ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
حضور نبی اکرم ﷺ معاشرے کے بے سہارا اور محتاج لوگوں کے دلی جذبات اور احساسات کا بے حد خیال فرماتے اور کسی بھی طرح انہیں یہ احساس نہ ہونے دیتے کہ وہ معاشرے کا مفلوک الحال اور بے سہارا طبقہ ہیں۔ ذیل میں اسی ضمن میں سیرت الرسول ﷺ سے مزید چند مظاہر بیان کیے جارہے ہیں:
باندیوں کے احساسات کا احترام
مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے پاس مختلف غزوات و سرایا کے موقع پر آنے والے جنگی قیدیوں میں مرد و خواتین دونوں شامل ہوتے تھے۔ ان جنگی قیدیوں کو مسلمانوں کی ذاتی تحویل میں دے دیا جاتا تھا تاکہ اِن کی دیکھ بھال ہوتی رہے۔ اِن جنگی قیدیوں میں کئی بے سہارا خواتین (باندیاں) بھی شامل ہوتیں، جن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی اور موجود نہ ہوتا۔ اگر یہ باندیاں بھی اپنے کام کروانے کے لیے آپ ﷺ کی بارگاہ میں آجاتیں تو آپ ﷺ ان کے کام بھی کردیتے۔ وہ جہاں چاہتیں اپنے ساتھ حضور ﷺ کو اپنے کام کے لیے لے جاتیں اور حضور ﷺ کبھی انکار نہ فرماتے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ:
ان کانت الامة من اهل المدینة لتاخذ بید رسول اللّٰه ﷺ فتنطلق به فی حاجتها.
(احمد بن حنبل، المسند، 3: 98، رقم: 11960)
یعنی اگر کوئی بے سہارا باندی جس کی ضروریات کو پورا کرنے والا کوئی نہ ہوتا، اگر وہ آپ ﷺ کے پاس آجاتی خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوتی اور وہ چاہتی کہ آقا علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ لے جاکر اپنا کام کرائے تو آپ ﷺ اس کے ساتھ چل پڑتے اور آپ ﷺ اپنا ہاتھ اُس سے نہ چھڑواتے۔
ذہنی مریضوں کے احساسات کا خیال
حضور نبی اکرم ﷺ کے اخلاقِ عالیہ کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ ذہنی امراض کا شکار افراد کے احساسات اور جذبات کا بھی خیال رکھتے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ
ان امراة کان فی عقلها شئی.
ایک خاتون جو دماغی لحاظ سے غیر متوازن تھی، وہ آقا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ:
ان لی الیک حاجة یارسول اللہ ﷺ!
آپ میرے ساتھ آئیں، مجھے آپ ﷺ سے کچھ کام ہے۔ آپ ﷺ اس کے ساتھ اٹھ کر چل پڑے۔ مدینہ کی گلیوں میں جہاں اس نے چاہا، وہ حضور ﷺ کو لے کر پھرتی رہی، کئی راستے گھماتی رہی اور جب تک اس کے سارے کام ختم نہیں ہوگئے، حضور ﷺ اس دیوانی کو چھوڑ کر واپسی نہیں آئے۔
(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، 4: 1812، رقم: 2326)
قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ طرزِ عمل مصنوعی طور پر کوئی نہیں اپنا سکتا، اس اخلاق کا اظہار وہی کرسکتا ہے جس کا سارے کا سارا ظاہر و باطن ’’وانک لعلٰی خلق عظیم‘‘ کے رنگ میں رنگا ہوا ہو۔
اعرابیوں کے جذبات کا خیال
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ آقا علیہ السلام یہاں تک لوگوں کے احساسات کا خیال رکھتے کہ:
کان رسول اللّٰه ربما نزل عن المنبر وقد اقیمت الصلوٰة فیعرض له الرجل فیحدثه طویلا ثم یتقدم الی مصلاه.
