شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
ترجمہ و تلخیص : محمد فاروق رانا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ پوری انسانیت کے لیے رحمت و محبت اور ہم دردی کے جذبات سے لبریز رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں صرف مسلمانوں کے لیے خاص نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے خاص ہیں۔ چاہے انسان کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، یہودی ہو یا عیسائی، ہندو ہو یا سکھ، بدھ مت ہو یا ملحد؛ سب اﷲ تعالیٰ کی مخلوق ہونے کی حیثیت میں قدرتی نعمتوں کے برابر حق دار ہیں۔ اﷲ تعالیٰ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو صحت دیتا ہے، بھوک میں کھانا دیتا ہے، ذلت میں عزت دیتا ہے اور پستی و زوال میں بلندی اور ترقی عطا کرتا ہے۔ اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت بھی سب کے لیے یکساں ہے۔ قرآن نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ آپ عربوں کی طرف مبعوث کیے گئے ہیں یا اہل مکہ، اہل مدینہ یا مسلمانوں کی طرف بھیجے گئے ہیں؛ بلکہ فرمایا گیا :
قُلْ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اﷲِ اِلَيْکُمْ جَمِيْعَا.
’’آپ فرما دیں : اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں۔‘‘
اِس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رحمت و محبت کے دائرہ کار سے ایک بھی غیر مسلم کو خارج نہیں فرمایا۔ قرآن حکیم فرماتا ہے :
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَo
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo‘‘
(الانبياء، 21 : 107)
پس جب اﷲ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کسی کو دائرہ رحمت سے خارج نہیں فرمایا تو ہم کون ہوتے ہیں کہ غیر مسلموں کو اسلام کے دائرہ رحمت و محبت سے خارج کرتے پھریں؟ یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ یہ کہا کرتا ہوں کہ لوگو! اسامہ کی پیروی نہ کرو بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِتباع کرو ۔۔۔ القاعدہ کی پیروی نہ کرو بلکہ القرآن پر عمل کرو ۔۔۔ کسی فرد کی پیروی نہ کرو، صرف اہل بیت اَطہار اور خلفاء راشدین کی پیروی کرو جو ہمارے لیے اُسوہ اور role model ہیں اور جن کے ہاتھوں کسی غیر مسلم کو اذیت پہنچی نہ کسی غیر مسلم کے حقوق پامال ہوئے۔
رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِنسانیت نوازی
آج کے اس تاریخی موقع پر ہمارا مضمون حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت میں سے انسانیت نوازی کا پہلو اُجاگر کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بحیثیت نبی و رسول کثیر معجزات اور بے انتہاء روحانی فضائل عطا ہوئے لیکن ہم انہیں یہاں زیر بحث نہیں لا رہے۔ البتہ یہاں ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انسان ہونے کی حیثیت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے انسانی و اخلاقی پہلوئوں پر غور کریں گے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اﷲ عنھا کا پہلی وحی کے نزول کے بعد کیا گیا تبصرہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائل، اعلیٰ اخلاقی اقدار اور خلقِ عظیم سے خوبصورت طریق سے تعارف کرواتا ہے اور اِس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و کردار میں سماجی و معاشرتی اور انسانیت نوازی کے نمایاں پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔ جب عمر مبارک کے چالیس سال مکمل ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے لوگوں کے سامنے اسلام کو اَمن و محبت، علم و تحقیق، برداشت و رواداری، آزادی و مساوات، عدل و انصاف، سخاوت و فیاضی اور وحدت و یگانگت کے دین کے طور پر پیش کرنا شروع کیا جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور اَخلاقیات سے بالکل عاری تھے اور جن کی نگاہ میں عورت کی کوئی بھی حیثیت نہ تھی۔ جب پہلی وحی کا بار گراں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑا تو پندرہ سال سے آپ کی رفیقہ حیات رہنے والی سیدہ خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈھارس بندھائی کیونکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے ایک ایک لمحے کا مشاہدہ کیا تھا اور سیدہ خدیجہ کا یہ بیان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے سماجی و اخلاقی پہلو پر مستند ترین بیان تھا جس کا ایک ایک لفظ ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کراتا ہے۔ سیدہ خدیجہ نے فرمایا :
کَلَّا وَاﷲِ مَا يُخْزِيکَ اﷲُ أَبَدًا، إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ.
(متفق عليه)
’’بخدا! ہرگز نہیں، اﷲ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے، محتاجوں کے لیے کماتے، مہمان کی ضیافت کرتے اور راہ حق میں مصائب برداشت کرتے ہیں۔‘‘
حبشہ کی طرف حکم ہجرت کی حکمت
اس کی دوسری مثال ہمیں اُس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب کفارِ مکہ نے مسلمانوں کو اذیتیں دینی شروع کیں بلکہ انہیں جان سے بھی مارا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ قریبی ملک ایتھوپیا کی طرف ہجرت کر جائیں جسے اُس وقت حبشہ کہا جاتا تھا۔ نام ور سیرت نگار ابن اسحاق نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ یوں روایت کیے ہیں :
لَوْ خَرَجْتُمْ إلٰی أَرْضِ الْحَبَشَةِ، فَإِنّ بِهَا مَلِکًا لَا يُظْلَمُ عِنْدَهُ أَحَدٌ، وَهِيَ أَرْضُ صِدْقٍ، حَتّٰی يَجْعَلَ اﷲُ لَکُمْ فَرَجً. فَخَرَجَ عِنْدَ ذٰلِکَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إلٰی أَرْضِ الْحَبَشَةِ، مَخَافَةَ الْفِتْنَةِ وَفِرَارًا إلَی اﷲِ بِدِينِهِمْ، فَکَانَتْ أَوّلَ هِجْرَةٍ کَانَتْ فِی الْإِسْلَامِ.
(سيرت ابن هشام،1 : 331)
’’اگر تم لوگ ملک حبشہ چلے جاو تو بہتر ہے کیوں کہ وہاں کے بادشاہ کی سلطنت میں کسی پر بھی ظلم نہیں ہوتا اور وہ سچائی اور راستی کی سرزمین ہے، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ تمہارے لیے کشادگی فرما دے۔ چنانچہ یہ حکمِ نبوی سُن کر بہت سے صحابہ کرام ث اپنے دین کی حفاظت کی خاطر حبشہ کی طرف روانہ ہوگئے، اور یہ تاریخِ اِسلام میں پہلی ہجرت تھی۔‘‘
یہی کلمات سر زمینِ حبشہ اور نجاشی کے بارے میں امام طبری نے بھی تاریخ الامم والملوک میں روایت کیے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
فَإِنّ بِهَا مَلِکًا لَا يُظْلَمُ عِنْدَهُ أَحَدٌ، وَهِيَ أَرْضُ صِدْقٍ.
