوتا ہے۔
رہا لوگوں میں صلح کرانے کا معاملہ تو یہ ایک ایسی بلند اخلاقی عمل ہے جس کے مقابلے میں تمام اونچے اخلاق بالکل ہیچ ہیں۔
یہ بات بالکل واضح اور بدیہی ہے کہ یہ سب کچھ بعض حدود و قیود اور اصول و ضوابط کے اندر رہ کر ہوگا۔ اس لئے کہ جنگ میں جھوٹ کا لوازم شمار ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمام خطہ جنگ پر ہر جگہ کذب بیانی کا دور دورہ ہوگا۔۔۔ میاں بیوی کے تعلقات کے ضمن میں کبھی کبھار جھوٹ بولنے کے جواز کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک جھوٹ بول کر کوئی بھی مسئلہ حل نہ ہو لیکن بہت سے لاینحل مسائل اٹھ کھڑے ہوں۔۔۔! اسی طرح اصلاح ذات البین کی خاطر جھوٹ بولنے کا مقصد بھی یہ نہیں ہے کہ بعض ایسے بنیادی امور کو چھپایا جائے جو ظاہر ہونے میں زیادہ دیر نہ لگے اور فریقین کے درمیان تعلقات پہلے سے بھی بدتر ہوجائیں بلکہ مومن کے لئے ایسے مواقع پر ذہانت و فطانت اور حکمت و دور اندیشی کی بہت ضرورت ہے۔
اسلامی اخلاق اور ایمان و ضمیر کی یکجائی
اسلامی اخلاق کی حقیقت پسندی کا ایک پہلو یہ ہے کہ ان میں ایمان اور ضمیر کی قوتوں کو عملی اسالیب زندگی کے ساتھ مربوط اور مضبوط کردیا گیا ہے۔ جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الايمان بضع وسبعون شعبة.
’’ایمان کے کچھ اوپر ستر شعبے ہیں‘‘۔
پھر ارشاد فرمایا :
لا يزنی زان وهو مومن.
’’کوئی مومن حالت ایمان میں زنا نہیں کرسکتا‘‘۔
حیاء کے ایمان ہونے کے حوالہ سے بتایا :
الحياء من الايمان.
’’حیاء بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے‘‘۔
اور یوں دین عمل میں اخلاق کی نگرانی عقیدہ و ایمان کی قوتوں کے ذریعے کرائی جاتی ہے۔
اخلاق اسلامی عبادات کے ساتھ بھی مربوط ہیں جس کے سبب یہ عبادات بے روح اور بے جان رسوم کے بجائے نفسیاتی تحلیل و تجزیہ اور معاشرتی تدریب و تربیت کے مراکز و ادارے بن جاتے ہیں : جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ.
’’نماز گندی اور بری باتوں سے روکتی ہے‘‘۔
(العنکبوت : 45)
الصوم جنة... فاذا کان احدکم صائما فلا يرفث ولا يفسق ولا يضحب.
’’روزہ ایک ڈھال ہے۔ اس لئے اگر تم میں سے کوئی روزہ رکھے تو اسے فحش گوئی، گالی گلوچ اور جھگڑا نہیں کرنا چاہئے‘‘۔
اسی طرح منکرات سے بچنے کے لئے رب کریم نے ارشاد فرمایا :
فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الْحَجِّ.