(مسند ابی یعلی، 6: 171، رقم: 3452)
یعنی کئی بار ایسا ہوتا کہ آقا علیہ السلام خطبہ جمعہ دے کر منبر سے نیچے اتر آئے ہوتے، اقامت بھی ہوگئی ہوتی تو اسی اثنا میں کوئی حاجت مند حاضر ہوا اور اس نے آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور آپ ﷺ سے دیر تک بات کرتا رہا لیکن آقا علیہ السلام نے کبھی اس شخص کو یہ نہیں فرمایا کہ خطبہ ختم ہوگیا ہے، اقامت ہوگئی، نماز جمعہ کی جماعت کرانی ہے، لوگ کھڑے ہیں، تم بات مختصر کرو اور ختم کرو مگر ایسا نہ ہوتا۔ جب تک وہ بات ختم نہ کرلیتا تب تک آپ ﷺ کھڑے ہوکر اس کی بات سنتے رہتے۔
(جہاں تک اس مسئلہ کے شرعی پہلو کا تعلق ہے تو یہ عمل حضور نبی اکرم ﷺ کے خصائص میں سے ہے، حضور نبی اکرم ﷺ کے عمل سے نماز میں تاخیر نہیں ہوتی حتی کہ نماز کے اندر آپ ﷺ کی بات کا جواب دینے سے بھی نماز نہیں ٹوٹتی۔)
اعرابی اور دیہاتی لوگوں کا یوں آپ ﷺ کو سرِ راہ روک لینے کی وجہ یہ تھی کہ مختلف سطح کے لوگ اسلام میں داخل ہورہے تھے، جن میں اعرابی، دیہاتی اور بدو بھی تھے۔ یہ لوگ دور دراز کے علاقوں سے آتے تھے، ان کی تعلیم و تربیت ابھی نہیں ہوئی تھی، اپنے آپ کو سنوارنے کے مواقع ابھی ان لوگوں کو میسر نہیں آئے تھے، مجلس میں حاضری کے طریقے معلوم نہیں تھے، گفتگو کے آداب معلوم نہیں تھے، بس پیغام ملا اور کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی صحبت سے باقاعدہ تربیت کے مواقع ابھی انہیں میسر نہیں آئے تھے تو اپنے مزاج کے مطابق حضور نبی اکرم ﷺ سے بات کرلیتے مگر آپ ﷺ ہر سطح کے آنے والے لوگوں کے مزاج، کلچر اور عادات کا خیال رکھتے کہ کہیں کسی چیز سے ان کی دل شکنی نہ ہو۔ لہذا آپ ﷺ ان کے مزاج کے مطابق ان کا احترام کرتے۔
- اس سے بھی بڑھ کر عجیب تر طرزِ عمل کے بارے میں حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ:
کنت امشی مع النبی ﷺ وعلیه برد نجرانی غلیظ الحاشیه.
ایک بار میں آپ ﷺ کے ساتھ جارہا تھا اور آپ ﷺ نے اپنے اوپر نجران کی بنی ہوئی چادر لے رکھی تھی جو سخت کھردری تھی۔ اچانک پیچھے سے ایک اعرابی آیا اور اس نے آپ ﷺ کو روکنا چاہا اور چادر کو پکڑ کر زور سے کھینچا، جس کی وجہ سے آپ ﷺ کی گردن مبارک پر رگڑ آگئی اور وہ سرخ ہوگئی۔ آپ ﷺ پیچھے متوجہ ہوئے اور پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ وہ کہتا ہے:
مرلی من مال اللّٰه الذی عندک.