’’اس ملک کا بادشاہ ایسا ہے کہ اس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا اور یہ سچائی کی سرزمین ہے۔‘‘
ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حبشہ کو ’سچائی کی سرزمین‘ کہا کیونکہ وہاں کسی شہری پر زیادتی ہوتی تھی نہ کسی کی حق تلفی ہوتی تھی حالانکہ وہ ملک اور اس کا حکمران مسیحی المذہب تھا۔ اس سے واضح ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک نیکی کا معیار صرف مذہب تک محدود نہیں تھا اور سچائی صرف روحانی و مذہبی اور ایمانی پہلوئوں میں مقید نہیں تھی۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگرچہ وہاں عیسائی حکمران ہے تاہم وہ ایک رحم دل انسان ہے جو انسانی اقدار کی پاس داری کرتا ہے۔ وہ سخی ہے اور انسانی حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی بادشاہت میں کوئی تشدد (violence)، انتہاء پسندی (extremism)، دہشت گردی (terrorism)، خوں ریزی (brutality) یا ظلم و زیادتی نہیں ہوتی۔ بایں وجہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو وہاں بھیج دیا کہ اگرچہ وہ اقلیت میں ہوں گے تاہم ان کے حقوق محفوظ ہوں گے اور اﷲ تعالیٰ ان کے لیے کوئی بہتر راستہ نکالے گا۔
مسلمانوں کے تعاقب میں قریش مکہ نے بھی اپنا وفد بھیجا لیکن شاہِ حبشہ نے مسلمان پناہ گزینوں کا مقدمہ خود سماعت کیا۔ بادشاہ نے قریش مکہ کے وفد کا موقف سنا اور مہاجر صحابہ کو بلا بھیجا اور اپنے دربار میں عیسائی مذہبی رہنماوں کی موجودگی میں ان سے بڑا اہم سوال کیا :
’’اے مسلمانو! وہ کون سا نیا دین ہے جس کے لیے تم نے اپنے آباء و اجداد کا مذہب ترک کر دیا اور میرا یا کوئی اور موجودہ مذہب بھی اختیار نہیں کیا؟‘‘
اس پر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور دین محمدی کے دس نمایاں پہلو شاہِ حبشہ کے سامنے بیان کیے :
أَيّهَا الْمَلِکُ! کُنّا قَوْمًا أَهْلَ جَاهِلِيّةٍ، نَعْبُدُ الْأَصْنَامَ وَنَأْکُلُ الْمَيْتَةَ وَنَأْتِی الْفَوَاحِشَ وَنَقْطَعُ الْأَرْحَامَ، وَنُسِيئُ الْجِوَارَ وَيَأْکُلُ الْقَوِيّ مِنّا الضّعِيفَ، فَکُنّا عَلَی ذَلِکَ حَتّی بَعَثَ اﷲُ إلَيْنَا رَسُولًا مِنّا، نَعْرِفُ نَسَبَهُ وَصِدْقَهُ وَأَمَانَتَهُ وَعَفَافَهُ فَدَعَانَا إلَی اﷲِ لِنُوَحّدَهُ وَنَعْبُدَهُ وَنَخْلَعَ مَا کُنّا نَعْبُدُ نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ الْحِجَارَةِ وَالْأَوْثَانِ، وَأَمَرَنَا بِصِدْقِ الْحَدِيثِ وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَصِلَةِ الرّحِمِ وَحُسْنِ الْجِوَارِ وَالْکَفّ عَنِ الْمَحَارِمِ وَالدّمَاءِ، وَنَهَانَا عَنِ الْفَوَاحِشِ وَقَوْلِ الزّورِ، وَأَکْلِ مَالِ الْيَتِيمِ وَقَذْفِ الْمُحْصَنَاتِ.
(سيرت ابن هشام)
’’اے بادشاہ! ہم جاہل، غیر تہذیب یافتہ اور وحشی قوم تھے۔ ہم بتوں کی پوجا کرتے اور مردار کھاتے تھے۔ ہم قطع رحمی کرتے تھے اور پڑوسیوں کے حقوق سے ناآشنا تھے۔ ہم میں سے طاقت ور اپنے سے کمزور کو کھا جاتا تھا۔ ہم ان ہی برائیوں پر تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے ہی ایک رسول مبعوث فرمایا جس کا نسب، صدق، امانت اور عفت ہم جانتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اﷲ تعالیٰ کی طرف بلایا تاکہ ہم اس کی توحید کو تسلیم کریں اور اس کی عبادت کریں اور ان پتھروں اور بتوں کی پوجا ترک کردیں جن کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد پرستش کرتے چلے آرہے تھے۔ انہوں نے ہمیں سچ بولنے، امانت ادا کرنے، صلہ رحمی کرنے، پڑوسیوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے، محرمات سے اجتناب کرنے، خوں ریزی سے بچنے اور برائیوں سے رُکنے کا حکم دیا۔ اور ہمیں حکم دیا کہ ہم جھوٹ نہ بولیں، یتیم کا مال نہ کھائیں اور پاک باز خواتین پر تہمت نہ لگائیں۔‘‘
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و کردار کا انسانیت پسندی اور اعلی اخلاقی اَقدار پر مشتمل پہلو نمایاں ہوتا ہے کیونکہ آپ کا شاہِ حبشہ کے سامنے مکمل بیان انسانی اَقدار کی تفصیل پر مشتمل تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ انسانی حقوق کے تحفظ کی دعوت دی اور انسانیت کے قتل، خواتین پر ظلم و زیادتی یا انسانی عظمت کے منافی اَقدار سے منع فرمایا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کا خلاصہ تھا اور یہی اسلام کا پیغام تھا۔
بیعت عقبہ اُولیٰ کی انسانیت نواز تعلیمات
انسانیت نوازی اور اعلیٰ اخلاقی و روحانی اقدار کی تکمیل اور اپنے پیروکاروں کی اس نہج پر تربیت کا ایک اظہار ہمیں بیعتِ عقبیٰ کے موقع پر بھی نظر آتا ہے۔ اعلانِ نبوت کے دس سال بعد 621ء میں جب یثرب سے آنے والے بارہ رکنی وفد نے مکہ میں منیٰ کے نزدیک عقبہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر اسلام قبول کرلیا۔ یہ یثرب سے آنے والا پہلا وفد تھا، اُس وفد نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی جسے بیعتِ عقبہ اُولیٰ کا نام دیا جاتا ہے۔ بیعتِ عقبہ اُولیٰ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو حلف لیا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا frame of mind، شخصیت، اخلاقیات، ترجیحات اور انسانیت دوستی ثابت ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وفد سے درج ذیل نکات پر حلف لیا :
- ہم اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔
- ہم چوری یا ڈاکہ زنی کے مرتکب نہیں ہوں گے۔
- ہم بدکاری کا ارتکاب نہیں کریں گے۔
- ہم اپنی اولاد (خصوصا بچیوں) کو قتل نہیں کریں گے۔
- ہم کسی پر الزام تراشی یا اس کی غیبت نہیں کریں گے۔
- ہم عورتوں پر تہمت نہیں لگائیں گے۔
- ہم ہمیشہ عفت و عصمت اور حیاء والی زندگی گزاریں گے۔
- ہم نیک افعال اور اَعلیٰ مقصد میں آپ کی حکم عدولی نہیں کریں گے۔
- ہم حق اور سچ کو اپنی زندگی کا مشن بنا کر چلیں گے اور ہر طرح کے حالات میں ثابت قدم رہیں گے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے حقیقی، انسانیت دوستی اور خیر خواہی کے چہرے کی تعبیر انسانیت کے قاتل اور جنگ کے ذریعے معاشرے میں نفرت کی دیواریں کھڑی کرنے والے بہتر کرسکیں گے یا بیعتِ عقبہ اُولیٰ کے موقع پر لیا جانے والا حلف ان جذبات کی بہتر تشریح و توضیح کرسکے گا؟ اس حلف کا ہر ہر لفظ اِخلاصِ ایمان، تحفظ اَخلاق، انسانی حقوق کے تحفظ، مال و جان کے تحفظ اور قتل و ظلم کی حرمت کی تعلیمات پر مشتمل ہے؛ اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری تعلیمات کا خلاصہ ہے جو ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے ہر دور میں دیکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کا ابتدائی دور ہو جب سیدہ خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقربا پروری، مہمان نوازی اور غربا دوستی کی گواہی دی ۔۔۔ یا شاہِ حبشہ میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر ہو ۔۔۔ یا بیعتِ عقبہ اُولیٰ۔ ہمیں کہیں بھی کوئی انحراف دکھائی نہیں دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے اعلی اخلاقی اَقدار کی تبلیغ کی اور ہر جگہ ہر وقت ہر فرد کو راہِ ہدایت، اَخلاقیات کی پیروی، عفت و عصمت کی حفاظت، پاکیزگی، فیاضی اور سخاوت کی تلقین کی۔
پہلے خطبہ جمعہ کی اَمن پسند تعلیمات
یہ امر ذہن نشین رہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ والوں کے ظلم کے باعث اپنا شہر چھوڑا اور بوقتِ ہجرت بارگاہِ اِلٰہ میں یوں عرض کیا : ’’اے میرے رب! اگر تیرا حکم نہ ہوتا تو میں کبھی اپنا آبائی وطن نہ چھوڑتا۔‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے اتنا پیار تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک ظلم و زیادتی کے پہاڑ سہے لیکن بعد ازاں حکم اِلٰہی کے تحت اپنے پیروکاروں پر ہونے والے ظلم و استبداد اور زیادتی کی وجہ سے اس پیارے شہر سے کوچ فرما گئے۔ اب ذرا تصور میں لائیے کہ جب ایک شخص کو ظلم و زیادتی کی وجہ سے اپنا علاقہ چھوڑنا پڑے اور مدینہ منورہ میں تین دن سے جس کے عدیم النظیر استقبال کے لیے ہزاروں لوگ ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہوں اور مسجدِ قبا میں پہلے جمعۃ المبارک کو جب وہ قوم سے مخاطب ہوں گے تو کیا ارشاد فرمائیں گے! ہزاروں لوگ آپ کے اشارہ ابرو کے منتظر تھے۔ ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں جو بھی حکم فرماتے وہ فوراً عمل کردیتے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات میں تشدد و انتہاء پسندی کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پہلے خطبہ میں ارشاد فرمایا :
أَيُّهَا النّاسُ! فَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِکُمْ، تَعَلّمُنّ وَاﷲِ لَيُصْعَقَنّ أَحَدُکُمْ ثُمّ لَيَدَعَنّ غَنَمَهُ لَيْسَ لَهَا رَاعٍ ثُمّ لَيَقُولَنّ لَهُ رَبّهُ وَلَيْسَ لَهُ تَرْجُمَانٌ وَلَا حَاجِبٌ يَحْجُبُهُ دُونَهُ، أَلَمْ يَأْتِک رَسُولِی فَبَلّغَک، وَآتَيْتُک مَالًا وَأَفْضَلْت عَلَيْک؟ فَمَا قَدّمْتَ (فَمَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَقِيَ وَجْهَهُ مِنَ النَّارِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ)، وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَبِکَلِمَةٍ طَيّبَةٍ، فَإِنّ بِهَا تُجْزَی الْحَسَنَةُ عَشْرَ أَمْثَالِهَا، إلَی سَبْعِ مِئَةِ ضَعْفٍ.