(البقره : 197)
’’پس جس شخص نے ان ایام میں حج اپنے اوپر فرض کیا تو اسے فحش کلامی، گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے کی حج کے دوران اجازت نہ ہوگی‘‘۔
اسلامی اخلاق کا قانون سازی اور قانون کی عملداری سے بھی گہرا ربط اور تعلق قائم ہے۔ چنانچہ بعض حدود اور تعزیرات ایسی ہیں جو اخلاقی جرائم کی عقوبت و سزا کے لئے مقرر ہیں جیسے زنا، قذف اور جھوٹی گواہی وغیرہ مگر اخلاقی ہدایت و ارشاد کی اساس، تربیت پر قائم ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اسلامی قوانینِ فوجداری میں اس بات کو بہت اہمیت دی گئی ہے کہ اس جھوٹ کی صورت کو ہی حرام قرار دے دیا جائے جو عدالت کی رفتار کار میں رکاوٹ کا باعث ہو اور یہ صورت ہے جھوٹی گواہی! اس کے علاوہ دوسرے معاملات میں جھوٹ بولنے کے جرم کو قانونی سزائوں کے بجائے اخلاقی دبائو کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔
اسلامی اخلاق اور خاندان و معاشرہ
دین اسلام نے جو ضابطہ اخلاق پیش کیا ہے اس میں خاندان اور معاشرے کو بھی بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ سچائی کوئی تصور یا نظریہ نہیں جس کی تبلیغ و تلقین کی جاتی ہو۔ یہ تو ایک عادت اور معمول کی بات ہے جس سے ذہن تاثر پکڑتا ہے اور زبان کو اس کی مشق و تمرین کرنا پڑتی ہے اور پھر یہی عادت اور معمول لاشعور کے باطن میں جڑ پکڑ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خاندانی تربیت کو اور معاشرتی روایات و تقالید کی صحت و صفائی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں سے رسالت اسلامیہ کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے عرب معاشرے کے انتخاب کی اہمیت بھی سامنے آجاتی ہے کیونکہ یہ معاشرہ بہت سے اخلاق فاضلہ (مروت، سخاوت، ایفائے عہد وغیرہ) کا ایک گہوارہ تھا۔ قرآن مجید حضرت لقمان کی زبانی فرزندانِ اسلام کو حکم دیتا ہے :
’’اے میرے بیٹے! نماز قائم کر، نیکی کا حکم دے، بری بات سے روک، مصیبت پر صبر کر، بلاشبہ یہ عزم و ہمت کے معاملات میں سے ہے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے قرآن مجید کہتا ہے :
اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجئے اور خود بھی اس پر مضبوطی سے کار بند رہئے‘‘۔
جمہور اہل اسلام کو حکم دیا جاتا ہے :
’’خود کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ‘‘۔
اور حدیث نبوی میں ہے :
کلکم راع وکلکم مسئول عن رعيته.
’’تم میں سے ہر ایک محافظِ رعیت ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔
قرآن مجید كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ اور وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ کے ذریعے معاشرے کے لئے عمومی طور پر بھلائی کی اشاعت اور حق و صبر قائم رکھنے کی وصیت کا حکم دیتا ہے۔
اخلاقی تربیت اور تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اخلاقی تربیت کے سلسلے میں تعلیمات نبوی میں بڑے شاندار نمونے اور اسالیب ملتے ہیں کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی عقیدہ و ایمان اور جزاء و سزا کے بارے میں کچھ ارشاد فرماتے ہیں تو اسے مکارم اخلاق یا بلند اخلاق کے ساتھ مربوط اور وابستہ صورت میں ارشاد فرماتے ہیں اور اسے دخول جنت کی کنجی قرار دیتے ہیں۔ آپ انسانوں کے لئے واضح راہیں متعین فرماتے ہیں اور ان کی ضروریات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے چنانچہ دخول جنت کا سبب بننے والا اخلاقی عمل کبھی تو والدین کے ساتھ حسن سلوک قرار دیا جاتا ہے۔۔۔ کبھی وقت پر ادائے نماز۔۔۔ کبھی جہاد فی سبیل اللہ اور کبھی ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے :
الصيام جنة والصدقة تطفی الخطيئة الصلاة بالليل شعار الصالحين.