اللہ کا دیا ہوا مال جو آپ ﷺ کے پاس ہے، اس میں سے مجھے دیں، میری ضرورت پوری کریں۔
آپ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرادیئے اور اس نے جو مانگا تھا، اسے عطا کرنے کا حکم فرمایا۔
(صحیح بخاری، کتاب فرض الخمس، 3 :1148، رقم: 2980)
- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز ہم آقا علیہ السلام کے ساتھ مسجد سے باہر نکل رہے تھے کہ مسجد کے اندر ہی دیہات سے آئے ہوئے آدمی نے آپ ﷺ کو روکنے اور اپنی بات کہنے کے لیے آپ ﷺ کی چادر کو کھینچا۔ یہ دیہاتی لوگ ایک دوسرے کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اسی طرح کیا کرتے تھے۔ اس نے اس زور سے آپ ﷺ کی چادر مبارک کھینچی کہ آپ ﷺ کی گردن مبارک سرخ ہوگئی۔ اس شخص نے کہا:
یا محمد! میں دو اونٹ لایا ہوں، میری کچھ ضروریات ہیں، ان اونٹوں کو ہماری کھانے پینے کی ضروریات سے بھر دیں اور:
فانک لا تحمل من مالک ولا من مال ابیک.
جو کچھ آپ مجھے دیں گے، یہ نہ اپنے مال سے دے رہے ہیں اور نہ اپنے باپ کے مال سے دے رہے ہیں۔ یہ اللہ کا مال ہے۔
یہ طریقہ گفتگو ان لوگوں کا کلچر تھا کہ وہ آپس میں بھی اس انداز میں بات کیا کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کی بات سنی، مگر اس کے اس طرزِ تخاطب پر ناراضگی کا اظہار نہ فرمایا بلکہ اس کے دونوں اونٹوں کو کھجور اور جَو سے بھر دیا۔
(سنن النسائی، 4: 227، رقم: 6978)
قاضی عیاض نے الشفاء میں اِن الفاظ کا ذکر کیا ہے کہ آپ ﷺ نے اس کی بات کو سن کر فرمایا:
المال للّٰه وانا عبده.
’’مال سارا اللہ ہی کا ہے، میں تو اللہ کا بندہ ہوں‘‘۔
گویا آپ ﷺ نے اس کی بات کی وضاحت فرمادی کہ میں نے کب کہا ہے کہ یہ مال میرا ہے؟ یہ تو اللہ ہی کا مال ہے۔
جب آپ ﷺ نے اُس کے اونٹوں کو اشیائے خوردو نوش سے بھر دیا تو آپ ﷺ نے اس سے پوچھا:
ویقاد منک یا اعرابی ما فعلت بی؟
جو تو نے میرے ساتھ کیا ہے کہ میری چادر کھینچ کر میری گردن کو سرخ کردیا ہے، کیا میں اب تمہارے ساتھ بھی ایسا کروں؟
قال لا، قال لم؟
اس نے کہا: نہیں میرے ساتھ ایسا نہ کریں۔ فرمایا: تم نے میرے ساتھ کیا ہے تو میں تمہارے ساتھ کیوں نہ کروں؟
قال لانک لانکافی بالسئیه السیئة.
اس نے جواب دیا: میں نے آپ کے ساتھ جو زیادتی کی ہے، آپ مجھ سے اس کا بدلہ نہ لیں کیونکہ آپ زیادتی کا جواب زیادتی سے دینے والے نہیں ہیں۔
فضحک النبی ﷺ.
حضور ﷺ اس کی بات کو سن کر ہنس پڑے۔
(قاضی عیاض، الشفاء، 108)
بغیر متابعت دعویٔ محبت ناقص ہے
انسانی جذبات و احساسات کا اس قدر خیال کرنا آپ ﷺ کی عظمت کی نشانی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو:
وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰالَمِیْن.