(سيرت ابن هشام)
’’اے لوگو! اپنے لیے اَعمالِ صالحہ سرانجام دو۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم میں سے ہر ایک نے صاعقہ کا سامنا کرنا ہے۔ پھر وہ اپنی بھیڑوں کو اس حالت میں چھوڑ دے گا کہ انہیں چروانے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ پھر اُس کا رب اُس سے ضرور پوچھے گا کہ جس وقت نہ کوئی ترجمان ہوگا اور نہ ہی کوئی پردہ ان کے درمیان حائل ہوگا : کیا تمہارے پاس میرے رسولِ مکرم تشریف نہیں لائے تھے اور انہوں نے تمہیں تبلیغ دین نہیں کی تھی؟ کیا میں نے تمہیں مال عطا نہیں کیا اور کیا میں نے تم پر اپنا فضل نہیں فرمایا؟ تونے اپنے نفس کے لیے آگے کیا بھیجا ہے؟ وہ شخص دائیں بائیں دیکھے گا لیکن وہ کوئی چیز نہیں پائے گا، وہ سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم کے علاوہ کوئی شے نظر نہیں آئے گی۔ لہٰذا جو کوئی طاقت رکھتا ہے، اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا لے اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کو صدقہ کرکے ہی کیوں نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ کرلے۔ اور جو کھجور کا ٹکڑا نہ پائے تو اچھی گفتگو کرکے جہنم سے خلاصی حاصل کرلے (کیونکہ مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ گفتگو کرنا بھی صدقہ ہے)۔ بلاشبہ اچھی گفتگو کا بھی اجر دیا جائے گا اور نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے۔‘‘
یہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آفاقی تعلیمات کا ایک اہم راز مضمر ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہزاروں عاشقان کے سامنے پہلا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادنیٰ سے غیض و غضب کا بھی اِظہار نہیں فرمایا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر اہل مکہ کے خلاف ناگواری یا نفرت کے کوئی آثار ظاہر ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل مکہ کے تیرہ سالہ ظلم و زیادتی کے بارے میں ایک حرف بھی زبان اقدس پر نہ لائے اور نہ ہی انتقام لینے کا ذکر تک کیا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورے خطاب میں سراپا برداشت و سراپا رواداری اور پیکر محبت و رحمت دکھائی دیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے خطاب میں صرف خشیتِ اِلٰہی، تقویٰ اور نیکی و خیر خواہی کی بات کی۔
فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کے عملی مظاہر
اب آئیے ہجرت کے آٹھ سال بعد فتح مکہ کا نظارہ دیکھتے ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پیروکاروں کے ہمراہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو بغیر کسی خون خرابے کے انتہائی پُراَمن انداز میں داخل ہوئے۔ یہ 11 فروری 630ء کا دن تھا اور اُس دن لوگ دہشت زدہ و خوف زدہ تھے کہ معلوم نہیں ان کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کعبہ معظمہ کے سامنے کھڑے ہوکر لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا :
لَا إلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ صَدَقَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ. أَلَا کُلّ مَأْثُرَةٍ أَوْ دَمٍ أَوْ مَالٍ يُدّعَی فَهُوَ تَحْتَ قَدَمَيّ هَاتَيْنِ، إلّا سَدَانَةَ الْبَيْتِ وَسِقَايَةَ الْحَاجّ. يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ! إِنَّ اﷲَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْکُمْ نَخْوَةَ الْجَاهِلِيّةِ وَتَعَظَّمَهَا بِالآبَائِ. اَلنَّاسُ مِنْ آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ.
(سيرت ابن هشام)
’’اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی اور دشمن گروہ کو رُسوا کیا۔ آگاہ ہوجاو! ہر خاندانی شرف، قصاص یا مال کا دورِ جاہلیت میں دعویٰ کیا جاتا تھا، وہ میرے ان دو قدموں کے نیچے ہے سوائے بیت اﷲ کی خدمت اور حاجیوں کو پانی پلانے کے۔
’’اے قبیلہ قریش! اﷲ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنے کو دور کر دیا ہے۔ تمام لوگ حضرت آدم ں کی اولاد ہیں اور حضرت آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے پوچھا :
مَا تَرَونَ أَنِّی فَاعِلٌ بِکُمْ؟
’تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرنے والا ہوں؟‘
انہوں نے جواب دیا :
خَيْرًا، أَخٌ کَرِيْمٌ، وَابْنُ أَخٍ کَرِيْمٍ.
’’ہم بھلائی کی توقع رکھتے ہیں کیونکہ آپ کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔‘‘
اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
إِذْهَبُوا، فَأَنْتُمُ الطُّلَقَائُ.
