مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی
سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس عالم رنگ و بو میں آمد، رحمت و برکت کی برکھا ہے، جس سے زمینِ مردہ میں جان آگئی۔ ظلم و جبر کے سر چشمے خشک ہوگئے۔ عدل و مساوات کے نام سے نا آشنا کان، مہر و محبت کے سُریلے نغموں سے سرشار ہوئے۔ جہالت کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کو نشان منزل ہی نہیں، منزل مل گئی۔ ظلم و استبداد کے خونی پنجوں میں سسکتی زندگی کو پھر سے توانائی ملی۔ ظلم و جہالت کے زنجیروں میں جکڑی انسانیت کو رہائی ملی۔ جورو جبر کی زنجیریں ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگیں۔ غلامی کے طوق و سلاسل ریزہ ریزہ ہوگئے۔ بادِ سموم سے زندگی کے مرجھائے چہرے باد صبا کے تازہ جھونکوں سے کھلنے لگے۔ یتیموں، بیوائوں، غلاموں، مظلوموں کے بہتے آنسو تھم گئے۔ مٹی سے سونا بنانے والے، دست دولت آفریں، کی عزت بحال ہوگئی۔ غلاموں اور دبے گِروں کو سریر سلطنت پر بٹھایا گیا۔ دھتکارے پھٹکارتے ہوئوں کو، قیصر و کسریٰ کا وارث بنادیا۔ جہالت کے پتلوں کو کائنات کا مُعلّم بنادیا۔ اپنی اولاد پر ترس نہ کھانے والوں کو یتیموں کا والی بنادیا۔ بے ڈھب زندگی بسر کرنے والوں کو بے مثال منظم ہی نہیں منتظم بنادیا۔ اپنی بچیوں کو زندہ درگور کرنے والوں، جاہلوں، سنگدلوں بھیڑیوں کو، نہ صرف اپنی بلکہ یتیم و بے سہارا بچیوں کا خادم و خیر خواہ بنادیا۔ نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھی جانے والی وہ بچی جس کی پیدائش پر رنگ فق اور چہرے سیاہ پڑ جاتے، ماں باپ اور اعزاء و اقارب پر غم کی گھٹا چھا جاتی تھی۔ باپ سوچتا تھا کہ بچی کو زندہ رکھوں یا عزت کو بچائوں۔ دونوں جمع نہیں ہوسکتیں، بیٹی بھی ہو اور عزت بھی ہو۔ جی ہاں اسی حقیر و دھتکاری بچی کو وہ شرف بخشا جو کسی بیٹے کو نہ ملے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌo تَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلاَ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَo
’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے۔ وہ لوگوں سے چُھپا پھرتا ہے (بزعمِ خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے)، خبردار! کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں‘‘۔
(النحل، 16 : 58 - 59)
انقلاب رحمت
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت معاشرے کے ہر طبقے کے لئے واضح تھی بالخصوص ان لوگوں کو جنت کی خوشخبری دی کہ جنہوں نے اپنی بیٹی اور بہن کو نہ زندہ درگور کیا اور نہ اسکی تذلیل کی۔
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
من کانت له انثی فلم يآدها ولم يهنها ولم يوثر ولده عليها يعنی الذکورا ادخله الله الجنة.
’’جس آدمی کی بیٹی یا بہن ہے اس نے اس کو زندہ درگور نہیں کیا، نہ اس کی توہین کی اور نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دی، اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا‘‘۔
(ابوداؤد)
اسی طرح یتیموں پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت و محبت کا سلوک کرنے والوں کیلئے فرمایا :
من اویٰ يتيما الیٰ طعامه وشرابه اوجب الله له الجنة البتة الا ان يعمل ذنبا لا يغفر ومن عال ثلث بنات او مثلهن من الاخوات فادبهن ورحمهن حتی يغنيهن الله اوجب الله له الجنة. فقال رجل يارسول الله اواثنتين قال اوثنتين حتی لو قالوا او واحدة تعالیٰ واحدة ومن اذهب الله بکريمته وجبت له الجنة قيل يارسول وما کريمتاه قال عيناه.