کے مصداق ساری کائنات کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور آپ ﷺ کے اخلاقِ مبارکہ کے یہ گوشے ممکنہ حد تک اپنی زندگی میں داخل کریں۔ جب تک آقا علیہ السلام کی متابعت کا اثر ہماری زندگیوں، اخلاق، عادات، طور طریقے اور برتائو میں نہیں نظر آتا تو ہمارے سارے دعوے ناقص ہیں۔ ہمیں اپنے اخلاق، طور طریقے، برتائو اور روّیوں کو تبدیل کرنا ہوگا اور نفرتوں کو نکال کر اس جگہ کو محبتوں سے پُر کرنا ہوگا۔۔۔ غیض و غضب کی جگہ شفقت اور نرمی کو لانا ہوگا۔۔۔ دوسرے کو بے عزت کرنا، للکارنا اس کی تضحیک و تذلیل کرنے کے طرزِ عمل کو ترک کرکے ہر ایک کو احترام دینا ہوگا۔۔۔ اختلاف رائے کا بھی احترام کرنا ہوگا۔۔۔ اختلاف رائے کا جواب بھی تلوار اور گالی گلوچ سے نہیں بلکہ دلیل سے دینا ہوگا اور دلیل کی قوت سے بھی کسی کو جواب دیں تواس کو یوں نہ لگے کہ مجھے بے عزت کررہا ہے بلکہ ایسا لگے کہ اپنا نکتۂ نظر بیان کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو اِن ہی تعلیمات کی تلقین کی کہ میرے حبیب آپ بس میری بات ان تک پہنچادیں، ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے۔ منوانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے، یہ مجھ پر چھوڑ دیں۔
افسوس یہ ہے کہ ہم بندے ہوکر خدا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم جبراً دوسروں سے اپنی بات کیوں منوانا چاہتے ہیں۔۔۔؟ فتوئوں کے تیر چلا کر ہم انسانی جذبات کا قتل عام کیوں کرتے ہیں۔۔۔؟ انسان کی عزت و تکریم کا خون خرابہ کیوں کرتے ہیں۔۔۔؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ رسولوں کو یہ ذمہ داری نہیں دی کہ کفار سے بزورِ بازو بات منوائیں، فقط یہ فرمایا کہ آپ ﷺ ان تک میری بات پہنچادیں۔ وَمَا عَلَیْنَا اِلَّاالْبَلٰغُ الْمُبِیْن کا مطلب ہی یہ ہے کہ میری ذمہ داری صرف بات کو پہنچانا ہے۔ لہذا پہنچانے والا گالی کیسے دے سکتا ہے اور لاٹھی کیسے مار سکتا ہے۔۔۔؟ پہنچانے والا دوسرے کی تذلیل کیسے کرسکتا ہے۔۔۔؟
تبلیغ دین کے روّیوں پر نظرِثانی کی ضرورت
بات پہنچانے کا مقصد تھا کہ دوسروں کو منوایا جائے مگر جب ہم دوسرے کو گالی دیں گے تو کیا وہ ہماری بات مانے گا؟ ہم نے اس روّیے کو بدقسمتی سے غیرتِ دین کا نام دے دیا ہے۔ ہم جو کرتے چلے جاتے ہیں، اس کو دین کا ٹائٹل دے دیتے ہیں۔ ہم نے دین کے ساتھ مذاق کررکھا ہے اور دین اور اس کی حرمت کو اٹھا کر گلی کوچوں اور سڑکوں پر لے آئے ہیں۔۔۔ دین کی حرمت کو عوامی نعروں میں بدل کر نفرت کا بازار گرم کردیا ہے۔ اپنے اس روّیے سے ہم نوجوان نسل اور عالمِ انسانیت کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔۔۔؟ افسوس! ہم نے آقا علیہ السلام کی سیرت طیبہ سے فاصلے پیدا کرلیے ہیں۔ سب سے بڑا حق اور ذمہ داری ان لوگوں کی ہے جو دین کی پہچان سمجھے جاتے ہیں، جو دین کے مبلغ ہیں، جن کے قول و عمل سے لوگ دین سیکھتے ہیں۔ ان کے یہ روّیے اللہ کے ہاں قابلِ معافی نہیں ہوں گے۔ لہذا روّیوں میں حسنِ اخلاق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت ابوامامہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک نوجوان حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:
ائذن لی بالزنا؟
مجھے بدکاری کی اجازت دیں۔