(سيرت ابن هشام. تاريخ الطبری)
’’تم چلے جاو! تم آزاد ہو (اور آج کے دن تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا)۔‘‘
قریش مکہ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قول و فعل میں ہر جگہ امن و محبت، برداشت و رواداری اور معافی کے مظاہر پیش کیے۔ گویا پہلی وحی کے آغاز کے وقت 12 فروری 610ء کو شروع ہونے والا عظیم اور نادر المثال انسانیت دوستی اور امن کا سفر کعبہ معظمہ کے صحن میں 11 فروری 630ء کو مکمل ہوا۔ یہ وہ دن تھا جب انسانیت کو افتخار اور عظمت و توقیر ملی۔ یہ دن محبت و رواداری، امن و آشتی، صلح جوئی اور خیر سگالی کا دن تھا۔
انسانی حقوق کا عالمی چارٹر : خطبہ حجۃ الوداع
اس کے بعد نو ذو الحجہ کا دن آیا، جب ہجرت کے دس سال مکمل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حیاتِ طیبہ کے آخری سال میں حج کے لیے مکہ معظمہ تشریف لائے اور 7 مارچ 632ء کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوا لاکھ کے مجمع سے اپنا تاریخی خطبہ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک عظیم کام یابی تھی؛ ایسی کام یابی جو صبر و استقلال، ثابت قدمی، بلند ہمتی، معافی، رحمت و مودت اور اخلاقیات سے بھری پڑی تھی۔ سیرت ابن ہشام، تاریخ الطبری، کتاب الاموال، البدایۃ والنہایۃ اور سیرت و تاریخ کی تمام بنیادی کتب میں خطبہ حجۃ الوداع کم و بیش درج کیا گیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس خطبہ میں درج ذیل بنیادی انسانی حقوق اور اعلیٰ اخلاقی و روحانی اقدار کی طرف انسانیت کی راہنمائی فرمائی :
٭ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے human equality کا اعلان کرتے اور ہر طرح کے نسلی امتیازات و قبائلی تفاخر کا خاتمہ کا اعلان فرمایا۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دور جاہلیت کے تمام خون معاف کرنے، جھوٹی نخوتوں، جاہلی فخرو مباہات اور سود کو ختم کرنے کا اعلان فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِصلاحی تحریک کا آغاز اپنے خاندان سے کیا۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانی زندگی کو حرمت اور وقار عطا کیا اور اسے کعبہ کی حرمت سے بھی برتر قرار دیا۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قتل اور دہشت گردی کو کفر سے تعبیر فرمایا :
اَلاَ! فَـلَا تَرْجِعُوْا بَعْدِيْ ضُلَّالًا يّضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ.
’’دیکھو کہیں میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ آپس میں ہی کشت و خون کرنے لگو۔‘‘
٭ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کے حقوق (women rights) بیان کرتے ہوئے فرمایا :
’’عورتوں سے بہتر سلوک کرو کیونکہ وہ تو تمہاری پابند ہیں اور خود اپنے لئے وہ کچھ نہیں کر سکتیں۔ چنانچہ ان کے بارے میں خدا کا لحاظ رکھو کہ تم نے انہیں خدا کے نام پر حاصل کیا اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لئے حلال ہوئیں۔‘‘
٭ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خادموں (workers and servants) کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرمایا :
اَرِقَّآءَ کُمْ اَرِقَّاءَ کُمْ، اَطْعِمُوْهُمْ مِمَّا تَاْکُلُوْنَ، وَاکْسُوْهُمْ مِمَّا تَلْبَسُوْنَ.
’’اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں غلاموں کا خیال رکھو، انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، ایسا ہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو۔‘‘
معاہداتِ نبوی کا مقصد وحید : قیامِ اَمن و فروغِ محبت
اب ہم عہد نبوی میں ہونے والے معاہدات میں سے چند کا ذکر کریں گے جن سے ثابت ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ دنیا میں امن و محبت کے فروغ کے لیے عملی کاوشیں کیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں امن کے پیامبر (peacemaker) بن کر تشریف لائے تھے۔
میثاقِ مدینہ
مدینہ منورہ آمد کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودِ مدینہ سے ایک معاہدہ و میثاق کیا جسے ’’موادعہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ابن اسحاق اور ابن ہشام کہتے ہیں کہ ’’موادعہ‘‘ انسانی تاریخ کا پہلا تحریری دستور تھا جس پر اسلامی ریاستِ مدینہ کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ ’’موادعہ‘‘ مسلمانوں، یہود اور مدینہ کے دیگر غیر مسلم قبائل کے مابین تھا جو ان کے اتحادی تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود اور غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ اَمن کرتے ہوئے تمام religions اور cultures کو اکٹھا کرکے multi-cultural معاشرے کی بنیاد رکھی اور انہیں ایک اکائی میں پرو دیا۔ یہ معاہدہ non-aggression اور تشدد کی نفی کا معاہدہ تھا اور یہی ’’موادعہ‘‘ کا مفہوم ہے۔ یہاں ہم 63 آرٹیکلز پر مشتمل اس معاہدے میں سے صرف آرٹیکل نمبر 28 بیان کریں گے :
إنّ يَهُودَ بَنِی عَوْفٍ أُمّةٌ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ، لِلْيَهُودِ دِينُهُمْ وَلِلْمُسْلِمِيْن دِينُهُمْ، مَوَالِيهِمْ وَأَنْفُسُهُمْ.
(سيرت ابن هشام، 2 : 499. کتاب الأموال لابن زنجويه، 1 : 394. البداية والنهاية، 3 : 225)
’’بے شک یہودِ بنی عوف، مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک ہی اُمت قرار دیے جاتے ہیں مگر یہود کے لیے ان کا اپنا دین ہوگا اور مسلمانوں کے لیے ان کا اپنا۔ اُمت ہونے میں وہ خود بھی شامل ہوں گے اور دونوں طبقات کے موالی بھی۔‘‘
آج سے چودہ صدیاں قبل ہونے والے اِس معاہدے کی رُو سے یہود اور مسلمان ایک امت اور ایک قوم بن گئے ہیں۔ ہم آج integration کی بات کرتے ہیں جب کہ ہم مسلمانوں میں ایسے افراد بھی ہیں جو آج isolation کا پرچار کرتے ہیں۔ وہ معاشرتی استحکام نہیں چاہتے اگرچہ وہ خود معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں لیکن معاشرے کی سیاسی، سماجی معاشی معاملات میں حرکی کردار ادا نہیں کرتے۔ ان لوگوں کو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سے سبق لینا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو عوف کے ساتھ ساتھ ان کے اتحادیوں اور دیگر قبائل کو بھی شامل فرمایا۔
معاہدہ حدیبیہ
اسی طرح سن 6 ہجری یعنی فروری 628ء میں جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پندرہ سو صحابہ کرام ث کے ہمراہ مکہ مکرمہ عمرہ کے لیے تشریف لائے تو قربانے کے جانور بھی ساتھ لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرہ کی ادائیگی کے بعد پُراَمن واپسی چاہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جنگ و جدل کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اہل مکہ نے مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت نہ دی۔ بالآخر طویل مذاکرات کے بعد فریقین کے مابین ایک معاہدہ طے پاگیا جسے معاہدہ حدیبیہ کہا جاتا ہے۔ یہاں ہم معاہدہ کے صرف تین آرٹیکلز بیان کریںگے جن سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامِ اَمن کے لیے کن حالات میں اور کس قدر کاوشیں کیں۔
- پہلے آرٹیکل کے مطابق یہ طے پایا کہ مسلمان اِس سال عمرہ کیے بغیر واپس چلے جائیں۔
- دوسرے آرٹیکل کے مطابق مسلمانوں اور قریش مکہ کے مابین دس سالہ معاہدہ اَمن (peace treaty) طے پاگیا۔
- تیسرے آرٹیکل کے مطابق یہ طے پایا کہ اگر مکہ کا کوئی غیر مسلم اِسلام قبول کرکے مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے ہاں پناہ لے گا تو مسلمان اُس نومسلم کو پناہ نہیں دیں گے اور اسے اہل مکہ کو لوٹانے کے پابند ہوں گے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان مدینہ سے بھاگ کر مکہ مکرمہ میں پناہ لے لیتا ہے تو وہ اسے نہیں نکالیں گے۔ گویا یہ شق سراسر یک طرفہ تھی۔
(صحيح بخاری، کتاب الشروط)
جب یہ معاہدہ طے پاگیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لکھو کہ یہ معاہدہ محمد رسول اﷲ اور کفارِ مکہ کے مابین طے پارہا ہے۔ اِس پر کفارِ مکہ کے نمائندہ سہیل بن عمرو نے اعتراض کیا کہ ہم آپ کو خدا کا نبی مانتے تو مخالفت کیوں کرتے۔ لہٰذا ہم اُس وقت تک اس معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے جب تک آپ رسول اﷲ کے الفاظ کاٹ کر صرف اپنا نام ’’محمد بن عبد اﷲ‘‘ نہیں لکھتے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اور صرف قیامِ اَمن کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ ’’رسول اﷲ‘‘ کے الفاظ کاٹ دو۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے الفاظ کاٹنے سے انکار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے کاغذ قلم لے کر یہ الفاظ کاٹ دیے، صرف اِس لیے کہ دو قوموں کے مابین معاہدہ امن ہوجائے اور پوری دنیا کے لیے امن کی بنیاد رکھی جاسکے۔ اس معاہدے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرامث کو قربانی کے جانور ذبح کرنے کا حکم فرمایا لیکن پندرہ سو صحابہ اتنے پریشان اور مایوس ہوچکے تھے کہ کوئی بھی قربانی کے لیے نہ اٹھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زوجہ سیدہ اُم سلمہ رضی اﷲ عنھا سے مشاورت کی تو انہوں نے مشورہ دیا :
يَا نَبِيَّ اﷲِ! أَتُحِبُّ ذَلِکَ اخْرُجْ، ثُمَّ لَا تُکَلِّمْ أَحَدًا مِنْهُمْ کَلِمَةً حَتّٰی تَنْحَرَ بُدْنَکَ وَتَدْعُوَ حَالِقَکَ.