’’جس نے اپنے کھانے پینے میں کسی یتیم کو شریک کرلیا۔ اللہ پاک نے لازمی طور پر اس کے لئے جنت واجب کردی۔ الا یہ کہ کوئی ناقابل مغفرت گناہ (شرک) کرے اور جس نے تین بیٹیوں یا اتنی بہنوں کی تربیت کی، ان کو علم و ادب کے زیور سے آراستہ کیا۔ ان کو پیار و رحمت کی نظر سے دیکھا، یہاں تک کہ اللہ نے ان بچیوں کو غنی کردیا (اپنے پائوں پر کھڑی ہوگئیں) اللہ نے اس کے لئے جنت واجب کردی۔ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ! دو ہوں تو؟ فرمایا خواہ دو ہوں، یہاں تک سوال ہو، تاکہ ایک ہی ہو تو! فرماتے خواہ ایک ہو اور اللہ کریم نے دوقیمتی چیزیں لے لیں، اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔ عرض کی گئی یارسول اللہ! دو قیمتی چیزوں سے مراد کیا ہے، فرمایا آنکھیں‘‘۔
(مشکوٰة، 423)
3۔ اسی طرح ایک اور جگہ یتیموں پر رحمت و شفقت کے حوالہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
من مسح راس يتيم لم يمسحه الا لله کان له بکل شعرة يمر عليها يده حسنات ومن احسن الی يتيمة او يتيم عنده کنت انا وهو فی الجنة کهاتين وقرن بين اصبعيه.
’’جس نے یتیم کے سر پر صرف اللہ کی رضا کی خاطر ہاتھ پھیرا جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ پھرا، اسے ایک بال پر نیکی ملے گی اور جس نے اپنے پاس رہنے والی یتیم بچی یا بچے سے نیک سلوک کیا۔ میں اور وہ شخص اس طرح ساتھ ساتھ ہوں گے اور سرکار نے (اشارہ کرتے ہوئے) اپنی دونوں انگلیاں ملائیں‘‘۔ (احمد، ترمذی)
بڑے متقی
جنت کے مستحق صرف نماز، روزہ، زکوۃ، صدقات کے ادائیگی کرنے والے نہیں بلکہ معاشرہ میں جس شخص کے ہاتھ، زبان سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچی ہو یعنی اس کے ساتھ رحمت و شفقت کا رویہ اپنایا ہو تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ!
ان فلانة تذکر من کثرة صلاتها وصيامها وصدقتها غير انها توذی جير انها بلسانها قال هی فی النار قال يارسول الله فان فلانة تذکر قلة صياحها وصدقتها وصلوتها وانها تصدق بالاثوار من الاقط ولا توذی بلسانها جيرانها قال هی فی الجنة.
’’فلاں عورت کی بہت نمازوں، روزوں اور صدقات کی شہرت ہے، ہاں مگر اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے، فرمایا جہنمی ہے۔ عرض کی یارسول اللہ! تو فلاں عورت کے روزوں، صدقات، نمازوں کی کمی بیان کی جاتی ہے اور یہ کہ پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کرتی ہے، مگر اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف نہیں دیتی، فرمایا وہ جنتی ہے‘‘۔
(احمد، بيهقی)
محبت کے تقاضے
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے تم میں اخلاق، اعمال اور احوال، اسی طرح تقسیم کئے جیسے تم میں تمہارے رزق۔
ان الله يعطی الدنيا من يحب ومن لا يحب ولا يعطی الدين الا من احب، فمن اعطاء الله الدين فقد احبه والذی نفسی بيده لا يسلم عبد حتی يسلم قلبه، ولسانه ولا يومن حتی يامن جاره بوائقه.