فوراً صحابہ کرامؓ اسے روکنے کے لیے اٹھے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ آقا علیہ السلام نے صحابہ کرامؓ کو منع کردیا اور اس نوجوان کو قریب ہونے کا فرمایا۔ جب وہ قریب آکر بیٹھا تو فرمایا:
أتحبہ لامک؟
جس امر کی تم اجازت مانگ رہے ہو، یہ بدکاری کا ارادہ کس سے ہے؟ کیا اپنی والدہ کے لیے اجازت مانگی ہے؟
اس نے کہا: نہیں، کون ایسا کرسکتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، تو نے درست کہا، کون ایسا کرسکتا ہے۔ لوگ اپنی مائوں کے لیے ایسا کرنا پسند نہیں کرتے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
أفتحبه لابنتک؟
کیا اپنی بیٹی کے لیے اجازت مانگی ہے؟
جواب دیا: نہیں، کون ایسا کرسکتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
ہاں، تو نے درست کہا، کون ایسا کرسکتا ہے، ولا الناس یحبونہ لبناتہم۔لوگ اپنی بیٹیوں کے لیے ایسا ارادہ نہیں کرتے۔ پھر پوچھا:
أفتحبه لاختک؟
کیا اپنی بہن کے لیے اجازت مانگی ہے؟
کہا: نہیں، کون ایسا کرسکتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، تو نے درست کہا، کون ایسا کرسکتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا:
أفتحبه لعمتک؟
کیا اپنی پھوپھی کے لیے اجازت مانگی ہے؟
اس نے کہا: نہیں، کون ایسا کرسکتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، تو نے درست کہا، کون ایسا کرسکتا ہے۔
اندازہ کریں کہ آپ ﷺ اس کے جملوں کے ساتھ جملے ملا رہے ہیں، اس کے اظہار کے ساتھ اپنا اظہار ملا رہے ہیں اور اپنے خیالات کو بڑی محبت کے ساتھ اس کے خیالات کے اندر ڈال رہے ہیں اور ایک احساس منتقل کررہے ہیں۔ ابھی تک یہ نہیں فرمایا کہ یہ حرام کام ہے، میں تجھے اجازت کس طرح دے سکتا ہوں؟ تجھے یہ پوچھنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا کہ یہ حرام ہے، اس کی حد ہے۔ یہ جملے ابھی تک آپ ﷺ نے نہیں فرمائے۔ پھر پوچھا:
افتحبه لخالتک؟
کیا اپنی خالہ کے لئے اجازت مانگی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم ایسا کون سوچ سکتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، تو نے ٹھیک کہا، اپنی خالہ کے لیے لوگ ایسا نہیں سوچتے۔
جب ساری باتیں کرلیں تو پھر اپنا دست اقدس اس کے سر پر رکھا اور دعا فرمائی:
اللهم اغفرذنبه وطهر قلبه وحصن فرجه.
(احمد بن حنبل، المسند، 5: 256، رقم: 22265)
اے اللہ! اس کے سارے گناہ معاف فرمادے، اس کے دل کو پاک کردے، اسے برائی سے بھی پاکیزگی عطا فرما۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ بعد ازاں ہم نے اسے دیکھا کہ اس نے پوری زندگی کبھی گناہ کی طرف نگاہ نہیں اٹھائی۔ آقا علیہ السلام کی شفقت نے ایک ہی نشست میں اس کی کایا پلٹ دی اور اس کی ساری زندگی کا رخ بدل دیا۔ یہ تبلیغِ دین کے وہ روّیے ہیں جو دین کی افادیت کو دلوں میں منتقل کرتے ہیں، ہماری زندگی میں آقا ﷺ کی سیرت کا عکس پیدا کرتے ہیں، دین کی محبت و عزت اور احترام پیدا کرتے ہیں اور اگلی نسلوں کو دین کی طرف راغب کرتے ہیں۔
احساسات کا احترام نفلی عبادت سے بڑھ کر ہے
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کی کہ یارسول اللہ ﷺ ! فلاں عورت کا ذکر کیا جاتا ہے کہ بہت نمازیں پڑھتی ہے، بہت روزے رکھتی ہے، بہت صدقہ و خیرات کرتی ہے، مگر ایک بات سنتے ہیں کہ:
غیر انها توذی جیرانها بلسانها.