(صحيح بخاری، کتاب الشروط)
’’یانبی اﷲ! اگر آپ پسند فرمائیں تو ایسا کریں کہ باہر تشریف لے جائیں اور ان میں سے کسی سے بھی کچھ نہ فرمائیں، یہاں تک کہ اپنی قربانی کے اونٹ ذبح کر لیے جائیں اور حجام کو بلا کر اپنا سر منڈوا لیا جائے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مشورہ پر عمل کیا تو پندہ سو صحابہ کرام ث اِتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کھڑے ہوگئے اور اُنہوں نے بھی قربانی کے جانور ذبح کرنے شروع کر دیے۔ اس طرح یہ معاملہ انجام پذیر ہوا۔
صلح حدیبیہ بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھی اور بادی النظر میں مسلمانوں نے کمزور شرائط پر کفار سے معاہدہ کیا تھا لیکن یہ درحقیقت ان ناقدین کے لیے زبردست جواب ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ اِس معاہدے کے ذریعے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ ممکنہ حد تک جنگ و جدال سے احتراز کیا جائے تاآنکہ اپنے دفاع کے لیے جنگ کرنا لازم ہوجائے۔ تمام مسائل کا حل مذاکرات اور پُراَمن مکالمہ کے ذریعے تلاش کیا جائے کیونکہ ’اَمن برائے اِنسانیت‘ ہی اِسلام کا حقیقی مقصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے اِس معاہدہ کو فتح مبین قرار دیا۔ ارشاد ہوتا ہے :
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِيْنًاo
(الفتح، 48 : 1)
’’(اے حبیبِ مکرم!) بے شک ہم نے آپ کے لیے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرمادیا۔ (اس لیے کہ آپ کی عظیم جدّوجہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہوجائے)o‘‘
معاہدہ نجران
اِسی طرح معاہدہ نجران بھی بہت معروف ہے۔ یہ معاہدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہِ طور کے قریب رہنے والے Saint Catherine کے باشندوں سے کیا تھا۔ اِس معاہدہ کی نمایاں شرائط یہ تھیں :
وَلِنَجْرَانَ وَحَاشِيَتِهَا ذِمَّةُ اﷲِ وَذِمَّةُ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ رَسُوْلِ اﷲِ، عَلَی دِمَائِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَمِلَّتِهِمْ وَأَرْضِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَمِلَّتِهِمْ وَرَهْبَانِيّتِهِمْ وَأَسَاقِفَتِهِمْ وَغَائِبِهِمْ وَشَاهِدِهِمْ وَغَيْرِهِمْ وَبَعْثِهِمْ وَأَمْثِلَتِهِمْ، لَا يُغَيّرُ مَا کَانُوْا عَلَيْهِ، وَلَا يُغَيّرُ حَقٌّ مِنْ حُقُوقِهِمْ وَأَمْثِلَتِهِمْ، لَا يُفْتَنُ أُسْقُفٌ مِنْ أُسْقُفِيّتِهِ، وَلَا رَاهِبٌ مِنْ رَهْبَانِيّتِهِ، وَلَا واقف مِنْ وقافيتهِ، عَلَی مَا تَحْتَ أَيْدِيْهِمْ مِنْ قَلِيْلٍ أَوْ کَثِيْرٍ، وَلَيْسَ عَلَيْهِمْ رَهَقٌ.
’’اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اہلِ نجران اور ان کے حلیفوں کے لیے اُن کے خون، ان کی جانوں، ان کے مذہب، ان کی زمینوں، ان کے اموال، ان کے راہبوں اور پادریوں، ان کے موجود اور غیر موجود افراد، ان کے مویشیوں اور قافلوں اور اُن کے استھان (مذہبی ٹھکانے) وغیرہ کے ضامن اور ذمہ دار ہیں۔ جس دین پر وہ ہیں اس سے ان کو نہ پھیرا جائے گا۔ ان کے حقوق اور اُن کی عبادت گاہوں کے حقوق میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی۔ نہ کسی پادری کو، نہ کسی راہب کو، نہ کسی سردار کو اور نہ کسی عبادت گاہ کے خادم کو- خواہ اس کا عہدہ معمولی ہو یا بڑا - اس سے نہیں ہٹایا جائے گا، اور ان کو کوئی خوف و خطر نہ ہوگا۔‘‘
(الطبقات الکبری،1 : 288، 358. کتاب الخراج لأبی يوسف : 78. کتاب الأموال لأبی عبيد قاسم : 244-245، رقم : 503. کتاب الأموال لابن زنجويه : 449-450، رقم : 732. فتوح البلدان للبلاذری : 90)
امام حمید بن زنجویہ نے بیان کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد بھی عہد صدیقی میں یہی معاہدہ نافذ العمل رہا، پھر عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں حالات کی تبدیلی کے پیش نظر کچھ ترامیم کی گئیں مگر غیر مسلموں کے مذکورہ بالا حقوق کی حفاظت و ذمہ داری کا وہی عمل کامل روح کے ساتھ برقرار رہا۔
اسلام کا وسیع تصورِ نیکی
اِن معاہدات سے بھی مترشح ہو جاتا ہے کہ اِسلام صرف مذہب یا عقیدہ نہیں بلکہ ایک civilization ہے۔ اِسلام سے مراد رنگ و نسل کا امتیاز نہیں اور نہ ہی اِس کا مقصد معاشی استحصال ہے بلکہ اس کا مقصد غربت و اَفلاس کا خاتمہ، قحط سالی کو مٹانا اور بے گھروں کو گھر دینا ہے۔ اسلام خواتین کے حقوق کے تحفظ کا نام ہے اور اسلام ماحولیاتی (environmental and ecological) تحفظ کا بھی نام ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے :
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.
(آل عمران، 3 : 92)
’’تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اقدس ہے :
ليس المؤمن الذی يشبع وجاره جائع.
(الأدب المفرد للبخاری : 52، رقم : 112)
’’وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھائے لیکن اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل حدیث مبارکہ میں social and economic support، sharing of resources اور فلاحی معاشرے کا تصور دیا ہے :
طَعَامُ الْوَاحِدِ يَکْفِي الاِثْنَيْنِ، وَطَعَامُ الاِثْنَيْنِ يَکْفِي الْأَرْبَعَةَ، وَطَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَکْفِي الثَّمَانِيَةَ.