’’روزہ ایک ڈھال ہے، صدقہ گناہ کو بجھادیتا ہے، رات کو عبادت صالحین کا شعار ہے‘‘۔
اسی طرح تربیت اخلاقی کے بارے میں ارشاد و ہدایت کے مختلف اسالیب سامنے آتے رہتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول لوگوں کو ویرانے میں نہیں چھوڑنا چاہتے جہاں وہ کسی واضح، روشن اور متعین اخلاقی پروگرام کے بغیر لاحول ولا قوۃ اور تعوذ پڑھتے ہوئے، آنسو بہاتے ہوئے بھٹکتے پھریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانی کمزوریوں سے بھی تنگ دلی محسوس نہیں کرتے بلکہ ان کا علاج کرتے ہیں جو بعض اوقات سست رو اور طویل بھی ہوتا ہے۔۔۔ ایک شخص ہے جو نماز قائم نہیں کرسکتا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ تو اسے بہت برا سمجھتے ہیں، نہ اس سے بیزار ہوتے ہیں بلکہ حتی الامکان اپنی مجلس میں شمولیت کا وعدہ لے لیتے ہیں اور سچ بولنے کا عہد و پیماں ہوتا ہے۔ اب یہ حقیقت کون نہیں جانتا کہ صحبت اقتداء اور صدق گوئی سے انسانی شخصیت نکھر جاتی ہے۔۔۔ پھر ایک اور شخص ہے جس کی شہوت کی آگ دہکتی رہتی ہے۔ وہ صراحت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اپنی شہوت سے بے قابو ہونے کا اعتراف کرتا ہے اور باز رہنے سے معذوری ظاہر کرتا ہے۔ اللہ کے رسول اسے بڑی نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اسے اپنی ماں، بہن اور بیٹی کے حساس رشتے یاد دلاکر گناہ سے باز رہنے پر آمادہ کرتے ہیں۔
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ پیکرِ اخلاقِ حسنہ
اسلام کا تمام نظام اخلاق حقیقت پسندی اور واقعیت پر مبنی ہے۔ اسلامی نظام اخلاق کی حقیقت پسندی اور واقعیت کا ایک مظاہرہ اس وقت ہوا جب یہ پورے کا پورا نظام ایک انسانی شخصیت میں ودیعت کردیا گیا جو بالکل عام انسانوں کی طرح لوگوں کے ساتھ زندگی گزارتا تھا۔۔۔ باتیں کرتا تھا۔۔۔ لین دین کرتا تھا۔۔۔ اور اس تمام لین دین میں کَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآن (آپ کا اخلاق تو قرآن تھا) کی مجسم اور عملی تصویر تھا۔ روایت سنت سے نقل کرتے ہوئے علامہ سلیمان ندوی ’’الرسالۃ المحمدیہ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’پیدائش، شیر خوارگی، بچپن، ہوش و تمیز، جوانی، تجارت، آمدو رفت، شادی، احباب قبل نبوت، قریش کی لڑائی اور قریش کے معاہدے میں شرکت، امین بننا، خانہ کعبہ میں پتھر نصب کرنا، رفتہ رفتہ تنہائی پسندی، غار حرا کی گوشہ نشینی، وحی اسلام کا ظہور، دعوت، تبلیغ، مخالفت، سفر طائف، معراج، ہجرت، غزوات، حدیبیہ کی صلح، دعوت اسلام کے نام و پیام، اسلام کی اشاعت، تکمیل دین، حجۃ الوداع، وفات، ان میں سے کون سا زمانہ ہے جو دنیا کی نگاہوں کے سامنے نہیں اور آپ کی کون سی حالت ہے جس سے اہل تاریخ ناواقف ہیں۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، شادی بیاہ، بال بچے، دوست احباب، نماز روزہ، دن رات کی عبادت، صلح و جنگ، آمد و رفت، سفر و حضر نہانا دھونا، کھانا پینا، ہنسنا رونا، پہننا اوڑھنا، چلنا پھرنا، ہنسی مذاق، بولنا چالنا، خلوت جلوت، ملنا جلنا، طور و طریق، رنگ و بو، خدو خال، قدو قامت، یہاں تک کہ میاں بیوی کے خانگی تعلقات اور ہمخوابی و طہارت کے واقعات، ہر چیز پوری روشنی میں مذکور معلوم اور محفوظ ہیں‘‘۔
’’بڑے سے بڑے آدمی بھی اپنے گھر میں معمولی ہوتے ہیں اسی لئے وولٹیر کے مشہور فقرے کے مطابق کوئی شخص اپنے گھر کا ہیرو نہیں ہوتا۔ No Man is a Hero to his valat باسمورتھ سمتھ کی رائے میں کم از کم یہ اصول پیغمبر اسلام کے متعلق صحیح نہیں۔۔۔ بڑے سے بڑا انسان جو ایک ہی بیوی کا شوہر ہو وہ بھی یہ ہمت نہیں کرسکتا کہ وہ اسی کو یہ اذن عام دے دے کہ تم میری ہر بات، ہر حالت اور ہر واقعہ برملا کہہ دو اور جو کچھ چھپا ہے وہ سب پر ظاہرکردو مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیک وقت نو بیویاں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کو یہ اذن عام تھا کہ خلوت میں مجھ میں جو کچھ دیکھو وہ جلوت میں سب سے برملا بیان کردو۔ جو رات کی تاریکی میں دیکھو وہ دن کی روشنی میں ظاہر کردو۔ جو کوٹھڑیوں میں دیکھو اس کو کھلی چھتوں پر پکار کر کہہ دو۔ اس اخلاقی وثوق و اعتماد کی مثال کہیں اور مل سکتی ہے؟‘‘
’’موسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہمارے سامنے عظیم بشری قوت کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بارے میں بھی ہمیں جو کچھ معلوم ہے وہ خاکساری، تواضع، رقت طبع، خوش خلقی اور نرم مزاجی کا رنگ ہے۔ مگر ان دونوں میں امتزاج کی نادر مثال ہمیں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی میں مل سکے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی زندگی متنوع نمونے پیش کرتی ہے جن میں حیات انسانی کے تمام اطوار کے لئے اسوہ حسنہ اور اعلیٰ نمونہ موجود ہے‘‘۔
تو کیا اس تمام عملی نظام اخلاق میں کوئی شے خیالی یا تصوراتی نظر آتی ہے۔۔۔؟ کیا یہ ایک کامل اور قابل عمل اخلاقی نظام نہیں ہے۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام کا یہ بلند مثال اخلاقی نظام اپنی ذات میں ایک حقیقتِ واقعی اور قابلِ عمل ضابطہ حیات ہے۔ تطبیقی وسائل، استثنائی حالات و واقعات رکھنے کی گنجائش اور بغیر کسی نقص اور جھول کے ایک کامل اور متماثل نظام ہونے میں واقعی اور حقیقت پسند ہے۔
رہا یہ سوال کہ اقتصادی حالت اور معاشی معیار بھی تو اخلاق پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بھوک اور حاجت مندی انسان کو چوری اور جھوٹ پر اور عورت کو بدکاری پر مجبور کرسکتے ہیں؟ تو اسلام کو بھی ان حقائق کا مکمل اندازہ ہے۔ اس لئے اخلاقی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے اور پیٹ کو ضمیر کا بوجھ بننے سے بچانے کے لئے دین اسلام حقوقِ معاش کی پوری پوری ضمانت دیتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قحط سالی میں بھوکے انسانوں پر چوری کی حد لگانے سے انکار کردیا تھا۔۔۔
سچ تو یہ ہے کہ رسالت سماویہ کی اعلیٰ مثالی اخلاقی قدریں روئے زمین کی ٹھوس حقیقت پر قائم ہیں۔ اللہ کے دین کی خوبیاں انسانوں کی دنیاوی زندگی کو خوشیوں میں بدلنے کے لئے ہیں۔ ’’نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرلیا کرو بلکہ نیک تو وہ ہے جو اللہ آخرت کے دن،
فرشتوں، کتابوں اور انبیاء پر ایمان لایا۔ اپنا مال اللہ کی محبت کے لئے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور غلاموں کو آزاد کرنے میں خرچ کرے، نماز پڑھے، زکوٰۃ دے اور جو اپنے کئے گئے وعدے کو پورا کریں۔ تنگی، تکلیف اور مقابلے کے وقت صبر کریں۔ یہی لوگ تو سچے ہیں اور یہی متقی ہیں‘‘۔