وہ پڑوسیوں کے لیے بڑی سخت زبان استعمال کرتی ہے اور اپنے پڑوسیوں کو سخت زبان سے اذیت پہنچاتی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
ھی فی النار.
وہ دوزخ میں جائے گی چونکہ اس نے زبان سے پڑوسی کو اذیت دی ہے۔ اب نہ اس کی نمازیں قبول ہوں گی، نہ روزے اور نہ صدقہ و خیرات بلکہ تمام عبادتیں رد ہوجائیں گی۔
پھر عرض کی گئی: یارسول اللہ! ایک اور عورت ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نفلی روزے زیادہ نہیں رکھتی، صدقہ و خیرات بھی زیادہ نہیں کرتی، نفلی نمازیں بھی زیادہ نہیں پڑھتی مگر کبھی کبھی پنیر کے چند ٹکڑے غریبوں میں صدقہ و خیرات کرتی ہے اور یہ بات معروف ہے کہ:
ولا توذی جیرانھا بلسانها.
وہ کسی پڑوسی کو اذیت نہیں دیتی، بدزبانی نہیں کرتی، کسی کا دل نہیں دکھاتی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
ھی فی الجنة.
وہ جنت میں جائے گی۔
(احمد بن حنبل، المسند، 2: 440، رقم: 9673)
یاد رکھیں ہر شخص جو ہم سے تعلق رکھتا ہے وہ ہمارا پڑوسی ہے۔ کوئی گھر کا پڑوسی ہے، کوئی تعلق کا پڑوسی ہے، کوئی سفرکا پڑوسی ہے، کوئی رشتے کا پڑوسی ہے الغرض ہر شخص کی جو ریلیشن شپ اور قربت ہے، وہ پڑوس میں شمار ہوتی ہے۔
اندازہ کرلیں کہ آقا علیہ السلام نے لوگوں کے جذبات و احساسات کا کس قدر مقام اور درجہ مقرر و متعین کیا ہے کہ لوگوں کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنے کو نفلی عبادات سے بھی بلند تر کردیا اور اس کو باعثِ جنت یا باعثِ جہنم قرار دیا۔ سیرت رسول ﷺ سے اخذ کردہ جذبات و احساسات کے احترام کا یہ تصور سمندروں سے بھی زیادہ وسیع ہے اور اس کی کوئی حد نہیں ہے۔
- حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
انی لادخل فی الصلوة وانا ارید اطالتها فاسمع بکاء الصبی فاتجوز فی صلاتی مما اعلم من شدة وجد امه من بکائه.
(صحیح بخاری، کتاب الاذان، 1: 250، رقم: 677)
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ میں نماز شروع کرتا ہوں اور میرا دل چاہ رہا ہوتا ہے کہ لمبی قرأت کروں اور دیر تک اللہ کے حضور کھڑے ہوکر تلاوت کروں کیونکہ یہ اللہ سے ہمکلامی کا وقت ہوتا ہے مگر جب نماز شروع کرچکا ہوتا ہوں تو اچانک کسی بچے کے رونے کی آواز آجاتی ہے تو میں اپنا ارادہ ترک کردیتا ہوں اور نماز کو مختصر کرکے جلدی ختم کردیتا ہوں۔ اس لیے کہ بچے کے رونے پر میں محسوس کرتا ہوں کہ اس کی ماں کے دل پر کیا بیت رہا ہوگا، میں بچے کا رونا اور اس کی ماں کی پریشانی جو بچے کے رونے کی وجہ سے ہوتی ہے، برداشت نہیں کرسکتا ہوں۔
دوسری روایت میں ہے کہ:
فاتجوز فی صلاتی کراهیة ان اشق علی امه.