(صحيح مسلم)
’’ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں (کی زندگی بچانے) کے لیے کافی ہے، اور دو کا کھانا چار (کی زندگی بچانے) کے لیے کافی ہے اور چار کا کھانا آٹھ آدمیوں (کی زندگی بچانے) کے لیے کافی ہوتا ہے۔‘‘
اِس سے مراد ہے کہ اگر ایک آدمی کے پاس کھانا ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ دیگر اَفرادِ معاشرہ کو بھی اس میں شامل کرے اور ان کی بھوک مٹانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
اِسی طرح اسلام غلامی کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ یہ اسلام پر الزام ہے کہ یہ غلامی کو فروغ یا تحفظ دیتا ہے۔ تمام قدیم تہذیبوں میں غلامی کا تصور پایا جاتا تھا اور اسلام سے بھی ہزاروں سال قبل غلامی موجود تھی۔ مشرق سے مغرب تک کوئی بھی ملک ہو، اس میں غلامی موجود تھی۔ یہ صورتِ حال اسلام کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک بہت بڑا چیلنج تھی جسے اسلام نے بالآخر اپنے اصلاحی اقدامات کے ذریعے ختم کر دیا۔ قرآن حکیم فرماتا ہے :
وَمَآ اَدْرٰ کَ مَا الْعَقَبَةُo فَکُّ رَقَبَةٍo اَوْ اِطْعٰـمٌ فِيْ يَوْمٍ ذِيْ مَسْغَبَةٍo يّتِيْمًا ذَا مَقْرَبَةٍo اَوْ مِسْکِيْنًا ذَا مَتْرَبَةٍo
(البلد، 90 : 12-16)
’’اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ وہ (دینِ حق کے مجاہدہ کی) گھاٹی کیا ہےo وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہےo یا بھوک والے دن (یعنی قحط و اَفلاس کے دور میں غریبوں اور محروم المعیشت لوگوں کو) کھانا کھلانا ہے (یعنی ان کے معاشی تعطل اور ابتلاء کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے)o قرابت دار یتیم کوo یا شدید غربت کے مارے ہوئے محتاج کو جو محض خاک نشین (اور بے گھر) ہےo‘‘
غربت و افلاس کا خاتمہ اور بھوکے کو کھانا کھلانا اسلام کے نزدیک انتہائی اعلی نیکی ہے کیونکہ اسلام معاشی و معاشرتی خوش حالی کی تلقین کرتا ہے۔ آج کے دور میں سیاسی و سماجی غلامیاں مسلمانوں کو جھنجھوڑ اور خواب غفلت سے بیدار کر رہی ہیں کہ وہ سیاسی و سماجی غلامی کے خاتمہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور آمرانہ، جابرانہ اور فوجی طرز حکمرانی کو ترک کرکے جمہوریت، انسانی آزادی، انسانی اقدار اور مساوات کی طرف قدم بڑھائیں۔ حکومت کی باگ ڈور عوام کے ہاتھ میں ہونی چاہیے نہ کہ آمروں کے پاس۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدل و مساوات پر مبنی جمہوری نظام عطا کیا تھا جس میں کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
خواتین اور خادموں کے حقوق
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرد و زن کی برابری کا بھی درس دیا اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خانگی تشدد اور جبری شادیوں سے منع فرمایا۔ اسلام شوہر کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی بیوی یا خادم کو مارے۔ یہ سراسر غیر اسلامی فعل ہے۔ اسلام شوہروں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی بیویوں اور خادموں کا احترام کریں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا :
مَا تَقُولُ فِي نِسَائِنَا؟
’’آپ ہماری عورتوں کے بارے میں کیا ہدایات فرماتے ہیں؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أَطْعِمُوهُنَّ مِمَّا تَأْکُلُونَ، وَاکْسُوهُنَّ مِمَّا تَکْتَسُونَ، وَلَا تَضْرِبُوهُنَّ وَلَا تُقَبِّحُوهُنَّ.
’’اس میں سے انہیں کھلاؤ جو تم کھاتے ہو، اور اس میں سے انہیں پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔ انہیں نہ مارو اور ان سے برے لفظ نہ کہو۔‘‘
(سنن ابی داؤد، کتاب النکاح، رقم : 2144)
یعنی عورتوں کو وہی خانگی حقوق دو جو تم خود لیتے ہو۔ اِسلام کی رُو سے خواتین کے بے عزتی کرنا مکمل طور پر ممنوع ہے۔ انہیں خانگی و مذہبی زندگی اور معاشرتی و معاشی زندگی میں مردوں کے برابر عزت و توقیر حاصل ہے۔
اے مسلمان! ان حقیقی تعلیمات کی روشنی میں تجھے بیدار ہونا ہوگا۔ لہٰذا آگے بڑھ اور اسلام کے نام پر لگائے جانے تمام داغ دھو ڈال اور یہ ثابت کر دے کہ اسلام ہی دنیا کا بہترین ترقی پسند (progressive) دین ہے اور مسلمان دنیا کی سب سے ترقی پسند قوم ہیں۔ اس حقیقت کو منوائیں کہ مسلمان ہی حقوقِ نسواں کے بانی ہیں جنہوں نے خواتین کو مرد کے برابر حقوق عطا کیے اور ناموسِ نسواں کا تصور دیا۔
جبری شادیوں کی ممانعت
اِسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں جبری شادی کا کوئی تصور نہیں کیونکہ شادی عورت کا حق ہے، والدین کو اس پر جبر کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ اس کی ایک مثال ہمیں آج اس صورت بھی نظر آتی ہے کہ بیرون ملک موجود احباب اپنے رشتہ داروں (بھانجوں اور بھتیجوں وغیرہ) کا ویزہ لگوانے کے لیے اپنی بچیوں کا نکاح زبردستی ان سے کردیتے ہیں۔ حالانکہ یہ اسلام کی تعلیمات کے کلیتاً منافی ہے۔ صحیح بخاری، سنن ابی داود، سنن نسائی اور جامع ترمذی میں حضرت خنساء بنت حزام انصاریہ سے مروی ہے کہ :
إن أباها زوجها وهي ثيب، فکرهت ذلک، فأتت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فردّ نکاحها.
’’ان کے باپ نے ان کانکاح کردیا درآنحا لیکہ وہ بیوہ تھیں اور ان کو یہ نکاح ناپسند تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نکاح کو رد کر دیا۔‘‘
حضرت ابن عباس، حضرت جابر اور حضرت عطاء بن ابی رباح سے مروی ایک اور روایت میں ایک کنواری لڑکی کے نکاح کے بارے میں ہدایات ملتی ہیں کہ جس کے باپ نے اس کی مرضی کے خلاف شادی کردی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نکاح کو ردّ فرما دیا۔ امام دارقطنی کے ہاں اس حدیث کے الفاظ حسب ذیل ہیں :
فرق رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم بين امرأة وزوجها وهي بکر، أنکحها أبوها وهي کارهة.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک عورت اور اس کے خاوند کے مابین تفریق کروا دی حالانکہ وہ باکرہ تھی۔ اس کے باپ نے اس کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کیا تھا۔‘‘
اس مضمون کی متعدد احادیث وارِد ہوئی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لڑکی کو نکاح قبول یا ردّ کرنے کا اختیار دیا۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس سے مروی ہے :
إِنَّ جَارِيَةً بِکْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَذَکَرَتْ لَهُ أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ کَارِهَةٌ، فَخَيّرَهَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم .
(سنن ابن ماجه، کتاب النکاح، باب من زوج ابنته وهی کارهة، 1 : 603، رقم : 1875)
’’ایک کنواری لڑکی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں آئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے باپ نے میرا نکاح زبردستی کر دیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فسخ کا اختیار دے دیا۔‘‘
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
جَاء تْ فَتَاةٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَتْ : إِنَّ أَبِي زَوَّجَنِي ابْنَ أَخِيهِ لِيَرْفَعَ بِي خَسِيسَتَهُ، قَالَ : فَجَعَلَ الْأَمْرَ إِلَيْهَا، فَقَالَتْ : قَدْ أَجَزْتُ مَا صَنَعَ أَبِي، وَلَکِنْ أَرَدْتُ أَنْ تَعْلَمَ النِّسَاءُ أَنْ لَيْسَ إِلَی الْآبَاءِ مِنْ الْأَمْرِ شَيْئٌ.