(احمد، بيهقی)
’’بے شک اللہ تعالیٰ جس سے محبت کرے اور جس سے محبت نہ کرے دونوں کو دنیا دیتا ہے، مگر دین صرف اسے دیتا ہے جس سے محبت کرتا ہے۔ سو جس کو اللہ نے دین دے دیا، یقینا اس سے محبت فرماتا ہے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کوئی بندہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل اور زبان مسلمان نہ ہوجائے اور مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک اس کا پڑوسی اس کے شر و ایذاء سے محفوظ نہ ہو‘‘۔
حاجت روائی
دنیا میں کسی شخص کی حاجت روائی کرنا، اس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی ہے اور اس پر جنت کیلئے داخلہ لازم ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
من قضیٰ لاجد من امتی حاجة يريد ان يسره بها فقد سرنی ومن سرنی فقد سرالله ومن سرالله ادخله الله الجنة.
’’جس نے میرے کسی امتی کی خوشنودی کے لئے، اس کی حاجت روائی کی، اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ کو خوش کیا اور جس نے اللہ کو خوش کیا، اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا‘‘۔
انہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا :
من اغاث ملهوفا کتب الله ثلثا و سبعين مغفرة واحدة فيها صلاح امره کله وثنتان وسبعين له درجات يوم القيمة.
’’جس نے کسی مظلوم، مغموم، مجبور، مصیبت زدہ کی فریاد رسی کی، اللہ اس کے لئے تہتر بخششیں لکھ دیتا ہے، ان میں سے ایک میں اس کے تمام معاملات کی درستگی ہے اور بہتر اس کے لئے قیامت کے دن درجات ہونگے‘‘۔
اسی طرح مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الخلق عيال الله فاحب الخلق الی الله من احسن الی عياله.
’’ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، سو اللہ کے ہاں ساری مخلوق میں محبوب تر وہ شخص ہے جو اس کے کنبہ سے اچھا سلوک کرے‘‘۔
(بيهقی فی شعب الايمان)
میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہم مقصد
ماہ مقدس ربیع الاول شریف ہر سال آتا ہے اور اپنے جلو میں جذباتِ محبت کا ایک عالم لاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس ماہ مبارک میں خصوصی طور پر اپنے آقا و مولا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور والانہ طور پر اپنے اپنے انداز سے نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ آج کے دور میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ اور فضائل و کمالات موثر انداز میں بتائے جائیں۔ لازم ہے کہ مسلمانوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل وکمالات از بر کروائے جائیں تاکہ علم بڑھے، روشنی پھیلے اور دلوں میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع فروزاں ہو یہی ہماری تمام پریشانیوں، بے عملیوں اور بدعملیوں کا علاج بھی ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں :
شبے بگریستم پیش خدا من
مسلماناں چرا زار و نزار اند
صدا آمد نمی دانی کہ ایں قوم
دلے دارند و محبوبے ندارند
’’ایک رات میں خدا کے حضور میں رویا کہ بار الہٰی! مسلمان کیوں ذلیل و خوار ہیں؟ آواز آئی تجھے معلوم نہیں کہ اس قوم کا دل تو ہے محبوب نہیں اور جب تک دل کی نگری میں محبوب نہ ہو، ویران ہے اور ویران گھر میں کس کا دل لگتا ہے؟ محبوب کون ہے؟‘‘۔
ہست محبوبے نہاں اندر دلت
چشم اگر داری بیا بنمائمیت
’’وہ محبوب تیرے دل میں پوشیدہ ہے اگر دل کی آنکھ ہے تو آ، میں تجھے دکھاتا ہوں‘‘۔
عاشقانِ او زخوباں خوب تر
خوب تر، محبوب تر مطلوب تر
’’اس محبوب کے عاشق بھی دنیا کے حسینوں سے خوبصورت تر، بہتر، محبوب و مطلوب تر ہیں‘‘۔
دل بہ محبوب حجازی بستہ ایم
زیں جہت بایک دگر پیوستہ ایم
’’ہم نے اپنا دل حجاز والے محبوب سے جوڑ لیا ہے اور اسی نسبت سے ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں‘‘۔
محفل میلاد ہو یا مجلس ذکر، ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہم نے اپنی نادانیوں سے جو رشتہ الفت کمزور کرلیا ہے اسے پھر سے مضبوط کیا جائے۔
قابل صد تکریم ہے ہر وہ فرزندِ اسلام جو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں سرشار ہے۔ ذکر سرکار کی محفلیں سجاتا اور عظمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ جلاتا ہے۔
قرآن کریم میں حکم خداوندی ہے :
وَذَکِّرْ هُمْ بِاَيّٰمِ اللّٰهِ.