(صحیح بخاری، کتاب الاذان، 1: 250، رقم: 675)
میں یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ اس کی ماں پر یہ مشکل رہے۔
یہ آقا علیہ السلام کی شفقت کی انتہا (Climax) ہے کہ آپ ﷺ کسی دوسرے کی اتنی سی مشکل بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ بچے، جوان، بوڑھے، کمزور، طاقتور، بیمار، صحت مند، اپنا، پرایا، مسلم، غیر مسلم، نیک یا بد ہر ایک کے انسانی جذبات و احساسات کا اس حد تک خیال کرنا، آقا علیہ السلام کے کمال درجہ شفقت و عظمت کا نقطہ کمال ہے۔
- حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا:
اذا صلی احدکم للناس فلیخفف فان منهم الضعیف والسقیم والکبیر.
(صحیح بخاری، کتاب الاذان، 1: 248، رقم: 671)
تم میں سے کوئی شخص اگر کسی مسجد میں امام بنے تو باجماعت نماز میں قرأت مختصر کرے۔ اس لیے کہ تمہیں خیال ہونا چاہیے کہ تمہارے پیچھے بچے بھی کھڑے ہوسکتے ہیں، ضعیف بھی ہوسکتے ہیں اور مریض بھی ہوسکتے ہیں، اگر طویل قرأت کی تو ان کو تکلیف ہوگی، ان کی تکلیف کا احساس کریں۔
واذا صلی احدکم لنفسه فلیطول ماشآء.
اور اگر اکیلے نماز پڑھیں تو آپ کی طبیعت پر منحصر ہے کہ جتنا چاہیں، لمبی قرأت کرلیں۔
آقا علیہ السلام نے اپنی سیرتِ طیبہ کے ذریعے دین، اخلاق اور لوگوں کے ساتھ روّیے کا ایک معیار عطا فرمادیا۔ آپ ﷺ کی تعلیمات اور اخلاقِ حسنہ کا مرکزی نقطہ لوگوں کے احساسات و جذبات کا احترام ہے۔ آپ ﷺ نے انسانی جذبات و احساسات، انسان کی عزت کا احترام، انسان کی حاجات و ضروریات کا احترام اور سوسائٹی میں موجود ہر انسان کے امیج کا احترام ہر موقع پر پیشِ نظر رکھا۔ اگر ہم اس ایک معاملے کو سمجھ لیں اور اسے اپنی زندگیوں میں داخل کرلیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اخلاق کا 75 فیصد حصہ سنور جائے گا اور ہماری زندگیوں میں خیر پیدا ہوجائے گی۔
آقا علیہ السلام کی ذات کا یہی نقطہ اولیاء و صلحاء کی زندگیوں کا طرۂ امتیاز رہا۔ جب حضور داتا گنج بخش علی ہجویریؒ غزنی سے لاہور تشریف لائے تو اس وقت یہاں بہت کم لوگ مسلمان تھے، اسی طرح حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ جب اجمیر شریف میں آباد ہوئے تو وہاں بھی بہت قلیل مسلمان تھے، ان اولیاء نے اپنے اخلاق سے غیر مسلموں کے دل جیتے اور وہ حلقہ بگوش اسلام ہوتے چلے گئے۔ سارے اولیاء و صلحاء کا طرۂ امتیاز یہ تھا کہ وہ بلاتفریق رنگ و نسل اور مذہب ہر ایک سے محبت کرتے۔ اولیاء انسانیت سے محبت کے علمبردار تھے۔ ہم جب انسان سے محبت کرنا سیکھ لیں گے تو مسلمان سے مزید درجۂ کمال سے محبت کریں گے اور پھر اسی طرح اپنے روحانی پیشوا، رشتے داروں اور گھر والوں سے اور زیادہ درجۂ کمال تک محبت کریں گے۔