(سنن ابن ماجه، کتاب النکاح، باب من زوج ابنته وهی کارهة، 1 : 602، رقم : 1874)
’’ایک لڑکی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے باپ نے اپنے بھتیجے سے میرا نکاح کر دیا ہے کہ میرے ذریعہ سے اپنی مفلسی دور کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے فسخ کا اختیار دے دیا۔ اس نے عرض کیا : میں والد کے نکاح کو برقرار رکھتی ہوں لیکن میں نے یہ اس لیے کیا کہ آپ عورتوں کو بتلا دیں کہ اولاد کے نکاح کے معاملے میں والدین کا ان پر کوئی حق نہیں۔‘‘
اِس حدیث مبارکہ سے ہمیں ایک اور رہنمائی ملتی ہے کہ جبری شادیوں کی ایک اہم وجہ cousins marriages ہیں۔ بسا اوقات والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا / بیٹی ان کے بھتیجی / بھانجی، بھتیجے / بھانجے سے شادی کرلے تاکہ گھر کی دولت بھی گھر میں رہے اور بیرون ملک مقیم ہونے کی صورت میں اس کا ویزہ وغیرہ بھی لگ جائے۔ حالانکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحتاً cousins marriages کی ممانعت بیان فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَا تَنْکِحُوا الْقَرَابَةَ الْقَرِيْبَةَ، فَإِنَّ الَوَلَدَ يُخْلَقُ ضَاوِيًا.
’’اپنے قریبی رشتہ داروں میں نکاح مت کرو، کیونکہ اس طرح تمہارے بچے ناقابل علاج بیماریوں کا شکار ہوں گے۔‘‘
یہ قانونی ممانعت نہیں ہے بلکہ medical reasons کی بناء پر ایسی شادیوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بنو سائب کے لوگوں سے فرمایا : تمہارے بچے ناقابل علاج بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، لہٰذا تم (ان اَمراض سے بچنے کے لیے) اپنے خاندان سے باہر کی عورتوں سے شادی کیا کرو۔
(عيون الاخبار، تلخيص الحبير، کنز العمال)
اسلام نے جو حقیقت آج سے چودہ سو سال پہلے آشکار کردی، سائنس آج اس نکتے پر پہنچ رہی ہے کہ قریبی رشتہ داروں میں شادی کرنے سے بیمار بچے پیدا ہوتے ہیں۔
نزولِ وحی اور تحریکِ علم و شعور
اسلام صرف مذہب ہی نہیں بلکہ ایسی تہذیب ہے جو علم و شعور، آگہی، خواندگی، تعلیم و تعلم اور اَرضی و آفاقی حقائق کو جاننے کا نام ہے۔ اس تہذیب کی بنیاد خوب صورت انسانی اقدار اور اخلاقیات پر استوار ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے ملحد و لادین عرب معاشرے میں مبعوث فرمایا گیا جو کلیتاً جاہل، ناخواندہ اور غیر مہذب تھا۔ عرب پڑھنے لکھنے سے مکمل طور پر عاری تھے۔ امام بلاذری نے فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ مکہ مکرمہ ایک metropolitan city تھا لیکن اس کی دس لاکھ آبادی میں سے تقریباً پندرہ نفوس لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ تعلیمی سطح کے اعتبار سے اس طرح کے معاشرے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ حصولِ علم اور پڑھنے کے حکم پر مشتمل تھی۔
اللہ رب العزت کا فرمان اقدس ہے :
إِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَo خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍo إِقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُo الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِo عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْo
(العلق، 96 : 1-5)
’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے، جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo اس نے انسان کو (رحم مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیاo پڑھئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہےo جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاo جس نے (سب سے بلند رتبہ) انسان (محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو (بغیر ذریعہ قلم کے) وہ سارا علم عطا فرما دیا جو وہ پہلے نہ جانتے تھے۔‘‘
پہلی وحی کے آفاقی مضامین
یہ آیاتِ کریمہ غارِ حرا میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر 12 فروری 610ء کو نازل ہوئیں۔ ان پانچ آیات پر مشتمل اِس پہلی وحی میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے نو الفاظ بیان فرمائے :
- پڑھنا
- خالق
- مخلوق
- کائنات
- انسانیت
- علم
- تعلیم
- قلم
- تحقیق و جستجو
ان پانچ آیات میں نو موضوعات کا بیان اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ یہ پہلی وحی ناخواندگی اور جہالت کے لیے ایک چیلنج تھی۔ قرآن حکیم اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشرے کی اصلاح اور اسے تہذیب یافتہ بنانے کی جدوجہد شروع کی اور ہر فرد کو لکھنے پڑھنے، تحقیق و جستجو اور کائنات کے مخفی حقائق تک رسائی کا راستہ دکھایا۔ گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دینِ اسلام کی تحریک کا آغاز علم اور سائنس کے پیغام سے کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اَفرادِ معاشرہ پر تعلیم و تحقیق اور سائنس کے حصول پر بہت زیادہ زور دیا۔ صحیح بخاری میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
قام فينا النبی صلی الله عليه وآله وسلم مقامًا، فأخبرنا عن بدء الخلق حتی دخل أهل الجنة منازلهم و أهل النار منازلهم، حَفِظ ذٰلک مَن حَفِظَه و نَسِيَه مَن نَسِيَه.
(صحيح بخاری، کتاب بدء الخلق، 3 : 1166، رقم : 3020)
’’ایک دن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخلوق کی پیدائش کا اِبتدا سے ذِکر فرمانا شروع کیا یہاں تک کہ جنتی اپنے مقام پر پہنچ گئے اور دوزخی اپنے مقام پر (یعنی ابتدائے خلق (Creation of Universe) سے لے کر اہلِ جنت کے جنت میں داخل ہونے اور ان کے منازل تک پہنچنے اور اہلِ جہنم کے جہنم میں داخلے اور ان کے ٹھکانے تک سب کچھ بیان فرما دیا)۔ پس اس بیان کو جس نے جس قدر یاد رکھا اسے یاد رہا اور جس نے جو کچھ بھلا دیا وہ بھول گیا۔‘‘
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لقد ترکنا رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وما يحرّک طائر جناحيه فی السّماء إلا أَذْکَرَنَا منه علماً.
(مسند أحمد بن حنبل، 5 : 153)
’’اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہم سے رخصت ہوئے تو (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قدر علم بیان فرمایا کہ) آسمانی فضا میں ایک پرندہ جو اپنے پروں کو حرکت دیتا ہے ( وہ کیسے حرکت دیتا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا علم بھی ہمیں بتا دیا تھا۔‘‘
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قوانینِ حرکت اور فضائے بسیط میں اُڑنے کے ضوابط آج سے چودہ سو سال پہلے بیان فرما دیئے جن پر موجودہ دور میں aviation science کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ آپ ذرا اپنی چشم تصور کو چودہ صدیاں پیچھے لے جائیں کہ جب ہر طرف جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے؛ اونٹوں، خچروں، گدھوں یا گھوڑوں پر سفر کیا جاتا تھا اور کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ ان کے علاوہ بھی سواریاں ہوں گی؛ لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس دور میں بیان فرما دیا کہ لوگ mechanical energy سے چلنی والی سواریاں بھی استعمال کریں گے جیسے ہوائی جہاز، موٹر سائیکل، کار وغیرہ۔ حالانکہ اُس دور میں علم و سائنس کا کوئی تصور نہیں تھا، mechanical ترقی کا کوئی خیال نہیں تھا، industry اور technology کا کوئی نام و نشان نہیں تھا اور نہ ہی انسانی و سماجی ترقی کا کوئی وجود تھا۔
حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مری ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
سيکون فی آخر هذه الأمة رجال يرکبون علی المياثر.
(المستدرک للحاکم، 4 : 483، رقم : 8346)
’’میری اُمت کے دورِ اواخر میں لوگ گوشت پوست اور ہڈیوں کے جانوروں کی بجائے دوسری سواریوں (یعنی موٹر گاڑیوں وغیرہ) پر سفر کریں گے۔‘‘
اِس حدیث مبارکہ سے مراد ہے کہ عنقریب اُمتِ محمدیہ کے لوگ گوشت پوست کی سواریوں کی بجائے mechanical technology سے بنی ہوئی سواریاں استعمال کریں گے۔ اِس سے جہاں سواریوں میں ترقی کا عندیہ ملتا ہے وہیں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ شہر اور ان میں پنپنے والی تہذیبیں وسعت پذیر ہوجائیں گی اور لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی حامل سواریوں کا استعمال کریں گے۔
اس کی وضاحت حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی اِس حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمان و مکان (time and space) اور ناممکن فاصلے سمٹنے سے متعلق دورِ جدید کی سائنسی ترقی کے بارے میں فرمایا :
لا تقوم السّاعة حتی يتقارب الزمان وتزوی الأرض زيا.