(ابراهيم : 5)
’’اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاو‘‘۔
یہ وہ حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو دیا کہ اپنی قوم کو اللہ کے دن یاد دلاؤ اللہ کے دن یاد دلانے کا یہ معنی نہیں کہ آج فلاں تاریخ اور فلاں دن ہے۔ یہ ہر ایک جانتا ہے یہ بتانے کی نہ ضرورت ہے نہ فائدہ بلکہ مراد یہ ہے :
يعبر بالايام عن الوقائع العظيمة التی وقعت فيها.
’’ایام سے مراد وہ عظیم واقعات ہیں جو ان ایام میں وقوع پذیر ہوئے‘‘۔
(تفسير کبير امام رازی، ج 19، ص 84، طبع ايران)
مطلب یہ ہے کہ تم نے فرعون کا دور ظلم بھی دیکھا اور بڑی بڑی مصیبتیں جھیلیں، بچوں کا قتل عام، وطن سے بے وطنی اور دیگر مختلف قسم کے عذاب پھر اپنے دشمنوں کی ہلاکت، اپنے وطن کی آزادی اور من و سلویٰ کی جنتی غذائیں، بادل کے سائبان اور پانی کے ٹھنڈے چشمے، عظمت و اقتدار کا سنہری دور سبھی کچھ دیکھا اچھے دنوں کا ذکر کرکے شکر کرو اور برے دنوں کو یاد کرکے اللہ کا خوف کرو۔ پس ہمارے لئے یوم میلاد یوم نجات ہے، اللہ اور رسولوں کے وعدوں کے ایفاء کا دن ہے، شرک و کفر اور ظلم و ستم کے خاتمے اور اللہ کے فضل و رحمت کے نزول کا دن ہے اس کی یاد ہر دوسرے دن سے بڑھ کر کرنی چاہئے یہ قرآن کا حکم ہے اور امروجوب کے لئے ہے۔ پس اللہ کے خاص ایام کا ذکر کرنا واجب ہے۔ نعمت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ دل سے اس کا اعتراف کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ زبان سے اس کا اقرار و ذکر کیا جائے۔ تیسرا یہ کہ اس کا شکر کیا جائے۔ جیسے قرآن میں بار بار فرمایا گیا :
اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ .
(البقره : 47)
’’میری اس نعمت کا ذکر کرو جو میں نے تم پر کی‘‘۔
ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ نعمت الہٰی
موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو حکم دیا :
وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ.
(المائده : 20)
’’اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم! تم اپنے اوپر (کیا گیا) اﷲ کا وہ انعام یاد کرو جب اس نے تم میں انبیاء پیدا فرمائے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ (کچھ) عطا فرمایا جو (تمہارے زمانے میں) تمام جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیا تھا‘‘۔
معلوم ہوا کہ آزاد حکومت ملنا اور انبیاء کرام کا وجود نصیب ہونا، اللہ کی نعمت اور احسان ہے اور اس کا ذکر کرنے کا خدائے تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بڑا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اللہ کی سب سے بڑی نعمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر پاک کیا جائے۔ آپ کے فضائل و کمالات، آپ کی دنیا میں تشریف آوری، آپ کی نورانی صورت اور آپ کی حسین سیرت کا بیان ہو تاکہ ایمان تازہ ہو اور جذبات عشق و محبت پرورش پائیں جو ہماری کامیابی کے ضامن ہیں۔ رب کریم نے بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلمانوں کیلئے احسان عظیم قرار دیا۔
لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ.
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔
(آل عمران : 164)
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو اپنا بڑا احسان فرمایا۔ پس لازم ہے کہ اس احسان عظیم کا ہر وقت ذکر و اعتراف کیا جائے، اس پر شکر کیا جائے اور اس کی حقیقی قدر کی جائے اور اس کے ملنے پر خوشی کا اظہار کیا جائے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ.
(ابراهيم : 7)
’’اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہے‘‘۔
اسی طرح فرمایا :
وَاَماَّ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ.
(الضحٰی : 11)
’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں لہذا آپ کے حسن و کمال کا چرچا بہت ہی زیادہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ کی نعمت ہیں خود قرآن میں موجود ہے :
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ.
(ابراهيم : 28)
’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمتِ (ایمان) کو کفر سے بدل ڈالا اور انہوں نے اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتار دیا‘‘۔
بعثت فيهم محمدا صلی الله عليه وآله وسلم فلم يعرفوا قدر هذه النعمه.
’’کہ اللہ نے ان میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا، لیکن انہوں نے اس نعمت کی قدر نہ پہچانی‘‘۔
(تفسير کبير، 19 : 123، مطبوعة ايران)
وہ جو دوزخ ہے يَصْلَوْنَ اس کے اندر جائیں گے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا :
’’خدا کی قسم وہ قریش اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اللہ کی نعمت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں‘‘۔
(صحيح بخاری، ج 2، ص 566، طبع کراچی)
ان ابليس رن اربع رنات، حين لعن و حين اهبط وحين ولد رسول الله وحين انزلت الفاتحه.
’’بے شک ابلیس (شیطان) چار بار رویا ہے۔ اول جب لعنتی بنا۔ دوسرا جب زمین پر اتارا گیا۔ تیسرا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ چوتھی دفعہ جب سورہ فاتحہ نازل کی گئی۔
(البداية والنهاية. ابن کثير، 2 : 266-267 طبع بيرات)
آج بھی جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر بہت سے چہروں پر بجائے خوشی و رونق کے ہوائیاں اڑ رہی ہوتی ہیں۔ مزاج برہم، پیشانیوں پر بل اور طبیعت بوجھل محسوس ہوتی ہے۔
یہ حضرت کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں
انصاف کریں، جس آقائے کائنات کی تعریف و توصیف ہر آسمانی کتاب میں موجود ہے۔ جن کا ذکر ہر نبی نے اپنی امت کے سامنے کیا۔ جن کا ذکر اللہ نے ہر ذکر سے بلند تر کردیا۔ جن کا نام اپنے نام کے ساتھ ساتھ رکھا۔ جن کی اطاعت اپنی اطاعت، جن کی محبت اپنی محبت اور جن سے دشمنی اپنی دشمنی قرار دی۔ جس کی آمد پر خوشیاں منانے کا حکم دیا اور اس خوشی کو ہر چیز سے بہتر قرار دیا۔ کیا منشاء قدرت یہی تھا کہ ان کا ذکر نہ ہو؟ یقینا ایسا نہیں ان کی آمد پر خوشی کا اظہار اس نے تمام آسمانی کتابوں میں کردیا ہے۔ بعض علم و تقویٰ کے مدعی اور دین کے خادم، دین کا نام لے کر اپنے من پسند پروگرام کرتے ہیں۔ اپنے بڑوں کی برسیاں اپنے مدرسوں کے سالانہ جلسے بلکہ صد سالہ جشن مناتے ہیں۔ مختلف بزرگوں کے ایام دھوم دھام سے مناتے ہیں، قرآن و حدیث کے نام پر سیمینار منعقد کرتے۔ جلوس نکالتے اور چراغاں کرتے، ریلیاں کرتے اور ان پر آتش بازی کے مظاہرے کرتے ہیں۔ لاکھوں روپے ان اللوں تللوں پر پھونک دیتے ہیں۔ صدقات و خیرات کے طور پر جمع کی گئی دولت کو رنگین پروگراموں کی نذر کرتے ہیں اور یہ سب کچھ دین کے نام پر کررہے ہیں۔ جو اپنے آپ کو موحد، پابند شریعت اور نہ جانے کیا کیا کہتے تھکتے نہیں۔ پوچھئے ان پروگراموں کو صحابہ کرام، ائمہ مجتہدین اور خیرالقرون میں کس کس نے کیا تھا؟ اگر اس کا ثبوت کہیں بھی نہیں، پھر آپ کے یہ تمام افعال بدعت و حرام کیوں نہیں؟ جبکہ اسی دلیل سے آپ ذکر رسول کی محافل کو بدعت کہتے ہیں۔ آپ جو چاہیں دین میں اختراعات کریں، آپ کو اجازت ہے اور مسلمان اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر جشن مناکر قرآن و سنت کے تقاضے پورے کریں، آپ اسے بدعت و ناجائز کہیں۔ آخر کیوں؟ جائز کہنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ ناجائز کہنے کے لئے دلیل درکار ہے۔ نبی کا یوم میلاد منانا بدعت اور صحابہ کے ایام سرکاری طور پر منانے کا مطالبہ، دلیل شرعی پیش کیجئے۔ دونوں میں کیا فرق ہے۔ کس دلیل سے ایک جائز بلکہ لازم اور دوسرا بدعت ہوگیا؟
براہ کرم ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئے، لوگوں کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد، سیرت طیبہ اور تعلیمات مقدسہ کو بیان کریں تاکہ سچی عقیدت ان کے دلوں میں پیدا ہو اور وہ اپنی زندگی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس زندگی کے رنگ میں ڈھال سکیں۔ دین کا بول بالا ہو، سچے فضائل و کمالات اتنی کثرت سے بیان کریں کہ غلط و موضوع روایات ختم ہوجائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پر اتنا زور دیں کہ نوجوانوں کے دلوں سے ہر جھوٹی محبت ختم ہوجائے۔ صدقہ و خیرات، قرآن خوانی و نعت خوانی اور سیرت و صورت محبوب کا ہر جگہ اتنا زور و شور سے تذکرہ کریں کہ شیطانی آوازیں پست ہوکر ختم ہوجائیں۔ گھروں کو، دکانوں کو، بازاروں اور کارخانوں کو، اداروں و راستوں کو اتنا سجائیں کہ ہر ایک پر عظمت رسول واضح ہو۔ کھانے کھلائیں، مشروب پلائیں، ناداروں کو کپڑے پہنائیں، نادار طلبہ کو کتب اور فیس دیں اور اس سب کا ثواب صاحب میلاد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں نذر کریں۔ یاد رکھیں اگر محبوب کی آمد پر خوشی منانا گوارا نہیں تو کوئی خوشی نہ منائیں اگر یہ جشن منع ہے تو ہر جشن حرام ہے۔ اگر آمد محبوب پر اظہار خوشی نہیں کرتے تو کسی تقریب پر خوشی زیب نہیں دیتی۔
اے اہل اسلام! عید میلاد النبی تمہارے لئے سب سے بڑی مذہبی و سیاسی تقریب ہے۔ خوشیاں منانے کا یہ سب سے بڑا موقع ہے۔ چراغاں کرنے، جھنڈیاں لگانے اور تقریبات منعقد کرنے کا اس سے بڑا اور مقدس کوئی دوسرا موقع نہیں وبذالک فليفرحوا خوشیاں منانی ہیں تو بس اسی پر منائو۔ جشن منانے ہیں تو اس پر مناؤ هو خير مما يجمعون. (یونس : 58) یہ اظہار مسرت ہر اس چیز سے بہتر ہے جسے لوگ جمع کرتے ہیں۔ خواہ نماز، روزہ، خواہ دنیا کا مال و اسباب ہو، خواہ دیگر نیکیاں ہوں۔ اس نیکی سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں کہ ہر نیکی اس کے وسیلہ سے ملی ہے۔ اسی نیکی کی برکت سے کافر تک فیضیاب ہوئے۔ مسلمان تو ان کے اپنے ہیں، وہ کیسے محروم رہ سکتے ہیں۔