سیرتِ رسول ﷺ کا یہی مرکزی نقطہ تحریک منہاج القرآن کا پیغام ہے کہ ہم میں سے کسی شخص کے روّیے سے کسی دوسرے کا دل نہ دکھے، کسی کی توہین نہ ہو اور کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اگر پورا دن ہم نے کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر اور ہر ایک کی تعظیم و تکریم اور دلجوئی کے ساتھ گزارا ہے تو یاد رکھیں کہ ہم نے اپنا وہ دن بخشش کے زمرے میں شامل کرلیا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا حاصل کرلی۔ اگر فرائض دین میں کوتاہی نہ ہو تو اللہ رب العزت اسی برتائو و حسنِ سلوک کے سبب جنت کی گارنٹی دیتا ہے۔ اس تحریک کے ذریعے اس طرزِ عمل کو اپنی زندگی کا شیوہ اور شعار بنائیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمِ انسانیت کی طرف حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثتِ مبارکہ کو یاد کرکے ہم اپنے دلوں کو راحت و مسرت فراہم کریں۔۔۔ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس سے اپنے رشتۂ محبت کو دوبارہ مضبوط کرنے کا عزم کریں۔۔۔ اس محبت کو حضور ﷺ کی سچی اور کامل پیروی اور اتباع میں ڈھال کر اپنی زندگیوں کو سنوارنے اور خوبصورت بنانے کا پختہ ارادہ کریں۔۔۔ عالمِ انسانیت کو بلا تفریقِ رنگ و نسل اور بلا تفریقِ مذہب و ملت آقا علیہ السلام کی عطا کردہ محبت، شفقت اور تکریمِ انسانیت کاپیغام پہنچائیں۔۔۔ ہر شخص دوسرے کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے اپنی زندگی کو پیکرِ اخلاق و ایثار اور پیکرِ محبت و شفقت بنائے۔
قرآن مجید میں جب آقا علیہ السلام کی رحمت کا ذکر کیا گیا ہے تو آقا علیہ السلام کی رحمت، شفقت، لطف و عنایت اور کرم نوازی کو کسی خاص مذہب، ملت و نسل، علاقے اور زمانے تک محصور نہیں کیا بلکہ آقا علیہ السلام کی عنایت زمان و مکان کی حدود و قیود اور رنگ و نسل کی حد بندیوں سے ماوراء قرار دیا گیا کہ آپ ﷺ کی ذات مبارکہ عالمِ انسانیت سمیت کائنات کے جملہ جہانوں کے لیے فیض رساں ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے اس مقام اور پیغام کا فروغ تحریک منہاج القرآن کی ذمہ داری ہے۔ امتِ مسلمہ کی ہر تنظیم، جماعت، خانوادہ، سلسلۂ طریقت، مدرسہ، جامعہ، گروہ اور حضور ﷺ کی امت کا ہر وہ فرد جو اپنی آواز دوسرے تک پہنچاسکتا ہے، یہ اس کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ آقا علیہ السلام کی عطا کی ہوئی محبتیں کائنات میں پھیلائے۔۔۔ آقا علیہ السلام کی شفقتوں کی خیرات اور رحمتوں کے فیضان بانٹے۔۔۔ نفرتیں اور فاصلے مٹائے اور دوریاں قربتوں میں تبدیل کرے۔۔۔ روّیوں میں نرمی، لچک، محبت، شفقت، پیار، باہمی احترام، برداشت، حلم اور بردباری پیدا کرے۔۔۔ منافرت، سختی، عداوت، بغض و عناد جیسے رذائل ختم کرے۔۔۔ ایسے اخلاق اپنائے کہ جس سے وہ دوسروں کے لیے شفقت، محبت، احسان، بھلائی اور خیر کا پیکر دکھائی دے۔ یہی حضور نبی اکرم ﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری اور آپ ﷺ کی بعثتِ مبارکہ کا مقصد تھا۔ اللہ رب العزت ہمیں ان تعلیمات کو عام کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ۔