(کنز العمال، 14 : 2886)
’’اس وقت تک قیامت بپا نہیں ہوگی جب تک زمانے (وقت) کی اکائیاں اور زمین کے فاصلے سمٹ کر ایک دوسرے کے بالکل قریب نہ آجائیں۔‘‘
حدیثِ ابو زاہریہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن اﷲ تعالی قال : أبثّ العلم فی آخر الزمان حتی يعلمه الرجل والمرأة والعبد والحرّ والصغير والکبير، فإذا فعلت ذالک بهم أخذتهم بحقی عليهم.
(سنن دارمی، 1 : 92، رقم، 253)
’’بے شک اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : میں آخری زمانہ میں علم کو (دنیا کے گھر گھر میں) خوب پھیلا دوں گا حتی کہ مرد و زن، غلام و آزاد اور چھوٹے، بڑے سب اس کو پا لیں گے۔ پس جب میں لوگوں کے ساتھ یہ معاملہ کر لوں گا تو پھر ان پر اپنے حقِ واجب کی بنا پر ان کی گرفت بھی کروں گا۔‘‘
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ٹی۔ وی، انٹرنیٹ، الیکٹرانک میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بارے میں بھی خبر دی اور واضح کر دیا کہ جاسوسی، سکیورٹی اور نگرانی کرنے والے مختلف آلات بھی تیار ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھاتے ہوئے فرمایا :
والذی نفسی بيده! لا تقوم الساعة حتی تکلم السباع الإنس، و حتی تُکلّم الرجل عذبة سوطه، وشراک نعله، و تخبره فخذه بما أحدث أهله بعده.
(جامع ترمذی، کتاب الصلاة، باب ما جاء فی نسخ الکلام 4 : 476، رقم : 2181)
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! قیامت اس وقت تک بپا نہیں ہوگی جب تک (عالم انسانیت اِتنی ترقی نہ کر جائے کہ) بہائم (تفتیشی کتے اور دیگر جانور) انسان سے ہم کلام ہوں اور آدمی کے چابک کا دستہ اور اس کے جوتے کا تسمہ اس سے کلام کرے (مراد ٹیلی کمیونیکیشن اور انٹیلی جنس کے حساس خفیہ آلات ہیں یعنی سائنسی ترقی کے ذریعے ان میں سے آوازیں آنے لگیں گی اور وہ معلومات فراہم کریں گی)۔ اسی طرح انسان کی ران (مراد انسانی اعضاء کی مانند جاسوسی کے آلات) اسے خبر دے گی کہ اس کے بعد اس کے گھر والے کیا کرتے رہے ہیں۔‘‘
اس حدیث نبوی میں دور جدید کے ان تمام صوتی و سمعی آلات یعنی ٹیلی فون، کمپیوٹر، الیکٹرانک آلات (electronic devices) اور الیکٹرانک سسٹم کا اشارہ فرما دیا گیا ہے جو تفتیش و تحقیق، مخبری و جاسوسی اور ترسیلات و مواصلات کے سلسلے میں استعمال ہورہے ہیں۔
ترقی پسند اسلام کے بارے میں غیر مسلموں کا اِعتراف
یہاں ہم نے سیرت طیبہ سے صرف چند مثالیں دینے پر اکتفا کیا ہے کہ کس طرح آج سے چودہ صدیاں قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے حقائق بیان فرما دیئے جن کا تصور بھی اُس وقت کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھ رہے تھے جو علم و تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی پر استوار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک دو صدیاں بعد ہی مسلم تہذیب و ثقافت اتنی ترقی کر گئی کہ مسلمانوں نے دوسری قوموں کی رہنمائی کرنا شروع کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ اَغیار بھی اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ نام ور مستشرق تھامس آرنلڈ نے لکھا ہے :
Islamic Cordova in the time of Islamic rule had become the most civilized city in Europe, the wonder, and admiration of the world, a Vienna among the Balkan state.
’’اسلامی دور حکومت میں قرطبہ یورپ کا مہذب ترین شہر تھا۔ ریاست ِ بلکان میں ویانا کو دنیا کے قابلِ تعریف اور عجیب ترین شہر کا درجہ حاصل تھا‘‘۔
جب کہ Rosenthal کا کہنا ہے :
In Muslim days Cordova had become the centre of civilization and one of the greatest seats of learning in the world.
’’مسلمانوں کے دور حکومت میں قرطبہ تہذیب کا مرکز تھا اور علم کے حصول کے لئے دنیا کی سب سے عظیم جگہ تھی۔‘‘
دمشق، حلب، بغداد، موصل، مصر، بیت المقدس، بعل بک، نیشا پور، خراسان وغیرہ کی صورت حال بھی قرطبہ سے مختلف نہ تھی۔ یہ شہر اسکولز، کالجز، میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ یہاں سائنسی ترقی و تحقیق، علم و شعور اور آگہی کا اخلاقی و انسانی اقدار کی بنیادپر رکھا گیا وہ کلچر تھا جو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ صدیاں قبل متعارف کرایا تھا۔
اِسلام آسانی اور اعتدال کا دین ہے
اپنی گفتگو کے آخری حصے کی طرف آتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اسلام اعتدال اور میانہ روی کا دین ہے۔ اسلام میں انتہاء پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں امام بخاری نے کتاب الایمان میں درج ذیل عنوان سے ایک باب باندھا ہے :
الدِّينُ يُسْرٌ وَقَوْلُ النَّبِيّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَحَبُّ الدِّينِ إِلَی اﷲِ الْحَنِيفِيّةُ السَّمْحَةُ.
’’دین آسان ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ اَقدس ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو سیدھا اور معتدل دین زیادہ پسند ہے۔‘‘
صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ وَشَيْئٍ مِنْ الدُّلْجَةِ.
’’بے شک دین آسان ہے اور جو اسے مشکل بنائے گا تو یہ اس پر غالب آجائے گا، پس تم سیدھے رہو، ایک دوسرے کے قریب رہو اور بشارت قبول کرو۔ نیز صبح و شام کی عبادت اور صدقہ خیرات سے مدد حاصل کرو۔‘‘
اِسلام ہر معاملے میں اعتدال اور وسطیہ کا حکم دیتا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار یہ الفاظ ارشاد فرمائے :
هَلَکَ الْمُتَنَطِّعُونَ.
(صحيح مسلم، 4 : 2055، رقم : 2670)
’’بال کی کھال اُتارنے والے ہلاک ہوگئے۔‘‘
اِس تمام تفصیل سے یہ حقیقت اَظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک آسان دین عطا فرمایا ہے جس میں کوئی سختی نہیں اور جو ہر طرح کے تشدد، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا قلع قمع کرتا ہے۔ اسلام اپنے پیروکاروں کو پیامبرِ اَمن بننے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہی آج کی اس تاریخی ’اَمن برائے انسانیت کانفرنس‘ کا پیغام ہے جو ہمیں قرآن حکیم اور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ قرآن و سنت کا یہ آفاقی پیغام ہر ذی روح تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے تاکہ روئے زمین پر موجود ہر فرد یہ جان لے کہ اسلام صرف اور صرف اَمن و رواداری، محبت و مودت اور ہمدردی کا دین ہے۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے ارد گرد معاشرتی استحکام (social integration) پیدا کریں اور پُراَمن بقائے باہمی کی فضا تخلیق کریں اور باہمی اعتماد اور مکالمہ پر مبنی تہذیب کو فروغ دیں کیونکہ دنیوی و اُخروی کامیابی اِسی میں ہے۔ باری تعالیٰ ہماری مدد فرمائے۔
آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم